قوم بجلی بحران کیلئے تیار رہے۔چودھری احسن پر یمی



چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ نے پاکستان کو توانائی کے بحران کے حل میں مدد کی پیشکش کی ہے کہ دونوں ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار کے مشترکہ منصوبوں پر کام کرنا چاہیے۔لی کی چیانگ کا کہنا تھا کہ ’دونوں جانب کو توانائی کے شعبے میں ترقی اور بجلی کی پیداوار کے ترجیحی منصوبوں اور چین۔پاکستان معاشی راہداری کی تعمیر و ترویج پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘خیال رہے کہ پاکستان میں چین کے تعاون سے بجلی کی پیداوار کے کئی منصوبے پہلے ہی جاری ہیں جن میں چشمہ پاور پروجیکٹ نمایاں ہے۔لی کی چیانگ نے اسلام آباد میں ایوانِ صدر میں ان کی اعزاز میں دیے گئے ظہرانے کے موقع پر اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے لیے آئے ہیں اور حالات کچھ بھی ہوں پاک چین تعلقات مضبوط رہیں گے۔چین کے وزیراعظم کے دورے کا مقصد پاکستان کے ساتھ آزمودہ دوستی کو مستحکم کرنا اور دنیا کو یہ بتانا ہے کہ چین اپنی دوستی جاری رکھنے کا خواہاں ہے۔لی کی چیانگ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح پر رابطے ان کے گہرے باہمی تعلقات کے عکاس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تعلقات میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ ہوا ہے اور ان کا ملک پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تعاون جاری رکھے گا۔جبکہ صدر آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں کہا کہ دونوں ممالک میں وسیع معاشی مواقع موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔چینی وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر متعدد اہم سمجھوتوں اور معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی،خلائی مواصلات اور توانائی کے شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں اسٹریٹیجک تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’صدر پاکستان اور میں نے ابھی ابھی دونوں ملکوں کے درمیان معیشت، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط ہوتے دیکھے ہیں۔ دونوں ملکوں کی خواہش ہے کہ چین کی اپنی اندرونی طلب اور اپنے مغربی حصے کی ترقی کی حکمت عملی کو پاکستان کی معاشی ترقی کی خواہش سے جوڑا جائے تاکہ دونوں ملک باہمی فائدے کے لیے ایک ساتھ ترقی کرسکیں۔اس سے پہلے جب چینی وزیرِاعظم اپنے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور انھیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ خیال رہے کہ چین کے وزیراعظم کا عہدہ سنھبالنے کے بعد لی کی چیانگ کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ اس سے قبل وہ اپنے پہلے بیرون ملک دورے پر بھارت گئے تھے۔چینی وزیراعظم نے ایسے وقت پاکستان کا دورہ کیا جبکہ پاکستان میں پہلی بار اقتدار جمہوری طور پر منتخب ہونے والی ایک حکومت سے جمہوری طور پر منتخب ہونے والی دوسری حکومت کو منتقل ہو رہا ہے چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ کی جانب سے پاکستان کو توانائی کے بحران کے حل میں مدد کی پیشکش ایک خوش آئند بات ہے کیو نکہ بجلی بحران سے پاکستان کی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔اگرچہ بجلی و پانی کے نگراں وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ملک میں جاری طویل لوڈشیڈنگ کا فوری حل پیداوار میں اضافے کے لیے ان بجلی گھروں کو ایندھن فراہم کرنا ہے جو اپنی پوری استعداد پر کام نہیں کر رہے۔ہم اپنی صلاحیت سے 23 فیصد کم بجلی بنا رہے ہیں اور اس میں سے 17 سے 18 فیصد بجلی ہماری پیداوار ساڑھے بارہ سے 13 ہزار میگا واٹ تک لے جا سکتی ہے۔ اگر بجلی گھروں کو ’تیل اور گیس فراہم کر دیں تو آج کی پیداوار میں ہی ڈھائی ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہو سکتا ہے جس سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ قابلِ ذکر حد تک کم ہو کر سات سے آٹھ گھنٹے تک آ سکتا ہے۔ آٹھ سو سے ایک ہزار میگا واٹ کے یونٹ تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے بند ہیں اور جنگی بنیادوں پر اگر انہیں بحال کر لیا جائے تو چند ماہ میں یہ اضافی بجلی بھی مل سکتی ہے۔ اگر قوم کو ریلیف دینا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ 16 سے 18 ہزار ٹن تیل، 150 ملین مکعب فٹ گیس یا اس کے متبادل ڈیزل کی فراہمی ہے لوگوں کو ریلیف دینا ہے تو وہ ہوا سے نہیں آئے گا۔‘تاہم نگراں وزیر نے وزارتِ خزانہ کی جانب سے رقم ریلیز نہ کرنے کی شکایت کی اور کہا کہ ’وزیراعظم کے دفتر سے ساڑھے 23 ارب روپے کی رقم منظور کروا کر نکلے تھے لیکن وزارت تک یہ رقم پہنچ نہیں پائی۔ ہم آج دس ہزار دو سو میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں اور اب تک تو مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس رقم کے اجراءکی منظوری کے دو دن بعد بھی ان کی وزارت کو صرف 5 ارب روپے ملے ہیں جن کے بارے میں پہلے سے طے ہے کہ یہ پی ایس او کو ملیں گے۔ ’اگر یہ فیصلہ پہلے سے ہونا ہے کہ وزیراعظم جو بھی کہیں ہم پانچ ارب ہی دیں گے اور وہ بھی لکھ کر دیں گے کہ کہاں جانیں ہیں تو پھر یہ وزارت بھی انہیں ہی چلا لینی چاہیے۔انہوں نے تسلیم کیا کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بیشتر اقدامات میں نگراں حکومت کو ناکامی ہی ہوئی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دستیاب وقت میں مسائل کی نشاندہی کر لی ہے۔مصدق ملک نے بتایا کہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے 76 ارب روپے کی رقم کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر ماہ 13 ارب روپے بجلی بنانے والے سرکاری کارخانوں کو دیے جاتے ہیں اور ان سے 650 میگا واٹ بجلی ملتی ہے۔ اگر اس کی جگہ دس ارب نجی بجلی گھروں کو دیں تو یہ پیداوار 650 کی جگہ 1150 ہو جائے گی۔’صرف دس ارب روپے نقد کا معاملہ ہے جو ہم تیل خرید کر نجی پلانٹس کو دیں تو نہ صرف بجلی زیادہ ملے گی بلکہ اربوں روپے کی قوم کو بچت بھی ہوگی۔‘تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم وزارتِ خزانہ کو ڈیڑھ ماہ میں دس ارب دینے کے لیے قائل نہیں کر سکے تاکہ قوم کا 76 ارب روپے بچ سکے۔‘انہوں نے کہا کہ اس وقت ’ملک میں بجلی کا شدید بحران ہے، لوگ پریشان اور لاچار ہیں۔ اب یہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اسے ترجیح نہ دینا سیاسی خودکشی ہوگی۔انہوں نے اس خیال کو مسترد کیا کہ گردشی قرضے موجودہ بحران کی بڑی وجہ ہیں۔ مصدق ملک نے کہا کہ ’توانائی کی معیشت کی تنظیمِ نو سب سے ضروری ہے۔ گردشی قرضے ہمارا مسئلہ نہیں۔ جس دن یہ قرض ختم ہوگا اسی دن سے دوبارہ چڑھنے لگے گا۔ یہ وہ کنواں ہے جس کی کوئی تہہ نہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ پہلے اپنی معیشت کا ڈھانچہ ٹھیک کریں اور پھر اس قرض کو ختم کریں۔نگراں وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ توانائی کے بحران کے حل کے لیے قلیل یا طویل مدتی منصوبے اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتے جب تک بجلی کے ٹیرف پر نظرِ ثانی نہیں کی جاتی۔’جب تک سبسڈی سب کو ملتی رہے گی بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ ’اس صورتحال میں کوئی سنجیدہ سرمایہ کار کیوں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرے گا۔ صرف وہ لوگ جو 2 سال میں اپنا سرمایہ لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہی آئیں گے۔خیال رہے کہ پاکستان گزشتہ کئی برس سے بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے اور موسم گرم ہوتے ہی اس بحران میں شدت آ جاتی ہے۔پاکستان میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھ سے سات ہزار میگاواٹ کے درمیان بتایا جاتا ہے۔آج کل ملک کے بیشتر شہروں میں بارہ گھنٹے سے زائد کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ دیہات میں یہ دورانیہ بیس گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔گرم موسم میں بجلی کی اس طویل بندش کی وجہ سے جہاں گھریلو صارفین مشکلات کا شکار ہیں وہیں صنعتی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔سپریم کورٹ نے بجلی کی پیداوار میں اضافے اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے پیپکو اور این ٹی ڈی سی کو خاطر خواہ اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان سے نئی پیش رفت پر مبنی رپورٹ دو ہفتے میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔ عدالت نے پاور اسٹیشنوں کی مشینوں کو درست کرنے اور تکنیکی خرابیوں کو دور کرنے کی بھی ہدایت کی ہے جبکہ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا موجودہ بحران منصوعی نظر آتا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی کو کہ متعلقہ حکام کی غفلت کا نتیجہ ہے، بحران پر قابو پانے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہونگے حکومت خود پالیسی بنائے، عدالت کوئی تجویز نہیں دیگی لوگوں کی پریشانیاں ختم اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا معاملہ ہنگامی بنیادوں پر حل ہونا چاہیے بجلی کی بندش سے کارخانے بند اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ گھریلو صارفین اور صنعتوں کو بجلی فراہمی میں تفریق نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں جبکہ پیپکو کی طرف سے عدالت کو بتایا گیاکہ بجلی کی پیداوار میں کمی اور رکاوٹ کی بنیادی وجہ فرنس آئل کی فراہمی نہ ہونا اور گیس کی باقاعدگی سے ترسیل نہ ہونا ہے۔ گھریلو اور کاروباری
