چودھری نثار کا نتیجہ خیز حکمت عملی کا فیصلہ۔چودھری احسن پر یمی



پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمتِ عملی کے بعض خد و خال کا اعلان کرتے ہوئے ملک سے اس لعنت کے مکمل خاتمے کے عزم کو دہرایا ہے۔وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت کی فی الوقت صرف ایک خواہش ہے کہ ”خطے میں امن آئے، پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت ہو۔“ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت اپنی پالیسی وضع کرنے میں مصروف ہے اور اس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں اور قوم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ مجوزہ پالیسی جامع ہو گی اور اس کے دو مرکزی جز ہوں گے۔ ایک جز اندرونی معاملات جب کہ دوسرا بیرونی اور اسٹریٹیجک معاملات کا احاطہ کرے گا۔ مختلف اداروں کی جانب سے اکھٹی کی جانے والی خفیہ معلومات کے جائزے اور ان کے تناظر میں ضروری اقدامت کے لیے ان کا مشترکہ مرکز ”جوائنٹ انٹیلی جنس سکریٹیریٹ‘ قائم کیا جا رہا ہے، جہاں تمام سول و عسکری خفیہ اداروں کی معلومات کا جائزہ لیا جائے گا۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ”اس کی ہم جدید خطوط پر تشکیل کر رہے ہیں … ا ±دھر بیک وقت ہزاروں تجربہ کار لوگ 24 گھنٹے کام کر رہے ہوں گے۔“جبکہ خطرات سے متعلق معلومات موصول ہونے پر ان کے خلاف فوری کارروائی کے لیے خصوصی فورس بھی تشکیل دی جائے گی، جس میں ابتدائی طور پر 500 اہلکار شامل ہوں گے۔اس ضمن میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے۔ا ±نھوں نے وزارت داخلہ کا دورہ کیا جہاں ا ±نھیں انسداد دہشت گردی سے متعلق نئی مجوزہ پالیسی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ا ±نھوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ نئی پالیسی میں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر طریقہ کار وضع کیا جائے اور اس ضمن میں وزیر اعظم نے وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطے کے مربوط نظام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی صرف ایک علاقے تک محدود نہیں اس لیے ملک میں قیام امن اور استحکام کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ملک میں حالیہ ہفتوں میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔موجودہ حکومت دو ماہ قبل اقتدار میں آنے کے بعد ہی سے یہ کہتی آئی ہے کہ ملک میں امن و امان کا قیام اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے حکومت نے ایک اجلاس بھی منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد ازاں اسے موخر کر دیا گیا۔حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں خصوصاً صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے ہلاکت خیز واقعات پیش آئے ہیں جن میں اعلیٰ پولیس افسران سمیت 50 سے زائد ہلاک ہوئے۔ایسے واقعات کے تناظر میں حزب مخالف اور بعض ناقدین کی طرف سے قومی سلامتی کی پالیسی وضع کرنے میں تاخیر پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تاہم اس تنقید کو رد کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف پالیسی اعلان نہیں کرنا چاہتی بلکہ ان کے بقول نتیجہ خیز حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ ا ±دھر وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور ا ±مور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ حکومت مکمل کامیابی حاصل ہونے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے انکشاف کیا ہے کہ دہشت گرد انٹیلی جنس اداروں سے بہت آگے چلے گئے ہیں،بارہ کہو کی مسجد پر حملہ کرنے والوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد لی جس میں کیمرے والے چشموں کا استعمال بھی شامل تھا،ایسے لوگوں سے نمٹنا کوئی مذاق نہیں۔ دہشت گرد بہت آگے چلے گئے ہیں، مسجد پر حملے میں پڑھے لکھے لوگ ملوث تھے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ کارروائی کرنے کی کوشش کی،بال بیرنگز لیپ ٹاپ میں رکھ کر لائے تھے،اس واقعے میں ایک لڑکی سمیت آٹھ نوجوان شریک ہوئے،کیمرے والے چشموں سے مسجد کی تصاویر بنائیں، یہ تو صرف آٹھ لوگوں کا گروپ تھا،ان سے بڑے بڑے دہشت گرد گروہ موجود ہیں ،جن سے نمٹنا مذاق نہیں۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مذاکرات یا فوجی کارروائی پر چوہدری نثار نے کہا کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے پوری قوم کا متفق ہونا ضروری ہے،چاہتے ہیں کہ معاملات بات چیت سے حل ہوجائیں ،لیکن اگر جنگ کرنا پڑی تو دل وجان سے ہوگی۔ سری لنکا کی مثال دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وہاں سنہالی تامل باغیوں سے جنگ لڑ رہے تھے،یہاں تو سامنے والوں کی شکلیں بھی ہمارے جیسی ہی ہیں،ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس لیول کو بڑھا نا پڑے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کو دو حصوں میں تقسم کیا گیا ہے۔پہلے حصے میں ایک داخلی پالیسی جس میں سرفہرست انسداد دہشت گردی پالیسی ہے اور اس کا اعلان پہلے مرحلے میں کیا جائے گا۔نیشنل سکیورٹی پالیسی کے دوسرے حصے میں سٹریٹیجک اور بیرونی نتائج پر مبنی ہو گی۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ منگل کو وزارت داخلہ کا دورہ کیا جہاں انھیں ملک کی نئی سکیورٹی پالیسی کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بعد میں وزیراعظم کو دی جانے والی اس بریفنگ کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ’فوری ضرورت داخلی پالیسی کی ہے جس میں زیادہ توجہ ایک ایسے ادارے کے قیام پر ہے جو ملک کی مجموعی سکیورٹی صورتحال کی نگرانی بھی کرے اور کوارڈینٹر بھی کرے اور مجموعی صورتحال کو بھی دیکھے اور اس ادارے کا نام نیکٹا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیکٹا گزشتہ دورِ حکومت میں قائم کیا گیا لیکن ابھی تک غیرفعال ہے اور اس کا ابھی تک سربراہ اور نائب سربراہ بھی نہیں تھا لیکن اب سکیورٹی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے نیکٹا کو فعال بنایا جائے گا اور قانون سازی کے مطابق نیکٹا کے تمام خالی عہدوں پر اہلکار تعینات کرنے کے لیے اشتہار دیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کی تمام خفیہ اور سکیورٹی ایجنسیوں پر مشتمل ایک مشترکہ انٹیلی جنس سیکریٹریٹ قائم کیا جا رہا ہے۔گزشتہ دنوں کوئٹہ کی پولیس لائن میں خودکش حملے کے بعد وزیرِاعظم نے وزیرِ داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ تیس اگست تک انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی کے مسودے کو حتمی شکل دے دیں۔اس ضمن میںاے پی سی کے ایجنڈے کے چار بنیادی نکات بھی سامنے ہیں کہ کیا اسی پالیسی پر گامزن رہا جائے کہ جب بھی کوئی حملہ ہو تو ردعمل ظاہر کیا جائے؟۔کیا ڈائیلاگ / مذاکرات کیے جائیں ؟۔کیا سخت ردعمل ظاہر کیا جائے جس میں فوجی کارروائی بھی شامل ہو؟۔کیا فوجی کارروائی اور ڈائیلاگ دونوں کو ساتھ ساتھ رکھا جائے؟۔خیال رہے کہ حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کا کام شروع کیا تھا۔حکومت سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی بنیاد پر پالیسی تیار کرنے کا ارادہ رکھتی تھی تاہم وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے اصرار پر وزیراعظم نواز شریف نے پالیسی کا مسودہ پہلے تیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔وزیر داخلہ نے بتایا کہ قانون سازی کے لیے سیاسی اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا جس کے لیے بنیادی امور طے کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے لیے کام تکمیل کے قریب ہے اور اسی ماہ میں کانفرنس کا انعقاد ہوگا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ جس نقطے پر تمام جماعتیں متفق ہوں گی اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو پوری قوم کا اتفاق ہونا چاہیے اور اگر فوجی کارروائی کرنی ہے تو اس پر بھی پوری قوم کا اتفاق ہونا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں فوجی قیادت کی طرف سے سیاسی قیادت کو بریفنگ بھی دی جائے گی۔چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ ڈرون حملوں پر مشترکہ پالیسی کی تشکیل بھی اے پی سی کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔بعض سرکاری افسران نے موجودہ حکومت کو اس عمل کے ابتدائی دنوں میں ’قومی سلامتی پالیسی‘ کے نام پر ایک دستاویز تیار کر کے دیا تھا جسے چوہدری نثار علی خان نے پرانا اور غیر متعلقہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھاملک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومت کو پالیسی اور سفارشات دینے والی اتھارٹی نے گزشتہ پانچ سال کے دوران ایک دستاویزی فلم اور ایک تحقیقی مقالہ تیار کیا جبکہ یہ اتھارٹی اب تک پینتالیس کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر چکی ہے۔اس ضمن میں چودھری نثار کو اس اتھارٹی کا بھی قبلہ درست کرنا ہوگا۔شدت پسندی اور دہشتگردی سے متعلق یہ دستاویزی فلم ایک غیر سرکاری تنظیم کی مدد سے شدت پسندی سے متاثرہ علاقے سوات میں تیار کی گئی ہے جس کا دورانیہ پچیس منٹ ہے جبکہ تحقیقی مقالہ بھی اس علاقے سے متعلق تیار کیاگیا ہے۔اس بات کا انکشاف وزارت داخلہ سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کیاگیا تھا جس میں نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی یعنی قومی انسداد دہشتگردی اتھارٹی کے ارکان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس ادارے نے اب تک یہ دستاویزی فلم اور مقالہ حکومت کے متعلقہ حکام کو فراہم کر دیا ہے۔قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے بتایا کہ متعلقہ اتھارٹی اور حکومت سے اس اتھارٹی کی قانونی حثیت کے بارے میں تفصیلات طلب کی گئی ہیں اور اس ضمن میں سیکرٹری قانون کو اجلاس میں طلب کیا گیا ا ±نہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ اتنی رقم کہاں خرچ کی گئی اور اس کے نتائج کیا سامنے آئے ہیں۔سینیٹر طلحہ محمود کے مطابق قومی خزانے کے ضائع ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔لیکن تاحال یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ ان کے خلاف کیا کاروائی ہوئی۔ اگرچہ اب گزشتہ حکومت کی وفاقی کا بینہ کے اجلاس میں قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی مجریہ دو ہزار بارہ کے بل کے مسودے کی منظوری دی گئی ہے جس میں اس اتھارٹی کے ضابطہ کار اور طریقہ کار طے کیاگیا ہے۔ جسے بعد ازاں قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جاچکا ہے۔قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کا قیام سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے زبانی احکامات کی روشنی میں سنہ دوہزار آٹھ کو عمل میں لایا گیا تھا اور وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی آے کے سابق سربراہ طارق پرویز کو اس اتھارٹی کا پہلا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا بعدازاں ا ±نہوں نے اس عہدے سے مستفی ہوگئے تھے۔ قائمہ کمیٹی نے اس اتھارٹی کے سابق چیئرمین کو بھی اجلاس میں طلب کیا تھا۔قومی انسداد دہشتگردی اتھارٹی کا مقصد شدت پسندی کو روکنے کے لیے دیگر ممالک میں رائج قوانین کا مطالعہ کرکے اور حقائق کو سامنے رکھ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پالیسی تیار کرکے دینا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق اس اتھارٹی کے قیام سے لےکر آج تک متعلقہ حکام نے کوئی پالیسی نہیں دی جبکہ اس کے ارکان متعدد ممالک کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ اس اتھارٹی میں کام کرنے والے زیادہ افراد کی تعداد کا تعلق پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔اے پی ایس