نئی قومی پالیسی اور حکومت کو درپیش چیلنج۔چودھری احسن پر یمی



حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی پالیسی پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت سے قبل اس موضوع پر ایک پالیسی مسودہ تیارکرلیاہے جو کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔اس سے پہلے حکومت سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی بنیاد پر پالیسی تیار کرنے کا ارادہ رکھتی تھی تاہم وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے اصرار پر وزیراعظم نواز شریف نے پالیسی کا مسودہ پہلے تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بارہ جولائی کو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس اب اس ماہ کے آخر میں منعقد کی جائے گی۔ فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ اس کانفرنس سے قبل مزید ہوم ورک کیا جائے تاکہ کل جماعتی کانفرنس کے سامنے یہ تجاویز بحث کے لیے پیش کی جا سکیں۔ مسلح گروہوں کے ساتھ کس سطح پر اور کس طرح بات کی جائے اس بات کا فیصلہ کل جماعتی کانفرنس میں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اسی پالیسی مسودے کی تیاری کے سلسلے میں مختلف اداروں، شخصیات اور طبقہ ہائے فکر کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے تجاویز تیار کر رہے ہیں۔ سرکاری افسران نے موجودہ حکومت کو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی ’قومی سلامتی پالیسی‘ کے نام پر ایک دستاویز تیار کر کے دی تھی جسے چوہدری نثار علی خان نے، پرانی اور غیر متعلقہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ وزیرِ داخلہ بعض نئی اور ٹھوس تجاویز اس پالیسی میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے وزیراعظم اپنے وزیر داخلہ کے ہمراہ مختلف اداروں اور افراد سے تجاویز اکٹھی کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف چاہتے ہیں کہ ملکی دھارے میں شامل تمام فریقوں سے مشاورت کے بعد ایک پالیسی بنائی جائے جس کو پھر کل جماعتی کانفرنس کے سامنے بحث کے لیے پیش کیا جا سکے۔وزیراعظم دانشوروں اور سیاستدانوں سے مشاورت کر رہے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن اصل مشورہ تو انہیں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ کرنا ہے جنہوں نے اس پالیسی پر عمل ممکن بنانا ہے اور وزیراعظم کا آئی ایس آئی کے صدر دفتر کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ اس پالیسی کی تیاری کے سلسلے میںحکومت کو فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔جبکہ ’چوہدری نثار نے بتایا کہ بری فوج کے سربراہ نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ تمام قومی ایشوز پر فوج اور اس کے ادارے حکومت کی مکمل حمایت کریں گے اور حکومت کی پالیسی ہی فوج کی پالیسی ہو گی۔ جبکہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام صوبوں کی مشاورت سے انسداد دہشتگردی و انسداد انتہا پسندی پالیسی کو جلد حتمی شکل دی جائے۔وزیراعظم نوازشریف نے انسداد دہشت گردی پر موثر حکمت عملی وضع کرنے کے لئے سویلین اور فوجی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دمیان مشاورت کے لئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔گزشتہ جمعہ کو یہاں پاکستان سیکرٹریٹ میں وزارت داخلہ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ کے موقع پر، وزیراعظم نے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے ایک قابل عمل اور جامع آپریشنل پلان کے لئے تیاری کی ہدایت کی۔انہوں نے زور دیا کہ امن کی بحالی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے، انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشتگردی کے حملوں کو روکنے کے لئے ٹھوس انٹیلی جنس فراہم کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں کام کرنا ہے اور ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے۔ تمام سیکیورٹی ایجنسیوں کو قومی مفادات کو یقینی بنانے کے لئے اشتراک کی ضرورت ہے۔ملک کو درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے ہمیں دہشتگردی، جرائم کے سدباب اور نگرانی کیلئے خصوصی فورسز تیار کرنا ہو گی۔انہوں نے یقین دلایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مدد دینے کے لئے مناسب فنڈز فراہم کئے جائیں گے تاہم انہوں نے مطالبہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عوام اور حکومت کی توقعات پر پورا اترنا ہو گا۔وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ صوبائی حکومتوں کو ملک دشمن اور دہشتگرد عناصر کے خلاف لڑائی کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔سرحدوں کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے زور دیا کہ فاٹا اور ملک کے دوسرے حصوں میں غیر ملکیوں کے داخلے کو روکنے کے لئے کوششیں کی جائیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چینی اور دیگر غیر ملکی کوہ پیماو ¿ں کے قاتلوں کا سراغ لگایا جائے گا کیونکہ یہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔انہوں نے قوم کو شاندار خراج تحسین پیش کیا جس نے دہشتگردی کی کارروائیوں کے باوجود دہشتگردوں کا سامنا کیا۔ انہوں نے دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں سیکیورٹی فورسز، عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کی قربانیوں پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ میں ہزارہ کمیونٹی کی ان ماو ¿ں اور بیٹیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے کوئٹہ میں دہشتگردی کے خلاف آواز بلند کی۔سیکرٹری داخلہ نے وزیراعظم کو سلامتی کی مجموعی صورتحال اور صوبوں کے درمیان رابطوں کی مضبوطی کے لئے داخلہ ڈویژن کے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی سرتاج عزیز، ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق، وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی پر قابو پانے کے سابق حکومت کی تھری ڈی پالیسی کو تبدیل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں نیشنل کاو ¿نٹر ٹیررازم اتھارٹی یعنی ’نیکٹا‘ نے نئے قومی لائحہ عمل یا پالیسی کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔مسلم لیگ نون کی حکومت پر اقتدار میں آنے کے بعد سے انگلیاں اٹھائی جانے لگی تھیں کہ وہ نیکٹا جیسے ریاستی اداروں کو فعال کرنے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی منصوبہ یا نقش راہ نہیں ہے۔جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے فوج کی مشاورت سے تھری ڈی پالیسی کا اعلان کیا تھا جو ڈائیلاگ (مذاکرات)، ڈیٹرنس (طاقت کے استعمال کا خوف ) اور ڈیویلپمنٹ (ترقی) پر مشتمل تھی لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ اس پالیسی کی کامیابی محدود رہی اور اس کی مدد سے شدت پسندی کے مسئلہ پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکا۔کہا جا رہا ہے کہ نیکٹا‘ نئی پالیسی کی تیاری میں کافی عرصے سے مصروف ہے اور اس نے صحافیوں، دانشوروں، پولیس اہلکاروں، سابق شدت پسندوں اور متاثرہ علاقوں کے لوگوں سے بات چیت کے بعد یہ پالیسی تیار کی ہے۔دستاویز کے مطابق نئی قومی انسدادِ دہشتگردی پالیسی کا جو پہلا بنیادی مسودہ تیار کیاگیا ہے اس میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنا (ڈس مینٹل)، انہیں ایک مخصوص جگہ محدود کرنا (کنٹین)، شدت پسندی کو روکنا (پریوینٹ)، عوام کو آگاہ کرنا (ایجوکیٹ) اور شدت پسندوں کو معاشرے میں دوبارہ شامل کرنے (ری انٹیگریٹ) جیسے مراحل کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس پانچ نکاتی پالیسی میں ضلع کی سطح پر خفیہ معلومات کو اکٹھا کرنے، پولیس کو مضبوط کرنے اور ملزموں کو جلد اور فوری سزایں دلوانے، ثبوت فراہم کرنے والوں کو تحفظ دینے کے لیے متعلقہ شعبوں پر مربوط انداز میں توجہ دینے کی بات کی گئی ہے۔