مذاکرات تعطل کا شکار۔وحیدہ ذوالفقارزیدی



پاکستان میں قیامِ امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے جسے سیاسی اور مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔تاہم قیامِ امن کے لیے جہاں مذاکراتی کمیٹیاں حکومت اور طالبان دونوں سے جنگ بندی کی اپیل کر رہی ہیں وہیں پارلیمان میں موجود جماعتیں طالبان کی جانب سے آئینِ پاکستان کو نہ ماننے اور شریعت کے نفاذ کے مطالبات پر تشویش کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔طالبان نے اگرچہ ابھی تک اپنی نمائندہ کمیٹی کے ذریعے ملک میں شریعت کے نفاذ کے لیے باقاعدہ طور پر کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا تاہم حال ہی میں کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد برملا کہہ چکے ہیں کہ انھیں شریعت کے علاوہ کوئی اور قانون منظور ہوتا تو وہ جنگ ہی نہ کرتے۔یہی نہیں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن مولانا عبدالعزیز مذاکرات سے یہ کہہ کر الگ ہوئے کہ شریعت کا نکتہ شامل کیے بغیر وہ بات چیت کا حصہ نہیں بنیں گے۔پاکستان کے ایوانِ بالا کے اجلاس میں بھی طالبان کے شریعت کے نفاذ اور آئین کو تسلیم نہ کرنے کے بیانات زیرِ بحث آئے۔صوبہ خیبر پختونخوا کی سابقہ حکمراں جماعت اے این پی کے رکن اور سینیٹر حاجی عدیل کہتے ہیں کہ ’ہم نے سوات معاہدہ پاکستان کے آئین کے تحت کیا تھا اور طالبان نے اس وقت حکومتی رٹ بھی تسلیم کی تھی اب حکومت ہمیں اعتماد میں لے۔ان کا کہنا تھا کہ ’آٹھ ماہ ہوگئے حکومت نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ ہم کہتے ہیں کہ چاہیں تو پارلیمنٹ کا بند کمرہ اجلاس بلوا لیں اسے یہ سب باتیں بتائیں۔ یہ چھپانے والی باتیں نہیں۔حاجی عدیل نے یہ بھی کہا وہ مذاکرات کے حق میں تو ہیں لیکن حکومتی کمیٹی کی تشکیل پر انھیں تحفظات ہیں:’ان میں سب کے سب دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والا کوئی نہیں، کوئی سیکیولر نہیں اور نہ ہی کوئی قوم پرست ہے۔‘کچھ ایسی ہی بات اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور قانونی ماہر چوہدری اعتزاز احسن نے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان ہی طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں اور انہیں یہ بیل منڈے چڑھتے نظر نہیں آتی۔اعتزاز کہتے ہیں کہ ’حکومت کا کوئی ایجنڈا نہیں لیکن طالبان اپنے ایجنڈے میں واضح ہیں۔‘ ان کے مطابق ’مذاکرات آئین اور جمہوریت کو مقدم رکھتے ہوئے ہی ہو سکتے ہیں۔‘”شریعت کا مطالبہ تو ہم بھی کرتے ہیں لیکن اگر طالبان آئین کو نہیں مانیں گے تو پھر مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے۔ آئین کے مقدم رہنے کی بات صرف اپوزیشن تک محدود نہیں اور حکومت کے اپنے اتحادی بھی واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ 1973 کے آئین کے باہر کچھ بھی قبول نہیں ہوگا۔نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بزنجو نے کہا کہ ’ہم حکومت کا حصہ ہیں لیکن واضح کر دیں کہ جو اس آئین سے آگے جائے گا چاہے وہ حکومت ہی کیوں نہ ہو ہم اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔پاکستان کے ایوان میں موجودہ صرف روشن خیال سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی آئین کے دفاع میں آواز بلند کر رہی ہیں۔وفاق میں حکومت میں شریک جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان (ف) کے رہنما سینیٹر غفور حیدری کہتے ہیں کہ ’شریعت کا مطالبہ تو ہم بھی کرتے ہیں لیکن اگر طالبان آئین کو نہیں مانیں گے تو پھر مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے۔ پاکستان کا 80 فیصد آئین اسلامی ہے۔‘حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج پرتشدد کاروائیوں کو روکنا ہے لیکن اگر ’جنگ بندی‘ ہو جاتی ہے تو سوال پھر وہی اٹھے گا کہ طالبان کے لیے پاکستان کا آئین کس قدر قابل قبول ہے؟۔جبکہ پاکستان میں علما نے امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے جنگ بندی کو پہلی اور لازمی شرط قرار دیتے ہوئے حکومت اور طالبان دونوں سے کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔یہ بات لاہور میں منعقد ہونے والی علما و مشائخ کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہی گئی ہے۔