حکومتی ترجیحات کو درپیش چیلنج۔چودھری احسن پر یمی


 وزیرِ اعظم نواز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کی حکومت کی ترجیحات میں ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ، معیشت کی بحالی، توانائی کے شعبے کی بہتری اور انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔انھوں نے یہ بات برطانیہ کے سرکاری دورے کے دوران برطانیہ کی بین الاقوامی ترقی کی وزیر جسٹن گریننگ سے گفتگو کے دوران کہی۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ ان کی حکومت ملک میں اچھے طرزِ حکمرانی کو متعارف کرانے، مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ دینے، ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت دے کر ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون سے لندن میں ملاقات میں کہا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔وزیر اعظم کے دورے سے ایک روز پہلے برطانیہ کی پارلیمان کی انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کمیٹی نے حکومت کو تجویز کیا کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد کو شدت پسندی کو روکنے کے اقدامات سے مشروط کرے۔برطانیہ پاکستان سالانہ 75 کروڑ ڈالرکی امداد دیتا ہے۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو تجویز دی کہ ’جب تک پاکستان اسلامی شدت پسندی کے خلاف موثر اقدامات نہیں کرتا، پاکستان کو دی جانے والی امداد کم کر کے غریب ممالک کو دی جائے۔کمیٹی نے مزید کہا: ’اس حوالے سے اتنی بڑی امداد اس وقت ہی دی جا سکتی ہے جب واضح شواہد ہوں کہ برطانوی ترقیاتی ادارے کی امداد سے شدت پسندی کے خطرے میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو ہم سفارش کرتے ہیں کہ پاکستان کی امداد کم کر کے یہ رقم غریب ممالک کو دی جائے۔برطانوی کمیٹی نے اپنی پچھلی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد میں اس وقت تک اضافہ نہ کیا جائے جب تک پاکستان کے رہنما ٹیکس موصولی میں بہتری نہیں لاتے اور خود ٹیکس نہیں دیتے۔پاکستان کو برطانیہ کی جانب سے سنہ 2011 سے سنہ 2015 کے عرصے کے لیے ایک ارب 17 کروڑ پاو ¿نڈ کی امداد دی جانی تھی اور یہ کسی بھی ملک کو دی جانی والی سب سے زیادہ ترقیاتی امداد ہے۔اس امداد کی سالانہ رقم سنہ 2010-2011 کے ساڑھے 21 کروڑ کے مقابلے میں سنہ 2014-2015 کے لیے بڑھا کر ساڑھے 40 کروڑ پاو ¿نڈ کی جانی متوقع ہے۔برطانیہ کا موقف ہے کہ پاکستان کو اقتصادیات، تعلیم اور صحت کے میدانوں میں مسائل کا سامنا ہے اور اس کے چھ کروڑ خاندان خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔برطانیہ کا خیال ہے کہ پاکستان کو زیادہ امداد کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ملک شدت پسندی اور دہشت گری کے خاتمے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔لیکن کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان دہشت گردی کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہیں کرتا تو ایسے میں یہ رقم بہت زیادہ ہے۔رپورٹ کے جواب میں بین الاقوامی ترقی کے محکمے کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت بیرونی ممالک کی ترقی میں سرمایہ کاری کے باعث ’برطانیہ کے لیے محفوظ اور خوشحال ماحول پیدا ہوگا۔‘ادارے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’دنیا کے غریب ممالک میں غربت دور کرنے کا مقصد شدت پسندی سمیت دیگر عالمی مسائل کی بنیادی وجہ ختم کرنا ہے۔ اور یہ برطانیہ کے لیے بہت اہم ہے۔‘ان کے بقول: ’پاکستان کا مستقبل بدلنے کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے اور ہماری امداد کا ایک بڑا حصہ اسی کام کے لیے مختص ہے۔ اور اسی میں برطانیہ ہی کا مفاد ہے۔‘برطانیہ حال ہی میں جی 7 کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے قومی آمدن کا 0.7 فیصد ترقیاتی کاموں پر خرچ کر کے اقوامِ متحدہ کا ہدف پورا کیا ہے۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ اب دوسری قوموں کو بھی برطانیہ کی تقلید کرتے ہوئے اور اپنے فرائض ادا کرنے چاہییں۔جبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دورہ برطانیہ کے موقع پر ایک انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ کچھ عناصر طالبان کے ساتھ جنگ بندی سے خوش نہیں اور یہ عناصر ’نہ ہمارے دوست ہیں اور نہ ہی شاید وہ تحریکِ طالبان کے دوست ہیں۔‘ ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر معاملات بگاڑنا چاہتے ہیں اور وہ امن کے مخالف ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انھی عناصر نے سبزی منڈی اسلام آباد میں دھماکہ کیا اور دیگر مقامات پر بھی ایسے دھماکے کیے۔ میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ ’ہم نے ان عناصر کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان میں حملوں میں کمی آئی ہے لیکن یہ پوری طرح بند نہیں ہوئے۔اس سوال کے جواب میں کہ بیرون ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں امن عامہ کی صورت حال کیسے بہتر ہو سکتی ہے، وزیرِاعظم نے کہا کہ سکیورٹی کا مسئلہ نائن الیون سے چل رہا ہے: ’یعنی یہ اس زمانے سے چل رہا ہے جب پاکستان میں آمریت تھی۔ اگر پاکستان میں مارشل لا نہ آتے تو کبھی سکیورٹی کا مسئلہ نہ ہوتا۔ جمہوریت کے دوران آج تک نہ ملک اور نہ ہی عوام کو سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہوا ہے۔‘شدت پسندی کے بارے میں نوازشریف کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹروں نے سیاست دانوں کو ایک کنارے لگا کر ایسے عناصر کے ساتھ تعلق بڑھانے کو ترجیح دی جن کا جمہوریت کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا: ’ایسے عناصر کے ساتھ تعاون کا تو یہی نتیجہ نکلنا تھا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری اپنی غلطیوں، ہمارے اپنے قصوروں کی پیداوار ہے۔نواز شریف نے کہا کہ سکیورٹی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے حکومت، افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں قدم بڑھا رہی ہیں: ’ہماری پہلی ترجیح یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ بات چیت شروع ہے ۔۔۔ اس سلسلے میں پیش رفت ہماری توقع سے کم ہے، تاہم اگر مزید خون بہائے بغیر ہم امن حاصل کر لیتے ہیں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔پاکستان کی فوج کے سربراہ کے ایک حالیہ بیان کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے درست کہا ہے کہ آئین سپریم ہے اور ہر ایک کو اس کی تکریم کرنا چاہیے: ’فوج کے سربراہ کے بیان سے بہت سے ابہام دور ہوئے ہیں۔جب وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کی حمایت کریں گی، لیکن جب ایک صحافی کسی ریاستی ادارے پر انگلی اٹھاتا ہے تو ملک بھر میں شور کیوں برپا ہو جاتا ہے، تو نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ایک دم یہ اخذ نہیں کر لینا چاہیے کہ کون اس کا ذمہ دار ہے۔ جب تک حقائق سامنے نہ آ جائیں، قیاس آرائی نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں کمیشن کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔ پتہ چل جائے گا کہ کون اس کا ذمہ دار تھا۔‘بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کو زخم لگائے گئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی کو کیسے قتل کیا گیا اور پھر چند لوگوں کی موجودگی میں ان کو دفن کر دیا گیا۔ یہ مناظر کسی کو بھولے نہیں، میں بھی بلوچوں کے زخموں کو محسوس کرتا ہوں۔‘انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے پچھلے ادوار میں کچھ نہیں کیا گیا، لیکن اب بلوچستان کی حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہے۔ ان کہنا تھا کہ انھوں نے وزیِراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سے کہا ہے کہ ناراض عناصر سے بات کریں اور انھیں سیاست کے قومی دھارے میں واپس لائیں۔’ہم بلوچستان کے ہر شہر کو گیس فراہم کریں گے اور سڑکوں کا جال بچھائیں گے۔ ان پانچ سالوں میں بلوچستان میں بے پناہ کام ہوگا۔ احساس محرومی کو کم کریں گے۔ جنھوں نے بلوچوں کے ساتھ ظلم کیا ہے انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔‘پاکستان میں شدت پسندی کے شدید رجحانات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ اس کی وجہ آمرانہ دور کے دوران قانون و انصاف سے انحراف ہے اور سماجی، معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں ہیں: ’اگر پاکستان جمہوری راستے پر رہتا، تو آج ان تمام چیزوں کا نام ونشان تک نہ ہوتا۔‘’ آمریت میں ذات پات، فرقہ واریت، اونچ نیچ اور سماجی اور معاشی ناہمواریاں جم لیتی ہیں۔ آج سے 40 سال پہلے کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون شیعہ اور کون سنی ہے لیکن جب غیر جمہوری قوتیں آتی ہیں تو فرقہ وارانہ لوگ ان کے دست و بازو بن جاتے ہیں اور آمریت دہشت گردی کے لیے بریڈنگ گراو ¿نڈ بن جاتی ہے۔‘بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ایک سوال پر پاکستان کے وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں: ’میرے صدر کرزئی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور بھارت میں جو بھی آئے ہمیں ان سے اچھے تعلقات بڑھانے ہوں گے۔ ہندوستان کے لوگ جسے مینڈیٹ دیں گے ہم اس کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اور تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ سکیورٹی کے حوالے سے بھی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’ہم سنہ 1999 کے اچھے دور کو واپس لائیں گے جب واجپائی پاکستان آئے تھے۔ ٹرین، تجارت اور ویزا کی سہولیات کو بہتر بننا چاہیے۔ ہم ہندوستان کے ساتھ بجلی پر بھی بات کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر اور دیگر معاملات کو بھی ٹھیک کرنے کے لیے کوشش کی جائے گی۔‘وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کہ وہ عنقریب ایران کا دورہ بھی کرنے جا رہے ہیں جس کا مقصد تعلقات کو مضبوط کرنا اور گیس، تجارت اور سرحدی معالات پر بات کرنا اور ایران کے ساتھ تاریخ تعلقات کو مزید فروغ دینا ہے۔اپنی حکومت کے گذشتہ دس ماہ کی کارکردگی کے بارے میں نواز شریف نے کہا کہ ان کی حکومت تعلیم، توانائی، معیشت اور شدت پسندی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے: ’یہ چاروں چیزیں ہمارے منشور میں شامل تھیں اور ہم انھی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ ملک کی معیشت میں بہتری آ رہی ہے اور پاکستان کی معیشت میں ایک نیا موڑ آ رہا ہے اور ہم تعلیم پر بجٹ دو فیصد سے بڑھا کر چار فیصد تک لے جائیں گے۔اپنے تیسرے ہدف کے بارے میں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں نئے بجلی گھر لگنا شروع ہو گئے ہیں: ’ہم جلد ہی توانائی کے مسئلے پر قابو پا لیں گے، بلکہ 20 سے 25 سال آگے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 65 سالوں میں پاکستان میں 23 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگے جبکہ اگلے آٹھ سال میں اس میں 21 ہزار میگا واٹ کا اضافہ کیا جائے گا: ’یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہو گی، کہاں 65 سالوں میں 23 ہزار اور کہاں اگلے آٹھ سالوں میں 21 ہزار میگا واٹ۔اگر ہمیں یقین نہ ہوتا تو ہم منشور میں اس کا وعدہ نہ کرتے۔‘وزیراعظم نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعاون کے حوالے سے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں برطانیہ کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں۔ برطانیہ تعلیم کے شعبے میں پاکستان کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے اور کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں جنھیں ہم بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘ان کہنا تھا کہ برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ سکیورٹی کے حوالے سے بھی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ توانائی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے برطانیہ پاکستان کی بھرپور مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو زخم لگائے گئے۔ ہم سب جانتے ہیں میں بھی بلوچوں کے زخموں کو محسوس کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے پچھلے ادوار میں کچھ نہیں کیا گیا۔اے پی ایس