مجوزہ پالیسی میں معاشرے کے مفید شہری کے طور پر بحالی کے لیے سابق جہادی رہنماو ¿ں اور جیلوں میں قید شدت پسندوں سے مشورہ کر کے حکمت عملی تیار کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔بعض مبصرین اسے ماضی کی پالیسی سے زیادہ جامع قرار دے رہے ہیں جو نئی حکومت کو روڈ میپ تیار کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق جس انداز سے شدت پسندی نے پاکستانی معاشرے میں وسیع پیمانے پر جگہ بنائی ہے اس کے جڑ سے خاتمے کے لیے کافی جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے نیکٹا کو سنہ دو ہزار نو میں قائم کیا تھا لیکن بہت لوگوں کو شکایت ہے کہ اس سے وہ کام نہیں لیا گیا جس کے لیے یہ بنایا گیا تھا۔ اس پالیسی کے قیام سے محسوس ہوتا ہے کہ اس ادارے نے اس دوران کم از کم سوچ بچار کا عمل جاری رکھا ہے۔نئی قومی سلامتی کی پالیسی کے حوالے سے ماہرین تجزیہ کار اور قومی اداریوں میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہایبٹ کمیشن کی رپورٹ نے ملک کی قومی سلامتی کو لاحق مسائل کے سنجیدہ اور سادہ تجزیے کے واسطے کئی نکات بھی پیش کیے ہیں۔خاص طور پر کمیشن نے سفارشات کی شکل میں، پاکستان کو داخلی اور بیرونی سطح پر، مستحکم قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے روڈ میپ بھی فراہم کردیا ہے، جسے صاحبانِ اختیار کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔اول اور سب سے پہلی سفارش فوج اور سول ماتحتی میں قائم مختلف انٹیلی جنس اداروں کے درمیان موثر رابطوں کی ضرورت پر ہے۔ یہ تو سب ہی کے علم میں ہے کہ موجودہ تعاون کی بنیاد عارضی اور منتشر بنیادوں پر استوار ہے اور یہ صورتِ حال بار بار خود کو د ±ہراتی بھی رہتی ہے۔عدم اعتماد نہایت گہرا ہے، گروہی تناو ¿ خاصا شدید اورغالب انٹیلی جنس ادارے سادہ سے انداز میں سول ماتحتی، یا پھر حقیقی شراکت دار،ریاست کے شہریوں کے نمائندوں کےساتھ کام کرنے پر تیار نہیں۔ اگرچہ اب تک یہ تو واضح نہیں کہ کتنا آگے جانا ہے لیکن یہ صورتِ حال تبدیل ہونی چاہیے۔ شاید قابلِ فہم نقطہ آغاز مضبوط سویلین قیادت ہوگی۔پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی حکومت ایک دوسرے کے ساتھ چلنے اورجہاں درکار ہو وہاں چاپلوسی کے ساتھ، اس دَر پر دستک دینے کی کوشش کے لیے آمادہ نظر آتی ہے،ایسا ضروری تو سہی مگر مناسب صورت نہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر کیا کچھ درکار ہے، یہ ایک بامقصد حکمتِ عملی ہوگی۔مثال کے طور پر، ایبٹ آباد کمیشن کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے وزارتِ داخلہ کی ماتحتی میں کام کرنے کا امکان بڑی حقارت سے مسترد کردیا تھا، تو جیسا کہ ریٹائرڈ جنرل پاشا کہہ چکے، کیا اب حکومت انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تعاون کی حکمتِ عملی کے نقطہ آغاز کے طورپر، وزارتِ داخلہ کو مضبوط تر اور مستحکم کرسکتی ہے؟۔جواب اس حقیقی اصول میں پوشیدہ نظر آتا ہے کہ وزیرِ اعظم، آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، تینوں سر جوڑ کر بیٹھیں اورعملی کمانڈ کے بارے میں ازسرِ نو غور کریں۔ سول بالادستی صرف ایک نظریہ یا تصورنہیں، یہ ایک ضرورت ہے۔دوسرا قدم یہ ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کی نگرانی کے لیے پارلیمنٹ اپنا وسیع تر کردار ادا کرے۔نگرانی کے اس دوسرے قدم کے طور پر، منتخب اراکینِ پارلیمنٹ کی قبولیت اور ان پر اعتماد کا معاملہ تو پہلے سے ہی تاخیر کا شکار ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض حکومتی اداروں یا اگر ان سب کا مجموعی وزن بھی پلڑے میں ڈال دیا جائے تب بھی پارلیمنٹ کا پلڑا ان سب سے بھاری ہوگا۔ضروری ہوگا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے انٹیلی جنس، تمام تر جماعتوں کے نمائندہ پارلیمانی اراکین پر مشتمل ہو اور یہ کمیٹی منتخب اراکین کی متفقہ آمادگی کے اظہار کے واسطے راہ ہموار کرے۔ایک بار پھر آگے بڑھنے کے لیے شاہراہ ہمارے سامنے ہے، کیا عوام کے نمائندے آگے بڑھنے پر آمادہ ہوں گے؟۔اے پی ایس