وفاقی درالحکومت عدم تحفظ کا شکار۔اے پی ایس رپورٹ



اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہتھیار لیکر داخل ہونے والے شخص سکندر کو آخر کار پانچ گھنٹے بعد پولیس نے زخمی حالت میں گرفتار کرلیا۔ اس کے پاوں میں دو گولیاں لگیں جبکہ زمین پر گرنے کے سبب اس کی ناک پھٹ گئی تھی۔ مسلح شخص کا نام محمد سکندر حیات ملک ہے۔ ایس ایس پی اسلام آباد ڈاکٹر رضوان کے مطابق سکندر کو پمز اسپتال منتقل کردیا گیا، جبکہ اس کی کار اور بیوی بچوں کو بھی پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا ہے۔سکندر جمعرات کی شام چھ بجے سے اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کار میں بیٹھا تھا۔اسے پولیس کو اپنی جانب سے دیئے جانے والے تحریری مطالبات کے پورا ہونے کا انتظار تھا جس میں تقریباً پانچ گھنٹے گزر گئے تھے۔ پولیس وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر اسے زندہ گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ اسی لئے پانچ گھنٹے کا وقت صرف ہوا۔ سکندر اور اس کے بیوی بچے مسلسل کئی گھنٹوں تک کار میں بیٹھے رہنے کے بعد چہل قدمی کی غرض سے کافی دیر تک ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی زمرد خان نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکندر کے قریب جانے کی کوشش کی۔ زمرد خان نے سکندر کو یقین دلایا تھا کہ وہ غیر مسلح ہیں اور اس کے بچوں سے ہاتھ ملا کر واپس چلے جائیں گے۔لیکن، زمرد خان نے بچوں سے ہاتھ ملانے کے فوری بعد آگے بڑھ کر سکندر کو دبوچنے کی کوشش کی۔غیر متوقع حملے پر سکندر لڑکھڑا گیا، جبکہ زمرد خان سلپ ہوکر زمین پر گر گئے۔ اس سے پہلے کہ زمرد سنبھل پاتے سکندر نے فائر کھول دیا۔ تاہم، زمرد خوش قسمتی سے بچ گئے۔ اسی اثنا میں پولیس نے فائرنگ کر دی۔ جواب میں، سکندر نے بھی فائرنگ کی۔سکندر اپنی طرف پولیس کے اہلکاروں کو آتا دیکھ کر بھاگنے لگا۔ لیکن، دو تین قدم پر ہی منہ کے بل گرا جس سے اس کی ناک پھٹ گئی اور خون بہنے لگا۔پولیس نے موقع غنیمت جان کر اس کے پیروں پر فائرنگ کردی۔ سکندر کے دو گولیاں لگیں۔ بعدازاں، پولیس نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کرلیا۔ سکندرکو1990ءمیں دبئی سے ڈی پورٹ کیاگیا تھا۔ لیکن، نو ماہ پہلے وہ دوسرے پاسپورٹ پر دوبارہ دبئی چلا گیا تھا۔اس نے 45سال کی ایک عرب خاتون سے شادی کی تھی۔ کنول اس کی دوسری بیوی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے ایم فل کیا ہے۔ سکندر دبئی کے علاقے الخوانیج میں مقیم تھا، جبکہ گزشتہ سال اس نے دبئی ہی کے ایک اور علاقے قصیص میں بھی رہائش اختیار کی تھی۔ وہ دبئی میں مچھلی بھی بیچتا رہا ہے۔ سکندر نے واردات سے قبل اسلام آباد کے ایک ہوٹل سے شناختی کارڈ کی کاپی کے عوض گاڑی کرائے پر لی تھی۔ سکندر نے پانچ گھنٹوں تک اسلحہ کے زور پر علاقے کو یرغمال بنائے رکھا۔وہ ہتھیار پھینکنے پر آمادہ نہیں تھا۔ اس نے کئی مطالبات لکھ کر پولیس کو دیئے تھے۔دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے اہلخانہ سمیت گاڑی میں محصور سکندر حیات نامی مسلح شخص کو کئی گھنٹے تک مذاکرات کے بعد ہونے والے آپریشن میں زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک سیاہ گاڑی میں سوار اس شخص نے اپنی بیوی اور دو بچوں سمیت پارلیمنٹ ہاو ¿س جانے کی کوشش کی اور روکنے پر ا ±س نے وہاں پر موجود پولیس اہلکار پر فائرنگ کر دی تھی۔