بدعنوان افراد کو انتخابات میں روکنا ہوگا۔سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ



 متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ نے اے پی ایس نیوز ایجنسی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگران سیٹ کے حوالے سے جو کچھ پیش رفت ہورہی ہے میں نے دو ماہ قبل ہی ایک انٹرویو میں یہ عندیہ دے دیا تھا کہ نگران وزیر اعظم کا مسئلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا جائے،اس موقع پر متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا بدعنوان افراد کو انتخابات میں روکنا ناگزیر ہوگیا ہے کیونکہ حکمرانوں کے کرپشن کے سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے ملک کو معاشی طور پر کمزور کردیا ہے۔اس وقت پاکستان معاشی طور پر دھندلاہٹ کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے اور انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمندوں کو دستور پاکستان کی دفعات62 اور 63 کے تقاضوں کی چھلنی سے گزارنے کے اقدامات کمیشن کے حقیقی مقصد اور اختیار دونوں کا اظہارکرتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہئے۔ ضابطہ اخلاق کی پاسداری یقینی بنانے کے لئے خفیہ مانیٹرنگ سیل کی تشکیل کی اطلاعات سے بھی انتخابات کو آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف بنانے کے لئے ایسی تدابیر بروئے کار لانے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے جن کے ذریعے انتخابات کو دھونس، دھاندلی اور دھن کے استعمال سے پاک رکھنا ممکن ہو۔ کہا جاتا ہے کہ خفیہ مانیٹرنگ سیل 24گھنٹے کام کرے گا۔ یہ سیاسی جماعتوں کے جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور دیگر معاملات کی نگرانی کرتے ہوئے اسلحے کی نمائش، پیسے کے ناجائز استعمال اور ووٹوں کی خریداری جیسے امور پر روزانہ کی بنیاد پر اپنی رپورٹ چیف الیکشن کمشنرکو دے گا۔ مانیٹرنگ سیل مرکزی سطح پر کام کرے گا تاہم تمام صوبائی اور ضلعی الیکشن کمیشنوں کے ارکان اس کے ممبر ہوں گے۔ متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ  نے کہا کہ ضابطہ اخلاق بنانے کا مقصد انتخابی عمل کے دوران رونما ہونے والی بعض خرابیوں سے بچنا ہوتا ہے اور اس میں طے پانے والے اصولوں پر ان کی روح کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو ضابطہ اخلاق بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اس بار انتخابی ضابطہ اخلاق کی پابندی یقینی بنانے کی ضرورت اس حوالے سے خاص طور پر محسوس کی جارہی ہے کہ پچھلے برسوں سے جاری انتخابی قواعد کی خامیوں پر عوامی حلقوں میں سخت ردعمل دیکھنے میں آیا جبکہ عدالت عظمی کی طرف سے بھی انتخابی قواعد میں اصلاحات لانے کے لئے الیکشن کمیشن کو بعض رہنما اصول دئیے گئے تھے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات عملدرآمد کیس کے عبوری حکم میں الیکشن کمیشن کے اس ٹاسک کی واضح لفظوں میں تشریح کردی ہے جس کے لئے دنیا بھرکے دساتیر میں امیدواروں کی اہلیت اور نااہلیت کی شرائط رکھی جاتی ہیں تو یہ اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے۔  متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ  نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ نااہل اور بدعنوان افراد کو منتخب ہونے سے روکے۔ انتخابات کے انعقاد کا یہی مقصد آئین کی دفعات62 اور 63 سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے اخراجات، معیار زندگی اور دوسرے امور کے حوالے سے معلومات کے حصول کے لئے انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں بعض تبدیلیاں کی ہیں اور ان کی تصدیق کے لئے نادرا اور دوسرے اداروں کے تعاون سے ایک پورا نظام بنایا ہے۔اب الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرانے اور خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے کے لئے مانیٹرنگ سیل قائم کیا ہے تو یہ مستحسن اقدام ہے۔ تاہم قرین مصلحت امر یہ ہے کہ سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے تجربے سے عاری نیا متوازی ادارہ بنانے کی بجائے بھارت کی طرح پہلے سے موجود ریاستی اداروں سے کام لیا جائے اور ان کی نگرانی الیکشن کمیشن خود کرے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی تشریح کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اسی طرح قوت و طاقت فراہم کی ہے جس طرح بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے انتخابات کو شفاف و منصفانہ بنانے کے لئے بھارتی الیکشن کمیشن کو طاقت فراہم کی جاتی رہی ہے۔ ہمارا الیکشن کمیشن اب اس قابل ہے کہ اسی طرح اپنے اختیارات استعمال کرے جس طرح بھارت میں انتخابات کے اعلان کے بعد تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کے حکم کے پابند ہوجاتے ہیں۔ سیاسی قوتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات میں رکاوٹ بننے کی بجائے شفافیت یقینی بنانے کے لئے الیکشن کمیشن سے تعاون کریں۔ کیونکہ جب انتخابات کا عمل تبدیلی لانے کی بجائے مخصوص طبقات کے مفادات کا ذریعہ بننے لگتا ہے تو آمریت قائم کرنے کی قوت رکھنے والے عناصر کو حوصلہ ملتا ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرکے جمود اور اسٹیٹس کو کے استحصالی فوائد اپنی جھولی میں بھر لیں۔ متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ  نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے پورا وزن انتخابات کرانے والے ادارے کے پلڑے میں ڈالے جانے اور مسلح افواج کی جانب سے عام انتخابات کے پرامن اور منظم انعقاد کے حوالے سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائے جانے کے بعد الیکشن کمیشن کی اعلی تر کارکردگی دکھانے کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ اسے ہر وہ طریقہ اختیارکرنا چاہئے جو انتخابات کو منصفانہ بنانے کے لئے ضروری ہے اور ہر اس چیز کو رد کردینا چاہئے جو انتخابات کی شفافیت میں رکاوٹ بننے والی ہو۔ عدالت عظمی نے دستور پاکستان کے آرٹیکل 190 کو بروئے کار لاتے ہوئے، جو عدالت کوکسی بھی انتظامی اتھارٹی کو اپنی مدد کے لئے بلانے کا اختیار دیتا ہے، وفاق کو ہدایت کی کہ وہ 8/جون 2012 کو دئیے گئے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں کسی لیت و لعل کا مظاہرہ نہ کرے اور آرٹیکل 218(3) پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے جو الیکشن کمیشن کو غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے بدعنوانی کی روک تھام کا اختیار دیتا ہے۔ عدالت عظمی نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کاغذات نامزدگی میں ازخود ترامیم کا اختیار رکھتا ہے اور اسے سپریم کورٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ  نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد یہ تاثرختم ہوجانا چاہئے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کے حوالے سے کسی طور بھی کمزور ہے یا اسے بعض طبقوں کے مفادات کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایسے وقت، کہ عدالت عظمی سمیت سب ہی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں اور سب ہی آئینی تقاضوں کے مطابق انتخابی شفافیت یقینی بنانے کے اقدامات کی حمایت کررہے ہیں، الیکشن کمیشن کو اپنے آئینی اختیارات کے ذریعے ایسے تمام طریقے بروئے کار لانے چاہئیں جن کے ذریعے آنے والے انتخابات کو جمہوری دور کے انتخابات کہنا ممکن ہو۔ اس معاملے میں اسے سول سوسائٹی کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ جمہوری نظام میں الیکشن کو ایک ایسے راستے یا دروازے کی حیثیت حاصل ہے جس سے گزرکر معاشرے آگے کی طرف بڑھتے ہیں۔ پہلے سے بہتر نمائندوں کا چنا، پہلے سے بہتر پارلیمان کی تشکیل، بہتر حکومت، بہتر قانون سازی، عوامی خدمات کے بہتر معیارات کی سمت پیش قدمی، معاشرے میں حیات بخش ماحول کی موجودگی کا تاثر ہی جمہوریت کو آمریت کے فرسودہ نظام سے ممیز و ممتاز کرتا ہے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ  نے کہا کہ
 الیکشن سماج کے جمود کو توڑ کر متحرک و فعال بنانے کا ذریعہ ہے جبکہ آمریت اپنی بقا کے لئے جمود اور یکسانیت میں پناہ لیتی ہے۔ اس اعتبار سے الیکشن کرانے والے ادارے کی اہمیت اور ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ تبدیلی لانے کی خواہشمند قوتیں اسے مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں جبکہ آمرانہ رجحانات رکھنے والے عناصر اسے بے دست و پا رکھنے میں اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ عوام کی طرف سے شفاف انتخابات کی خواہش کے بے مثال مظاہروں، سپریم کورٹ کے فیصلوں اور آئی ایس پی آر کے ترجمان کے حالیہ بیان سمیت مسلح افواج کی یقین دہانیوں نے الیکشن کمیشن کو اصل مقصد کی طرف بڑھنے کے حوالے سے تقویت دی ہے۔ اسے اپنے اختیارات ہمسایہ ملک بھارت کی مثال سامنے رکھتے ہوئے بروئے کار لانے چاہئیں جہاں انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمندوں کو کاغذات نامزدگی میں
 اپنی زندگی بھر کا ریکارڈ الیکشن کمیشن کو دینا ہوتا ہے اور جہاں ٹیکس نادہندگان، قرض نادہندگان، منافرت پھیلانے والوں، غیرقانونی تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں اور ثابت شدہ کرپٹ عناصر کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی ایڈوکیٹ  نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ترامیم پر مبنی نئے کاغذات نامزدگی فارم کی طباعت شروع کرا دی ہے اور انتخابی اصلاحات کی دستاویز تیارکرلی ہے جو ایکٹ یا آرڈی ننس کی صورت میں نافذ کی جاسکتی ہے۔ امیدواروں کے کوائف کی اسکروٹنی کے لئے نادرا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ایک مربوط نظام بھی بنالیا گیا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ عام انتخابات آئین کی روح کے مطابق شفاف اور منصفانہ ہوں گے اور اس واضح تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے جو جمہوری نظام کوآمرانہ رجحانات کے حامل نظام سے الگ کرتی ہے۔اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=1603&lang=UR