عوام دشمن اور کاروبار دوست بجٹ۔چودھری احسن پر یمی



اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال بعد عوامی غیض وغضب کا نشانہ بن کر کیفر کردار تک پہنچی لیکن نواز لیگ کی حکومت اقتدار میں آنے کے پہلے ہفتے میں ہی عوامی رد عمل کے شکنجے میں آگئی لوگ مایوس ہوئے ہیں کہ ہم نے شیر کا انتخاب کیوں کیا؟۔اگرچہ نواز لیگ گزشتہ بارہ سال سے اقتدار سے دور اصولی موقف اپنائے ہوئے تھی اور عوام کا یہی خیال تھا کہ نواز لیگ اب بدل چکی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ میں تیزی،بجٹ میں عوام دشمنی اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر وحشیانہ ظلم و تشدد نے ثابت کردیا کہ ابھی تک اس میں آمرانہ وائرس کا خاتمہ کرنا ابھی باقی ہے۔جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف گورنمنٹ کی تشکیل کے سات دن کے اندر اندر پیش کیا گیا 3.6 ٹریلین روپے کا پہلا بجٹ، جسے فنانس منسٹر اسحاق ڈار صاحب نے پیش کیا ، عوام دوست سے زیادہ کاروبار دوست نظر آرہا ہے۔بجٹ پی ایم ایل-این کی علامتی دستاویز ہے، جو اس کے آزاد اقتصادی مارکیٹ کے فلسفے کی عکاسی کرتی ہے- یہ اس بات کا ثبوت ہے کے پارٹی نے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے ہی اپنا ہوم ورک کر لیا تھا کیوں کہ یہ بجٹ جلد بازی میں بنایا ہوا نہیں ہے- اس میں وہ تمام علامتی اقدامات موجود ہیں جو ملک میں شریف حکومت کا نشان ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ بجٹ عوام دشمن ہے، بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھا کر زیادتی کی گئی،تمام سبسڈی ختم کردی گئی ، بجلی مہنگی ہوگی موٹرویز اور ہائی ویز کی بجائے پیسہ توانائی سیکٹر کو دینا چاہیے تھا،مراعات یافتہ طبقے، اشرافیہ اور زرعی آمدن پر ٹیکس نہ لگا کر عوام پر ظلم کیا گیا ہے۔ یہ قطعی عوام دوست بجٹ نہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانا بڑی زیادتی ہے اسے فوری طورپربڑھایا جائے۔ بڑی امیدیں تھیں کہ بجٹ عوام دوست ہوگا مگربجٹ میں عوام کو مایوس کیاگیا ہے اس بجٹ سے عوام کی مشکلات بڑھیں گی بجٹ میں ریلیف کی کوئی بات نہیں کی ۔مہنگائی نے غریب اورچھوٹے ملازمین کی زندگی مشکل بنادی ہے ایسے میں ان ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونا زیادتی ہے ۔ حسب روایت بجٹ میں ملک کی معاشی بیماریوں کا روایتی علاج کیاگیا ہے، سیلز ٹیکس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا جسے نہ صرف عوام مسترد کر تے ہیں بلکہ اس کے خلاف آوازبھی اٹھارہے ہیں ۔ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کیا گیا جس سے مہنگائی میں پانچ فیصد اضافہ یقینی ہو گیا ہے ، اس کے برعکس امراءکو ریلیف دینے کے لئے 1800 سی سی سے لے کر 2500 سی سی گاڑیوں کو ٹیکس میں 25 فیصد چھوٹ دیدی گئی۔ اشیائے ضروریہ گھی ، چینی ، تیل وغیرہ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگادی گئی ہے ، صحت کیلئے 21 ارب اور تعلیم کے لئے صرف 25 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرا کے مترادف ہے، اس سے ن لیگ کی تعلیم دوستی اور عوام کی صحت کے بارے میں دلچسپی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پر وگرام کے لئے 75 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے ، اب یہ مسلم لیگ (ن) اپنے ورکروں میں تقسیم کریگی۔ وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر الفاظ کا گورکھ دھندا تھا، اسے عوام نے مسترد کردیا ہے کیو نکہ اس میں عوام کے فائدے کی کوئی بات نہیں تھی۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھی ہے اور ان کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔اسلام آباد میں بجٹ کے اعلان کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھی ہے اور ان افراد کو سہارا دینے کے لیے ملک کے صاحبِ حیثیت افراد کو ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔انھوں نے بتایا کہ ویلتھ ٹیکس لیوی سے حاصل ہونے والی رقم کسی اور مد میں خرچ نہیں کی جائے گی۔ اس رقم سے حاصل ہونے والے آمدن مستحق افراد کو فراہم ماہانہ وظیفے کی صورت میں دی جائے گی۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مستحق افراد کی مدد کے لیے سوشل سکیورٹی پروگرام کے لیے 75 ارب رکھے گئے ہیں اور آئندہ مالی سال میں مستحق افراد کا ماہانہ وظیفہ ایک ہزار روپے سے بڑھا کر 1200 روپے کر دیا گیا ہے۔ قرضے ملک کے معاشی مسائل کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں قرضوں کی مجموعی شرح خام ملکی پیداوار کے 60 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے اور ملک کے غیر ملکی اور ملکی قرضے جی ڈی پی کا 63.5 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت قرضوں میں کمی کرے گی اور اسے کم کر کے جی ڈی پی کے 61.5 فیصد تک لایا جائے گا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ا ±ن کے دور میں قرض چکانے کے لیے مزید قرض نہیں لیا جائے گا اور صرف ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ایسی شرائط پر قرض لیا جائے گا جو ملک کے مفاد میں ہو۔پاکستان میں فکسل ڈیٹ لیمٹیشن قانون کے تحت مجموعی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ سابق حکومت نے قانون کے خلاف ورزی کی ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخوا نہ بڑھانے پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا ’ہمیں معاشی سمت درست کرنا ہے۔ معاشی سمت بہتر ہو گئی تو جن لوگوں کو ابھی کچھ نہیں دے سکے ہیں آئندہ ا ±ن کا خیال رکھیں گے۔ موجودہ حکومت معاشی شرح نمو کو سات سے آٹھ فیصد تک لانے کے لیے کوشاں ہے۔بجٹ میں کیے گئے اقدامات سے چالیس ارب روپے کی بچت ہو گی۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا ملک کو مشکلات سے باہر نکالنے کے تمام قوم کو اپنا فرض نبھانا ہو گا۔اس سے ایک روز قبل وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ انھیں گذشتہ حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے ’ٹوٹی پھوٹی معیشت‘ دیکھ کر افسوس ہوا اور ان کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ معیشت خودکار طریقے یعنی ’آٹو پائلٹ‘ پر چل رہی تھی۔انھوں نے سنہ دو ہزار تیرہ، چودہ کے لیے 3985 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کیا جو کہ گذشتہ سال کے بجٹ کے مقابلے میں 24.4 فیصد زیادہ ہے۔پاکستان کی نو منتخب حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر ایک ہزار ارب سے زائد کی رقم مختص کی ہے۔سالانہ ترقیاتی منصوبے 2013 اور 2014 کے مطابق وفاقی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 540 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 615 ارب روپے ہے۔وفاقی وزیر نے بتایا دو ہزار تیرہ میں پاکستان پر قرضے کا بوجھ 14284 ارب روپے ہوگیا ہے۔اٹھارویں ترمیم کے تحت زیادہ وسائل صوبوں کو منتقل کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبوں کو ترقیاتی منصوبے کے لیے زیادہ فنڈ دیے جا رہے ہیں۔ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 360 ارب روپے تھا۔وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے قومی اسبمبلی میں پیش کردہ بجٹ تجاویز میں دفاعی امور اور خدمات کے لیے چھ سو ستائیس ارب روپے مختص کیے گئے ۔ اس کے علاوہ فوجی اہلکاروں کی پینشن کے لیے اضافی ایک سو بتیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔دفاعی بجٹ کا ہجم مجموعی بجٹ کا بیس فیصد ہے۔اس کے مقابلے میں سویلین حکومت کے اہلکاروں کی تنخواہ اور پینشن کے لیے پچیس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ا ±ن کی حکومت کی کوشش ہوگی کہ پاکستان کی معیشت کا محور نجی شعبہ ہوگا اور مارکیٹ نظام کو مضبوط کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں جائیں گے۔ حکومت صرف ا ±ن شعبوں میں سرمایہ کاری کرئے گی جہاں سرمایہ کاری نجی سیکٹر کے ذریعے نہ ہو سکتی ہو یا معاشی فوائد ہوں۔انھوں نے تھری جی لائنسنسز کی جلد فروخت اور پی ٹی سی ایل کی فروخت کے سلسلے میں واجب الادا اسّی کڑور ڈالر کی وصولی کا بھی اعلان کیا۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مراعات اور چھوٹ کے ذریعے خود انحصاری نہیں حاصل کی جاسکتی۔وفاقی وزیر نے پاکستان ریلوے کو کارپوریشن میں تبدیل کرنے کا اعلان بھی کیا جس میں نوکریوں کو تحفظ حاصل ہوگا۔وفاقی ترقیاتی بجٹ کے تحت آئندہ مالی سال کے دوران توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے اور مجموعی طور پر 225 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ جس میں سے 107 ارب روپے حکومت دی گی جبکہ واپڈا اور پیپکو 118 ارب روپے اپنے ذرائع سے اکٹھے کریں گے۔انھوں نے بتایا کہ چار سو پچیس میگا واٹ صلاحیت والے نندی پور پروجیکٹ کی مشینری تین سال سے کراچی پورٹ پر موجود ہے مگر حکومتی کاغذات کی عدم تیاری کی وجہ سے اس پروجیکٹ کو شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔ ا ±نہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اس پروجیکٹ پر فوری کام شروع کرنے کو ہے۔بڑے آبی ذخائر میں دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 8 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ڈیم بنانے کے لیے زمین کی خریداری کے لیے 17 ارب روپے رکھی گئے ہیں۔ بجٹ میں آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے 59 ارب مقرر کیے گئے ہیں۔ذرائع نقل و حمل کے منصوبوں کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 105 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جن میں سے پاکستان ریلوے کا ترقیاتی بجٹ کا حجم31 ارب روپے ہے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی NHA کے لیے 63 ارب روپے رکھیں گئے ہیں۔وفاقی بجٹ میں تعلیمی منصوبوں کی تعمیر کے لیے 25 ارب روپے اور بہبودِ آبادی اور صحتِ عامہ کے لیے بھی 25 ارب روپے مختص کیے ہیں۔سالانہ ترقیاتی پروگرام میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 43 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ترقیاتی بجٹ میں سابق حکومت کے پیپلز ورک پروگرام کو تعمیر پاکستان پروگرام میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور تعمیرِ پاکستان پروگرام کے لیے 5 ارب روپے رکھیں گئے ہیں جبکہ پیپلز روک پروگرام ٹو کے صوابدیدی فنڈ ختم کر دئیے گئے ہیں۔اے پی ایس