اس واقعے کے بعد ملزم نے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم پولیس نے گاڑی کو روک لیا جس پر اس شخص نے اپنی گاڑی شہر کی مصروف شاہراہ جناح ایونیو پر کھڑی کر دی تھی اور وہاں وہ کئی گھنٹے تک اپنے اہلخانہ سمیت گاڑی میں بیٹھا رہا اور دو خودکار ہتھیاروں سے وقفے وقفے سے ہوائی فائرنگ بھی کرتا رہا۔اس دوران اعلیٰ حکام بھی موقع پر پہنچے اور اس سے بارہا مذاکرات کیے تاہم وہ ہتھیار پھینکنے سے انکار کرتا رہا اور اپنی اہلیہ کے ذریعے اپنے مطالبات حکام تک پہنچاتا رہا۔پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کے ساتھ ملزم کے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ان کی بیوی پولیس افسر کے ساتھ مذاکرات کرتی رہیں اور وہ محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اس واقعے کا ڈراپ سین رات گیارہ بجے کے قریب اس وقت ہوا جب پاکستان بیت المال کے چیئرمین زمرد خان نے سکندر کے بچوں سے ملاقات کی خواہش کی اور قریب جانے پر انہوں نے سکندر کو پکڑنے کی کوشش کی۔اس پر سکندر نے گولی چلا دی تاہم قریب موجود کمانڈوز نے فوری طور پر اسے گولیاں مار کر زخمی کر دیا جس کے بعد اسے حراست میں لے لیا گیا۔حراست میں لیے جانے کے بعد ملزم کو فوری طور پر پمز ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ رات گئے پمز ہسپتال کی ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ سکندر کو دو گولیاں لگی لیں اور اس کا آپریشن کیا جا رہا ہے۔یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا وہ اسلام آباد کا ریڈ زون ہےاس آپریشن کے دوران سکندر کی اہلیہ اور ان کے بچے محفوظ رہے اور انہیں بھی پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ خیال رہے کہ اس سارے وقت میں بظاہر نہ تو بچے اور نہ ہی ملزم کی بیوی پریشان دکھائی دیے۔ اس سارے معاملے میں تاخیر کی وجہ سکندر کے ساتھ اس کی اہلیہ اور بچوں کی موجودگی تھی اور اسی وجہ سے احتیاط برتی گئی۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے آپریشن کرنے والی پولیس اور انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ مسلح شخص کو زندہ گرفتار کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔واضح رہے کہ یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا وہ اسلام آباد کا ریڈ زون ہے جسے انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے اور یہاں سے ملک کی پارلیمان، ایوانِ صدر اور سپریم کورٹ چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ سکندر حیات ہے کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر حافظ آباد سے ہے۔کوہسار پولیس سٹیشن کے انچارج حاکم خان کے مطابق ملزم چند روز قبل ہی کراچی سے آیا تھا اور ا ±س نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ آبپارہ میں ایک ہوٹل میں کرائے پر کمرہ حاصل کیا ہوا تھا۔پولیس افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزم نے کرائے پر کمرہ لیتے ہوئے خود کو ایک اعلی سرکاری افسر ظاہر کیا تھا۔صدر آصف علی زرداری نے پارٹی کے رہنماءزمردخان کی جانب سے اسلام آباد میں جاری پانچ گھنٹے کے معاملے کے ڈراپ سین میں جوانمردی کا مظاہرہ کرنے پر انھیں شاباش دی ہے اور کہا ہے کہ زمرد خان نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالکر کئی معصوم جانوں کو بچالیا جوکہ قابل تعریف ہے۔انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ زمرد خان صحیح معنوں میں تعریف کے مستحق ہیں۔اسلام آباد میں فائرنگ کرنے والے شخص سکندر کا تعلق حافظ آباد کے محلہ قاضی پورہ سے ہے، جس کے گھر میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے چھاپہ مار کر کاغذات اور تصاویزقبضے میں لے لیں، اہل محلہ سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ اسلام آبادکے بلیوایریا کو مفلوج بنادینے والا مسلح شخص حافظ آباد کے علاقے قاضی پورہ کا رہائشی ہے، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حافظ آباد میں سکندر کے گھر پر چھاپہ مارا، چھاپے سے پہلے سکندر کے گھر والے روپوش ہوگئے، قانون نافذ کرنے والوں نے سکندر کے گھر میں لگے تالے توڑکر تلاشی کے دوران کچھ کاغذات اور تصاویر قبضے میں لے لیں۔ اہل محلہ کے مطابق سکندر کے 2 بھائی سعودی عرب اور تیسرا حافظ آباد میں رہتا ہے، جبکہ سکندر کا ایک بیٹا دبئی پولیس میں ملازم ہے۔ اہل محلہ کاکہناہے کہ سکندر نے 2 شادیاں کی ہوئی ہیں، وہ 20 سال دبئی میں بھی مقیم رہا ہے۔ حافظ آباد کے رہائشی سکندر حیات نامی اس شخص نے اسلحہ کے زور پر اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ لے کر اسلام آباد کے تجارتی مرکز بلیو ایریا کے قریب اپنا ’ڈیرہ‘ لگایا تو علاقے میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔شریعت کے نفاذ کے مطالبے میں سکندر حیات اکیلا نہیں تھا بلکہ ا ±س کی بیوی کنول بھی ا ±س کے ساتھ تھی۔ کنول کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہے اور مذہبی رجحان رکھتی ہے جبکہ ملزم سکندر مذہبی ہونے سے زیادہ جنونی ہے اور اور ماہر نفسیات کے پاس زیر علاج بھی رہا ہے۔پانچ سے زائدگھنٹے تک ملزم سکندر ا ±س کی بیوی اور پولیس حکام کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے جس کے دوران متعدد بار ایسے مواقع بھی آئے جب ملزم اپنی بیوی بچوں سے کافی فاصلے پر پایا گیا لیکن پولیس نے اسے پکڑنے کی کوئی کوشش نہ کی۔پولیس حکام کاموقف تھا کہ وقت گ ±زرنے کے ساتھ ساتھ ملزم اور ا ±س کے اہلخانہ کو بھوک پیاس لگے گی تو وہ خود ہی پولیس کے سامنے ہتھیار پھینک دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ملزم کے خلاف کارروائی کرنے میں پولیس حکام ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے بھی دکھائی دیے اور بعض اعلیٰ پولیس افسران آپس میں یہ گفتگو کرتے ہوئے بھی سنائی دیے کہ اگر ا ±نہوں نے کوئی کارروائی کی تو ہو سکتا ہے کہ چیف جسٹس اس واقعہ کا از خود نوٹس لے لیں اور ا ±نہیں عدالت میں طلب کرلیا جائے اور کہیں ا ±نہیں (پولیس اہلکاروں) لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔اس گفتگو میں سنہ دو ہزار سات میں لال مسجد آپریشن کا بھی ذکر ہوا اور ان پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس آپریشن میں ا ±ن کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن پھر بھی ا ±نہیں ابھی تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔پھر شام رات میں تبدیل ہوئی اور پولیس نے پہلے تو سکندر کی گاڑی کے گرد قناتیں کھڑی کیں اور پھر میڈیا کو وہاں سے دور کرنا شروع کیا۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پولیس آپریشن کی تیاری کر رہی ہے لیکن اندھیرا ہونے کے کئی گھنٹے بعد بھی کسی آپریشن کے کوئی آثار دکھائی نہ دیے۔ایسے میں وہاں سیاسی شخصیات کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا اور انہیں میں سے ایک زمرد خان بھی تھے۔عینی شاہدین کے مطابق زمرد خان جب ملزم سکندر کے پاس جانے لگے تو ایس ایس پی آپریشن نے ا ±نہیں ایسا کرنے سے منع کیا لیکن وہ پھر بھی نہ صرف اس کی جانب چل دیے بلکہ وہاں پہنچ کر ایسی ’دلیری‘ کا مظاہرہ کر ڈالا جس میں خود ان کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا تھا۔