طالبان سے ناکام مذاکرات کے تباہ کن نتائج۔چودھری احسن پریمی




افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاءسے قبل عالمی طاقتوں کی حکمت عملی تھی کہ کابل کی خانہ جنگی اب پاکستان میں دھکیل دی جائے لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی حکمت عملی نے عالمی طاقتوں کی اس ناپاک منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا جب انہوں نے ایک بار پھر امن کو موقع دے کر ایک مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کردیا جسے عوامی حلقوں نے سراہا ہے۔اگر چہ بعض ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے طالبان کے خلاف آپریشن کرنا ہے یہ محض ایسی شروعات ہیں جسے عوامی رد عمل سے بچنے کیلئے ایک ایسا جواز فراہم کرنا ہے کہ حکومت نے امن بحال کرنے کیلئے مذاکرات کی پیش کش کی تھی تاہم مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہونے پر حکومت کے پاس یہ آخری آپشن تھی۔ حکومت کی جانب سے ایک بار پھر امن کو موقع دینے سے قبل طالبان کی دہشت گرد کاروائیوں کے نتیجے میں پاکستانی ائیر فورس نے افغان سرحد کے قریب طالبان کے مضبوط ٹھکانوں پر جو بمباری کی وہ سنہ2007 کے بعد، اِس نوعیت کی پہلی بمباری تھی۔جو حکمت عملی میں کسی تبدیلی کی غمّاز ہے۔ کیونکہ شمالی وزیرستان کے طالبان دھڑے کے کمانڈر کے ساتھ جب سے امن کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اِس قسم کے فضائی حملوں کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔لیکن، اس حملے سے حکمت عملی میں مکمل تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا تھا۔اگر چہ حکومت پاکستان نے کسی بھرپور فوجی کاروائی کے آغاز کی نفی کردی ۔ اس کے علاوہ، حکومت کے اندر کافی عرصے سے اس پر اتّفاق رائے نہیں ہو سکا ہے کہ پاکستانی طالبان سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے، کیونکہ حزب اختلاف کی بڑی بڑی پارٹیوں اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے سخت مخالفت ہو رہی ہے۔ بمباری کی ایک امکانی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ طالبان کے دو حملوں میں کم از کم پاکستانی35 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔تاہم حکومت ابھی امن مذاکرات کے راستے سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ اور وہ برابر پہلے مذاکرات کی پالیسی کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ کیونکہ، و ±ہ چاہتی ہے کہ طالبان کے جو دھڑے اب بھی مذاکرات کے لئے تیار ہوں۔ ا ±ن سے بات چیت کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں طالبان کے تین درجن دھڑے سرگرم ہیں، جن میں سے بعض مذاکرات کے حق میں ہیں، اور ا ±س نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ ان دھڑوں کا کیا کرے گی، جو مذاکرات کے خلاف ہیں۔مذاکرات کےلئے نواز شریف حکومت مئی میں برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی کوشاں رہی ہے اور اس مقصد سے ک ±ل جماعتی کانفرنس بھی بلائی گئی تھی۔بعض حلقوں نے بمباری کو بلاموقع قرار دیا ، وزیرستان میں قائم این جی او ، قبائیلی ترقیاتی نیٹ ورک کے ڈائریکٹر، ناظم داور کا کہناہے کہ ہزاروں قبائیل اس ڈر سے کہ کہیں پاکستان کی فوج مزید فضائی بمباری یا برّی حملہ نہ کرے، گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ ا ±ن کا کہنا ہے کہ اس بمباری کے بعد، تیس ہزار سے زیادہ لوگ ان کے پاس پہنچے ہیں جن کے لئے ا ±ن کی تنظیم اسلام آباد سے مدد طلب کر رہی ہے۔اس بمباری میں، کم از کم 40 جنگجو ہلاک ہوئے تھے۔ اور جیسا کہ فوج نے بتایا ہے، اِن میں 33 ا ±زبک اور 3 جرمن باشندے شامل ہیں۔ یہ علاقہ مقامی اور عالمی سطح کی دہشت گرد تنظیموں کا گڑھ ہے
اگر چہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم ڈاکخانہ نہیں، بلکہ مکمل طور پر بااختیار ہے اور وسیع مینڈیٹ رکھتی ہے۔وزیراعظم پوری کمٹمنٹ کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ ابتدائی روابط کے بعد، کوشش ہونی چاہیے کہ جنگ بندی ہوجائے۔ طالبان کے ساتھ روابط کی تفصیل ابھی منظر عام پر نہیں آئی۔ کیونکہ اس سے کسی طرح کا رخنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم امید ہے کہ ابتدائی گفتگو کے بعد، جنگ بندی ہو سکتی ہے۔اِس ضمن میں عسکریت پسندوں کے وہ گروپ جو مذاکرات کے مخالف ہیں، وہ ماحول کو سبوتاڑ کرنے کے لیے کاروائیاں کر سکتے ہیں۔ لہذااِس بارے میں بھی، آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔اس سوال پر کہ طالبان نے اپنے حالیہ بیان میں پھر باور کرایا ہے کہ وہ ملک میں نفاذ شریعت سے متعلق اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، جبکہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ مذاکرات ملک کے موجودہ آئین کے دائرے میں ہوں گے۔ تو کیا یہ باہم متصادم باتیں نہیں ہیں؟۔ اس پر حکومتی کمیٹی کا عزم ہے کہ یہ معاملہ کسی تعطل کا سبب نہیں بنے گا۔تاہم باقی مسائل زیادہ پیچیدہ ہیں، جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مذاکرات کے لیے وقت کی حدیں مقرر کرنا ٹھیک نہ ہوگا، کیونکہ بڑا انسانی بحران ہے جس کا ملک کو سامنا ہے۔دونوں اطراف بڑا جانی نقصان ہوا ہے۔ آٹھ نو برس کے اس تنازعے کے حل کے لیے وقت کی قید نہیں لگانی چاہیئے۔ ’ہاں، اگر یہ کسی نتیجے کی طرف نہیں جاتے تو حکومت کے پاس باقی آپشن بھی ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کے خیال میںحکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں سے زیادہ پر امید نظر نہیں آتے۔اولاً جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں سوائے رحیم اللہ یوسفزئی کے، کوئی بھی رکن فاٹا میں موجودہ صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے؛ انہیں عسکریت پسندی کی بدلتی ہوئی حرکیات کا اندازہ ہے۔؟۔ان کے بقول، ’قیادت اور عوام کو گمراہ خیال کرنے والوں اور فوج، آئین اور جمہوریت ان تمام حقیقتوں سے انکاری طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں، جو آج بھی اپنے بیان میں اپنی تشریح کردہ شریعت کے نفاذ پر مصر ہیں‘۔ طالبان کے ساتھ 13 بار ناکام مذاکرات ہو چکے ہیں اور جب بھی کارروائی کی گئی ہے، وہی کامیاب رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف طاقت کا استعمال ہی طالبان کو کمزور کر سکتا ہے۔حکومت اور طالبان مذکرات کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ حکومت کو یہ باور کرانا ہو گا کہ جو بھی فیصلے ہوں گے ان پر عمل درآمد کیا جائے گا اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی، تب جا کر اعتماد بحال ہو گا اور آزادانہ گفتگو ہو گی اور تعمیراتی رابطے کے لیے اعتماد کا ماحول بن جائے گا۔اگرچہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کو اپنے نمائندے اپنی صفوں سے چننے چاہیے۔عمران خان کا یہ بیان ان اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے جن کے مطابق طالبان نے اپنی جانب سے مذاکرات کے لیے عمران خان اور مولانا سمیع الحق سمیت پانچ افراد کے نام دیے ہیں۔عمران خان کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان امن مذاکرات کے لیے خود اپنے طالبان نمائندے منتخب کرے۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو حکومت کی جانب سے بنائی گئی چار رکنی کمیٹی پر پورا اعتماد ہے اور جماعت کور کمیٹی کے اجلاس میں اپنی جانب سے تعاون کے ممکنہ طریقہ کار پر بھی غور کرے گی۔اطلاعات کے مطابق طالبان کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے علاوہ مولانا سمیع الحق، لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز، جمیعت علمائے اسلام کے سابق رکن اسمبلی مفتی کفایت اللہ اور جماعتِ اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہیم کے نام سامنے آئے تھے۔اس سے پہلے اسلام آباد میں واقع لال مسجد کے منتظم مولانا عبدالعزیز نے بھی کہا کہ حکومت اور طالبان کی جانب سے مذاکرات کے عمل میں شامل ہونے کی پیشکش کی گئی ہے تاہم وہ اس وقت تک اس عمل میں شامل نہیں ہوں گے جب تک حکومت نظام شریعت کے نفاذ کے مطالبے پر سنجیدگی ظاہر نہیں کرتی۔دوسری جانب طالبان سے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی حکومت کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے کہا کہ صرف کمیٹی کے ارکان کو بات چیت کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے اور کمیٹی کے کسی نمائندے کی جانب سے مولانا عبدالعزیز سے کوئی رابط نہیں ہوا ہے۔مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ حکومت اور طالبان دونوں جانب سے ان سے رابطہ کیا گیا ہے۔’ملک کے اہم نمائندے نے فون کر کے کہا ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے حکومت سے تعاون کریں جبکہ طالبان کے ایک نمائندے کی جانب سے فون آیا اور انھوں نے کہا کہ ہماری شوریٰ کی رائے ہے کہ آپ اس عمل میں شامل ہوں۔