بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس۔چودھری احسن پریمی


بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس کے انعقاد کا مرکزی خیال کوئی فضیلت انصاف سے بڑی ہے کے موضوع کے ساتھ منسلک تھی کیونکہ انصاف سے افراد کے ساتھ ساتھ قوموں کے درمیان ہم آہنگی اور امن بڑھتا ہے جس میں ایک اہم فضیلت ہے۔جبکہ مختلف موضوعات کے ساتھ نو موضوعاتی گروپ موجود تھے آزاد عدلیہ، ظلم اور جبر کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے معاشرے میں ایک منصفانہ سماجی نظام قائم ہوتا ہے۔جو ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔یہ ہمیں مساوات اور انصاف کے اصولوں پر مبنی ایک خوش اور مطمئن زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے. بے شک، عدلیہ کا قانون اور تمام حکام کی حکمرانی کو فروغ دینے میں ایک بنیادی کردار ہے اور اداروں کو انصاف اور ان پر عملدرآمد کی انتظامیہ میں معاون کی حمایت اور تعاون فراہم کرنے کے لئے ہے۔جبکہ بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں معاشروں کی ترقی کی بنیاد اداروں کی مضبوطی پر ہے اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں چند افراد پر تکیہ کرنے کی بجائے عدلیہ کو بحیثیت ادارہ مضبوط کیا جائے۔ اسلام آباد میں ہونے والی اس تین روزہ کانفرنس میں امریکہ، بھارت، برطانیہ، ترکی، اور افغانستان سمیت 19 ممالک سے ججوں اور قانونی ماہرین نے شرکت کی اور ان تجربات اور تاثرات کا تبادلہ خیال کیا جن سے معاشرے میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں عدلیہ کے کردار کو موثر بنایا جا سکے۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیہ منظور کیا گیا جس میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے درپیش دہشت گردی کے خاتمے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اعلامیہ میں اس متعلق قانونی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں شدت پسندوں کے خلاف موثر اور فعال استغاثہ، مزید سخت قوانین بنانا اور دیگر ممالک سے معاونت کرنا شامل ہیں۔ کانفرنس میں عدالتوں کی جانب سے مختلف امور پر از خود نوٹس لینے کے عمل کو ایک باقاعدہ واضح ضابطہ کار میں لانے پر زور دیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی تقریر میں ججوں کی تعریف اور مختلف مقدمات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئین و قانون کی پاسداری اور طرز حکومت میں بہتری صرف اور صرف عدلیہ کے بھرپور کردار کی وجہ سے آئی ہے۔ ہمارا مقصد ایک ہے کہ جو انصاف کے متلاشی اور ضرورت مند ہیں ان کے معاملات جلد سے جلد حل کریں۔ اگر کوئی برائی ہوگی کسی بھی نظام میں تو اسے ٹھیک کرنا آپ کا اور ہمارا کام ہے لیکن آئین کے دائرے کے تحت۔ پاکستان میں سست عدالتی نظام کے باعث عمومی طور پر مقدمات سال ہا سال التوا کا شکار رہتے ہیں اور مختلف اعدادوشمار کے مطابق ہزاروں مقدمات اب بھی ذیلی عدالتوں میں اپنے منتقی انجام کے منتظر ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ عدلیہ 2007 کے بعد جمہوریت کی سب سے بڑی حمایتی بن کر ابھری ہے اور ماضی کی طرح کسی بھی غیر جمہوری عمل کی توثیق کرنے کو تیار نہیں۔ سپریم کورٹ کے زیراہتمام 3روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے دوسرے روزشرکا کے 9گروپس بنائے گئے تھے جس میں مختلف موضوعات کے بارے میں قانونی اورعدالتی حوالہ سے بحث و مباحثہ کیاگیا شرکا نے متعلقہ موضوعات کے بارے میں رائے دینے کے ساتھ مختلف تجاویزپیش کیں ججزاوردیگرآئینی ماہرین نے مختلف عنوانات کے تحت مقالے پیش کئے انسانی حقوق کے تحفظ، عوامی اہمیت کے معاملات اورعدلیہ کاکردار، دہشت گردی ، دنیاکی ترقی میں عدلیہ کا کردار، عوامی امن میں عدلیہ کا کردار، صارفین کے تحفظ کیلئے عدلیہ کا کردار، لیگل اورجوڈیشل ایجوکیشن، نومولود بچوں کا اغوا، سائبرکرائمز بارے شرکا کو معلومات اورقانونی آگاہی دی گئی کانفرنس کے تیسرے روزہے 21ممالک کے وفود اوردیگرشرکا نے تجاویزپیش کیں، جسکے بعد چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے شرکا سے اختتامی خطاب کیا اور بعد ازاں کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔کانفرنس کے پہلے روزچیف جسٹس پاکستان افتخارمحمد چوہدری نے کہا کہ پرویز مشرف کے ایمرجنسی اقدام کو غیرآئینی قرار دیا تھا، حکومت کی ناقص اور غلط حکمرانی کی وجہ سے انتظامیہ کا بوجھ بھی عدلیہ کے کندھوں پرآ چکا ہے کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ عدلیہ جلد فیصلے دے کر انصاف کا خون کر رہی ہے اگر ہم آبادی کی شرح اور تناسب کو دیکھیں تو مقدمات کے نمٹانے کی رفتار ابھی بھی سست ہے بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت عدلیہ کے معاملات کومضبوط نہیں کررہی اگر ایسا ہوجائے تو لوگوں کوجلد اور فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے گی انہوں نے مزیدکہا کہ ریاست امن اور انصاف کے بغیرقائم نہیں رہ سکتی ، عدلیہ کا کام معاشرے کے تمام طبقات کو برابری کی سطح پر انصاف فراہم کرنا ہے ، سپریم کورٹ کو بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہیں، ہائی کورٹس بھی یہ اختیار استعمال کرسکتی ہیں اسلام رنگ و نسل اورکسی سماجی پس منظر کے تحت کسی کو بھی امتیاز نہیں دیتا ہے ، حضور کی بیشتر مثالیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، آرٹیکل 8کے تحت ہرشہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں، بہت سے مقدمات میں عدالتوں نے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا ہے اور گراس روٹ لیول تک اس کی خلاف ورزی کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں عوامی اہمیت کے معاملات کوآئین و قانون نے خصوصی اہمیت دی ہے اس لیے عدالتیں اکثر اوقات ازخود نوٹس لے کرعوامی اہمیت کے معاملات کی سماعت کرتی ہیں۔اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=2362&lang=UR