پارلیمنٹ: تحفظِ پاکستان بل پر تحفظات۔چودھری احسن پریمی



 انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ تحفظِ پاکستان بل (پی پی او) جبری گمشدگیوں اور شبہے کی بنیاد پر کسی کو گولی مارنے کا اختیار دینے کے لیے قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔حکومت کو اس نئے قانون کی بجائے ملک میں پہلے سے موجود قوانین کو موثر طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ تحفظِ پاکستان بل (پی پی او) میں ملزمان کو زیرِحراست رکھنے کی مدت بڑھانا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شک کی بنیاد پر کسی کو گولی مارنے کا اختیار دینا یا غائب کر دینا اور جواب دہ نہ ہونا تشویش ناک ہے۔شبہے کی بنیاد ملزمان کو زیرِ حراست رکھنے کی مدت میں 30 دن سے 90 دن کا اضافہ بہت طویل عرصہ ہے اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیار مل جائے گا کہ وہ اپنی مرضی سے تفتیش کریں۔ پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف جوابی کارروائی میں گولی مارنے کا اختیار تھا، تاہم پی پی او میں انھیں شبہے کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو گولی مار دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔کراچی میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں رینجرز نے معصوم لوگوں کی جانیں لی ہیں۔ عوام کی نظر میں لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرنے کو قانونی جواز دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیونکہ اس بل میں اٹھانے والوں کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ یہ بتائیں کہ انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت دہشت گردی کے تدارک میں مدد ملے گی لیکن پھر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اور نکتہ چین اس بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے؟ بلاشبہ پاکستان کی موجود صورتِ حال میں حکومت کو دہشت گردی کے تدارک کے لیے باضابطہ قانون بنانے اور پالیسی بنانے کی ضرورت تھی۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف عدالتیں بھی موجود ہیں، شدت پسندی کے خلاف 1997 کا ایکٹ بھی موجود ہے جس میں کئی مرتبہ ترامیم ہو چکی ہیں۔ اس قانون میں گواہوں اور مدعی کے تحفظ پر کوئی بات نہیں کی گئی۔یہاں اس امر سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کے بڑے ممالک میں بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اس قسم کے قوانین بنائے گئے ہیں، مثلاً امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد گاہے بگاہے قوانین میں سختی کی گئی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اس قسم کا قانون موجود ہے۔ تو ایسے میں پاکستان کہاں جائے، اگر وہ ایسا کوئی اقدام کرتا ہے تو اس پر اتنے تحفظات کیوں؟ اس ضمن میں ضروری نہیں امریکہ جو کرے وہ ہم بھی کریں اور یہ کہ وہ صحیح بھی ہو: ’امریکہ میں بھی میڈیا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے نائن الیون کے بعد بننے والے قوانین پر تنقید کی تھی۔ ممکنہ طور پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے پی پی او کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ اسے مختلف پہلوو ¿ں سے دیکھے گی۔سپریم کورٹ اس قانون کودیکھتے ہوئے ملک کی صورتِ حال کو دیکھے گی مگر خیال ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی نظر سے بھی اس قانون کو دیکھے گی۔ادھر قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس قانون کے بارے میں حکومت واضح نہیں۔قانونی ماہرین کی نزدیک فی الوقت اس قانون کے بارے میں کنفیوژن ہے اور حکومت اس حوالے سے پارلیمنٹ میں واضح نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’اگر یہ قانون صرف جنگ زدہ علاقے میں نافذ کرنے سے متعلق ہے تو پھر تو آپ اس کی کچھ شقوں کو بطورِ دفاع استعمال کر سکتے ہیں، تاہم اگر یہ امن کے حالات کے لیے بھی ہے تو پھر اس کی بہت سی شقیں بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں۔ ملک میں پہلے ہی انسدادِ دہشت گردی کا ایکٹ موجود ہے اور ایک طرح سے پی پی او کی جگہ لے رہا ہے اور ابھی یہ وضاحت نہیں کہ یہ دونوں قانونی حیثیت میں کیسے ساتھ ساتھ چلیں گے اس سے عملی امور میں بہت کنفیوژن پیدا ہوگی۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک کی اعلیٰ عدالتوں کی مانند حکومت اور متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کرے۔دنیاکی سپریم کورٹس زمانہ امن اور زمانہ جنگ کے قوانین کی وضاحت کرتی ہیں لیکن پاکستان میں سپریم کورٹ نے انسدادِ دہشت گردی کے کسی بھی قانون کی کبھی وضاحت نہیں کی۔یاد رہے کہ پاکستان کے صدر نے اکتوبر 2013 میں تحفظ پاکستان آرڈینس جاری کیا تھا۔اس پر تنقید کے بعد حکومت نے ترمیم شدہ بل گزشتہ دنوں ایوانِ زیریں سے سادہ اکثریت سے منظور کروا لیا تھا، تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اس کے خلاف اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنوری 2014 کو جبری گمشدگی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ وہ حکومت کے پیش کردہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس کا جائزہ لے گی اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے کی صورت میں اس سے متعلق فیصلہ بھی دے سکتی ہے۔حکومت نے ایوانِ زیریں سے تو یہ بل پاس کروا لیا ہے تاہم اپوزیشن کا کہناہے کہ وہ ایوانِ بالا میں اسے پاس ہو کر قانون نہیں بننے دے گی۔جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران پیش آنے والی رکاوٹوں اور شکایات کو دور کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ آرمی چیف نے حکومت کو دیانت دارانہ اور مخلصانہ مدد دینے کا یقین دلایا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک کے سول، فوجی، سیاسی اور انتظامی حکام نے کراچی میں امن وامان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس میں شرکت کی۔اس اعلیٰ سطح اجلاس میں صوبہ سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری نے خصوصی شرکت کی جبکہ آئی ایس آئی اور انٹیلی جینس بیورو کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی رینجرز بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔اس اجلاس میں ایم کیو ایم، اے این پی اور جماعت اسلامی کے اراکین بھی موجود تھے۔وزیرِاعظم نے کہا کہ کراچی میں آپریشن تمام سیاسی جماعتوں اور فریقین کی رضامندی سے شروع ہوا تھا اور ان مسائل کا مشترکہ حل ہی واحد راستہ ہے۔نواز شریف نے اجلاس کے شرکا کو یقین دلایا کہ شدت پسندوں اور انتہاپسندوں کی جانب سے جوابی کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہرممکن مدد کرے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امن وامان کے قیام کے لیے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہونا پڑے گا۔انھوں نے کراچی کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے سندھ پولیس میں ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو شامل کرنے کے فیصلے کو بھی مثبت قرار دیا۔پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ فوج سو فیصد دیانت داری کے ساتھ کراچی کے مسئلے کے حل کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت کو ہر قسم کی مدد دینے کے لیے تیار ہے۔فوج کے سربراہ نے سول قیادت کو یقین دلایا کہ’ ہم سے جب بھی کہا کیا گیا ہم دیانت دارانہ رائے اور مدد دیں گے۔‘انھوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کی تعیناتیاں اور تبادلے غیر سیاسی بنیادوں پر ہونے چاہیے۔جنرل راحیل شریف نے صوبے کی پولیس کو جدید سازوسامان اور سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی پولیس کو جدید ہتھیاروں اور سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت پر بات کی اور کہا کہ کراچی میں امن کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی مدد کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دی ۔ انھوں نے بتایا کہ 70لاکھ غیرقانونی سموں کو بلاک کیا گیاہے۔ جبکہ تھری جی ٹیکنالوجی کی مدد سے مزید غیرقانونی سمز کے خلاف کارروائی ہو سکے گی۔یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے گذشتہ سال چار ستمبر کو کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو تاحال جاری ہے۔جبکہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے شدید احتجاج اور واک آو ¿ٹ کے باوجود حکومتی جماعت مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی جماعتوں نے ملک میں نافذ العمل تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نفاذ میں مزید چار ماہ کی توسیع کر دی ہے جو22مئی سے قابلِ عمل ہوگی۔
وزارت داخلہ و انسداد دہشت گردی کی جانب سے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے گزشتہ بدھ کو قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس میں مزید 120 دن کی توسیع کی جائے کیونکہ پہلے سے نافذ العمل اس آرڈیننس کی مدت رواں ماہ کی 21 تاریخ کو ختم ہو رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے پی پی او میں بعض ترامیم کر کے اسے قومی اسمبلی سے پاس کروایا تھا اور منظوری کے لیے جب سینیٹ کو بھجوایا تو وہاں بھی حکومت نے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حزب اختلاف سےمزید ترامیم طلب کیں۔انھوں نے کہا کہ صرف ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہرحسین مشہدی کی جانب سے بعض ترامیم حکومت کو ملی ہیں، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کی جانب سے ترامیم آنے کا انتظار ہے تاکہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کو سینیٹ میں اتفاق رائے سے پاس کر کے قانون کاحصہ بنایا جا سکے۔پاکستان تحریک انصاف کے رکن شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو داخلی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ حالات کو بہتر بنانے کے لیے ایک ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت لوگوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔انھوں نے کہا کہ جب حکومت نے منظوری کے لیے پی پی او قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا تو حزب اختلاف کی اکثر جماعتوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اس آرڈیننس کو پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کیا جائے۔لیکن حکومت نے جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہنگامی اجلاس میں حزب اختلاف کی سخت تنقید کے باوجود اسے قومی اسمبلی سے منظور کروا لیا تھا۔ البتہ سینیٹ میں پی پی او کی منظوری کے لیے حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے۔جس کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کرکے یقین دہانی کروائی تھی کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حکومت نے کمیٹی قائم کر دی ہے، اور جب تک مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ نہیں آتی اس وقت تک آرڈیننس کی مدت میں مزید توسیع کرنے سے گریز کیا جائے گا۔متحدہ قومی موومنٹ کے رکن عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ اس آرڈیننس کی وجہ سے آئین کی کئی شقیں نظرانداز ہو رہی ہیں۔ جس وقت پی پی او قومی اسمبلی میں پیش ہوا تواس وقت ایم کیوایم نے بہت سی ترامیم پیش کی تھیں۔اس میں سے ایک بھی ترمیم آرڈیننس میں شامل نہیں کی گئی۔وزیراعظم میاں نواز شریف نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کرکے یقین دہانی کرائی تھی کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حکومت نے کمیٹی قائم کر دی ہے، اور جب تک مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ نہیں آتی، اس وقت تک آرڈیننس کی مدت میں مزید توسیع کرنے سے گریز کیا جائے گا۔انھوں نے طالبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کے لیے یہ آرڈیننس نافذ کیا گیا ہے، ان عناصر سے تو مذاکرات ہو رہے ہیں، جبکہ اس کا اصل استعمال کراچی میں ہو رہا ہے جہاں سینکڑوں لوگ اب تک اس قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔جمعیت علمائے اسلام ف کی خاتون رکن محترمہ نعیمہ کشور نے ایوان کو بتایا کہ ان کی جماعت جے یوآئی ایف نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے تاحال وزارتیں نہیں لی ہیں۔انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور جمہوری منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے اب یہ آرڈیننس فیکٹری کو بند کرنا چاہیے۔ نعیمہ کشور نے تجویز پیش کی کہ وزیرِ اعظم کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے اور منظوری کے لیے اس قرارداد پر زور نہ دیا جائے۔جماعت اسلامی کے رکن صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ اس وقت عوام دہشت گردی، بھتہ خوری اور جرائم کا شکار ہیں، لیکن حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذکورہ آرڈیننس بھی متنازع بن چکا ہے، جس کی وجہ سے بونیر کے علاقے میں میں پانچ دن سے کرفیو نافذ ہے اور جگہ جگہ چیک پوسٹوں کی وجہ سے عام لوگوں کو کئی کئی گھنٹوں تک سڑک پر انتظار کرنا پڑتا ہے۔
قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نے پی پی او میں ترامیم کے سلسلے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے کمیٹی بنائی ہے تواس کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر 18ویں ترمیم اتفاق رائے سے منظور کروائی تھی۔جس کے بعد حزب اختلاف کے ارکان نے سید خورشید شاہ کی قیادت میں احتجاجاً ایوان سے واک آو ¿ٹ کیا اور حکومتی جماعت مسلم لیگ ن اوران کی اتحادی جماعتوں کے ارکان نے حزب اختلاف کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر متفقہ طور پر کر آرڈیننس میں مزید 120 دن کی توسیع کی منظوری دی۔جبکہذیلی کمیٹی سینیٹ پیڑولیم کے اجلاس میں وفاقی وزیر پیڑولیم شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں گیس ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور پاکستان ایران گیس منصوبے پر ہمارا موقف واضح ہے ایران پر عالمی پابندیاں منصوبے کے راہ میں رکاوٹ ہیں وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورہ ایران کے موقع پر اس مسئلے پر حکومت ایران سے بات چیت ہوئی ہے ۔ ایران ہم سے ناراض نہیں بلکہ اصل حقیقت سے آگاہ ہے دونوں ممالک اس منصوبے پر عمل درآمد کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں ۔ ایم ڈی او جی ڈی سی ایل ریاض خان نے بتایا کہ قدرتی ذخائر میں دو سے تین فیصد کمی ہو رہی ہے لیکن تیل اور گیس کی تلاش کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں ۔ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر عبدالبنی بنگش کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاو ¿س اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔جس میں سینیٹرز محمد طلحہ ٰ محمود ، عثمان سیف اللہ خان کے علاوہ سیکریٹری پیڑولیم عابد سعید ، ایم ڈی او جی ڈی سی ایل ریاض خان ، ایم ڈی پی پی ایل آصف مرتضیٰ ، ڈپٹی ایم ڈی ایس این جی پی ایل۔کے علاوہ تیل و گیس کے کمپنیوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔کمیٹی کے اجلاس میں تیل و گیس تلاش و پیداوار کی کمپنیوں کے گیس پیداواری اضلاع ہنگو ، کرک اور کوہاٹ میں سوشل ویلفیئر کے منصوبوں پر تفصیلی بحث ہوئی ۔کمیٹی کے اجلاس میں ایم ڈی سوئی گیس اور ایم ڈی پی اس او کی اجلاس میں غیر حاضری پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا ۔کنوینر کمیٹی سینیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا کہ سینڈک منصوبے پر اٹھارہ سو مقامی بلوچی کام کر رہے ہیں۔ اور قومی اثاثوں کے محافظ ہیں ۔تیل گیس پیداواری اجلاس میں مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے ۔ کوہاٹ ڈویژن میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملازمت ترجیح بنیادوں پر دی جائے کنوینر کمیٹی سینیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا کہ کوہاٹ ڈویژن سے 46ہزار بیرل تیل کی پیداوار ہورہی ہے دو ماہ میں ایل پی جی 15میٹرک ٹن سے 380میٹرک ٹن سسٹم میں شامل ہور ہی ہے ۔ملک میں گیس کی کل پیداوار میں صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ 27فیصد ہے اور صوبے میں گیس کا استعمال 8سے 10فیصد ہے جبکہ گیس پیداواری علاقوں اور گردو نواح میں گیس بھی فراہم نہیں کی جاتی اور مقامی لوگ بھی بھرتی نہیں کئے جا رہے امن و امان کا مسئلہ تو کھڑا ہوگا۔ ایم ڈی ایس این جی پی ایل نے گیس پیداواری تین صوبوں کے اجلاس میں شرکت نہیں کی اور کہا کہ کوہاٹ ڈویژن میں سوئی گیس کمپنی کے ملازمین کی ملی بھگت سے غیر قانونی کمرشل اور انڈیسٹریل کنکشنز کی وجہ سے اربوں روپے کا قومی نقصان ہو رہا ۔ ایم ڈی ایس این جی پی ایل نے کمیٹی کا غیر اعلانیہ بائی کاٹ کیا ہوا ہے ۔پارلیمنٹ کے ممبران عوام کو اور سرکاری اہلکاران پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں ۔سینیٹر طلحہ محمود نے سینڈک کے بند منصوبے کو دوبارہ چینی کمپنی کودینے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تیل و گیس کی کمپنیاں ملک میں موجود اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے استفادہ کریں ۔