اورنگزیب سے لیکر ماونٹ بیٹن تک۔ماریہ ذوالفقار



گزشتہ دنوںپاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کتب میلے کا آغاز ہوا۔ جو تین روز تک جاری رہا۔کتب میلے کے پہلے روز تین کتابوں کی رونمائی کی گئی جب کہ انسانی حقوق، جمہوری اقدار، ادب اور موسیقی پر بحث مباحثے کیے گئے۔کراچی کے سمندر کنارے واقع ہوٹل میں سجے اس میلے کا آغاز ناہید صدیقی نے کتھک ڈانس کرکے کیا جب کہ عظمیٰ اسلم خان کو نان فکشن اور اسامہ صدیقی کو نان فکشن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس میلے میں شرکا کی آنکھیں کرم چند موہن داس گاندھی کے پوتے راجن موہن گاندھی کی متلاشی تھیں جو پہلی بار پاکستان آئے تھے۔سیاہ واسکٹ اور نیلے رنگ کی شرٹ پہنے برصغیر کی اہم شخصیت کے پوتے راجن موہن گاندھی کے ساتھ ہر شخص تصویر بنوانے کا خواہشمند تھا۔راج موہن کا کہنا تھا کہ عوام یہاں کی ہو یا وہاں کی دونوں بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم پاکستان اور بھارت کی حکومتیں آسانی سے ویزہ نہیں دیتیں۔ اصلی مشکل تو وہاں (بھارت) میں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس قسم کی ادبی میلوں سے جو لوگوں کی چاہ ہوتی ہے کہ مزید ڈائیلاگ ہو اس میں اضافہ ہوتا ہے۔شائستہ اردو میں روانی سے بات کرنے والے راج موہن گاندھی نے دونوں ممالک میں میڈیا کے رویے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دشمنی بکتی ہے لیکن دوستی بھی بکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر اس کو صحیح طریقے پیش کیا جائے مثلا دنیا بھر میں اگر الیکشن ہوں تو کوئی امیدوار مخالف کو برا کہے تو کچھ لوگوں کو اچھا بھی لگتا ہے اور وہ پریس میں فروخت بھی ہوتا ہے۔’ لیکن یہ بہت چھوٹی چیز ہے اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ پورا بھارت یا پورا پاکستان دشمنی چاہتا ہے۔‘بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما ایل کے ایڈوانی اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے موقف کی راج موہن گاندھی نے بھی تائید کی اور کہا کہ محمد علی جناح ایک سیکیولر رہنما تھا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی۔
’جناح چاہتے تھے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق اور تحفظ دیا جائے، آج کے پاکستان میں ایسے کئی لوگ ہیں جو یہ چاہتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ نہیں چاہتے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ چاہتے ہیں کہ اقلیتوں کو حق ملیں لیکن وہ صاف لفطوں میں نہیں بتاتے۔برصغیر کے رہنما مہاتما گاندھی کے پوتے اور تاریخ نویس راج موہن گاندھی کا کہنا ہے کہ تقسیم کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اور ہندو رہنماو ¿ں نے ایک دوسرے کی بجائے انگریزوں پر انحصار اور اعتبار کیا اور اس کی وجہ سے قتل عام بھی ہوا۔کراچی میں اپنی نئی کتاب ’اورنگزیب سے لیکر ماو ¿نٹ بیٹن تک‘ کی رونمائی کے بعد انہوں نے برصغیر کی تقسیم اور پنجاب کی صورتحال پروشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بٹوارہ اس لیے ہوا کیونکہ برصغیر کے لوگ اور رہنما آپس میں سمجھوتہ نہیں کر پائے اور انگریزوں سے کہا کہ آپ سنبھالیں اس ملک کو اور جانے سے پہلے ایسا کر دیں ویسا کردیں۔‘راج موہن گاندھی نے کہا کہ ’ہم نے ایک دوسرے سے مشورہ نہیں کیا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، انگریز تو چلے جائیں گے ہمیں ساتھ رہنا ہے، جو دقتیں یا مشکلات ہیں انہیں ساتھ حل کرنا ہے، گاندھی سمیت کچھ لوگوں نے سب کو ساتھ لیکر چلنے کی کوششیں کی لیکن کئی ہندو اور مسلمان ایسے تھے جو کہتے تھے کہ دونوں میں دوستی نہیں ہونی چاہیے اور یہ مخالف جذبات پر حاوی رہے۔‘پنجاب میں فسادات اور ریڈ کلف کمیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے راج موہن گاندھی کا کہنا تھا کہ ریڈ کلف کی لائن اگر چھ میل ادھر یا ±ادھر ہو جاتی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جس بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے وہ اس لیے کہ ایک طرف یہ مطالبہ تھا کہ پورا پنجاب پاکستان میں آئے دوسری طرف مطالبہ تھا کہ پورا پنجاب بھارت میں آئے جب ایسے انتہائی مطالبات آئیں گے تو طیش تو پیدا ہوگا۔کانگریس اور مسلمانوں میں مذاکرات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ قیادت جب مذاکرات کرنے جاتی تھی تو لوگ کہتے تھے اگر آپ مذاکرات کرنے جائیں گے تو ہم آپ کو غدار سمجھیں گے اور اٹھا کر پھینک دیں گے، جب گاندھی کو ہلاک کیا گیا تو شکایت یہی تھی کہ یہ مسلمانوں سے بہت دوستی رکھتا تھا۔راج موہن گاندھی کا تقسیم میں انگریز سرکار کے کردار کے بارے میں کہا کہ کچھ لوگ یہ ضرور چاہتے تھے کہ ہندو ¿وں اور مسلمانوں میں دشمنی رہے، تقسیم ہو، ان دنوں مڈل ایسٹ کا آئل بھی ایک سوال تھا، روس بھی اسی طرف آ رہا تھا تو اس حوالے سے برطانیہ کی خاص حکمت عملی تھی، لیکن ہر وقت دوسروں پر غلطی تھوپنے کے بجائے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیں کہ ہم نے کیا غلط کام کیا۔ اگر ہم یہ نہیں سوچیں گے تو آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔’ کئی ہندوں اورسکھوں نے سوچا کہ لاہور انڈیا میں آئے گا کئی مسلمانوں کا خیال تھا کہ جالندھر، امرتسر اور لدھیانہ پاکستان میں آئے گا کئی رہنماو ¿ں کو پتہ تھا کہ جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں وہ انڈیا میں رہیں گے لیکن عام لوگوں کو یہ نہیں بتایا گیا‘۔محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی کی جانب سے فسادات روکنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گاندھی نے ہر ممکن کوشش کی، جناح نے تو اس حد تک کہہ دیا تھا کہ فسادات روکنے میں مسلمان رکاوٹ بن رہے ہیں تو اس کی پرواہ نہ کی جائے، پھر چاہے کتنے بھی مسلمان ہلاک ہوں۔’فسادات میں صوبائی اور مقامی قیادت کا بھی بڑا کردار تھا، پنجاب میں مسلم لیگی تھی لیکن وہ وہاں1945 کے بعد مقبول ہوئی، یونینسٹ پارٹی جاگیرداروں اور زمینداروں کی پارٹی اور انگریز حکومت کی حامی تھی جبکہ کانگریس پنجاب میں ہندو ¿وں کی جماعت تھی۔پنجاب کے سکھ رہنماو ¿ں کے ذہن میں یہ تھا کہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں ہم نے پورے پنجاب پر حکمرانی کی تھی اور گرو نانک کا جنم بھی اس طرف ہوا تھا اس لیے ایسے علاقے بھی ہمیں ساتھ رکھنا چاہیں جہاں ہماری اکثریت نہیں۔ اس طرح مقامی مسلمان قیادت کا کہنا تھا کہ پورا پنجاب پاکستان میں آئے اس میں دہلی بھی شامل ہوں، ایسی صورتحال میں تاریخ یہ سبق سکھاتی ہے کہ مسئلے کا جو بھی حل نکالنا ہے وہ مقامی لوگوں نے ہی نکالنا ہے۔فسادات اور قتل عام میں فوج کے غیر فعال کردار پر بات کرتے ہوئے موہن داس گاندھی کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی فوج میں پنجاب کی اکثریت تھی اور انگریز نے یہ جان بوجھ کر کیا تھا کیونکہ جب انگریز یہاں آئے تو یہاں رنجیت سنگھ کی حکمرانی تھی۔’رنجیت سنگھ کے پاس سکھ اور کچھ مسلم سپاہی تھے جنھوں نے انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا، انگریزوں نے سوچا کہ یہاں سے انہیں سپاہی مل سکتے ہیں، انہوں نے انہیں بھرتی تو کر لیا لیکن ان میں کبھی دوستی نہیں ہونے دی۔