یہودی بستیاں امن کے لیے غیر موزوں ہیں: صدر اوباما


امریکی صدر براک اوباما نے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ رام اللہ میں ملاقات کے بعد کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیاں امن کے لیے غیر موزوں ہیں۔امریکی صدر اوباما جو ان دنوں مشرقِ وسطی کے دورے کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے دورے پر ہیں نے یہ بات مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کے بعد کہی۔صدر اوباما نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مخلص ہے۔اس کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس معاملے کے حل کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کرنے کو تیار ہیں تاکہ دونوں فریق کو قریب لا سکیں۔فلسطینی صدر محمود عباس نے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ مذاکرات اچھے اور فائدہ مند تھے۔اس سے قبل امریکی صدر اوباما اسرائیل کے اپنے پہلے دورے پر تل ابیب پہنچے تھے اور انہوں نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے دائمی تعلقات کا اعادہ کیا۔اس کے علاوہ دونوں ممالک کے رہنماں نے اس موقعے پر ایران پر مشترکہ اور سخت موقف اختیار کیا۔یروشلم میں بات کرتے ہوئے دونوں رہنماں نے کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس خود اپنے دفاع کا اختیار موجود ہے۔صدر اوباما نے فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کے بعد یہ بھی کہا کہ امریکہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مخلص ہے۔دونوں رہنماں نے اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل کے لیے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا۔صدر اوباما کا استقبال بن گوریان ہوائی اڈے پر اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامن نتن یاہو اور صدر شمعون پیریز نے کیا جس کے بعد صدر براک اوباما کو میزائل شکن دفاعی نظام دکھایا گیا جسے آہنی گنبد کہا جاتا ہے۔یروشلم میں مذاکرات کے بعد نتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ اس بات کی بہت قدر کرتے ہیں کہ امریکی صدر نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے بعد پہلا بیرونی دورہ اسرائیل کا کیا ہے۔انھوں نے صدر اوباما کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ہمارے تعلقات اور دونوں ممالک کے درمیان تعلق کو پختہ بنانے کے لیے محنت کی ہے۔امریکی صدر براک اوباما نے اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے اہداف مشترکہ ہیں۔صدر اوباما نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے اور اسرائیل کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔صدر نتن یاہو نے صدر اوباما کے ایران پر موقف پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں پورا یقین ہے کہ صدر اوباما ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے کلی طور پر پرعزم ہیں۔اسرائیلی صدر نے کہا کہ وہ اور صدر اوباما دونوں شام کو پرامن اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ شام کے کیمیائی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگیں۔نتن یاہو کی حکومت کی تشکیل کو ابھی صرف دو دن ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے متمنی ہیں: ہم فلسطینی عوام کی طرف امن اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ امریکی صدر کے دورے سے فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کا نیا باب شروع ہو گا۔صدر اوباما نے کہا کہ اسرائیلی کی سلامتی ایک سنجیدہ فرض ہے۔انھوں نے کہا کہ اسرائیل کو فوجی امداد دینے پر بات چیت کی جائے گی اور امریکہ آہنی گنبد کے لیے مزید 20 کروڑ ڈالر کی رقم فراہم کرے گا۔انھوں نے کہا کہ مشرقِ وسطی میں پائیدار امن کے لیے ایک مضبوط اور محفوظ یہودی ریاست کا قیام ضروری ہے جس کے ساتھ ساتھ ایک خودمختار فلسطینی ریاست بھی موجود ہو۔ایران کے بارے میں انھوں نے کہا: ہم اپنے اہداف پر متفق ہیں، یعنی ایران کو جوہری اسلحہ حاصل نہ کرنے دینا۔انھوں نے کہا، ہم اس (تنازعے) کو سفارتی ذرائع سے حل کرنا چاہتے ہیں، اور اس کے لیے ابھی وقت موجود ہے۔ تاہم انھوں نے مزید کہا کہ ایرانی رہنماں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انھیں اپنی عالمی ذمے داریاں نبھانی ہوں گی۔انھوں نے امریکہ کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ ایران کو دنیا کے بدترین ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ دونوں رہنماں نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ بعض معاملات میں ان کے درمیان اختلاف موجود ہے۔ دونوں کے درمیان اس بات پر اب بھی اختلاف موجود ہے کہ آیا ایران کا مسئلہ سفارت کاری سے حل کیا جا سکتا ہے۔اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=1612&lang=UR