نگران حکومت کو درپیش چیلنج۔چودھری احسن پر یمی



 وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کی ملاقات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔تاہم قومی اسمبلی کی آئینی مدت میں چند گھنٹے باقی رہنے کے باوجود نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاقِ رائے نہ ہو سکا ۔صوبائی اسمبلیوں کی ایک ہی دن تحلیل کا فیصلہ اسلام آباد میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کے اجلاس میں کیا گیا۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلی نے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کروانے پر اتفاق کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلی کی تعیناتی کا عمل بھی خوش اسلوبی سے طے پا جائے گا۔تاحال صرف صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر جسٹس رطارق پرویز کو نگران وزیراعلی نامزد کیا ہے جبکہ باقی صوبوں میں مشاورت کا عمل جاری ہے۔مرکز میں حکمران پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی مرکزی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماں نے ایک دوسرے کی جانب سے نگران وزیراعظم کے تجویز کردہ ناموں کو مسترد کردیا ہے اور بظاہر اس معاملے پر ڈیڈ لاک پیدا ہوا گیا ہے۔مسلم لیگ (ن) نے چند روز قبل نگران وزیراعظم کے لیے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، جسٹس (ر) میاں شاکراللہ جان اور سندھ کے قومپرست رہنما رسول بخش پلیجو کے نام تجویز کیے تھے۔ لیکن وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثار علی خان کی فون پر بات چیت کے بعد مسلم لیگ (ن) جسٹس (ر) میاں شاکراللہ جان کا نام واپس لینے کا فیصلہ کیا۔قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے باوجود وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے پاس انیس مارچ تک متفقہ نگران وزیراعظم نامزد کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن انیس مارچ تک اتفاق نہ ہونے کی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی کو فوری طور پر پارلیمان کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بنانی ہوگی۔ اس کمیٹی میں بھیجے گئے نام قابل تبدیل نہیں ہوں گے لیکن انیس مارچ تک حکومت اور اپوزیشن کو نگران وزیراعظم کے لیے نئے نام پیش کرنے کی اجازت ہے۔بعد ازاں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے حکومت کے پیش کردہ تینوں نام جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو، ڈاکٹر عشرت حسین اور عبدالحفیظ شیخ مختلف وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیے تھے۔ ان کے بقول کھوسو صاحب ضعیف العمر ہیں، عبدالحفیظ شیخ چند روز پہلے تک حکومت میں وزیر خزانہ تھے اور ڈاکٹر عشرت حسین بھی حکومتی سیٹ اپ کا حصہ ہیں۔اس کے جواب میںوفاقی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نگران وزیراعظم کے لیے اپوزیشن کے پیش کردہ دونوں نام بھی مسترد کردیے۔ان کے بقول رسول بخش پلیجو کے صاحبزادے سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کرکے انتخاب کی تیاری کر رہے ہیں اور ناصر اسلم زاہد کے بہنوئی جسٹس نظام کا قتل کیس آصف علی زرداری کے خلاف داخل ہوا تھا اس لیے ان سے پیپلز پارٹی کو انصاف کی امید نہیں۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی مدت سولہ مارچ کو ختم ہوگئی ہے اور بیسویں آئینی ترمیم کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے تین روز میں وفاق میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اگر نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوا تو سپیکر قومی اسمبلی کو فوری طور پر قومی اسمبلی یا سینیٹ یا دونوں ایوانوں کے حکومت اور اپوزیشن کے بینچوں سے برابر کی بنیاد پر آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دینی ہوگی۔آئین کے مطابق اس کمیٹی کے لیے اراکین وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نامزد کریں گے اور اس کمیٹی میں دونوں دو دو نام نگران وزیراعظم کیلیے پیش کریں گے اور کمیٹی کو تین روز کے اندر ایک نام پر اتفاق کرنا ہوگا۔ اگر اس کمیٹی میں بھی متفقہ نگران وزیراعظم سامنے نہ آسکے تو یہ کمیٹی مجوزہ نام الیکشن کمیشن کو بھیجے گی اور کمیشن کو دو روز کے اندر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کرنا ہوگا۔آئین کے مطابق صوبوں میں نگران وزیراعلی پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں چھ رکنی کمیٹی بنے گی۔ جب تک نگران وزیراعظم یا وزیراعلی نامزد نہیں ہوتے اس وقت تک متعلقہ اسمبلی ٹوٹنے کے باوجود وزیراعظم اور وزیراعلی کام کرتے رہیں گے۔  پاکستان میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی اور منتخب جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوئے۔قومی سیاسی تاریخ کا اہم سنگ میل طے ہو گیا۔عبوری حکومت کا اصل مقصد تو مقررہ مدت میں انتخاب کرا کے اقتدار نئی منتخب اسمبلی اور حکومت کو منتقل کرنا ہے۔ مگر بڑے معاشی مسائل کو نظرانداز کرنا عبوری حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔عبوری حکومت کا تجربہ پاکستان کے لیے نیا نہیں۔ اگلے چند دنوں میں بننے والی حکومت ملک کے پانچویں عبوری حکومت ہوگی۔ اس سے قبل انیس سو نوے میں اگست سے نومبر تک غلام مصطفی جتوئی، ترانوے میں اپریل تا مئی بلخ شیر مزاری عبوری وزیر اعظم رہے، اسی سال جولائی تا اکتوبر معین قریشی، اس کے بعد نومبر انیس سو چھیانوے تا فروری ستانوے ملک معراج خالد اور نومبر دو ہزار سات تا مارچ دو ہزار آٹھ میاں محمد سومرو نگراں وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ہر نگراں حکومت کو مشکل اقتصادی حالات ملے۔ ہر عبوری دور میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوئی، افراط زر اور مہنگائی، بجٹ خسارہ اور توازن ادائیگی جیسے بڑے مسائل رہے۔ عبوری حکومتوں کو ہر دور میں اقتصادی فیصلے بھی کرنا پڑے۔ اور اگلے چند دنوں میں آنے والی عبوری حکومت کے لیے بھی ایسا کرنا نا گزیر لگتا ہے۔ خاص طور پر عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف سے نیا قرضہ حاصل کرنا۔اگلے مالی سال کے لیے بجٹ بنانے کی ذمہ داری بھی نگراں حکومت کی ہو گی جو توقع ہے کے آنے والی جمہوری حکومت پیش کرے گی۔اس وقت معشیت کس حال میں ہے، اس کا اندازہ چند موٹے موٹے اشاریوں سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر دو کروڑ انتالیس لاکھ ڈالرزکی مزید کمی کے بعد اس وقت بارہ ارب ستاون کروڑ رہ گئے ہیں۔ حالانکہ سال کے اعتبار سے ترسیلات زرآٹھ ماہ میں سات اعشاریہ پانچ فیصد اضافے کے ساتھ نو ارب بیس کروڑ ڈالرز کی سطح پر ہیں مگر فروری دو ہزار بارہ کے مقابلے میں فروری دو ہزار تیرہ میں ان میں گیارہ فیصد کمی ہوئی ہے۔تجارتی خسارہ چھ اعشاریہ چھ فیصد اضافے کے ساتھ ایک ارب پچپن کروڑ ڈالرز کی سطح پر ہے۔ بجٹ خسارہ بے قابو ہے۔ توانائی کا بحران عروج پر ہے اور افراط زر میں اضافے کا رجحان غالب ہے۔مگر نگراں حکومت کے سامنے معیشت کے حوالے سے دو ہی بڑے کام ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول اور بجٹ کی تیاری۔پاکستان عالمی ادارے سے لیے گئے قرض کی قسطیں اب تک بروقت ادا کر رہا ہے۔ لیکن زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر اور بیرونی ادائیگیوں کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی ضرورت ہے۔ایران۔ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر حالیہ پیش رفت کی وجہ سے امریکی مزاج برہم ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کے عالمی ادارے سے نیا قرضہ پرانے قرض کی واپسی شیڈول کے مطابق جاری رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کے پاکستان آئی ایم ایف سے مزید تین تا چھ ارب ڈالرز قرضہ لے گا تاکہ پرانے قرض کی شیڈول کے مطبق ادائیگی بھی ممکن ہو اور زر مبادلہ کے ذخائر بھی خطرے کی حد تک کم نا ہو جائیں۔توقع یہ کی جا رہی ہے کے آئی ایم ایف سے نیا قرضہ کڑی شرائط پر ہی مل سکے گا۔ ان شرائط میں روپے کی قدر میں مزید کمی کرنا، حالات کے پیش نظر مالیاتی پالیسی سخت کرنا یعنی شرح سود بڑھانا اور مالیاتی نظام میں جرات مندانہ اصلاحات کرنا شامل ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کے نئے قرض کے حصول کے لیے پاکستان کو امریکی حمایت کی بھی ضرورت ہو گی۔جبکہ پاکستان میں قومی اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہوگئی ہے اور دسویں عام انتخابات کے لیے نگراں حکومت کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ عبوری انتظامیہ کو سکیورٹی سمیت کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔عبوری انتظامیہ کے قیام کے سلسلے میں پہلے مرحلے میں جسٹس رطارق پرویز کو صوبہ خیبرپختونخوا کے نگراں وزیر اعلی کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ اکثرماہرین کہتے ہیں کہ نگراں حکومت کو پہلے تو سکیورٹی کی صورتِ حال اور پھر انتخابات کی شفافیت جیسے اہم مسائل درپیش ہوں گے۔عبوری حکومت کے لیے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنا اہم چیلنج ہو گا کیونکہ اگر انتخابات کے دوران اور ان سے پہلے بم دھماکے ہوئے یا گولیاں برسیں تو اس کی ذمہ داری نگراں حکومت پر ہی عائد ہو گی۔ اگر نگراں حکومت سکیورٹی کی صورتِ حال پر قابو پانے میں ناکام ہوئی تو چند اضلاع میں انتخابات کرانے ناممکن بھی ہو سکتے ہیں۔خیال رہے انتخابات سے وابستہ پہلی ہلاکت واقع ہوئی ہے۔ بلوچستان میں ضلعی الیکشن کمشنر ضیا اللہ قاسمی کومبینہ طور پر بلوچستان لیبریشن آرمی کے حملہ آوروں نے اس وقت سرعام گولیوں کا نشانہ بنایا جب وہ رکشے میں سوار دفتر سے گھر لوٹ رہے تھے۔ماہرین کہتے ہیں کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات نے آئندہ عام انتخابات کے پرامن انعقاد پر سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ماضی میں ہونے والے نو انتخابات کی شفافیت پر بعض حلقے تنقید کرتے ہوئے ان میں دھاندلی کروانے کا الزام لگاتے ہیں اس لیے سکیورٹی کے ساتھ ساتھ نگراں حکومت کے لیے دوسرا اہم چیلنچ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کرانا ہوگا۔ اگر اتفاق رائے سے نگراں حکومت بنی تو امکان ہے کہ آئندہ انتخابات کے شفاف ہونے پر کوئی سوال نہ اٹھائے۔پینسٹھ برسوں میں پہلی بار پاکستان اس قابل ہوا ہے کہ ایک منتخب حکومت جمہوری طریق کار سے دوسرے منتخب عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے جا رہی ہے۔ اس لیے اپنی نوعیت کی اس پہلی نگراں حکومت کے ہر قدم پر سب کی نظریں لگی رہیں گی۔اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=1599&lang=UR