راج موہن کے مطابق تقسیم کے وقت سکھ اور مسلم فوجی کچھ ایسے تھے جن کے پاس سرکاری رائفلیں، نقشے اور ٹرینوں کے اوقات موجود تھے، وہ اس قتل عام میں شریک ہوگئے لیکن سب لوگ اس میں شامل نہیں تھے مارنے والوں سے تحفظ دینے والے زیادہ سامنے آئے۔راج موہن گاندھی کی بیگم سندھ سے تعلق رکھتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم سے بنگال اور پنجاب زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ دونوں کی تقسیم ہوئی لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں اس سے سندھ بھی محفوظ نہیں رہا اور یہاں سے ڈاکٹر، انجینیئر اور تاجر چلے گئے۔پاکستان اور انڈیا میں ایک نئے دور کے آغاز پر زور دیتے ہوئے عدم تشدد کے پیروکار گاندھی کے پوتے کا کہنا تھا کہ کئی لوگوں نے جو غصہ تھا یا نفرت تھی، اس کو ایک طرف رکھنے کی کوشش کی ہے، اس حد تک کہ کئی لوگوں نے معاف کرنے کی بھی باتیں کی ہیں کیونکہ اگر ہم دل میں نفرت رکھتے ہیں تو اس کا نقصان ہم کو ہی زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ایک نئے دور کی ابتدا کی ضرورت ہے۔‘ادبی میلے میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بھی ایک مباحثہ کیا گیا جس میں انسانی حقوق کی نامور کارکن عاصمہ جہانگیر نے حکومت اور طالبان مذاکرات پر تنقید کی اور کہا کہ یہ مذاکراتی ٹیم اصل میں طالبان ویلکم کمیٹی ہے، ’ بہارو پھول برساو ¿ طالبان آئے ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ وہ بچیوں کو شٹل کاک برقع پہنانے کے خواہشمند ملا کو وہ شٹل کاک بنا دیں گے۔’میں کہتی ہوں کہ کوئی ملا ہمیں یہ نہ بتائے کہ ہمارے کتنے حقوق ہیں، ہمیں اپنے حقوق خود پتہ ہیں اور یہ حقوق ہمیں کسی ملا نے نہیں دیے ہم عورتوں نے خود لیے ہیں۔ ہم اس ملک میں مرنے، لاٹھیاں کھانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ ہم اپنی بچیوں کو ان حالات میں نہیں چھوڑ کر جائیں گے کہ وہ شٹل کاک برقع میں ادھر ادھر بھٹکتی رہیں۔‘عالمی سیاسی صورت حال اور پاکستان کے موضوع پر ایک مذاکرے میں مقررین کا کہنا تھا کہ سنہ 1970 کی دہائی میں اسلامی ممالک میں آنے والے ابھار نے پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیل کردی۔ اس مذاکرے میں بھی طالبان سے مذاکرات زیرِ بحث آئے۔سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی کا کہنا تھا کہ جس انداز میں یہ مذاکرات ہو رہے ہیں، جس انداز سے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں اور جس طرح تحریک طالبان نے عمران خان کو نامزد کیا ہے اس سے تو یہ شطرنج کی ایک چال لگتی ہے۔ بجائے اس کے کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے حکومت اور سیاسی جماعتیں عوام کو گمراہ کر رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان آئین کو نہیں مانتے ان کے باقی مطالبات بھی ایسے ہیں جو حکومت تسلیم نہیں کرسکے گی بلکہ کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتی۔سابق سفیر ظفر ہلالی کا کہنا تھا کہ وہ ان مذاکرات سے کچھ زیادہ پر امید نہیں حکومت کے پاس سوات کی مثال موجود ہے۔’ میں نہیں سمجھتا کہ تحریک طالبان اور ہم ایک لائن یا لیول پر ہیں اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پھر کچھ اور ہوگا۔پانچ سال قبل پانچ ہزار شرکا سے ابتدا کرنے والے کتب میلے میں گزشتہ سال 50 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی اور اس میں اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔یہ ادبی میلہ اب تک پاکستان کے سب سے بڑے ادبی میلوں میں ایک ہے۔ اس بار اس میلے میں پاکستان سمیت دس سے زائد ملکوں کے دو سو سے زائد ادیب، دانشور اور فنکار شریک ہوئے۔اس سال میلے کے شرکا نے سب سے زیادہ دلچسپی موسیقی اور رقص کے ساتھ فیسٹیول میں پہلی بار آنے والے مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن کی باتوں، پاکستان کو شدت پسندی اور امن و امان کی مخدوش صورت حال اور بلوچستان سے متعلق موضوعات میں ظاہر کی۔راج موہن گاندھی نے ایک طرف جہاں تاریخ اور تاریخ نویسی کو درپیش رہنے والی رکاوٹوں پر روشنی ڈالی وہاں انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کو حالات بہت بنانے کے لیے صرف سیاستدانوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے خود بھی سرگرم ہونا چاہیے۔راج موہن گاندھی اس سال میلے میں شریک ہونے والی سب سے اہم شخصیت تھے۔انھوں نے اس مسئلے پر بھی زور دیا کہ اکثریت کو اقلیتوں کے تحفظ میں جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا اور لوگ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے آواز تو اٹھاتے ہیں لیکن ان کا انداز رسمی سا ہوتا ہے۔یہ کے ایل ایف 2010 سے ہر سال فروری کے اوائل میں ہوتا ہے۔ اس کی بانی آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید اور شریک بانی ڈاکٹر آصف اسلم فرخی ہیں۔ جو خود بھی ایک ممتاز ادیب، مصنف اور مترجم ہیں۔تین روز کے دوران روزانہ 25 سے 30 اجلاس اور ایونٹ ہوئے۔ پانچ سے چھ کتابوں کی رونمائی ہوئی تھیٹر اور بچوں کے لیے سات سے آٹھ پروگرام ہوتے رہے اور دو درجن سے زائد ناشرین اور کتب فروش اداروں نے لوگوں کو کتابیں فروخت کیں۔اس سال اس ادبی میلے کے شرکا کی تعداد 70 ہزار کے لگ بھگ تھی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 ہزار زائد تھی۔مہاتما گاندھی کے پوتے اور مورخ ڈاکٹر راج موہن گاندھی اس سال میلے میں شریک ہونے والی سب سے اہم شخصیت تھے۔ انھوں نے نہ صرف کئی اجلاسوں سے خطاب کیا بلکہ ان کی کتاب ’پنجاب، اورنگزیب سے ماو ¿نٹ بیٹن تک ایک تاریخ‘ کی رونمائی بھی ہوئی۔ یہی کتاب شاید انگریزی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بھی رہی ہو گی۔ اس سال کا ایک اور اہم ایونٹ انگریزی میں لکھی جانے والی فکشن اور نان فکشن کتابوں پر انعامات کا آغاز تھا۔ اس سال کا ’کے ایل ایف امن انعام‘ اکبر ایس احمد کی کتاب ’دی تھسل اینڈ دی ڈرون‘ کو، کے ایل ایف ایمبیسی آف فرانس کا انعام برائے فکشن عظمیٰ اسلم خان کے ناول ’تھنّر دین سکن‘ کو اور کے ایل ایف کوکا کولا ایوارڈ برائے نام فکشن ڈاکٹر اسامہ صدیقی کی کتاب ’پاکستانز ایکسپیرئنس ود فارمل لاء‘ کو دیا گیا۔افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں کے علاوہ سب سے زیادہ بڑی تعداد راج موہن گاندھی، ضیا محی الدین، ناہید صدیقی کے رقص، محمد حنیف، کاملہ شمسی، داستان گوئی، اشیش نندی، افغانستان 2014، پاکستان میں ادب اور موسیقی، عطالحق قاسمی، مستنصر حسین اور عبداللہ حسین کے اجلاسوں میں شریک ہوئی اور راج موہن کے بعد سب سے زیادہ گونج عاصمہ جہانگیر کی تقریر کی تھی۔اس سال فیسٹیول کا ایک اور اہم پہلو کہ فیسٹیول کے دوسرے روز کراچی میں ہڑتال باوجود لوگوں کی اتنی تعداد کی فیسٹیول میں آمد تھی کہ منتظمیں کے لیے بھی حیران کن اور غیر متوقع تھی۔شاید اسی لیے اختتامی اجلاس میں فیسٹیول کی بانی امینہ سید نے کہا ’کل جب سورج نکلے گا تو یہاں نہ یہ کرسیاں ہوں گی، نہ یہ ٹینٹ ہوں گے اور نہ ہی ان کے نشان، لیکن وہ باتیں جو پچھلے تین دن کے دوران کی گئیں، وہ مباحث جو ہوئے، وہ خیالات جو سامنے آئے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر اکساتے رہیں گے۔ وہ کتابیں جو یہاں سے لوگوں کے ساتھ گئی ہیں وہ انھیں بہت سی باتوں کے بارے میں سوچنے پر گرمائیں گی۔اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=9418&lang=UR