نوازشریف کو وعدوں کی تکمیل میں مشکلات کا سامنا۔چودھری احسن پریمی



وزیراعظم نواز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ وقت آ گیا ہے ہم یہ اعتراف کریں کہ ہمارے انتظامی اداروں، ایجنسیوں اور سزا و جزا کے نظام نے خود کو دہشت گردی کے سنگین چیلنج سے عہدہ برا ہونے کا اہل ثابت نہیں کیا ہے۔ قوم آج یہ سوال کرنے میں یقیناً حق بجانب ہے کہ ان سالوں میں ملک کے طول و عرض میں جاری اس قتل و غارت کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔’ہمیں حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ متعلقہ اداروں پر طاری جمود کی کیفیت کو ختم کیے بغیر بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں ہے‘۔وزیراعظم نے اپنی تقریر میں شدت پسندی کے واقعات کی تحقیقات اور اس ضمن میں عدالتی کارروائی پر بات کرتے ہوئے کہا: ’اگر ان واقعات میں ملوث مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں تو انہیں گرفت میں لانے والے خوف کا شکار دکھائی دیتے ہیں، گرفت کے بعد تفتیش کے مرحلے میں مطلوبہ پیشہ وارانہ مہارت، لگن اور دلچسپی کو بروئے کار نہیں لایا جاتا ہے اور جب معاملہ قانون کے سامنے پیش ہوتا ہے تو عدالتی افسر ایسے مقدمات سننے سے گریزاں نظر آتے ہیں اور گواہوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے‘۔’ اس کے بعد جیلیں ٹوٹتی ہیں اور دہشت گرد اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو بھگا لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘۔وزیرِاعظم نے عام انتخاب کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کو ملکی مسائل کے حل کے حوالے سے حکومت کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ’مصالحت اور افہام و تفہیم کی میری یہ پیشکش صرف سیاسی جماعتوں اور رہنماو ¿ں کے لیے نہیں بلکہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر ان عناصر کو بھی بات چیت کی دعوت دیتا ہوں جو بدقسمتی سے انتہا پسندی کی راہ اپنا چکے ہیں۔‘ حکومت کے پاس دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک سے زائد راستے موجود ہیں مگر دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا راستہ اختیار کیا جائے جس میں مزید معصوم انسانی جانیں ضائع نہ ہوں‘۔شدت پسندی کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں ہر پاکستانی کی طرح آگ اور خون کے اس کھیل کا جلد سے جلد خاتمہ چاہتا ہوں، چاہے یہ خاتمہ افہام و تفہیم کی میز پر بیٹھ کر ہو یا پھر بھرپور ریاستی قوت کے استعمال سے ہو، اور پاکستان کے تمام ادارے کسی تقسیم اور تفریق کے بغیر اس قومی مقصد پر یکسو ہیں‘۔جبکہ ملک کی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش مسائل اور دیگر قومی مسائل خارجہ پالیسی سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہیں:’ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس امر پر بھی غور کرنا ہو گا کہ ہم نے اب تک اپنی خارجہ پالیسی سے کیا کھویا اور کیا پایا، بلاشبہ ہماری خارجہ پالیسی جرات مندانہ نظرثانی کا تقاضا کرتی ہے، اور اس نظرثانی کے بغیر ہم اپنے قومی وسائل پاکستان کے غریب عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وقف نہیں کر سکتے ہیں‘۔وزیراعظم نواز شریف نے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو غربت جہالت اور پسماندگی سے نجات دلانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔’دونوں ملکوں کی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے اور دونوں کی قیادت کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ماضی کی جنگوں نے ہمیں برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ دنیا بھر کی تاریخ نے اس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے کہ قوموں کی ترقی اور خوشحالی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات میں مضمر ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہشمند ہیں۔