نواز شریف کی اولین ترجیح۔چودھری احسن پر یمی



میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت بنانے کے بعد ان کی اولین ترجیح ملک کی معیشت کی بحالی پر ہوگی۔ان کے نزدیک جب ملک کی معیشت درست ہوگی تو نہ چور بازاری رہے گی اور نہ بے روزگاری۔انہوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی حالت کی بحالی ہی وہ واحد نسخہ ہے جو سب مسائل کے لیے کارگر ثابت ہوگا۔ معیشت کو بہتر بنا ہی کر احساسِ محرومی ختم کیا جا سکتا ہے اور جب محرومی کا احساس ختم ہوگا تو شکایتیں کم ہوں گی اور دہشت گردی اور بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ’معیشت ٹھیک کر لیں تو یہ سارے مسائل ٹھیک ہو جائیں گے۔ اکانومی ٹھیک کرتے ہیں تو اس سے پاکستان کے اندر تشدد ختم ہو جائے گا، بدامنی ختم ہو گی، دہشتگردی ختم ہو گی ، بے روزگاری ختم ہو گی ، غربت ختم ہو گی ، جہالت ختم ہو گی تو اور کیا چاہیے اس لیے سب سے زیادہ توجہ معیشت پر ہی ہوگی۔‘ ’جب انتخابات میں نیت صحیح رکھی ہے تو الیکشن کے بعد نیت خراب کیوں کریں گے۔ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم سب کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب کو ساتھ دعوت دیں گے کہ آو ¿ اکھٹے چلیں اور اب اکثریت آ گئی ہے، ہم اس وقت بھی یہی کہیں گے کہ نواز شریف کا وزیراعظم بننا یا نہ بننا معنی نہیں رکھتا، اصل معاملہ ہے کہ پاکستان کو آگے چلنا چاہیے۔‘ الیکشن میں جس جماعت کو جس صوبے میں مینڈیٹ ملا ہے اسے وہاں حکومت بنانے کا حق ہے۔ جس کا جہاں پر مینڈیٹ ہے اس کا احترام کیا جائےگا۔ جیسے سندھ میں پی پی پی کو مینڈیٹ ملا ہے اور انہیں اپنے مینڈیٹ کے استعمال کا حق ہے۔جب ان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا وہ عمران خان کو موقع دیں گے کہ وہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائیں، تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اگر بنا سکتے ہیں تو بسم اللہ ، ہمیں اس میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔‘شدت پسندی پر قابو پانے کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور یہ معاملہ بات چیت سے ہی حل ہو سکتا ہے۔’بجائے اس کے کہ آپ اس (طالبان کی مذاکرات کی پیشکش) کو سابقہ حکومت کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں میرا خیال ہے کہ اس میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے اور ہم سب مل کر بیٹھ کر مشورہ کر کے کوئی مثبت ردعمل کا مظاہرہ کریں تو مثبت بات ہوگی۔‘بلوچستان کے حالات اور وہاں کے عوام میں پائے جانے والی ناراضگی پر انہوں نے کہا ’ملک ہمارا ہے لوگ بھی ہمارے ہیں۔غلطیاں بھی ہوتی ہیں،ناراضگیاں بھی ہوتی ہیں۔کوئی ناراضگی ہے تو اسے دور کرنا چاہیے اور اگر کوئی غلطی ہے تو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔‘انہوں نے کہا کہ معاملے کے حل کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک ہی سوچ کا حامل ہونا چاہیے۔’بڑے بڑے معاملات دنیا میں حل ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی حل ہوں گے۔ اگر میز پر بیٹھ کر معاملے کو حل کر لیا جائے تو اس سے کیا اچھی بات ہوگی۔‘بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں میاں نواز شریف نے کہا کہ ’بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے۔ ہم ان کے ساتھ ہر متنازع معاملے پر بات کریں گے۔ بھارت کے دورے کے بارے میں انا کی کوئی بات نہیں اور کوئی بھی پہلے آئے ’بہرحال بات چیت ہماری جاری رہے گی۔‘امریکہ کے بارے میں میاں نواز شریف نے کہا کہ ’امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ سے اچھے ہیں رہے ہیں اور وہ رہیں گے تاہم ان تعلقات میں یقیناً بہت اتار چڑھاو ¿ آتا رہا ہے کیوں آیا اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ڈرون حملوں کے بارے میں ہماری پالیسی بالکل واضح ہے کہ یہ ڈرون حملے نہیں ہونے چاہییں۔اس سوال پر کہ اگر امریکہ نہ مانا تو وہ کیا کریں گے، نواز شریف نے کہا کہ ’نہیں اس سے منوایا جا سکتا ہے اور اس پر بات ہو سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو کوشش کرنی چاہییے کہ وہ ہماری بات غور سے سنے اور ہم جو سمجھتے ہیں کہ ہماری آزادی اور خود مختاری پہ ایک ضرب لگتی ہے تو میرا خیال ہے کہ اس سلسے میں انھیں توجہ دینی چاہیے۔پاکستان میں گیارہ مئی کے عام انتخابات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مرکزی حکومت کی تشکیل کے لیے مشاورت شروع کردی ہے اور آزاد اراکین کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے رابطے کر رہی ہے۔قانون کے مطابق امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے تین روز کے اندر انہیں کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا موقع دیا جاتا ہے۔اس کے بعد سیاسی جماعتوں کے کامیاب امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہوتی ہے جس کی بنا پر اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں۔مبصرین کے مطابق الیکشن کمیشن نے اس بار نتائج کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر کی ہے اور تاحال نتائج مکمل نہیں ہو سکے ہیں لیکن غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے لیے حکومت بنانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔پہلے روز مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا ایک غیر رسمی اجلاس رائے ونڈ میں ہوا جس میں حکومت سازی کے حوالے سے غور کیا گیا۔ جون میں قومی بجٹ پیش ہونا ہے اس لیے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر حکومت سازی کا عمل جون سے پہلے پہلے مکمل کرلیا جائے۔ادھر خیبر پختونخواہ میں حکومت سازی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مختلف سطح پر اجلاس ہو رہے ہیں ، جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ عوام نے جس جماعت کو منڈیٹ دیا ہے اسے حکومت سازی کا حق ملنا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کی چار رکنی کمیٹی نے قومی وطن پارٹی کے سربراہ سابق وفاقی وزیر آفتاب احمد خان شیرپاو ¿ کے ساتھ رابطے کیے ہیں ۔پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اسد قیصر نے جماعت اسلامی کے رہنماو ¿ں سے رابطے کیے ہیں تاکہ خیبر پختونخواہ میں ان کی جماعت حکومت قائم کر سکے۔ پی ٹی آئی کی کمیٹی کے قیادت سینیئر پارلیمنٹیرین پرویز خٹک کر رہے ہیں۔ پرویز خٹک ماضی میں آفتاب شیرپاو ¿ کی جماعت کے اہم عہدے پر رہ چکے ہیں۔ادھر جماعت اسلامی نے اپنی جماعت کی صوبائی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا جس میں حکومت سازی کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔جماعت اسلامی کے صوبائی ترجمان اسرار اللہ ایڈووکیٹ نے کہا ہے ان کی جماعت کا یہ موقف ہے کہ عوام نے جسے مینڈیٹ دیا ہے اس جماعت کو حکومت سازی کا حق حاصل ہے اور اس میں رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں۔آئین کے مطابق صدرِ پاکستان نئے قائدِ ایوان یعنی وزیرِ اعظم کے چناو ¿ کے لیے اکیس دنوں میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے پابند ہیںخیال رہے کہ انتخابات کے مکمل نتائج ابھی پہنچے نہیں تھے کہ جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف سے رابطے شروع کر دیے تھے جس میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت سازی پر بھی بات چیت کی گئی تھی۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ اور آفتاب احمد خان شیرپاو ¿ کی جماعت قومی وطن پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کر سکتے ہیں۔ جمعیت علماءاسلام نے آزاد اراکین اور دیگر جماعتوں سے رابطے تیز کر دیے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں اگر یہ تینوں جماعتیں مل بھی جائیں تو ان کے ارکان کی کل تعداد پینتیس تک ہوتی ہے۔ انھیں مزید پندرہ ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔آزاد اراکین کو الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں۔ اب زیادہ انحصار جماعت اسلامی اور آزاد اراکین پر ہوگا کہ وہ حکومت سازی کے لیے کس جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد چونتیسں ہے جبکہ جماعت اسلامی کے سات ، آزاد تیرہ ہیں۔ دوسری جانب جمعیت علماءاسلام کے اراکین کی تعداد سولہ ، پی ایم ایل کی بارہ شیرپاو ¿ گروپ کی سات ہے ۔ اس کے علاوہ تین ارکان عوامی نیشنل پارٹی کے ، دو پیپلز پارٹی کے اور چار اراکین دیگر جماعتوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی دس اور خواتین کی ساٹھ نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں چار اعشاریہ پانچ تین عمومی نشستوں پر خواتین کی ایک نشست سیاسی جماعتوں کو ملے گی۔ جبکہ اقلیت کی ایک نشست ستائیس اعشاریہ دو نشستوں پر سیاسی جماعتوں کو ملے گی۔خصوصی نشستوں کی الاٹمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی حتمی فہرست صدرِِ پاکستان اور سپیکر قومی اسمبلی کو بھیجے گا۔ جس کے بعد اکثریت رکھنے والی جماعت کو صدرِ مملکت حکومت سازی کی دعوت دیں گے اور سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اراکین کی حلف برداری کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں گی۔اراکین کی حلف برداری کے بعد قومی اسمبلی کے نئے سپیکر کا انتخاب ہوگا اور نو منتخب سپیکر
کی صدارت میں ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہوگا۔ جس کے بعد قائد ایوان کا انتخاب ہوگا اور اس کے لیے تین سو بیالیس اراکین کے ایوان میں سادہ اکثریت یعنی دو سو بہتر ووٹ درکار ہوتے ہیں اور منتخب ہونے والے قائد ایوان سے صدرِ پاکستان وزیراعظم کا حلف لیں گے۔اگر میاں محمد نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنتے ہیں تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ریکارڈ ہوگا کہ کوئی شخص تیسری بار اس عہدے پر پہنچے گا۔پاکستان میں کروڑوں افراد نے آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے پسند کے امیدواروں کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالا۔ووٹنگ کے دن پاکستان کی اپر اور اپر مڈل کلاس نے جو اس سے قبل انتخابی عمل سے عموماً دور ہی رہتی تھی، پولنگ سٹیشنوں کا رخ کیا اور گھنٹوں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالا۔متعدد افراد کا موقف تھا کہ وہ سابق کرکٹر اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہیں جنھوں نے ’نیا پاکستان‘ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے درمیانی شب ٹیلی ویڑن پر نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گیارہ مئی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تقریباً ساٹھ فیصد رہی جو سنہ 1970 کے بعد سب سے بڑی شرح ہے۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کے لیے بھی 11 مئی کی رات بڑی حیرانی لیکر آئی۔مبصرین ان انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی زیادہ نشستوں پر کامیابی کی امید کر رہے تھے تاہم غیر حتمی اور غیر سرکاری انتخابی نتائج کے مطابق مسلم لیگ نواز پاکستان کی قومی اور پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور اس بات کی کسی نے بھی کوئی پیشنگوئی نہیں کی تھی۔ان نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز ابھی سادہ اکثریت سے دور ہے تاہم یہ فرق بہت کم ہے اور یہ فرق انتخابات میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کے پورا کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کے انتخابی قانون کے مطابق کوئی بھی آزاد امیدوار انتخابات میں کامیابی کے بعد اسمبلی کا سیشن شروع ہونے سے پہلے کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتا ہے۔
اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کو جو تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے جا رہے ہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ انھیں کن مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔
نواز شریف کی پہلی ترجیح ملک کی ابتر معیشت اور امن و امان کی خراب صورتِ حال کو فوری طور پر ٹھیک کرنا ہو گی۔اگر نواز شریف چاہتے ہیں کہ ان کی معاشی پالسیاں کامیاب ہوں تو اس کے لیے انہیں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہوگی۔پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضے لے رکھے ہیں اور اب ان قرضوں کو واپس کرنے کے لیے نواز شریف کو مالی مدد کی ضرورت ہو گی لیکن یہ مدد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ہی آ سکتی ہے اور ان اداروں پر امریکہ کا خاصا اثرو رسوخ ہے۔میاں نواز شریف جب حزبِ اختلاف میں تھے تو اس وقت وہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی بجائے ان سے بات چیت کے حق میں تھے اور چاہتے تھے کہ ملک کے قبائلی علاقوں جہاں شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں وہاں امریکی جاسوس طیاروں کے حملے بند کیے جائیں۔نواز شریف کو ماضی میں فوج کی وجہ سے مسائل کا سامنا رہا ہے اور سنہ 1999 میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا تاہم اس بار لوگوں کے خیال میں وہ کامیاب رہیں گے اگر وہ اپنی حکمتِ عملی کے لیے خاصی حد تک سیاسی حمایت حاصل کر لیں۔دوسری جانب عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی ’سونامی‘ اگرچہ انتخابات جیتنے میں ناکام رہی تاہم وہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد سے کافی دور ہے اور اسے صوبے میں حکومت تشکیل دینے کے لیے ایک سے زیادہ گروپ کی حمایت درکار ہو گی۔عمران خان کی جماعت نے انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور اب تک سامنے آنے والے نتائج کے مطابق مسلم لیگ نواز اور آزاد امیدواروں کے بعد وہ تیسرے نمبر پر ہے۔پاکستان کے سابق حکمران اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے بھی یہ انتخابی نتائج حیران کن ہیں۔ان غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی صوبہ پنجاب سے تقریباً ختم ہو گئی ہے تاہم صوبہ سندھ میں یہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔اے پی ایس