عمران،میڈیا اور الیکشن کمیشن۔چودھری احسن پر یمی


پاکستان میں گیارہ مئی 2013 کے تاریخی انتخابات کے ایک سال بعد ملک بھر میں مختلف شہروں میں متعدد سیاسی جماعتوں نے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔ان مظاہروں میں سب سے آگے پاکستان تحریک انصاف کا احتجاجی مظاہرہ تھا جو کہ گذشتہ سال کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک میں منعقد ہوا۔ اسلام آباد میں جماعت کے سربراہ عمران خان نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ لاہور سے پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اعجاز چوہدری کی سربراہی میں ایک قافلہ روانہ ہوا جس میں گجرانوالہ، گجرات اور جہلم سے بھی قافلے شامل ہوئے۔یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کو متنبہ کیا تھاکہ پارلیمنٹ ہاو ¿س کے سامنے احتجاج کے لیے آنے والوں کو روک کر حکومت خود جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی جانب جائے گی۔انہوں نے کہا کہ حکومت شرکا کو پارلیمنٹ ہاو ¿س کے سامنے احتجاج کرنے سے نہیں روک سکتی۔عمران خان نے کہا کہ ان کی جماعت اسلام آباد میں پرامن احتجاجی مظاہرہ کر کے اپنا جمہوری حق استعمال کر رہی ہے۔ ’ہماری جماعت نے ملک میں درمیانی مدت کے انتخابات کا مطالبہ نہیں کیا۔ادھر خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی سب سے بڑی اتحادی جماعت جماعت اسلامی نے عمران خان کے احتجاج کی حمایت تو نہیں کی، لیکن اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے نو منتخب امیر سراج الحق اتوار کو ہی لاہور پہنچے۔ لاہور میں ان کے استقبال کے سلسلے میں کرکٹ گراو ¿نڈ پر جلسہ منعقد کیا گیا۔واضح رہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اسی دن دو روزہ دورے پر ایران روانہ ہوئے تھے۔دوسری جانب لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا تھا کہ احتجاج کرنا سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے تاہم اسے جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے ۔تاہم وزیر اطلاعات نے واضح طور پر کہا کہ کسی حلقے کی طرف سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔واضح رہے کہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاو ¿س کے سامنے احتجاج کے شرکاءکی تلاشی کے لیے نہ صرف ’واک تھرو گیٹس‘ لگائے گے بلکہ باردو کی بو سونگھ کر اس کا پتہ لگانے والے کتوں کا استعمال بھی کیا گیا۔وزیر داخلہ نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ شرکاءکی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔انتخابات کے ایک سال بعد الیکشن کمشن کو مظاہرین کی طرف سے کئی الزامات کا سامنا ہے اور دھاندلی سے متعلق کچھ شکایات سلجھانی بھی باقی ہیں۔ اس کام کے لیے مختص مدت چند ماہ کی تھی۔ پاکستان میں انتخابات کے ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد میں احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ اتوار کو ڈی چوک میں ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جب تک نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ پورا نہیں ہو جاتا تب تک ہر جمعے کو الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرتے رہیں گے۔عمران خان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ان چار حلقوں کے ووٹوں کی تصدیق کرائی جائے جن کی پی ٹی آئی نشاندہی کر چکی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بایو میٹرکس نظام لایا جائے تاکہ انتخابات میں دھاندلی حتم ہو جائے۔عمران خان نے اعلان کیا کہ 23 مئی کو صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں جلسہ کیا جائے گا اور اس جلسے میں اس سے اگلے جلسے کے مقام کا اعلان ہوگیا۔عمران خان نے تقریر میں ریٹرننگ آفیسرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’بتاو ¿ کہ یہ میچ فکسنگ انفرادی طور پر کی یا ٹیم نے مل کر کی۔‘ اپنی تقریر میں پی ٹی آئی کے چیئرمین نے نجی ٹی وی چینل کے مالک کو بھی نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ ٹی وی چینل ان کی کردار کشی کر رہا ہے۔ اسلام آباد کے ڈی چوک احتجاجی ریلی کی سکیورٹی کے حوالے سے پولیس کے مطابق پانچ ہزار اہلکار مامور کیے گئے تھے۔اسلام آباد انتظامیہ نے جناح ایونیو کے اطراف کے تمام راستے بند کردیے تھے اور ڈی چوک میں جلسے گاہ پرپہنچنے کے لیے صرف جناح ایونیو ہی کا راستہ استعمال کیا جا سکتا تھا۔جناح ایونیو پر ڈی چوک سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر سکیورٹی چیک کے لیے تین تہیں تھیں جن سے گزر کر ہر شخص جلسے گاہ تک پہنچ رہا تھا۔پاکستان تحریک انصاف کے اس جلسے کے منتظمین نے بتایا کہ اس جلسے میں 40 ہزار کرسیاں لگوائی گئی تھیں۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ پولیس نے اسلام آباد کے داخلی راستوں پر جگہ جگہ ناکے لگا رکھے ہیں اور ان کے بہت سے کارکنوں کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔جبکہ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے طاہرالقادری نے کہا کہ حکومت اور نظام کا خاتمہ واجب ہو چکا ہے۔صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جو پنجاب اسمبلی پر اختتام پذیر ہوئی۔پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاجی ریلی سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دھاندلی کے ذریعے قائم ہوئی حکومت سے خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔طاہرالقادری نے حکومتِ پنجاب پر لوگوں کو جلسے میں شامل ہونے سے روکنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت لوگوں کے ساتھ ہے تو پھر لوگوں کو روکا کیوں گیا ہے۔لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج میں مسلم لیگ ق نے بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کو طاقت کی سیاست سے دور رہنا ہوگا کیو نکہ پرویز مشرف کے مارشل لاءاور جعلی ریفرنڈم کی حمایت میں استعمال ہوچکے ہیں۔تاہم اب ان کی جڑیں عوام میں ہیں اور جمہوریت کاتحفظ ان پر بھی لازم ہیں۔عوام پچھلے انتخابات میں تیسری بڑی سیاسی جماعت کا درجہ دلوا چکی ہے لہٰذا اب انہیں محتاط رویہ اپنانا ہوگا۔عمران خان کو ونسٹن چرچل کو سامنے رکھنا ہوگا کیو نکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سپر پاور تو امریکہ بن گیا اور چرچل جنگ جیتنے کی دہائیاں ہی دیتے رہ گئے۔ البتہ برطانیہ کے عوام اصل حقیقت جانتے تھے کہ حضرت چرچل نے انھیں کہاں مروایا ہے، چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے 1946 کے انتخابات میں چرچل کو مسترد کر کے لیبرپارٹی کو جتوا دیا تھا۔جمہوریت کا بھی یہی خاصا ہے کہ وہ 'زیادہ جمہوریت' کی متقاضی ہوتی ہے نہ کہ محلاتی سازشوں یا گھیراو ¿ جلاو ¿ پر انحصار کرتی ہے۔ گیارہ مئی یہ تو وہ دن ہے جو اس 'پہلے جمہوری تسلسل' کی یادگار ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ووٹوں کے ذریعہ وفاق و صوبوں میں پرانی منتخب حکومتیں گئیں اور نئی منتخب حکومتوں نے اقتدار سنبھالا. 65 سالوں میں یہ دن دیکھنے کی آرزو لیے کتنے ہی درد دل رکھنے والے پاکستانی راہی ملک عدم ہو چکے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ انتخابی عمل آزاد، غیرجانبدار اور شفاف ہو۔ عمران خان شفاف، غیرجانبدار اور آزاد الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ میڈیا ریگولیشنز کے حوالہ سے متبادل تجاویز لے کر آئیں۔ ان تجاویز پر تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کریں اور پھر منتخب ایوانوں میں اس کے لیے جدوجہد کریں۔ اب جمہوریت کی بے توقیری کی قطعی کوئی گنجاش نہیں۔اے پی ایس