ڈرون حملوں بارے نواز شریف کا پالیسی بیان۔چودھری احسن پر یمی



محمد نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حالیہ ڈرون حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔یہ بات پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہی گئی ہے۔ نواز شریف کا یہ پیغام ان کے قریبی ساتھی نے امریکی سفارت خانے کے چارج ڈی افیئرز رچرڈ ہوگلینڈ کو پہنچایا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ میاں نواز شریف نے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں پر گہری تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ڈرون حملے اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہیں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہیں۔پیغام میں کہا گیا ہے کہ حالیہ ڈرون حملہ امریکی صدر براک اوباما کے خطاب کے کچھ روز بعد ہونا نہایت افسوس کی بات ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بامقصد مشاورت اور باہمی تعاون کو اپنانا چاہیے اور کسی یکطرفہ کارروائی سے گریز کیا جانا چاہیے۔یاد رہے کہ 29 مئی کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے نائب امیر ولی الرحمان مارے گئے تھے۔حکومتِ پاکستان کا مستقل موقف یہی ہے کہ ڈرون حملوں کے نقصانات ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں اور جہاں ان حملوں میں معصوم شہری ہلاک ہوتے ہیں وہیں یہ ملکی سالمیت کے اصولوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔پاکستان ماضی میں بھی ڈرون حملوں کے خلاف شدید احتجاج کرتا رہا ہے اور ڈرون حملوں کے خلاف ملک بھر میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔ان جماعتوں میں سے ایک تحریک انصاف صوبہ خیبر پختونخوا میں اقتدار میں آئی ہے اور اس کے سربراہ عمران خان ڈرون حملے کرنے پر امریکہ پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز کو انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی جماعت اقتدار میں آئی تو سفارتی سطح پر ڈرون حملوں کا معاملہ حل نہ ہوا تو وہ ڈرون حملوں کو مار گرانے کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔خیال رہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے قومی سلامتی کے موضوع پر ایک خطاب میں ڈرون حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خطرناک شدت پسندوں کے خلاف اپنے دفاع کے لیے ایک’منصفانہ جنگ‘ ہے اور ایک ایسی مہم جس نے امریکہ کو محفوظ بنایا۔اس خطاب میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ڈرون حملوں میں ہر مممکن طریقے سے اس بات کو یقنی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ حملوں میں عام شہری نہ مارے جائیں۔امریکی صدر کے بیان پر پاکستان میں گیارہ مئی کے عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ نواز نے ایک بیان میں امریکہ سے کہا تھا کہ اسے پاکستانی پارلیمان کی مرضی اور ملک کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے۔ جماعت نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے جو کہ نئی پاکستانی حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔جبکہ ایک تجزیہ کار ڈرون حملوں کو سامراج کا نیا روپ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ جان لیوا طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ڈرون کا استعمال، خودمختاری کے بارے میں ہمارے نظریات کو حتمی طور پر بدل دے گا-ڈرون اس بات کی آسانی پیدا کرتا ہے کہ کسی بھی علاقے کی سالمیت کو نگرانی اور سزا کی مشق کے ذریعہ اپنے اثر و رسوخ کے دائرہ کار تک محدود کر دیا جائے-مداخلت اور جنگ کو معمول بنا کر، انہوں نے یو این چارٹر کے اصولوں کا مذاق اڑایا ہے جس میں مداخلت بے جا اور طاقت کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے- انہوں نے دنیا کو ایسے دھڑوں میں تقسیم کر دینے کی دھمکی دی ہے جس میں ایک تو ایسی محفوظ جگہ جہاں ڈرون کا استعمال ممنوعہ ہو اور دوسری ایسا غیرمحفوظ حصّہ جہاں ان کا استعمال قابل برداشت ہو-ڈرون حملوں کو فوجداری دائرہ اختیار کی مشق کا متبادل بنا کر استعمال کیا جا رہا ہے- سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے اعلیٰ ریپبلکن سکسبی چمبلیس کا کہنا ہے کہ “ان کی پالیسی، زیادہ اہمیت کے حامل اہداف کو ختم کرنا بمقابلہ زیادہ اہمیت کے حامل اہداف کو پکڑنا ہے”- وہ اس کی تشہیر نہیں کر رہے لیکن حقیقتاً یہی ہو رہا ہے-موجودہ قانونی نظام میں اس ردو بدل نے بیگناہی کے اندازے تبدیل کر دیے ہیں-نئی جگہوں کا تحفظ دوسروں کی زندگیوں اور آزادی کی قیمت پر حاصل کیا جا رہا ہے، مقبوضہ علاقوں کی نئی تشریح بعید القانون علاقوں کی حیثیت سے بنائی جا رہی ہے-یہ حقیقت کہ ڈرون یو ایس کانگریس میں ایک سیاسی مسلہ صرف اس لئے بن گیا ہے کیوں کہ یہ امریکی شہریوں کی ہدف بندی انسانی حقوق کے نسلی اور منتخب کردہ اطلاق سے غداری کرتا ہے-ترقی یافتہ دنیا میں، جہاں ڈرون کو “حق رازداری” کے لئے خطرہ سمجھا جاتا ہے، کہیں اور اس کے جان لیوا استعمال کو برداشت کیا جاتا ہے- دوسروں کی “حق زندگی” سے قطع نظر-ڈرون، طاقت کے استعمال کے روایتی فریم ورک کو چیلنج کرتا ہے- تمام ریاستیں اپنے علاقے کی فضائی حدود پر مکمل اختیار رکھتی ہیں- یو این چارٹر کا آرٹیکل 2 (4) “کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت اور سیاسی آزادی” کے خلاف طاقت کے استعمال کی ممانعت کرتا ہے، جبکہ مداخلت بےجا کا اصول بین الاقوامی قانون کا حصّہ ہے-بین الاقوامی تنازعوں میں ڈرون کا مسلسل استعمال، اپنے دفاع کی رعایت اور سلامتی کونسل کی اجازت سے مستثنیٰ، چارٹر کی خلاف ورزی میں مسلح حملے کی حیثیت رکھتا ہے-یہ حقیقت کہ ڈرون ہو سکتا ہے ایک سے زائد جگہوں سے چلا? جائیں، مقابل ریاست سے یا نجی کرداروں سے- یا ہو سکتا ہے کہ ایک دن یہ مکمل طور پر خودکار ہو جائیں، اور یہ بڑے پیمانے پر جنگ و جدل کی غیرانسانی اور غیر علاقائی قسم کو جنم دے گا، اور کسی ایک ادارے اور ریاست پر اس کی ذمہ داری عائد کرنا مشکل ہو جائے گا-پاکستان میں ڈرون کے استعمال کے حوالے سے ہونے والے مباحثوں میں مستقل مزاجی نہیں ہے-اپنے دفاع کے لئے دلیل کا مفہوم ہے ایک بین الاقوامی کردار کے ساتھ تنازعہ، جبکہ رضامندی پر دلیل کا مفہوم یہ ہے کہ ایک غیر بین الاقوامی مسلح تنازعہ میں حکومت کی مدد کے لئے مدعو ہونا-ایک ریاست جو اپنا دفاع کر رہی ہے، دوسری ریاست سے جس سے اسے اپنا دفاع کرنا ہے، اجازت طلب نہیں کرتی- اور یہ بھی کہ اپنا دفاع اس صورت ہی میں ممکن ہے جب آپ پر مسلح حملہ ہو یا ہونا ناگزیر ہو جائے-ایک ناگزیر حملے کی تعریف کیرولن افیئر (1837) نے کچھ اس طرح کی ہے “فوری، مغلوب کرنے والا، نہ کوئی اور راستہ اور نہ ہی مشاورت کے لئے کوئی لمحہ چھوڑنے والا-” عجلت کی دلیل یہاں غیرضروری ہے کیوں کہ وہ دشمن طاقتیں جو غیرممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں انکو پاکستان خود بھی گرفتار کر سکتا ہے-رضامندی کی بحث اور زیادہ دلچسپ ہے- 14 مئی، 2011 کے مشترکہ قرارداد میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ ڈرون حملے غیر قانونی ہیں، لیکن یہ بھی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 247 میں “فاٹا” صدارتی ایگزیکٹو اتھارٹی کے تحت ہے-بہرحال قبائلی علاقہ جات میں صدارتی اتھارٹی “امن و امان کے قیام اور بہتر انتظامیہ” کے قیام تک محدود ہے- ڈرون حملوں کا اختیار دینا، قیام امن کے لئے کچھ نہیں کر رہا ہے اور فاٹا کے لوگوں کے انسانی حقوق کی پاسداری میں ناکام رہا ہے-دوسرے یہ کہ بین الاقوامی قوانین میں کچھ مخصوص اصول ہیں جن کو اٹل قائدے کہا جاتا ہے- انکو اس حد تک بین الاقوامی کمیونٹی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے کہ انکی خلاف ورزی کبھی نہیں کی جاسکتی- جیسا کہ حملہ، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم، نوآبادیات، غلامی اور تشدد-ایک بڑی تعداد میں پاکستانیوں بشمول شہریوں کی ہلاکتیں ان میں سے بہت سے قائدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے- ایسے معاہدے جو اٹل قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہیں انکو ویانا کنونشن کے قانون برا? صلح نامہ 1969 کے آرٹیکل 53 کے تحت غیر مو ¿ثر قرار دے دیا گیا ہے، چناچہ ایسی کوئی بھی رضامندی اگر دی بھی جا? تو وہ ازخود کالعدم ہو جاتی ہے-اکبر خان نے اپنی حالیہ کتاب “دی تھسٹل اینڈ دی ڈرون” میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کس طرح ڈرون حملے پاکستان، صومالیہ، یمن اور افغانستان کے ایسے دور افتادہ قبائلی علاقوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جو پہلے ہی سے مرکزی حکومت کے ساتھ متصادم ہیں-خانہ جنگی کے پس منظر میں، اس بات کا امکان ہے کہ ڈرون، مقامی لوگوں اور نسلی امتیاز پسند گروہوں کے خلاف، ایک ریاستی آمرانہ دہشت کا آلہ بن کر نہ رہ جائے-اس بات کا تصور بھی ناممکن ہے کہ کوئی ترقی یافتہ ملک اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اجازت دے، مہلک طاقت کے استعمال کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا- جبکہ مذکورہ بالا
ممالک میں یہ دونوں چیزیں معمول کی بات ہیں-بین الاقوامی وکلا آج کل اس کوشش میں لگے ہوے ہیں کہ کوئی ایسا حل تلاش کیا جا? کہ جس میں ڈرون حملے جائز قرار دیے جائیں، جیسا کہ ایسی صورت جس میں ایک ریاست نامزد شدہ ‘غیر ریاستی عناصر’ کو گرفتار کرنے سے’انکار کرے یا اسکی اھل نا ہو’- لیکن یہ سب فقط یکطرفہ ہے —– مضبوط ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے کمزور ترقی پذیر ممالک کے خلاف-مخصوص ریاستوں کی ‘انکاری یا نااھل” کی حیثیت سے درجہ بندی کی یہ تقسیم، 19 صدی میں مغرب میں ہونے والی ٹیکنالوجیکل ترقی سے پیدا ہونے والے مہذب/غیرمہذب امتیاز کا نتیجہ ہے-اس نے سب سے پہلے یورپ اور امریکا سے باہر موجود معاشروں کی خودمختاری کو مسترد کیا اور پھر ان علاقوں کے خود سے الحاق کو قانونی حیثیت دی-افریقہ کے لئے جدوجہد کے دوران “خود کو غیر ملکی ریاستوں کی پناہ میں دینے یا اپنی زمین انکو سونپ دینے” کے لاتعداد معاہدے قبائلی سرداروں اور خودمختاروں کے ساتھ دستخط کیے گے-ٹھیک ایسا ہی خطرہ فضائی حدود کی جدوجہد کے لئے بھی ہے، جس میں کمزور حکومتیں پارلیمانی جانچ پڑتال کے بغیر افسر اعلیٰ کے حکم یا مفاہمت کی یادداشت کے ذریعہ ڈرون کے استعمال کی رضامندی دے دے-حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کا ڈرون حملوں کے حوالے سے مجرمانہ غیر قانونیت کا فیصلہ اس سمت میں صحیح قدم ہے، لیکن پاکستان کی نئی حکومت کو غیر مبہم ہونا ضروری ہے-تھامس پین کے الفاظ میں “وہ جو اپنی آزادی کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، انھیں اپنے دشمن تک کو جبر سے محفوظ رکھنا ہوگا۔اے پی ایس