معاشی عدم استحکام کا خطرہ۔اے پی ایس



سیاسی میدان میں صف بندی، محاذ آرائی اور تیزی سے بدلتی صورتحال نے بحران جیسی شکل اختیار کر لی ہے۔ امن و امان کی بدتر حالت عدم استحکام اور بے یقینی کے تاثر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ عوام ہر وقت کسی نئے سیاسی یا بم دھماکے سے ڈرے سہمے ہیں اور معیشت کو روز ایک زور کا جھٹکا لگ رہا ہے۔ایسا ہی جب ڈاکٹر طاہر القادری کے حامیوں کے نرغے میں گھرے اسلام آباد میں سپریم کورٹ نے رینٹل پاور پلانٹس کے مقدمے میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا اور پہلے سے دبا کی شکار سٹاک مارکیٹ دھڑام سے نیچے آگئی۔ کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس پانچ سو پچیس پوائنٹس کم ہو گیا۔ اوپر سے میڈیا نے مارکیٹ کریش ہو نے کی دہائی دینا شروع کردی۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی منفی سیاسی واقعہ ہوتا ہے ۔ سٹاک مارکیٹ کو یہ جھٹکے سہنا پڑتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کے سال دو ہزار چھ میں سکیوریٹیز اینڈ ایکسچنج کمیشن نے سٹاک مارکیٹ کے معاملات کی تحقیقات شروع کی تو مارکیٹ پانچ سو چھیالیس پوائنٹس گر گئی۔ نومبر دو ہزار سات میں سابق فوجی صدر پرویزمشرف نے ہنگامی حالت نافذ کی تو مارکیٹ کو چھ سو پینتیس پوائنٹس کا جھٹکا لگا۔ اسی سال دسمبر میں بینظیر بھٹو کے قتل پر انڈیکس چھ سو چھیناوے پوائنٹس کم ہوا۔ سال دو ہزار آٹھ میں مئی کے مہینے میں سٹیٹ بینک نے دو مرتبہ شرح سود میں جلدی جلدی کمی کی اور انڈیکس میں ایک مرتبہ چھ سو پندرہ اور دوسری مرتبہ پانچ سو سڑسٹھ پوائنٹس گراوٹ دیکھی گئی۔ سال دو ہزار تیرہ کا آغاز ہی مشکلات اور شدید بے یقینی میں ہوا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں حکومت کی برطرفی اور گورنر راج کا نفاذ، اسلام آباد کا گھیرا، وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم، امن و امان کی بگڑتی صورتحال غرض ہر طرف افراتفری ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کے جیسے جیسے الیکشن قریب آئیں گے بے یقینی اور افراتفری بڑھے گی۔وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کی گرفتاری تو فی الحال ٹل گئی ہے مگر سپریم کورٹ اور احتساب بیورو میں ٹھن گئی ۔ آنے والے دنوں میں محاذآرائی میں اضافہ ہوگا۔ جبکہ عام انتخابات ہو نے تک بے یقینی سٹاک مارکیٹ اور معیشت پر اثرانداز ہوتی رہے گی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پندرہ جنوری کو سٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی قدر میں ایک سو چونتیس ارب روپے کمی واقع ہوئی۔ آئے دن ہونے والے ہنگاموں اور کاروبار کی بندش سے اربوں روپے یومیہ نقصان ہوتا ہے جس میں حکومت کو ٹیکس وصولی کی مد میں ہونے والا نقصان بھی شامل ہے۔ پیداواری نقصان اس کے علاوہ ہے۔ چھوٹے کاروباری اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو سب سے زیادہ تکلیف اور پریشانی ہوتی ہے۔ اور یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آتا۔دوسری طرف آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں پاکستان کو اپنا مقدمہ لڑنے میں پسپائی کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف مشن کے سربراہ جیفری فرینک نے قرض کی ادائیگی مخر کرنے یا قرضہ معاف کرنے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے کے نئے پروگرام کے لیے کڑی شرائط کا واضح اشارہ بھی دے دیا ۔ ان کا کہنا ہے نئے پروگرام کے لیے پاکستان کو زرِتلافی ختم کرنا ہوگا، بجلی چوری روکنے کے اقدام کرنا ہونگے اور مختلف شعبوں کو دی جانے والی مراعات کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی مختلف اقتصادی شعبوں میں اصلاحات کرنا ہونگی۔ماہرین اس پر متفق ہیں کے سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی ترقی کا تصور ممکن نہیں۔ اگر سیاسی بے یقینی برقرار رہتی ہے تو مشکلات بھی بڑھیں گی اور معیشت سیاست کے دلدل میں پھنسی رہے گی۔ جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال دو ہزار بارہ کے لیے اپنی سالانہ رپورٹ میں ملک کے بڑہتے ہوئے قرضوں کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان قرض کے دلدل میں پھنس سکتا ہے۔