‘واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے بنائی گئی چار رکنی کمیٹی میں قومی امور پر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی عرفان صدیقی کے علاوہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کے سابق افسر میجر محمد عامر خان، سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی اور افغانستان میں سابق پاکستانی سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں جبکہ کمیٹی کی معاونت وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کریں گےانھوں نے طالبان کو دیے جانے والے جواب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ’میں نے کہا کہ ابھی فیصلہ نہیں کر سکتا جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا کہ یہاں (اسلام آباد) میں مطالبات ماننے جا رہے ہیں۔خیال رہے کہ گذشتہ روز جمعے کو وزیر اعظم نواز شریف نے طالبان سے امن مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو ہدایت کی تھی وہ فوری طور پر ان سے بات چیت کا آغاز کرے۔اس کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے طالبان سے مذاکرات کے لیے جلد اپنے نمائندے چننے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان جہاں آسانی محسوس کریں گے وہیں ان سے بات چیت کی جائے گی۔حکومت کے اہم نمائندے کے جواب کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز نے کہا ’جب میں مطمئن ہوں گا کہ حکومت مطالبات کو پورا کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے اور ان کو ماننے پر آمادہ ہے تو اسی صورت میں شامل ہوں گا، ورنہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ میں حکومت کو، طالبان کو اور خود کو بھی دھوکہ دوں۔‘مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انہوں نے حکومتی اہم نمائندے کو یہ ہی کہا ہے کہ ’ملک میں اسلامی نظام، نظام شریعت کے نفاذ کا دیرینہ مطالبہ ہے، کیا اس کی طرف پیش رفت ہو گی؟ اور اگر اس سمت میں پیش رفت نہیں ہو گی تو پھر مذاکرات تو کامیاب نہیں ہوں گے۔پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے لال مسجد آپریشن کیا تھا جس میں حکومت کے بقول شدت پسندوں نے پناہ لی ہوئی تھی اور اس آپریشن میں 103 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جس میں سکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار بھی شامل تھے۔لال مسجد کے واقعے کے بعد ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا تھا اور بعض کی رائے میں یہ لال مسجد میں فوجی کارروائی کا ردعمل ہے۔وزیراعظم کی جانب سے چند روز قبل تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی کا پہلا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔ نواز شریف نے اجلاس کی صدارت کی جس میں کمیٹی کے ارکان کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی شریک ہوئے۔نواز شریف نے جو مذاکراتی عمل میں کمیٹی کی رہنمائی کریں گے، کمیٹی کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے امن کے مقاصد حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔نواز شریف نے مذاکراتی کمیٹی کو طالبان کے ان گروپوں سے فوراً رابطے کی ہدایت کی جو مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ کمیٹی بات چیت کے عمل میں مکمل بااختیار ہے۔ انھوں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہدایت کی کہ وہ کمیٹی کو متعلقہ معلومات اور درکار وسائل فراہم کریں۔خیال رہے کہ جمعرات کی شام اس کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا تھا کہ طالبان سے بات چیت سے قبل حکومت کو یہ باور کرانا ہو گا کہ جو بھی فیصلے کیے جائیں گے ان پر مکمل عمل درآمد ہوگا اور کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔کمیٹی کے رکن اور قومی امور پر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی عرفان صدیقی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیراعظم نے کمیٹی کو وسیع مینڈیٹ دے دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ اپنی شوریٰ کے اجلاس میں بات چیت کے لیے کمیٹی تشکیل دیں تاکہ وقت ضائع کیے بغیر اچھے کام کا آغاز کیا جا سکے۔انھوں نے مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے حکومت اور طالبان دونوں سے ایسی بیان بازی سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا جس سے کمیٹی کا کام متاثر ہو اور مذاکرات کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔عرفان صدیقی نے کہا کہ ’ایسے بیانات سے گریز کیا جائے جن سے معاملات کے اندر تلخی آسکتی ہو یا امن کے عمل اور مذاکرات کی حکمت عملی پر کوئی منفی اثر پڑ سکتا ہو۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیش رفت خفیہ نہیں رکھی جائے گی تاہم حساس نوعیت کی معلومات کو میڈیا تک پہنچانے یا نہ پہنچانے کا فیصلہ کمیٹی کرے گی۔عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان جہاں کہیں گے وہیں ان سے بات کی جائے گی۔ہم ان کی شوری کے اجلاس کے بعد رسمی ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ جہاں آسانی محسوس کریں گے وہیں ان کے ساتھ بات چیت کا اہتمام کیا جائے گا۔خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ ماضی کے تلخ تجربات کو پسِ پشت ڈال کر مذاکرات کو آخری موقع دینا چاہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں انھوں نے طالبان سے مذاکرات کے لیے چار رکنی کمیٹی قائم کرنے اور خود مذاکرات کے عمل کی نگرانی کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔پاکستان میں دہشت گردی کی بنیادی وجہ افغانستان ہے۔اگرچہ پاکستان نے افغانستان میں امن و استحکام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو جنگ سے تباہ حال اس ملک کی تعمیر نو اور اقتصادی ترقی میں معاونت ہر صورت جاری رکھنا ہو گی۔وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے موجودہ دورِ حکومت میں افغانستان کا پہلا دورہ کیا، جہاں دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کے علاوہ نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی نے علیحدگی میں بھی ملاقات کی۔کابل میں صدارتی محل میں حامد کرزئی کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ افغانستان فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے کیوں کہ آئندہ برس افغان عوام کو ”اپنی قسمت کا خود مالک“ بننے کے لیے اہم فیصلے کرنے ہیں۔”ہر شخص کو (اس بات کا) ادراک ہے کہ 2014ءمیں موقعوں کی دستیابی کے ساتھ کٹھن چیلنجوں کا بھی سامنا ہو گا۔ لہٰذا یہ ہر کسی کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں سلامتی سے متعلق ذمہ داریوں اور سیاسی اقتدار کی منتقلی کا عمل پر ممکن حد تک پ ±رامن انداز میں مکمل ہو۔“نواز شریف نے کہا کہ ”تنازع کے تباہ کن تسلسل“ کو ختم کرنا ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں مصالحتی عمل کو معنی خیز انداز میں آگے بڑھانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کا وقت آن پہنچا ہے۔”ہمارے (پاکستان کے) خیال میں افغانستان میں 2014ءاور اس کے بعد بھی پائیدار امن کی کنجی (تمام دھڑوں کی شمولیت کے ساتھ) سیاسی حل ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان نے افغانوں کی قیادت میں جاری مصالحتی عمل کی تندہی سے حمایت کی ہے۔“معروف تجزیہ کار، رچرڈ کوہن افغانستان کی جنگ کے بارے میں، ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو اب اپنی مقصدیت کھو چ ±کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ امریکی فوجیں افغانستان میں سنہ 2001 سے موجود ہیں۔ جن کا ابتدائی مشن القاعدہ کو تباہ کرنا تھا۔ اور یہ مشن ب ±ہت پہلے حاصل کیا جا چ ±کا ہے۔ البتہ، وہاں طالبان موجود ہیں۔ لیکن، القاعدہ کے برعکس، یہ مقامی لوگ ہیں، جو بظاہر ابھی ڈٹّے ہوئے ہیں، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ا ±ن کے پاس خود ک ±ش بمباروں کی لا محدود رسد موجود ہے۔اور، یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ آتے کہاں سے ہیں، اور ا ±ن کے ہاتھوں افغانوں اور غیر ملکیوں کا قتل و غارت برابر جاری ہے، جیسے کہ حال ہی میں کابل کے ایک لبنانی ریستوراں میں، جس کے بیشتر گاہک مغربی لوگ ہیں۔ بم دہماکے میں 21 افراد کا خ ±ون ہوا۔حملہ آور بندوق بردار کی آمد سے پہلے خود ک ±ش بمباری ہوئی تھی۔رچرڈ کوہن یاد دلاتے ہیں کہ سنہ 2009 میں صدر اوبامہ نے افغان جنگ میں زیادہ امریکی فوجی جھونکنے کا حکم ضرور دیا تھا۔ لیکن، ا ±س وقت یہ ظاہر تھا کہ وہ اس جنگ کو ط ±ول نہیں دینا چاپتے تھے۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ یہ جنگ اوبامہ نے نہیں بلکہ جارج ب ±ش نے شروع کی تھی، جسے بلا سوچے سمجھے بیچ میں چھوڑ کر، و ±ہ صدّام ح ±سین کے د ±نبال ہو گئے۔ تب سے یہ جنگ جاری ہے۔اور اب عراق کی طرح، احمقانہ لگتی ہے۔ عراق میں 4489 امریکی ہلاک ہوئے تو افغانستان میں2307 ، جو مصنّف کی نظر میں انسانی جانوں کا ایک ناقابل فہم ضیاع ہے۔ اور اس کے باوصف انتظامیہ کا اصرار ہے کہ افغانستان میں دس ہزار امریکی فوجی اس بنا پر موجود رہنے چاہئیں کہ یہ ملک دوبارہ دہشت گردوں کا اڈّہ بن سکتا ہے۔ اور امریکی سہارے کے بغیر، افغان فوج پسپا ہو سکتی ہے، جس کے بعد طالبان پھر سے اقتدار حاصل کر سکتے ہیں، اور خواتین اور لڑکیاں دوبارہ زن بے زار درندوں کے رحم و کرم پر ہونگی۔اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=9038&lang=UR