صحافتی اصولوں کی پاسداری۔چودھری احسن پر یمی



پاکستان میں حالیہ میڈیا کی دوڑ میں کئی ایک ٹی وی چینلز و اخبارات نے محض ریٹنگ کی دوڑ میں ذمہ دارانہ صحافتی اصولوں کو دفنا کر رکھ دیا ہے اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راتوں رات کئی ایک میڈیا ہاوسز کا قیام آج کے کرپٹ نظام میں بعض سرمایہ داروں کی جانب سے ایک رابطے اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے بطور ایک ہتھیار استعمال ہورہا ہے۔ان سرمایہ داروں کا ایجنڈا محض اپنی بزنس ایمپائر کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔انہیں صحافتی اصولوں سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی انہیں ان صحافیوں کی ضرورت ہے جو صحافت کی بنیاد سچ اور دیانت داری سمجھتے ہیں۔لہذا بعض میڈیا گروپ صرف ایسے افراد کو ترجیح دیتے ہیں جو صحافت کی آڑ میں ان کے مفادات کی بہتر طریقے سے دلالی کر سکیں۔اس کے علاوہ جو ادارے ایسا کام نہیں کر رہے ان کا المیہ یہ ہے کہ وہاں بھی بعض گروپوں کے پلانٹڈ لوگ ہیں جو پیشہ وارانہ پس منظر رکھنے والے صحافیوں کی بدنامی کا باعث ہیں۔کہا جاتا ہے کہ صحافت میں عروج اداریہ نویس کا ہوتا ہے لیکن آج جو رحجان جڑ پکڑ چکا ہے اس کے تناظر میں اچھا صحافی اسے سمجھا جاتا ہے جو اپنے ضمیر فروشی کی اچھی قیمت وصول کرتا ہے۔اس ضمن میں ضروری ہے کہ صحافت کو بطور مشن سمجھ کر کام کرنے والے صحافی اپنے قلم کی حرمت کی پاسداری کیلئے غور و فکر کریں تاکہ لوگ فرق محسوس کر سکیں کہ صحافی کو ن ہے اور صحافتی لبادہ پہن کر اس شعبے کو بدنام کون کر رہا ہے۔پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے ذرائع ابلاغ کے شعبے میں کافی ترقی دیکھی گئی۔ نجی شعبے میں کئی نئے ٹی وی چینلز، ریڈیو اسٹیشنز اور اخبارات آئے ہیں جو کہ خبروں، تجزیات اور پروگراموں کے اعتبار سے بہت زیادہ آزاد سمجھے جاتے ہیں۔ مگر دوسری جانب خود اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے اب ایک بے لگام گھوڑا بھی قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ بنیادی صحافتی اصولوں کے خلاف بغاوت پر اتر آیا ہے اور شعبہ صحافت کو بدنام کر رہا ہے۔ان کے لہجے اور زبان کو دیکھ اور سن کر شرمندگی آتی ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا یہ مسئلہ ہمارے یہاں بہت بڑھ چکا ہے۔ جو صحافی نہیں وہ صحافی بن کر صحافیوں کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ اجتماعی طور پر ہماری ناکامی ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے اس ٹولے کو سیاسی شخصیات کی بھی پشت پنائی حاصل ہوتی ہے۔ صحافیوں کی تنظیموں اور مالکان کو سنجیدگی سے ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔گزشتہ روز قومی اسمبلی میں حکمران اور حزب اختلاف کے اراکین نے متفقہ طور پر ایک قرار منظور کی جس میں نجی ٹی وی چینلز کے مالکان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے حالات حاضرہ کے پروگراموں کے ان میزبانوں کو اپنے اداروں سے باہر نکال دیں جوکہ قانون سازوں اور پارلیمان کے خلاف کسی مہم میں ملوث ہیں۔قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کافی ایسے پروگرامز ہیں جس میں میزبان ایسا دیکھاتے ہیں کہ جیسے عوام کے نمائندگان جو کہ 70 ہزار یا ایک لاکھ ووٹ لے کر آئیں ہیں مجرم ہیں اور وہ خود آزاد ہیں جو کچھ کہنا چاہیں۔پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ مری کا کہنا تھا کہ یہ مہم ان عناصر کی سازش کا حصہ ہے جو کہ ہمیشہ سے سیاست دانوں کو بدنام کرتے آئیں ہیں۔ ہمیں ان قوتوں کے خلاف یکجا ہونا پڑے گا۔ اب ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔یاد رہے کہ مقامی میڈیا پر سیاستدانوں کی طرف سے تنقید حال ہی میں چند قانون سازوں اور وزرا کے خلاف غیر مصدقہ معلومات کی بنا پر خبریں سامنے آئیں۔جبکہ بعض اینکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحافیوں اور اینکر پرسنز کے خلاف شکایات کی سنوائی کے لیے کوئی ادارہ نہ ہونا بھی افراد کو اپنی صحافیانہ حدود پار کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستانی صحافی مبرا ہیں جو کچھ چاہیں کہیں اور جو کچھ چاہیں کریں۔ آپ نے ضابطہ اخلاق نافذ کرنے کی کوشش کی تو کہا جائے گا کہ آزادی صحافت پر وار کیا جا رہا ہے جبکہ مالکان اسے پیسہ دیتے ہیں جو زیادہ بدتمیزی اور اونچی آواز میں بولتا ہو۔مبصرین کا کہنا ہے کہ میڈیا میں بہتری لانے اور ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلز کے پروگراموں کی ریٹنگ سسٹم کا ایک ایسا نظام متعارف کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت کسی پروگرام کی عوام میں قبولیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے نا کہ صرف مقبولیت کو۔جبکہ گزشتہ دنوںصحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے موضوع پر اسلام آباد میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے نے انٹرنیشنل فیڈریشن فار جرنلسٹس ،آئی ایف جے کے اشتراک سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیاجس میں ملک بھر سے صحافیوں کے علاوہ آئی ایف جے کے عہدیداروں اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔اجلاس میں ملک میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صحافی برادری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔مقررین کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی وجہ سے ملک میں موجود امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔آئی ایف جے کے نائب صدر کرس وارن نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے کسی ایک کے قاتل کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔پاکستان کے لیے بڑا چیلنج وہ عزم ہے جس کے تحت موثر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایسے قتل کے واقعات کی صحیح طریقے سے تحقیقات کی جانی چاہیے اور ملوث افراد کو کیفر کردار کو پہنچایا جائے مگر ان کے بقول پاکستان میں ایسا نہیں اور جس کی وجہ سے صحافیوں کے لیے حالات مزید خراب ہوں گے۔آئی ایف جے کے عہدیدار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 13 برسوں میں 96 صحافی مارے گئے جب کہ ان میں سے 80 صحافی صرف گزشتہ چھ سالوں میں قتل ہوئے۔اس موقع پروفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی صحافیوں کی جان کے تحفظ کی پہلی ذمہ داری ان کے اداروں کی ہونی چاہیئے اور انھیں اس حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر صحافیوں کی جانب سے اس حوالے سے تجاویز انھیں دی گئیں تو وہ تمام ذرائع ابلاغ کے اداروں کو احکامات بھی جاری کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بچہ بھی جب دودھ مانگتا ہے تو ماں دودھ دیتی ہے۔ اس لیے آپ کو حکومت کو یاد کروانا ہوگا۔ اپنے کام کر وانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگنا ہوگا۔اس ضمن میںپی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکرٹری شمس الاسلام ناز کہتے ہیں کہ صحافی برادری کو جانی و مالی طور پر تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ان کی تنظیموں کی کوششوں کی سمت درست نہیں۔قانون کے تحت مالی معاونت کی ذمہ داری اداروں کے مالکان کی ہے حکومت کی نہیں۔ مگر مالکان ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں اورصحافیوں کی تنظیمیں اور متاثرہ خاندان حکومت کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے کچھ علم کی کمی ہے۔ حکومت وقت پر تکیہ کرنے کی بجائے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ملک میں موجود ان کی نمائندہ تنظیموں کو قوائد و ضوابط بنا کر پارلیمان سے منظور کرانے کی کوششیں کرنا ہوں گی جبکہ ذرائع ابلاغ کے شعبے میں ایک ضابطہ اخلاق بھی وقت کی ضرورت ہے۔اے پی ایس