‘افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا: ’افغانستان کے حوالے سے بھی نئے سرے سے غور کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسی حکمت عملی بنانا ہو گی جس سے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک نئے تابناک چہرے کے ساتھ پہچانا جائے۔‘خطاب سے قبل اسی روز وزیراعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے وزیرِاعظم سے ملاقات کی۔اس ضمن میں انہوں نےملاقات کے دوران حالیہ دہشت گردی کی لہر اور دفاع سے متعلق معاملات کے علاوہ سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیرِاعظم نواز شریف کا یہ خطاب ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان مختلف جہتوں اور سمتوں سے بعض سنگین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف ملک کی اندرونی سلامتی کی صورتحال اور دوسری جانب کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت سے کشیدگی ان وعدوں کے پورا ہونے کی راہ میں بڑی مشکلات بن کر ابھری ہیں جو انہوں نے انتخابی مہم کے دوران لوگوں سے کیے تھے۔اسی روز وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی اسلام آباد میں رونما ہونے والے واقعہ کے بارے ایوان کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پندرہ اگست کو اسلام آباد کے ایک بڑے تجارتی مرکز کو پانچ گھنٹے تک یرغمال رکھنے والے ملزم سکندر حیات کے ساتھ تعلقات کے شبہے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کے قریب ایک چوکی کے انچارج کو گرفتار کر لیا ہے۔اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کے وسطی شہر حافظ آباد میں کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ملزم سکندر حیات نے اسلام آباد کے ریڈ زون میں ایک مصروف علاقے کو پانچ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بتایا کہ اس واقعہ سے متعلق ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملزم سکندر حیات کا اسلام آباد کے علاقے کو یرغمال بنائے رکھنے کا فعل ذاتی تھا لیکن جب اس کی تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس میں بین الاقوامی گینگ بھی ملوث ہیں۔ا ±نہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تفتیش میں کچھ حساس پہلو بھی سامنے آئے ہیں جن کو ایوان میں پیش نہیں کیا جاسکتا البتہ اگر پارلیمانی لیڈر چاہیں تو وہ ا ±نہیں سپیکر کے چیمبر میں بریفنگ دینے کو تیار ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ملزم سکندر حیات نے پسرور میں جس اسلحہ ڈیلر سے اسلحہ خریدا تھا ا ±ن کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ا ±نہوں نے کہا کہ ان افراد نے پولیس کو بتایا ہے کہ ملزم سکندر حیات نے ا ±نہیں چھ اگست کو اسلحہ خریدنے کے لیے ایک لاکھ روپے دیے تھے تاہم ا ±نہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے اسلحہ خرید رہے ہیں۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حافظ آباد سے گرفتار ہونے والے کالعدم تنظیم کے رکن کے گھر سے جو معلومات اور شواہد ملے ہیں وہ انتہائی حساس ہیں جس کو ایوان میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ وقوعے کے روز ملزم کو عارضی طور پر مفلوج کرنے والی گن اسلام آباد پولیس کے پاس نہیں تھی بعدازاں اس کا انتظام کر لیا گیا اور یہ گن صرف پانچ سے سات فٹ تک موثر ثابت ہو سکتی تھی۔ا ±نہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس بارے میں بھی کوئی حکمت عملی اختیار کی جاتی لیکن اس گن کو چلانے والا کوئی ماہر بھی موجود نہیں ہے۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ میڈیا کو اس واقعے سے متعلق قواعد وضوابط کی پاسداری کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ا ±نہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کیسے ملزم کو گولی کا نشانہ بنا سکتے تھے جب میڈیا پر براہ راست ا ±س کی کوریج کی جا رہی تھی جو کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں دیکھا جا رہا تھا۔واضح رہے کہ پولیس نے ملزم سکندر حیات کی اہلیہ کو اس مقدمے میں گرفتار کر کے ا ±ن کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے جبکہ ملزم سکندر حیات پمز ہسپتال میں زیر علاج ہے جہاں پر پولیس نے ا ±ن کا ابتدائی بیان ریکارڈ کیا ہے۔اے پی ایس