سکندر حیات تو پکڑا گیا اور ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق وہ بظاہر ایک ذہنی مریض ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایک مسلح شخص اسلام آباد میں داخل ہو کر پوری انتظامی مشینری کو مفلوج کر سکتا ہے تو اگر کبھی کالعدم تنظیموں کے مسلح گروہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا تو کیا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ا ±نہیں قابو کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا پھر انہیں کسی نہتے جانباز کا انتظار ہوگا۔اگست کے شروع میںپاکستان کے خفیہ اداروں نے خبردار کیا تھا کہ شدت پسندوں نے پاکستانی بحریہ، ائرفورس کے ہیڈ کوراٹرز اور پارلیمنٹ ہاو ¿س پر ممکنہ حملوں کی منصوبہ بندی کرلی ہے اور اس کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔فوجی خفیہ ادارے نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر جس کا نام ولید بن طالب بتایا جاتا ہے، کی ایک گفتگو ریکارڈ کی ہے جس میں وہ دوسرے کمانڈر سے کہہ رہے تھے کہ ’ڈیرہ اسماعیل جیل کے واقعہ کے بعد ا ±ن کے مقاصد کچھ حد تک حاصل تو ہوئے ہیں لیکن بڑے مقاصد کے حصول کے لیے وہاں کارروائی ضروری ہے جہاں پر ’بڑے‘ بیٹھتے ہیں‘۔ اس ٹیلیفونک گفتگو میں اسلام آباد میں ’بڑے گھروں‘ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہاں کے مکینوں کو سبق سکھانا ضروری ہے۔ذرائع کے مطابق بڑے گھروں سے مراد پارلیمنٹ ہاو ¿س، پاکستان نیوی اور پاکستان ائرفورس کے ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ اس ’بڑے گھروں‘ کے مکینوں کے خلاف بھی ا ±سی طرح کارروائی کے بارے میں کہا گیا تھا جس طرح کی کارروائی چند روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل میں کی گئی۔ تھی جس میں دو سو سے زائد قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر شدت پسندوں کے حملوں سے متعلق خفیہ اداروں نے جو رپورٹ بھیجی تھی شدت پسندوں نے ویسی ہی کارروائی کی۔ ا ±س رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ شدت پسندوں کے حملوں سے پہلے جیل کے اندر ہنگامہ کیا جائے گا۔ جس پر جیل اور پولیس کے حکام اس معاملے کو نمٹانے میں لگے ہوں گے اور جیل کے باہر سکیورٹی تسلی بخش نہیں ہوگی جس کا شدت پسند فائدہ ا ±ٹھاتے ہوئے جیل پر حملہ کردیں گے۔ولید بن طالب کی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد اسلام آباد میں سکیورٹی ہائی الرٹ کی دی گئی ہے اور مارگلہ کی پہاڑیوں میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کا سرچ آپریشن بھی کیا گیا ہے۔عینی شاہدین اور صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت کا موقف ہے کہ جس وقت شدت پسندوں نے سینٹرل جیل پر حملہ کیا تو ا ±س وقت جیل کے اندر کوئی ہنگامہ نہیں ہو رہا تھا اور جیل کے باہر سکیورٹی فورسز کی چوکیاں موجود تھیں۔یاد رہے کہ پارلیمنٹ ہاو ¿س، نیول اور ائرفورس کے ہیڈ کوارٹرز مارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب واقع ہیں۔وزارت داخلہ نے اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ کو ہدایت کی کہ ان شدت پسندوں کے سہولت کاروں پر نظر رکھی جائے۔ایس پی صدر سرکل جمیل ہاشمی کے مطابق مارگلہ کی پہاڑیوں پر اگرچہ پہلے سے ہی پولیس اہلکار موجود ہیں لیکن وہاں پر اب کمانڈوز کو بھی تعینات کردیا گیا ہے جس میں پولیس کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل کے واقعے کے بعد بینظیر بھٹو انٹرنیشل ائرپورٹ پر بھی حفاظتی اقدمات کو مزید سخت کردیا گیا اور رات گیارہ بجے سے لے کر صبح چھ بجے تک ائرپورٹ کی حدود میں گاڑیوں کا داخلہ بند کردیا گیا ۔اے پی ایس