چین کی کمپنی نے مقامی افراد کو ہنر مند بنا کر بند منصوبے کو چلا لیا اور کھربوں روپے منافع بھی کمایا جا رہا ہے ہمارے ادارے تو موجود ہیں لیکن کوئی پلاننگ نہیں ہے ۔کنوینر کمیٹی سینیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا کہ میرے پاس کوہاٹ ڈویژن کے سینکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی درخواستیں موجود ہیں ۔ ان مقامی نوجوانوں کو متعلقہ کمپنیاں ملازمتیں فراہم کریں ۔ سینیٹر عثمان سیف اللہ نے تجویز کیا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ کوہاٹ ڈویژن میں قانونی گیس جنریٹرز کے ذریعے بجلی بنانے کی حوصلہ شکنی ہو اور پاور پلانٹ لگا کر بجلی پیدا کی جائے۔ سینیٹر طلحہ ٰ محمود نے کہا کہ گیس کمپنیوں ملازمتوں کی بھرتی کے اشتہارات مقامی اخبارات میں بھی شائع کروایا کریں اور کہا کہ اگلے اجلاس میں خیبر پختونخواہ کی تین گیس فیلڈز میں ملازمین کی تعداد سے آگاہ کیا جائے اور کہا کہ گیس چوروں کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے کاروائی کی جائے ۔ وفاقی وزیر پیڑولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کوہاٹ ڈویژن کا پروجیکٹ 8ارب سے 11ارب روپے کا ہو چکا ہے ۔ غیر قانوی رہائشی کنکشن کے بعد کمرشل ، انڈیسٹریل کے علاوہ سی این جی بھی کھل گئے ہیں جس سے حکومت کو سالانہ آٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور گیس لیکج کی وجہ سے چار ارب روپے ہوا میں اڑ جاتے ہیں ۔وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کابینہ کے 2011کے فیصلے کے مطابق انڈسٹریل کمرشل اور سی این جی کنکشن پر پابندی ہے ۔گیس کی کمی کی وجہ سے پاور پلانٹ ، کھاد کے کارخانے بند پڑے ہیں ۔ ایم ڈی او جی ڈی سی ایل نے آگاہ کیا کہ ملازمین کی کل تعداد دس ہزار ہے ۔سینیٹر عثمان سیف اللہ اور سینیٹر طلحہٰ محمود کے سوال کے جواب میں آگاہ کیا گیا کہ گرگری میں کم پریشر گیس دریافت ہوئی ہے جو قابل استعمال نہیں ایم ڈی او جی ڈی سی ایل اور ایم ڈی پی پی ایل نے آگاہ کی کہ کمپنیوں میں ملازمتوں کے صوبائی کوٹے پر مکمل عمل کیا جا رہا ہے اور مقامی افراد کو بھی ترجیح دی جاتی ہے ۔ کنوینر کمیٹی سینیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا کہ قومی مفاد میں قومی اثاثوں کے درست استعمال اور قومی خزانے کی لوٹ مار روکنا چاہتے ہیں کوئی ذاتی یا سیاسی مقاصد نہیں یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ کوہاٹ ڈویژن میں غیر قانونی طور پر گیس جنریٹرز کے ذریعے تجارتی بجلی فروخت کی جارہی ہے گیس چوروں سے آہنی ہاتھوں سے نمنٹا ہو گا سیکریٹری عابد سعید نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کسی بھی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ ایم ڈی ایس این جی پی ایل کو اگر اجلاس کے لئے سمن کیا گیا تھا تو شرکت بھی لازمی تھی خود معاملہ کو دیکھ کر کمیٹی کو آگاہ کرونگا اور مزید کہا کہ او جی ڈی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی نامزدگی پبلک پرائیویٹ سیکٹر سے حکومت کرتی ہے جسکی وزیر اعظم منظوری دیتے ہیں ۔ کمپنیوں کے تمام فنڈز اور ہیڈز کی ریلیٹی صوبائی بجٹ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے جس میں سے 10فیصد پیداواری علاقوں کے لئے ہوتی ہے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج بھی این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبائی بجٹ میں جاتا ہے ۔وفاقی وزیر پیڑولیم شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت پروڈکشن بونس براہ راست ایم این اے کو ملتا ہے اور منصوبوں پر اخراجات ڈی سی اوز کے ذریعے کئے جاتے ہیں اور انکشاف کیا کہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ وہ امن و امان کو کنٹر ول نہیں کر سکتے ۔ کمیٹی کے اجلاس میں خصوصی دعوت پر ممبر قومی اسمبلی ناصر خان خٹک ، سابق صوبائی وزیر خزانہ نوابزادہ محسن اور سابق ناظم ہنگو نے شرکت کر کے ۔کوہاٹ ڈویژن کے گیس پیدا واری علاقوں کے لوگوں کے مسائل سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔اراکین کمیٹی نے سیکریٹری پیڑولیم کی ہر اجلاس میں شرکت اور مسائل کے حل کیلئے کوششوں کو سراہا اور آئندہ کے اجلاس میں چیف سیکریٹری خیبر پختونخواہ کو بھی طلب کر لیا گیا ۔اے پی ایس