صحافی عدم تحفظ کا شکار۔چودھری احسن پر یمی




عالمی یومِ آزادی صحافت پر بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ساں فرنٹئرز یعنی رپورٹرز ودآٹ بارڈرز نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بلوچ مسلح گروہوں کو اپنی اس فہرست میں شامل کر لیا ہے جو آزادء صحافت کے خلاف سرگرم ہیں۔بین الاقوامی تنظیم کے مطابق اس فہرست میں 39 ایسی تنظیمیں اور افراد ہیں جو صحافیوں کو قید، پابندیاں، اغوا، تشدد اور قتل میں سرگرم ہوتے ہیں۔اس سال اس فہرست میں پانچ نئے ناموں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان میں چین کے صدر شی جنپنگ، شام کا جہادی گروہ النصرا، اخوالمسلمون کے حمایتی، مالدیپ کے مذہبی انتہا پسند اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے بلوچ مسلح گروہ۔رپورٹرز ود آٹ بارڈر نے بلوچ مسلح گروہوں میں بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ مسلح دفاع آرمی پاکستان شامل کیے ہیں۔تنظیم کے مطابق صوبہ بلوچستان 2004 سے صحافیوں کے لیے بہت خطرناک ہو گیا ہے۔تمام مسلح گروہوں نے صحافیوں کے لیے خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ مسلح گروہ چاہے وہ مسلح علیحدگی کی جنگ لڑ رہے ہوں یا وہ ملیشیا ہو جس کو وفاقی حکومت کے دفاع کے لیے قائم کیا گیا ہو۔بین الاقوامی تنظیم نے ان تین بلوچ تنظیموں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے صوبے میں اور خاص طور پر بلوچستان کے شہر خضدار میں خوف کی سی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔اس صورتحال کے باعث معلومات کا ایک بلیک ہول بنا دیا گیا ہے اور خضدار کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر بنادیا ہے۔تنظیم کے بقول کہ ان مسلح گروہوں نے میڈیا اور ان کے خاندان والوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں تاکہ وہ مجبور ہو جائیں کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ فرائض ایمانداری سے نہ نبھا سکیں۔رپورٹرز ود آٹ بارڈر کے بقول ان بلوچ مسلح گروہوں نے میڈیا ہاسز اور ان کے صحافیوں کو دھمکی دی ہیں کہ ان کے خلاف کسی قسم کی منفی خبر نہ دی جائے۔اس کے علاوہ ان کو دھمکی دی گئی ہے جو ان کی کارروائیوں کی کوریج کرنے سے انکار کرتے ہیں۔تنظیم نے ان گروہوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بم دھماکوں میں ملوث ہیں اور ان دھماکوں کے مقاصد میں ان صحافیوں کو بھی ہلاک کرنا شامل ہے جو جائہ وقوع پر کوریج کے لیے جاتے ہیں۔تنظیم کا کہنا ہے ان بلوچ تنظیموں نے کئی صحافی ہلاک کیے ہیں جن میں انتخاب اخبار کے محمود احمد آفریدی، اے آر وائی نیوز کے عبدالحق بلوچ، آج کل اخبار کے فیض محمد سسولی شامل ہیں۔رپورٹرز ود آٹ بارڈر نے فردِ جرم عائد کرنے کے انداز میں کہا ہے کہ ان تنظیموں کی کارروائیاں آزادء معلومات کے حق کے برخلاف ہیں اور اس کے لیے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ جبکہ وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکورٹی میر حسن ڈومکی نے کہا ہے کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے جس کی نظیر کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔ اس دن کا مقصد اقوام عالم کو یہ بآور کروانا ہے کہ آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہیں۔ یہ دن ہمیں اُن شہداء اور غازیوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ صحافتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران جام شہادت نوش کیا یا عام لوگوں کی آگاہی کے لیے تندہی سے کام کرتے ہوئے سخت سزائیں کانٹیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دن ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اُن صحافیوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کریں۔ انہوں نے پاکستان میں صحافیوں کی سیکورٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شورش زدہ علاقوں میں صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے حفاظتی اقدامات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے۔ اس ضمن میں میڈیا ہاوسز کے مالکان کو چاہیئے کہ وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادارک کرتے ہوئے اپنے رپورٹرز کو بریکنگ نیوز کی جستجو میں خودبریکنگ نیوز بننے سے بچائیں۔ گزشتہ دنوںتین مئی کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادی صحافت کا عالمی دن منایا گیاہے جس کا موضوع تھا تمام ذرائع ابلاغ میں اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ یقینی بنایاجائے۔ادھر پاکستان میں عام انتخابات چند ہی روز میں منعقد ہونے والے ہیں اور اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیاں اور انتخابی مہمات، عوام کی دلچسپی کا خاص مرکز بنی ہوئی ہیں۔ لیکن صحافی ، شدت پسندوں کی جانب سے بلاواسطہ خطرے کے باوجود اپنے پیشہ ورانہ فرائض پورے کر رہے ہیں۔شدت پسند تنظیمیں، کسی بھی سیاسی جماعت کے کیمپ یا پولنگ بوتھ کو نشانہ بناتی ہیں تو ایسی صورت میں وہاں موجود صحافی کی جان کو خطرہ ہوگا۔کراچی میں انتخابات کے دوران تین ہزار سے زیادہ پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ اور ان پولنگ سٹیشنز پہ صحافی رپورٹنگ کی غرض سے ضرور جائیں گے۔ صحافیوں کو براہ راست خطرہ نہیں ہے لیکن بلاواسطہ طور پر یہ خطرہ بہرحال موجود ہے۔ ادارے تحفظ فراہم نہیں کرتے یہ کام اپنی مدد آپ کے تحت ہی کرنا پڑتا ہے۔ الیکشن کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے کھلے عام سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی ہے۔ اور صحافی ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی کوریج کے لیے موقعے پر ہی موجود ہوتے ہیں۔الیکشن کے دوران صحافیوں کی جان کے تحفظ کے لیے صحافتی اداروں نے کیا تیاری کر رکھی ہے۔ اس سلسلے میں فیلڈ میں جانے والے رپورٹرز کے لیے بلٹ پروف جیکٹس کا بندوبست ضروری ہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ شدت پسند حملے کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ صحافیوں کو کس طرح اپنی حفاظت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔جبکہ پی ایف یو جے کے صدر پرویز شوکت کا کہنا ہے کہ کہ رپورٹرز کو احکامات دے رکھے ہیں کہ اگر بہت ضروری نہیں ہے تو لیڈر کے قریب نہ جائیں۔ اس کے علاوہ پولنگ بوتھ پر رپورٹنگ کے دوران سکیورٹی کے دائرے میں ہی رہیں۔الیکٹرانک میڈیا کی مجبوری ہے کہ اس کے صحافی کو تمام سازوسامان اور عملے کے ساتھ موقع پر پہنچنا ہوتا ہے۔صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر پرویز شوکت نے موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں سیاست دانوں سے زیادہ ہمارے صحافیوں کے لیے خطرات موجود ہیں۔ صحافی انتہائی خطرناک حالات میں بھی گھروں میں نہیں بیٹھ سکتے جبکہ سیاست دان تو اپنی میٹنگز ملتوی بھی کر سکتے ہیں۔پرویز شوکت کا کہنا تھا اکثر صحافی بریکنک نیوز کے رواج اورمقابلے کی دوڑ کی وجہ سے کسی حادثے کا نشانہ بنتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ جلد سے جلد جائے وقوعہ کی فوٹیج حاصل کی جائے جو ان کی جان کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ساتھ ساتھ انہوں نے میڈیا مالکان کے اس رویے کی سختی سے مذمت کی کہ ان کے پاس کیمروں اور دیگر سامان کی انشورنس موجود ہے لیکن صحافی کی جان کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔اے پی ایس