ایرانی جوہری پروگرام پرعالمی طاقتوں کا خیر مقدم۔چودھری احسن پریمی




ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کے بعد ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ طے پا گیا ہے۔یہ معاہدہ سوئس شہر جنیوا میں پانچ روزہ بات چیت کے نتیجے میں طے پایا ہے اور یورپی یونین کی اعلیٰ عہدیدار کیتھرین ایشن کا کہنا ہے کہ یہ جامع حل کی جانب ’پہلا قدم‘ ہے۔ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے سمجھوتہ طے پانے کی تصدیق کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے۔‘امریکی صدر براک اوباما نے معاہدے کو پہلا اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دنیا مزید محفوظ ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا اس میں ’ٹھوس حدود شامل ہیں جو کہ ایران کو جوہری ہتھیار کی تیاری سے باز رکھیں گی۔ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی جنیوا میں ہونے والے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے تبصرے میں کہا کہ اس تعمیری معاہدے نے نئے افق کھول دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ صرف اس لیے ممکن ہوا کہ ایرانی عوام کے انتخابات میں اعتدال پسندی کو چ ±نا۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے معاہدے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مشرقِ وسطیٰ کے عوام اور اقوام کے لیے تاریخی موقع ہے تاہم خطے میں ایران کے سب سے بڑے مخالف اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے اسے ایک برا معاہدہ قرار دیا ہے۔یہ ایک دہائی میں عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والا سب سے اہم سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔معاہدے کے بعد امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے جاری ہونے والے بیان میں امریکی صدر براک اوباما کا کہنا تھا کہ معاہدے کی بدولت کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایران کا جوہری پروگرام روک دیا گیا ہے۔معاہدہ یہ تھا کہ ایران یورینیم کی پانچ فیصد سے زائد افزودگی روک دے گا اور درمیانے درجے تک افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو ناکارہ بنائے گا۔آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر مزید کام نہیں کیا جائے گا۔جوہری ہتھیاروں کے عالمی ادارے کو نتنانز اور فردو میں واقع جوہری تنصیبات تک روزانہ کی بنیاد پر رسائی دی جائےگی۔ان اقدامات کے بدلے میں چھ ماہ تک جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عائد کچھ پابندیاں معطل کر دی جائیں گی۔ایران کو تیل کی فروخت کی موجودہ حد برقرار رہے گی جس کی بدولت ایران کو چار ارب بیس کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہو سکے گا۔انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو مزید ترقی نہیں دے سکے گا اور کچھ پہلوو ¿ں سے اس پروگرام کو سکیڑا جائے گا۔ ایران نے اپنے افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں کمی کرنے اور عالمی معائنہ کاروں کو اپنی تنصیبات تک رسائی دینے پر اتفاق کیا ہے اور اس کے بدلے میں اس پر عائد پابندیوں میں بتدریج کمی کی جائے گی۔ادھر جنیوا میں موجود ایرانی وزیرِ خارجہ نے اصرار کیا ہے کہ یورینیئم کی افزودگی ان کے ملک کا حق ہے اور وہ یہ عمل جاری رکھے گا۔واشنگٹن نے کہا ہے کہ معاہدے کے تحت ایران نے جن رعایتوں کا وعدہ کیا ہے اس سے ایران کے جوہری پروگرام کی شفافیت بڑھے گی اور اس کی زیادہ قریب سے نگرانی ہوسکے گی۔ان کے بقول معاہدے کا جو مرکزی نکتہ ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکا جائے گا۔ اس معاہدے کے بعد ایران پر کسی حد تک پابندیاں نرم کی جائیں گی مگر ایران کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ معاہدے کی پاسداری کررہا ہے ورنہ پابندیاں پھر سے لاگو کردی جائیں گی۔ایران کو اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔وائٹ ہاو ¿س کی جانب سے جاری کی جانےوالی ’فیکٹ شیٹ‘ کے مطابق ایران پابندیوں میں نرمی کی وجہ سے تیل اور پیٹرو کیمیکلز کی فروخت اور قیمتی دھاتوں کی تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کر سکے گا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں ایران کو سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تجارت سے ڈیڑھ ارب ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ تیل اور پیٹروکیمیکلز کی فروخت سے حاصل ہونے والے چار ارب بیس کروڑ ڈالر ایران کو صرف اسی صورت میں اقساط میں دیے جائیں گے اگر وہ معاہدے کی پاسداری کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر براک اوباما نے امریکی قانون سازوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ایران کے خلاف مزید پابندیوں کی تجویز نہ دیں۔انھوں نے کہا کہ امریکہ عالمی قوتوں کو موقع فراہم کرے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں معاہدہ مکمل کر سکیں۔وائٹ ہاو ¿س کے ایک ترجمان نے خبردار کیا تھا کہ اگر تہران کے ساتھ کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا تو ایران یورینیم کی افزودگی جاری رکھے گا۔ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں چھ عالمی طاقتوں نے ایک ممالک کے گروپ کے سفارتکار جنیوا میں ایران کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کئے۔ایران کے وزیر خارجہ کے خیال میں اس دفعہ مذاکرات میں اختلافِ رائے ختم ہو سکتا ہے۔ویڈیو شیئرنگ کی ویب سائٹ یو ٹیوب پر ایک بیان میں ایرانی وزیرِ خارجہ جاوید ظریف نے کہا: ’ہم اپنے وقار اور احترام کی امید اور مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم ایرانیوں کے لیے جوہری توانائی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم کسی کلب کا حصہ بن جائیں یا دوسروں کو دھمکائیں۔ ہمارے لیے جوہری توانائی مستقبل کے بارے میں ہمارے اپنے فیصلے کی اہلیت ہے نہ کہ کوئی دوسرا ہماری جانب سے ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرے۔منگل کو صدر اوباما نے وائٹ ہاو ¿س میں امریکی سنیٹروں سے تقریباً دو گھنٹے بات کی۔ اس ملاقات میں وزیر خارجہ جان کیری اور نیشنل سکیورٹی کی مشیر سوزین رائس بھی شامل تھیں۔دریں اثنا بعض امریکی قانون سازوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی تھی کہ وائٹ ہاو ¿س ایران کے جوہری پروگرام پر بہت تیزی سے معاہدہ طے کرنا چاہتا ہے حالانکہ اسے تہران کے ساتھ سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔وائٹ ہاو ¿س نے ایک بیان میں کہا ہے: ’ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم ایران کے پروگرام کو روک سکیں اور اسے ختم کروا سکیں اور اس کے ساتھ ہمیں اس بات کا بھی پتہ چل سکے گا کہ کیا اس ضمن میں کیا جامع حل کیا جا سکتا ہے۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ابتدائی معاہدہ نہیں ہوتا ہے تو ایران اپنے یورینیئم کے ذخائر میں اضافہ کرے گا اور نئے سنٹری فیوج کی تنصیب کے ساتھ ارک شہر میں پلیوٹونیئم ری ایکٹر کو فروغ دے گا۔صدر اوباما نے ان رپورٹوں کی تردید کی ہے کہ پابندیوں میں نرمی کے نتیجے میں ایران کو 40 ارب ڈالر کی رقم ملے گی۔واضح رہے کہ سنہ 2006 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کے خلاف مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جو ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک ہیں۔اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ اور یورپی یونین کی علیحدہ پابندیوں کی وجہ سے ایران میں توانائی اور بینکنگ کا شعبہ متاثر ہے اور تیل پر مبنی اس کی معیشت دباو ¿ کا شکار ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے علاوہ جرمنی اور تہران کے اعلیٰ سفارتکاروں کے درمیان ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات کا نتیجہ خیزی پر ختم ہونا ایک خوش آئند اقدام ہے۔لیکن عالمی طاقتوں کے دہرے معیار نے ایک اسلامی ملک کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہوا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہ بنا سکے لیکن اسرائیل سب کے سامنے ہے جس کے ایٹمی ہتھیاروں کی بھر مار بارے سب نے آنکھیں بندکی ہوئی ہیں ایران کے ساتھ اس لئے معاہدہ درست ہے کہ کافی عرصہ سے اس کی معشیت پر دباو ¾ تھا اور بغیر کسی خون خرابے کے معاملات طے پا گئے ہیں کیو نکہ یہی طاقتیں ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرنے کیلئے بھی تیار بیٹھے تھے۔ایران سے معاہدے کیلئے امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری واشنگٹن سے جنیوا پہنچے اور ان مذاکرات میں حصہ لیا جو تقریباً 10 برسوں سے جاری تھا اس تنازع کے حل کی تلاش میں ممکنہ طور پر کامیابی ہوئی ہے۔اس ضمن میں مسٹر کیری نے دیگر سفارت کاروں ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔ان طاقتوں کے ایران کے ساتھ ایک مشکل مذاکرات تھے ابتدائی چھ ماہ کے عارضی معاہدے کے باوجود اہم خلا موجود ہے۔معاہدے پر اتفاق رائے کے باوجود مشکل کام کرنا ابھی باقی ہے۔تاہم ایران کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت اب اپنے آخری عمل میں داخل ہوچکی ہے۔ اب تک ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کو دیکھتے ہوئے اس امید کے ساتھ کہ ایران جوہری پروگرام پر ایک معاہدے پر اتفاق ہوا ہے۔ اگرچہ مذاکراتی عمل میں پیش رفت نہ ہوئی تو قابلِ ذکر اختلافات بدستور موجود رہےںگے۔اس ضمن میں ایران کے جائز تحفظات کا بھی عالمی طاقتوں کو خیال رکھنا ہوگاکیو نکہ ان اختلافات میں ایک اہم جز یہ بھی ہے کہ
تہران کو کس حد تک یورینیم کی افزدگی کی اجازت ہوگی اور یہ کہ تعزیرات میں کتنی نرمی کی جائے گی۔اس ضمن میں ایران یورینیم کی افزدگی کا حق رکھتا ہے کیو نکہ وہ اس بات کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کا خواہشمند ہے۔اس نے جوہری پروگرام میں شامل بعض سرگرمیوں کو معطل کرنے کی پیشکش کی ہے اور مغربی تعزیرات میں نرمی کے بدلے اس پروگرام کے زیادہ مربوط انداز میں معائنے کی اجازت پر اتفاق کیا ہے۔اے پی ایس