اے پی سی۔تمام فریقوں سے مذاکرات پراتفاق۔چودھری احسن پر یمی



مبصرین کا کہنا ہے کہ عوام نے آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے اسے قومی امنگوں کا ترجمان اور ملکی خود مختاری اور سا لمیت کیلئے سنگ میل قرار دیاہے۔ اور انہوںنے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائے گی۔ امریکہ سے ڈرون حملوں پر کھل کر بات ہونی چاہئے اور یہ بھی طے پانا چاہئے تھا کہ اگر امریکی ڈرون حملے جاری رہتے ہیں تو کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ انہوں نے طالبان سے مذاکرات پر اتفاق کو بھی خوش آئند قرار دیا۔آل پارٹیز کانفرنس میں وزیراعظم نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہمارا اپنا فیصلہ ہے، کسی غیر ملکی طاقت نے رابطہ کیا نہ دباو ڈالا۔ مولانا بولے فیصلوں پر عمل درآمد بڑا مسئلہ ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف نے کہا ایک ہی وقت میں لڑنا اور مذاکرات کرنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔ 2014ءمیں امریکا کا افغانستان سے جانے کا تاثر درست نہیں، امریکا افغانستان میں اپنی اسٹریٹیجک موجودگی برقرار رکھے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آپس میں بات چیت کے بعد کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد میں مشکل کا سامنا ہے، سیاسی سطح پر متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہاکہ نائن الیون کے بعد جب افغان جہاد کو دہشت گردی قرار دیا گیا تو پاکستان کو غیرجانبدار رہنا چاہئے تھا، پاکستان نے اتفاق رائے کے بغیر موقف بدل لیا، قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنا بڑی غلطی تھی، لوگوں کو سمجھانے میں مشکل ہوئی کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے، ڈرون حملوں پر متحد ہو کر سخت پیغام دینا چاہئے۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ دہشت گردی کی جڑ کو ختم کرنا ہوگا، صرف ماضی کے مروجہ طریقے اپنا کر دہشت گردی ختم نہیں کر سکتے، وزیراعظم نے سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے مسئلے کے حل کی جانب پہل کر دی۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہاکہ ماضی میں عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی رہنماو ¾ں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، خوشی ہے کہ آج عسکری اور سیاسی قیادت ایک نکتے پر متفق ہیں۔جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی گرفت میں ہے، اولین ترجیح طالبان کے ساتھ مذاکرات ہیں، اگر متحد نہیں ہوں گے تو پاکستان کا نقصان ہوگا، جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم ہاو ¿س میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کے دوران دہشت گردی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں افراد شہید ہوچکے ہیں، اگر اب بھی اکٹھے نہیں ہوں گے تو نقصان پاکستان کا ہوگا۔وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جہاں اور جس صوبے میں ضرورت ہوگی، وفاق مدد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش مسائل کا جنگی بنیادوں پر مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی اور معیشت کے معاملے پرکوئی سیاست نہیں کریں گے، پاکستان کو گھمبیرمسائل اور کئی چیلنجز کا سامنا ہے جس کے حل کے لئے ہم سب کو متحد ہونا چا ہئے اور اس کے دیرپا حل کے لئے لائحہ عمل طے کر نا چا ہئے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔ مجھے امید ہے جس طرح کراچی کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کے تعاون سے معاملات پر پیش رفت ہو ئی اسی طرح ملک کو در پیش دیگر معاملات میں بھی کسی نہ کسی حل کی جانب بڑھیں گے، ہمیں پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو مسائل سے نکالنا ہے،اگر ہم متحد نہیں ہوئے تو نقصان پاکستان کا ہو گا، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہزاروں افراد شہید ہوچکے ہیں،دہشت گردی کے باعث ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہورہی۔ نواز شریف نے کہا کہ اگرہم نے عوام کیلئے کام کیا توان کو جمہوریت سے توقعات بڑھیں گی لیکن آل پارٹیز کانفرنس سرکاری اور نجی طورپرپہلے بھی ہوچکی ہیں اور ان کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہو اتاہم اس مرتبہ مجھے امیدیں ہیں اورہم کوئی اچھا نتیجہ اخذ کر لیں گے۔اسلام آباد میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مذاکرات کی راہ اپنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والی اس کانفرنس میں ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت نے بھی شرکت کی اور ملک کو درپیش اندورنی اور بیرونی خطرات پر فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے بھی بریفنگ دی۔کانفرنس میں منظوری کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا کہ امن کو موقع دینے کے رہنما اصول پر قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
دوسری جانب ک ±ل جماعتی کانفرنس کی قرارداد پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ فوج اور حکومت ’ایک پیج‘ پر ہیں۔طالبان کے ترجمان نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تنظیم اے پی سی کی قرارداد کا خیر مقدم کرتی ہے اور اس پر تفصیلی فیصلہ ایک دو روز میں طالبان شوریٰ جاری کرے گی۔’اس قرارداد میں جنگ کی بات نہیں کی گئی ہے جبکہ ماضی میں حکومت کا مذاکرات کے حوالے سے موقف غیر واضح رہا ہے۔‘اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ امن مذاکرات کے دوران مقامی روایات، ثقافت اور طور طریقوں کے علاوہ مذہبی عقائد کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے اور ایسا ساز گار ماحول بنایا جائے جس سے ان علاقوں میں امن اور سکون بحال ہو سکے۔جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جتنا مفصل ہے اتنا ہی ہلکا بھی ہے۔ اس میں اچھی میٹھی گاجریں تو بہت ہیں لیکن مذاکرات میں سنجیدگی نہ دکھانے پر کسی ڈنڈے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس بیان سے تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت معاملات میں حاوی ہے اور وہ ایک مضبوط پوزیشن سے بات کر رہی ہے۔ اگر اور مگر کا اس اعلامیے میں جان بوجھ کر کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اگر طالبان سے بات چیت نہیں کامیاب ہوتی تو دوسری آپشن کیا ہوگی۔ طاقت کے استعمال کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ آٹھ نکاتی فارمولے میں پاکستانی طالبان کا نام نہیں لیا گیا ہے نہ ہی شدت پسند جیسی مدہم یا دہشت گرد جیسا سخت لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ماضی کے اس قسم کے اجلاسوں سے اس میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ ہاں ماضی کا رونا ضرور ہے کہ اس قسم کی کل جماعتی کانفرنسوں اور پارلیمانی قرار دادوں پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ تاہم اس میں کسی کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھرایا گیا ہے یا اس کی وجہ کیا تھی۔ اعلامیے میں بغیر کوئی معینہ تعداد دیے کہا گیا کہ جنگ، غیر قانونی ڈرون حملوں اور ان کے ردعمل میں اب تک ہزاروں معصوم شہریوں اور فوجی اور سکیورٹی اہلکاروں ہلاک ہو گئے۔قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار اور وسائل کا فیصلہ خود کرے گی اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے اس ضمن میں ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی۔قرار داد میں ملک میں گزشتہ دس سال سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ سے زیادہ ڈرون حملوں کو حرف تنقید بنایا گیا۔قرار داد میں ستمبر 2011 میں ہونے والی ک ±ل جماعت کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’اس کانفرنس میں بھی ’امن کو موقع دیا جانے‘ کا کہا گیا تھا اور اب بھی یہ مرکزی اصول ہونا چاہیے۔ اور ملک کے قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔‘قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نتیجہ خیز مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ ’خیبر پختونخوا کی حکومت اور تمام فریقوں کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔‘ڈرون حملوں کے حوالے سے قرارداد میں کہا گیا ہے کہ منتخب حکومت نے ملک کے قبائلی علاقوں پر مسلسل امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔’ہم اس بات پر متفق ہیں کہ ڈرون حملے نہ صرف ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ بھی ہیں۔‘قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت کو ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ حکومتِ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار اور وسائل کا فیصلہ خود کرے گی اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے اس ضمن میں ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی۔‘ک ±ل جماعتی کانفرنس میں اتفاق کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر صوبائی حکومت کو اختیار کر دیا گیا ہے کہ وہ صوبے میں اندرون اور بیرون ملک تمام ناراض عناصر سے بات چیت کا عمل شروع کرے تاکہ ان کو قومی دھارے میں لایا جا سکے۔قرار داد میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لوگوں کی زندگی، املاک اور کاروبار کو درپیش مسلسل خطرے پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور شہر میں امن و امان کی صورتحال بحال کرنے کے سلسلے میں فریقین کو اعتماد میں لینے سمیت وفاقی حکومت کے حالیہ اقدامات اور اس ضمن میں صوبائی حکومت کی مکمل حمایت کرنے کو سراہا گیا۔قرارداد میں کراچی کے رہائشیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ شہر سے منسوب رونق بحال کرنے کے لیے لگن اور مکمل جانبداری سے کوشش کریں۔قرارداد کے مطابق حالیہ پیش رفت سے ان تجاویز کی افادیت اور ضرورت مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں وزیرِاعظم کی تمام کوششوں پر اعتماد کا اظہار کیا۔ وفاقی حکومت کو کہتے ہیں کہ فریقین سے مذاکرات کرے اور اس سلسلے میں موزوں طریقہ کار کی تیاری اور مذاکرات کاروں کی نشاندہی سمیت وفاقی حکومت جو بھی اقدامات بہتر سمجھے وہ کرے۔قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ کہنا غیر ضروری ہوگا کہ اس عمل کو جتنا بھی ممکن ہو، مشاورتی ہونا چاہیے اور اس میں خیبر پختونخوا کی حکومت اور دیگر فریقین کی شرکت بھی ہونا چاہیے۔ اس عمل کے رہنما اصول مقامی روایات اور مذہبی عقائد کے احترام اور ایسا ماحول پیدا کرنا ہونا چاہیے جن سے خطے میں امن اور استحکام پیدا ہو۔کانفرس میں کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال معمول پر لانے کی بات کی گئی۔قرارداد میں افغانستان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ہم وفاقی حکومت سے استدعا کرتے ہیں کہ افغانستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ مسلسل روابط کے ذریعے افغانستان میں امن لانے کی تمام تر کوششیں کریں۔قرار داد میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لوگوں کی زندگی، املاک اور کاروبار کو درپیش مسلسل خطرے پر تشویشن کا اظہار کیا گیا اور شہر میں امن و امان کی صورتحال بحال کرنے کے سلسلے میں فریقین کو اعتماد میں لینے سمیت وفاقی حکومت کے حالیہ اقدامات اور اس ضمن میں صوبائی حکومت کی مکمل حمایت کرنے کو سراہا گیا۔قرارداد میں کراچی کے رہائشیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ شہر سے منسوب رونق بحال کرنے کے لیے لگن اور مکمل جانبداری سے کوشش کریں۔قرارداد میں افغانستان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ہم وفاقی حکومت سے استدعا کرتے ہیں کہ افغانستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ مسلسل روابط کے ذریعے افغانستان میں امن لانے کی تمام تر کوششیں کریں۔قرارداد کے مطابق حالیہ پیش رفت سے ان تجاویز کی افادیت اور ضرورت مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں وزیرِاعظم کی تمام کوششوں پر اعتماد کا اظہار کیا اور وفاقی حکومت کو کہتے ہیں کہ فریقین سے مذاکرات کرے اور اس سلسلے میں موزوں طریقہ کار کی تیاری اور مذاکرات کاروں کی نشاندہی سمیت وفاقی حکومت جو بھی اقدامات بہتر سمجھے وہ کرے۔قرارداد میں وفاقی حکومت سے استدعا کی گئی ہے کہ افغانستان میں امن لانے کے لیے تمام کوششیں کی جائیں۔قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ کہنا غیر ضروری ہوگا کہ اس عمل کو جتنا بھی ممکن ہو، مشاورتی ہونا چاہیے اور اس میں خیبر پختونخوا کی حکومت اور دیگر فریقین کی شرکت بھی ہونا چاہیے۔ اس عمل کے رہنما اصول مقامی روایات اور مذہبی عقائد کے احترام اور ایسا ماحول پیدا کرنا ہونا چاہیے جن سے خطے میں امن اور استحکام پیدا ہو۔اس سے قبل ملک کو درپیش دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسئلے پر جسے حکومتی سطح پر بعض اوقات جنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے ک ±ل جماعتی کانفرنس میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بریفنگ دی۔اس کل جماعتی کانفرنس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین شامل ہوئے جن میں پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم اور خورشید شاہ، پی ٹی آئی کے عمران خان، جماعتِ اسلامی کے لیاقت بلوچ اور میاں اسلم، پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی، اے این پی کے حاجی عدیل، جمعیت علمائے پاکستان ف کے مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم کے فاروق ستار، بی این پی کے اختر مینگل، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے پیرپگاڑا اور دیگر ارکان شامل تھے۔اے پی ایس