یہ صورت حال مالی انتظام چلانے میں حکومت اور مرکزی بینک دونوں کی کارکردگی کا آئینہ ہے۔رپورٹ کا جائزہ لینے سے یہ بات چھپی نہیں رہتی کہ جہاں حکومت آمدنی بڑھانے اور اخراجات پر قابو پانے میں ناکام رہی وہیں سٹیٹ بینک زر کے پھیلا پر قابو پانے اور مالیاتی نظم و ضبط قائم کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔ حکومت نے نہ تو قرض لینے کے لیے بنائے گئے قانون کی پابندی کی اور نہ ہی سٹیٹ بینک نے حکومت کو روکنے کے لیے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کیں۔اس دوران حکومت نے ملک کے بینکاری نظام سے بیتحاشہ قرضے لیے اور سال کی چوتھی سہ ماہی میں حکومت قرض لینے کی حد سے آگے بڑہ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سنہ دو ہزار بارہ میں مقامی قرضوں میں ایک اعشاریہ چھ ٹریلین روپے کا غیرمعمولی اضافہ ہوا جوگذشتہ سال کے مقابلے میں تیئس فیصد زیادہ تھا۔ یوں ملک کے قرضے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے باسٹھ اعشاریہ چھ فیصد تک پہنچ گئے یعنی خطرے کی حد چھونے لگے۔وفاقی سیکرٹری اکنامک افیئرز ڈویژن ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا ہے کہ ملک کے مجموعی (ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا حجم ایک سو تیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔گذشتہ کئی برسوں میں سب سے زیادہ قرضے حکومت ہی لیتی رہی ہے۔ نجی شعبے کا حصہ کم سے کم ہوتا گیا۔ نجی شعبے نے نہ تو صنعتوں کے لیے قرض لیا اور نہ ہی تجارت کے لیے۔گورنر سٹیٹ بینک یسین انور کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں تجارتی بینکوں سے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضوں کی فراہمی اوسطا ساٹھ فیصد کی شرح سے بڑھی مگر نجی شعبے کے لیے قرضوں کے اجرا میں یہ اضافہ محض چار فیصد رہا۔سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت مسلسل مالیاتی نظم و ضبط کے قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اس قانون کے تحت حکومت پر لازم تھا کہ وہ سال دو ہزار آٹھ سے محصولات کے ذریعے فاضل آمدنی کا حصول یقینی بنائے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔حکومت پر یہ قانونی پابندی بھی ہے کہ مالی سال کی ہر سہ ماہی کے اختتام پر اس کا خالص قرضہ صفر ہونا چاہیے یعنی سہ ماہی کے دوران حکومت جو بھی قرضہ لے اسے سہ ماہی ختم ہونے پر واپس کرے مگر ایسا ہو نہیں رہا۔حکومت قرضوں کو جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد تک محدود رکھنے کی بھی پابند ہے مگر سال دو ہزار تیرہ میں حکومت یہ حد پہلے ہی پار کر چکی ہے۔ سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ میں سرکاری قرضے کی تعریف پر بھی اختلاف ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک یسین انور کا کہنا ہے کہ ٹیکس گذاروں کی تعداد محدود ہونے کی وجہ سے محصولات سے ہونے والی کم آمدنی، نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں اور توانائی کے شعبے کو دیا جانے والا بھاری زرتلافی حکومت کی جانب سے قرض لینے کی بڑی وجوہات ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور سیلاب متاثرین کو دیے گئے سمارٹ کارڈ کا بوجھ بھی قرضوں کو بڑھانے کی اہم وجہ ہے۔گذشتہ چار برس میں توانائی کے شعبے کو دیا جانے والا زر تلافی ایک ٹریلین روپے سے زیادہ ہے یعنی ملک کے ایک بڑے توانائی منصوبے دیا میر بھاشہ ڈیم کی لاگت سے بھی زیادہ جس سے ملک کو سستی بجلی حاصل ہو سکتی ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ حکومت کا بڑا انحصار ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر ہے۔ غیر ملکی مالیاتی ادارے پاکستان کی مدد سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے منصوبوں میں سرمایہ کاری روک دی ہے۔پاکستان کو آئی ایم ایف کا قرض واپسی کرنا ہے ایسے میں سارا دبا مقامی ذرائع اور وسائل پر ہے۔یہ بات اب قابل تفتیش ہے کہ پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔اے پی ایس