بدعنوانی اور بدعنوانوں کا انتخاب۔چودھری احسن پر یمی



وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی سیکرٹریوں کو ایک خط کے ذریعے کہا ہے کہ سرکاری اداروں میں بدعنوان افسران اور ملازمین کی کوئی گنجائس نہیں اس لیے ان کی ملازمت سے متعلق معاہدات کو منسوخ کیا جائے۔بدعنوانی کے خاتمے کو حکومت کی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ عوام کو سہولت فراہم کرنے میں بدعنوانی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ خط کے مسودے میں نواز شریف کہتے ہیں ”آپ تمام اپنے اپنے محکموں کے افسران اور ملازمین کو پیشہ ورانہ انداز میں اپنی ذمہ دایاں نبھانے کی ہدایت کریں۔ موجودہ صورت حال میں بدعنوانی اور غیر شفافیت کی کوئی گنجائش نہیں“۔انھوں نے کہا ان افسران کو ہٹا دیا جائے جو کہ ”بدعنوان“ ہیں یا جو ”غیر فعال کارکردگی کی شہرت“ رکھتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی کارروائی قواعد و ضوابط اور قانون کے تحت ہونی چاہیئے۔اگرچہ عوام نے وزیر اعظم کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا۔”کسی افسر کی بد عنوانی کو ثابت کرنا ضروری ہے ورنہ سارے لوگ سپریم کورٹ چلے جائیں گے اور یہ قصہ چلتا رہے گا۔ یہ چیز اس سے پہلے بھی ہوئی اور سابق حکومت نے چھ ہزار لوگوں کو نوکریوں پر بحال کیا کیونکہ انھیں غیر قانونی طور پر نکالا گیا تھا اور حکومت کے خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ پڑا، تو ایسا دوبارہ ہوا تو فائدے کی بجائے نقصان ہوگا۔“ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے گزشتہ سال اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کے سرکاری محکموں میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً سات ارب روپے کی بدعنوانی ہوتی ہے۔ اس وقت کی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے اس رپورٹ کو بے بنیاد اور ان اعداد و شمار کو مسترد کیا تھا۔ موجودہ حکومت کا مقصد صرف ”نا پسندیدہ افسران“ کے خلاف کارروائی نہیں ہونا چاہیئے۔اگر یہ کارروائی شفاف اور مساوی بنیادوں پر ہوگی اور اس بارے میں کوئی معیار ہو اور تمام دنیا کو معلوم ہو کہ یہ کس بنیاد پر ہو رہی ہے تو ٹھیک ہے۔ مگر یہ کارروائی نا پسندیدہ افسران کے خلاف ہو گی تو یہ قابل قبول نا ہوگی۔“بد عنوانی کے خاتمے کے لیے حکومت کو سرکاری محکموں میں تقرریاں صرف میرٹ کی بنیاد پر کرنا ہونگی۔وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خط میں کہا ہے کہ عوام نے ان کی جماعت کو حالیہ انتخابات میں ووٹ اس بنیاد پر دیے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آنے کے بعد بدعنوانی کا خاتمہ کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ خط میں دی گئی ہدایات پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتے ہوئے تمام سرکاری محکموں میں اچھی شہرت والے افسران کی تقرری کی جائے۔وزیر اعظم نواز شریف کو سرکاری افسروں کے علاوہ اپنی حکومت میں شامل وفاقی وزراءکو بھی خبردار کرنا ہوگا کہ کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں کیو نکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے باہر ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر نے وفاقی وزیر بجلی خواجہ آصف سے سوال کیا کہ جب آپ اپوزیشن میں تھے تو آپ نے منگلا کرپشن کی نہ صرف نشاندہی کی تھی بلکہ اس کام کو رکوا دیا تھا جبکہ اب وفاقی وزیر بنے ہیں تو آپ نے منگلا کرپشن کیس کو کلیر کردیا ہے اگرچہ اس موقع پر خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نشاندہی کریں ہم اس کا تدارک کریں گے لیکن وزیر اعظم نواز شریف سے گزارش ہے کہ وہ منگلا کرپشن کیس کا خود مشاہدہ کریں اگر خواجہ آصف اس کیس کو کلیر کرنے میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف بھی کاروائی کریں جو موجودہ حکومت کی بدنامی کا باعث بننے جارہے ہیں۔کیو نکہ نواز شریف اس سے پہلے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزراءکو پندرہ روز میں اپنے لیے اہداف کا تعین کی ہدایت کرتے ہوئے انھیں متبنہ کر چکے ہیں کہ ”ناقص کارکردگی“ دیکھانے پر ا ±نھیں وزارت سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے وزراءکو ہدایت دی ہے کہ وہ آئندہ 15 روز میں اپنی اپنی وزارتوں میں بہتری کے لیے اہداف طے کر لیں اور اطمینان بخش کارکردگی نا دیکھانے والے وزراءکی کابینہ میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔حلف اٹھانے کے بعد وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں کہا تھاکہ وزارتوں کے طے کردہ اہداف اور ان کی تکمیل کے لیے متعین وقت کا جائزہ لینے کے بعد ہی ان کی منظوری دی جائے گی۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اہداف پر پیش رفت سے متعلق جائزہ ہر تین ماہ کے بعد لیا جائے گا۔”غیر سنجیدہ رویے سے اب کام نہیں چلے گا۔ ہمیں اس نظام میں نئی روح پھونکنی ہوگی اور وہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک (کے بارے میں) نا سوچیں اور صرف پاکستان کے مسائل پر نظر رکھتے ہوئے عہد نا کریں کہ ہمیں انہیں جلد از جلد حل کرنا ہے“۔انھوں نے اجلاس میں یہ واضح کیا کہ ان کی جماعت کو عوام نے جو ذمہ داری سونپی ہے وہ ”اسے پورا کرنے میں ناکام نہیں ہونا چاہتے“۔”یہ میرا کوئی ذاتی کام نہیں، قومی کام ہے، قومی ذمہ داری ہے…ایک ایک ممبر کو منشور پڑھنا چاہیے۔ ایک ایک سطر پڑھیں۔ اس میں آپ کے شعبے کے بارے میں سب کچھ لکھا ہے۔“نواز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کو غربت و افلاس، شدت و انتہا پسندی، معاشی بدحالی، توانائی کے بحران، بد عنوانی اور عالمی سطح پر تنہائی جیسے ”سنگین مسائل“ کا سامنا ہے۔انھوں نے وزراءپر زور دیا تھاکہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ نا وہ خود بدعنوانی میں ملوث ہوں اور نا ہی کسی دوسرے کو ایسا کرنے کی اجازت دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔”لوگوں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے جو (انتخابی مہم میں) کہا اسے لوگوں نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ یہ مینڈٹ معمولی بات نہیں۔ اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی کمر باندھ لیں اور سنجیدگی کے ساتھ ان ’غیر معمولی‘ چیلنجوں کا مقابلہ کریں۔پاکستان اسٹیل ملز اور قومی فضائی ائیر لائن ’پی آئی اے‘ جیسے بڑے اداروں کو فعال بنانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے علاوہ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کو ان اداروں کے مالی خسارے سے بچانے کے لیے ان کی نجکاری بھی کی جا سکتی ہے۔اے پی ایس