صارفین کو برابری کی بنیاد پر بجلی کی تقسیم کی جائیگی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے منگل کو بجلی بحران کیس کی سماعت کی۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیئرمین نیپرا اور بجلی ماہرین عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو مستقبل کے تقاضوں کو مدنظررکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہیے تھے۔عدالت کے آرڈر میں لکھ دیا کہ عدالت کو لوڈ شیڈنگ کی وجوہات سے آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ فنڈز کی عدم دستیابی اور فرنس آئل نہ ملنے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ تاہم اب اقدامات کرلئے گئے ہیں جس سے بجلی کی سپلائی کیلئے فرنس آئل کی سپلائی کو بہتر بنا دیا گیا ہے اور بجلی کی پیداوار بڑھ گئی ہے ۔مستقبل قریب میں مزید اقدامات بھی کئے جائینگے جس سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوسکے اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیاجاسکے گا۔ گیس کی سپلائی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس بارے میں بتایا گیا کہ باقاعدہ سے سپلائی نہیں کی جارہی جس سے منصوبے تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں اور بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے تکنیکی بنیادوں پر کام جاری ہے معاملات کو بہتر بنایا جارہا ہے، جس سے بہتری کی گنجائش ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ حکومت سے مذاکرات کر رہے ہیں اور انہیں بتارہے ہیں کہ بجلی کی پیداوار کو کیسے زیادہ کیاجاسکتا ہے، کچھ پاور ہاو ¿سز کی بجلی کی سپلائی ان کی تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ہوتی ہے، ابھی جام شورو کی ایک ہزار میگا واٹ کی صلاحیت ہے مگر وہ دو سو پچاس میگا واٹ پیداوار دے رہا ہے، گدو پراجیکٹ کی مشین درست کرادی جائے تو وہ 726 میگا واٹ سے ہزار سے گیارہ سو میگا واٹ تک بجلی دے سکتا ہے۔مشینوں کی مرمت کی بھی ضرورت ہے ۔ باقی پراجیکٹس میں بھی بہتری لائی جاسکتی ہے، پیپکو اس قابل ہے کہ بجلی کے نظام کو بہتر کرلے اور اپنے نظام میں مزید بجلی داخل کرسکے، اس حوالے سے مزید تجاویز بھی دی جارہی ہیں۔ مشترکہ کوششوں سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پا لیا جائے گا یہ بھی بتایا گیا کہ پانی سے بجلی کی پیداوار ساٹھ سے ستر فیصد بہتر ہوئی ہے 3900 میگا واٹ پیداوار اس وقت حاصل ہورہی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی اضافہ ہوتا جائیگا۔ تربیلا اور منگلا ڈیم ، اسکردو میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے خاطر خواہ فائدہ ہوگا ہماری رائے میں بجلی گھریلو اور کاروباری دونوں جگہوں پر برابری سطح پر تقسیم ہونی چاہیے، اس حوالے سے جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس سے عدالت کو آگاہ کیاجائے۔پیپکو بجلی کی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے مزید اقدامات کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ پیپکو اور این ڈی سی کے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو سراہتے ہیں۔جبکہ عدالت عالیہ پشاورکے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ بجلی بحران کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں پر نہیں ڈالی جاسکتی اس کے پیچھے اصل ہاتھ بعض نااہل بیوروکریٹس کا ہے۔جب سے واپڈاکی جگہ چھوٹی کمپنیاں بنی ہیں اس وقت سے بجلی کابحران پیداہواتیل کی سپلائی میں بڑے پیمانے پرغبن ہورہاہے مگرنیب خاموش ہے عدالت پہلے ہی متعدد کیسزمیں بجلی بحران کی تہہ تک پہنچنے کے حقائق واضح کر چکی ہے قوم بجلی بحران کیلئے تیاررہے۔میاں نواز شریف کو بھی بہتر انداز میں معیشت اور توانائی بحران کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔اس وقت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات ناگزیر ہیں۔کیو نکہ جب تک توانائی بحران پر قابو نہیں پایا جائے گا معیشت میں بہتری نہیں لائی جا سکے گی۔ (ن) لیگ نے قوم سے جو بھی وعدے کئے ہیں ان کو اقتدار میں آ کر پورا کرنا ہوگا بصورت دیگر ان کا انجام بھی پیپلز پارٹی والا ہی ہوگا۔ اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=3465&lang=UR