مذاکرات کے لیے طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کانفرنس کے بعد اعلامیہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ امن جنگ سے قائم نہیں ہو سکتا اور تمام علما اور مشائخ امن کا واحد راستہ مذاکرات کو سمجھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سب کا اتفاق ہے کہ فوجی طاقت کا استعمال ملک کو لامتناہی تباہی کی جانب دھکیل دے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔سمیع الحق نے کہا کہ گزشتہ حکمرانوں کی غلط پالسییوں کی وجہ سے 15 برس سے پورا ملک جنگ میں مبتلا ہے اور پوری قوم آگ اور خون کے اس کھیل سے عاجز آ چکی ہے۔مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’طالبان پاکستانی قوم کے فرزند ہیں اور قوم توقع رکھتی ہے کہ طالبان فوری طور پر امن و سلامتی، انسانیت، وطن کی خاطر ہمارے شانہ بشانہ چلیں اور ہتھیاروں کے بجائے امن کی زبان میں بات کریں۔‘اعلامیے میں ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں حب الوطنی، یکجہتی اور قومی وحدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یک زبان ہوکر فریقین کو امن کے منافی سرگرمیاں روکنے پر مجبور کریں گی۔اعلامیے میں تمام مقتدر اداروں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ملک میں موجود شورش کے اصل محرکات پر توجہ دیں اور حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں اور آل پارٹیز کانفرنس کی سفارشات کے مطابق خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انھیں از سرنو تشکیل دینے پر غور کریں۔مشترکہ اعلامیے میں ملک کے تمام دینی مدارس سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے21 فروری کو ’یوم دعا‘ کے طور پر منائیں۔خیال رہے کہ ملک میں قیام امن کے لیے حکومت اور طالبان کی طرف سے نامزدہ کردہ کمیٹیوں نے بھی دہشت گردی کے لیے ’منافی امن‘ کارروائیوں کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اس طرح کی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرنے کی اپیل کی تھی۔کراچی میں پولیس کی بس پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان نے دھمکی دی تھی کہ باقاعدہ جنگ بندی ہونے تک ان کی کارروائیاں جاری رہیں گی جس کے بعد حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔جبکہ قومی امور پر وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ اگر طالبان کی کمیٹی نے امن کے قیام کی ضمانت دی تو ہی بات آگے بڑھے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مذاکرات کے ذریعے خواہشات کا جتنا بھی بڑا تاج محل کھڑا کر لیں، دہشت گردی کے ایک واقعے سے وہ لمحوں میں اڑ جائے گا۔ اس لیے مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے ان واقعات کا سلسلہ رکنا ہو گا۔ ہم خیالوں کی دنیا میں جنت نہیں بنا سکتے۔حکومت اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ خالی مذاکرات کچھ نہیں ہوتے، قائد اعظم نے بھی وزیرستان جرگہ کے ساتھ مذاکرات کیے قبائلیوں کے اسٹرکچر کو تباہ کردیا گیا ہے، اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے ان کے حقوق ختم ہوگئے ہیں، ہمیں اس کی بحالی کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ تبدیل ہوکر قبائلی اسلام کی طرف چلی گئی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس چیز کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔اگرچہ طالبان کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حکومت ،عوام اور سیکورٹی فورسز کے تحفظات ان سے زیادہ سنگین ہیں۔ مذاکراتی کمیٹیاں انہی تحفظات کو سمجھنے اور انہیں دور کرنے کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ امن کا قیام ہے۔ پیش آمدہ مشکلات کے باوجود حکومت اور طالبان کو سنجیدگی اور نیک نیتی سے امن کی جانب قدم بڑھانے چاہئیں اور ایک دوسرے کا اعتماد بحال کرنے کے لئے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں امن ہی سب سے بڑا تحفہ ہے جو عوام کو دیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے انہیں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے۔اے پی ایس
http://feeds.feedburner.com/blogspot/PZgq