قومی سلامتی پالیسی کا المناک نتیجہ۔چودھری احسن پر یمی



گزشتہ دنوں وزیر اعظم نواز شریف نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا تفصیلی دورہ کیا جس میں انہیں ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔یہ نواز شریف کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) ہیڈ کوارٹر کا پہلا دورہ تھا۔وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ہمراہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا جہاں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالسلام نے انہیں ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بریفنگ دی۔ذرائع کے مطابق چار گھنٹے تک جاری رہنے والی اس بریفنگ میں وزیراعظم کو دیگر افراد سے علیحدہ ایک اور بریفنگ دی گئی۔اس موقع پر وزیراعظم نے بھی عسکری حکام کو انسداد دہشت گردی اور ملکی سلامتی کے حوالے سے حکومتی پالیسوں سے آگاہ کیا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ۔ دہشتگردی کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے سول وملٹری اداروں میں تعاون بڑھانا ہو گا۔ وزیر اعظم اور عسکری حکام کے درمیان نئی سیکیورٹی پالیسی اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی مشاورت کی گئی۔جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب اسامہ بِن لادن کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مزید تجزیے سے، معلومات کے بعض نئے پہلو بھی سامنے آئے ہیں، رپورٹ کا ایک پہلو نہایت بیش قیمت ہے کہ پاکستان میں سول ۔ فوج تعلقات کی صورتِ حال کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔جنرل ریٹائرڈ پاشا نے جس انداز سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی عناصر کے بارے میں بیان دیا، شاید ہی یہ بعض کے لیے حیران ک ±ن ہو۔سویلین عناصراور فوج کی زیرِ قیادت سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو دوری موجود ہے، وہ سب پر عیاں ہوگئی ہے۔اگر ریاست کا غیر فوجی حصہ، سویلین سلامتی سے متعلق معاملات طے کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہیں تو پھر فوجی قیادت بھی اپنا رویہ تبدیل کر لے گی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پورے سول ۔ فوج تعلقات میں اب بھی ایک طرف تکبر غالب ہے تو دوسری جانب نااہلی موجود ہے۔مقامی سطح پر کہ جہاں وہ جنم لیتے ہیں، محدود نوعیت کے مقاصد کے حصول کے واسطے پالیسیاں، وہ عمل ہے جس کے ہوتے ہوئے قیادت قومی مفاد کے نقطوں کو باہم منسلک نہیں کرسکتی۔ساتھ ہی حکمتِ عملی، کارروائی، اور تکنیکی صلاحیتوں کا فقدان، یہ سب وہ عناصر ہیں کہ جنہیں منصفانہ اور بجا طور پر توخود آرمی سے منسوب کہا جاسکتا ہے۔قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اورمسلح افواج پر اختیار کا حقیقی معنوں میں صرف اس وقت ہی احساس ہوگا جب سویلین خود اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پاشا نے ایبٹ آباد کمیشن کے روبرو جس سخت لب و لہجے میں سویلین کی ناکامیوں اظہار کیا، وہ سب درست ہیں۔سویلین جب تک اپنے نظام میں بہتری نہیں لائیں گے، تب تک یہ ناممکن ہے کہ فوج رضا کارانہ طور پر اپنے اختیارات انہیں سونپ دے گی۔ریاست کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے، اس کے متبادل ایک نئی قومی پالیسی یا نیشنل آرڈر تشکیل دیا جاسکتا ہے لیکن بھانک خواب کے منظر نامے میں، اس پر غور کرنا نہایت خوفناک ہے۔دہشت گردی اس وقت ملک کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے اور یہ بات اطمینان بخش ہے کہ نوازشریف حکومت اسے سنجیدگی سے حل کرنے کے لئے بروقت دوررس اقدامات کررہی ہے۔اس ضمن میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی پرقابو پانے کے لئے ایک قومی سلامتی پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے کانفرنس میں شرکت کے لئے تمام پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کو دعوت نامے جاری کئے گئے ۔ وزیرداخلہ نے اس سلسلے میں ٹیلیفون پربھی ان سے رابطے کئے ۔ کانفرنس کے ایجنڈے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، بلوچستان کی صورت حال اور امریکی ڈرون حملوں پر غوروخوض شامل ہے جس کی روشنی میں ملک میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کانفرنس کے شرکا کو قومی سلامتی کے امور پر بریفنگ جس میںملک میں امن و امان کی
صورت حال پچھلے کئی سال سے انتہائی خراب ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کے آلہ کار جب اور جہاں چاہتے ہیں تباہی پھیلا دیتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری سکیورٹی ایجنسیاں انہیں روکنے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی حقوق کے نام پر ملک سے علیحدگی کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔جبکہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے پوری کررہے ہیں جن سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ان پرآشوب حالات میں قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے لئے سیاست دانوں سے مشاورت ایک خوش آئند اقدام ہے۔ اس کے لئے کل جماعتی کانفرنس ہی ایک مناسب فورم ہوسکتا تھا جس کا حکومت نے اہتمام کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کانفرنس سے ملک کے امن و سلامتی کو لاحق اندرونی و بیرونی تمام خطرات سے نمٹنے کے لئے تفصیلی غوروخوض کے بعد متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی دومرتبہ کانفرنسیں ہوچکی ہیں مگر ان کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہ ہوسکا ۔وزیرداخلہ سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں۔ کانفرنس میں ان کے مجموعی کردار کا جائزہ لے کر ان کی کارکردگی موثر بنانے کی تجاویز سامنے لائی جائیں اور ضروری ہوتو قانون سازی بھی کی جائے۔ قوم کے ایک انتہائی اہم مسئلے پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس کو ملک کے محفوظ ا ور پرامن مستقبل کا ذریعہ بنایا جائے۔اے پی ایس