بھارتی مودی سرکار ...۔چودھری احسن پر یمی




 بھارتی پارلیمان کی نشستوں کے لیے انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی کے بعد ابھی تک جو رجحانات آئے ہیں ان کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعت بی جے پی کی فتح ہوئی ہے جبکہ برسراقتدار کانگریس نے شکست تسلیم کر لی ہے۔کانگریس کے ترجمان راجیو شکلا نے کہا ہے کہ ہم شکست تسلیم کرتے ہیں اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔بھارت میں کروڑوں ووٹوں کی گنتی کا عمل جمعے کی صبح شروع ہوا۔ اسی کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سب سے طویل انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچا۔ان انتخابات میں برسرِ اقتدار کانگریس اتحاد اور حزب اختلاف کی اہم جماعت بی جے پی اور ان کی حلیف جماعتوں کے درمیان زبردست مقابلہ تھا۔ووٹنگ کے فوراً بعد رائے عامہ کے اعداد و شمار (ایگزٹ پولز) کے مطابق وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی بھاری فتح کی پیش گوئی کی گئی تھی، لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایگزٹ پولز غلط بھی ثابت ہوئے ہیں۔انتخابات میں جو پارٹی 272 نشستیں یا اس سے زیادہ حاصل کرے اسے ایوان میں اکثریت حاصل ہو تی ہے۔ بے جے پی اتحاد میں کل 28 پارٹیاں شامل ہیں۔تمام تر ایگزٹ پولز نے بی جے پی کے لیے 200 سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی ہوئی ہے۔مودی اور بی جے پی کی جیت کے لیے جگہ جگہ مذہبی رسومات ادا کی جا تی رہی ہیں۔دوسری جانب برسر اقتدار جماعت کانگریس کی جانب سے پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی انتخابی مہم کی قیادت کر رہے تھے۔سات اپریل سے شروع ہو کر 12 مئی کو نو مراحل میں مکمل ہونے والی ووٹنگ کا یہ عمل دنیا کا سب سے بڑا انتخابی عمل تھا جس میں 55 کروڑ سے زیادہ شہریوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ان 55 کروڑ شہریوں کے ووٹ 18 لاکھ ووٹنگ مشینوں میں بند ہیں۔بھارت کے الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار سب سے زیادہ 66.38 فیصد ووٹنگ ہوئی اور 1984 میں اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والی 64 فیصد ووٹنگ کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار کل 55.1 کروڑ ووٹروں نے ووٹ ڈالا جو 2009 کے مقابلے 32 فیصد زیادہ ہے۔اس بار کل ووٹروں کی تعداد 81 کروڑ سے زیادہ ( کل 81,45,91,184 ) تھی جو یورپی یونین کی پوری آبادی سے زیادہ ہے۔اس بار 2,31,61,296 ووٹر 18-19 سال عمر کے تھے، جن میں سے 58.6 فیصد مرد ووٹر ہیں جبکہ 41.4 فیصد خواتین ووٹرز ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابی نتائج کی کنجی ان نئے ووٹروں کے ہاتھ میں تھی۔بی جی پی کی جیت کا جشن منانے کی تیاریوں کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔انتخابات کے دوران تمام پارٹیوں نے نوجوان ووٹروں کو لبھانے کی ہر ممکن کوششیں کی ہیں۔ انتخابات کے نتائج نے یہ بتا یا ہے کہ بھارت کی اس نوجوان آبادی کے دل میں کیا ہے۔بڑی ریاستوں میں اس بار مغربی بنگال (81.8 فیصد)، اوڈیشا (74.4 فیصد) اور آندھر پردیش (74.2 فیصد) میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔تاہم انتخابی مبصرین کی نظریں سب سے اہم انتخابی ریاست اتر پردیش اور بہار پر مرکوز ہیں لیکن ان دونوں ہی ریاستوں میں اوسطاً کم ووٹنگ ہوئی ہے۔ یوپی میں 58.6 فیصد جبکہ بہار میں 56.5 فیصد پولنگ ہوئی۔اس بار حکومت ہندوستان نے انتخابات پر کل 3426 کروڑ روپے خرچ کیے جو 2009 کے 1483 کروڑ روپے کے مقابلے 131 فیصد زیادہ ہے۔یاد رہے کہ سنہ 1952 میں ہونے والے پہلے لوک سبھا انتخابات میں صرف 10.45 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی نے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو ملک کے آئندہ وزیراعظم کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا ۔بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی پارلیمانی کمیٹی نے متنازع سیاستدان نریندر مودی کی نامزدگی کا فیصلہ کیا تھا۔جبکہ بی جے پی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے پارٹی کے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے صدر راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے احترام میں کیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نریندر مودی کے نام پر تمام اتحادی جماعتوں نے حمایت کا اعلان کیا ہے۔اس سے قبل نریندر مودی کو آئندہ انتخابات کے لیے پارٹی کی انتخابی مہم کمیٹی کا سربراہ بھی بنایا گیا تھا۔ گجرات کی سیاست سے نکل کر قومی سیاست میں مودی کی آمد نے بھارت کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ بھارت کی حالیہ تاریخ میں مودی پہلے ایسے رہنما ہیں جن کے لوگ یا تو سخت خلاف ہیں اور یا پھر زبردست حامی اور یہ صورتحال خود ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی موجود رہی ہے۔نریندر مودی کو جہاں بھارتی ریاست گجرات کو ملک کی خوشحال ترین ریاستوں میں سے ایک بنانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے وہیں ان پر 2002 میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو روکنے کی کوشش نہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ان فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے اور مودی پر الزام ہے کہ انہوں نے2002 کے مسلم مخالف فسادات کے دوران پولیس کو مداخلت نہ کرنے کی ہدایت دی تھی۔ نریندر مودی اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔1950 میں پیدا ہونے والے نریندر مودی 1980 میں بی جے پی کے رکن بنے اور جماعت میں کئی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 2001 میں پہلی مرتبہ گجرات کے وزیراعلی بنے۔ اس کے بعد مودی نے گجرات میں 2002، 2007 اور پھر 2012 کے اسمبلی انتخابات جیتے۔نریندر دامودر داس مودی متنازع شخصیت کے مالک ہیں اور ان کے چاہنے والے اور انھیں ناپسند کرنے والے دونوں ہی اپنی محبت اور نفرت میں حد سے گزر جاتے ہیں۔مودی کے مخالفین انھیں تفرقہ پیدا کرنے والی شخصیت گردانتے ہیں، جبکہ چاہنے والوں کے لیے ان کے کئی اوتار ہیں، کہیں وہ ہندوتوا کے پوسٹر بوائے ہیں، تو کہیں تبدیلی اور اقتصادی ترقی کی علامت، یا پھر ایک ایسے مضبوط رہنما جو ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔مودی کی سیاسی زندگی جتنی سرخیوں میں رہی ہے، ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں لوگ اتنا ہی کم جانتے ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں لیکن ہمیشہ اکیلے رہے ہیں۔ ان کے تین بھائی بھی ہیں، اور والدہ بھی حیات سے ہیں، لیکن وہ اپنے خاندان سے زیادہ واسطہ نہیں رکھتے۔ان کے ایک بھائی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انھوں نے اپنی زندگی’قوم کے نام وقف کر دی ہے۔‘مودی کا جنم 17 ستمبر 1950 کو گجرات کے مہسانہ ضلعے میں ایک غریب خاندان میں ہوا تھا۔ ان کے والد دامودر داس ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتے تھے اور والدہ ہیرا بین گزر بسر میں مدد کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔بچپن میں خود نریندر مودی اپنے والد کے ساتھ ٹرینوں میں چائے بیچا کرتے تھے۔ اس الیکشن میں انھوں نے اپنے ’غریب بیک گراو ¿نڈ‘ کا بھرپور فائدہ اٹھایا، یعنی ایک چائے بیچنے والا جو ایک ’شہزادے‘ (راہل گاندھی) کو چیلنج کر رہا ہے۔ان کے سوانح نگار کے مطابق بچپن میں ان کے ذہن میں سنیاسی بننے کا بھی خیال آیا تھا اور وہ کچھ دن راماکرشن مشن میں بھی جا کر رہے۔ 17 سال کی عمر میں جشودا بین سے ان کی شادی ہوئی لیکن دونوں کبھی ساتھ نہیں رہے۔انھوں نے جوانی میں ہی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور 70 کی دہائی سے پرچارک یا تنظیم کے مبلغ کے طور پر کام کر نا شروع کر دیا۔ ان کی سیاسی تربیت آر ایس ایس میں ہی ہوئی لیکن اب ان کے کاروبار نواز اقتصادی نظریے اور آر ایس ایس کے ’سودیشی‘ کے تصور میں براہِ راست تضاد ہے۔ وہ کئی بڑے صنعتی گھرانوں کے قریب مانے جاتے ہیں اور اس الیکشن میں کارپوریٹ انڈیا نے ان کی زبردست حمایت کی ہے۔لیکن اس کے باوجود اس الیکشن میں آر ایس ایس نے بھی ان کی بھرپور حمایت کی۔خیال کیا جاتا ہے کہ فسادات روکنے میں ناکامی کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی چاہتے تھے کہ مسٹر مودی استعفی دے دیں لیکن ایل کے اڈوانی نے ان کی کرسی بچائی۔نریندر مودی نے انتخابات میں ترقی کے پیغام کے ساتھ ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کی لیکن جب سے مسٹر مودی نے وزیر اعظم کی کرسی کے لیے اپنے عزائم کا عندیہ دیا، تو اڈوانی سے ان کے تعلقات بگڑنا شروع ہوگئے۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی آمرانہ شخصیت کی جھلک پیش کرتے ہوئے مسٹر اڈوانی، سشما سوراج اور مرلی منوہر جوشی جیسے سینیئر رہنماو ¿ں کو کنارے کر دیا۔یہ الیکشن بھی بے جے پی کے نام پر نہیں، مودی کے نام پر لڑا گیا اور اس کا مرکزی نعرے تھے: ’اب کی بار، مودی سرکار۔‘ ’مودی کو ووٹ دیجیے، بی جے پی کو نہیں،‘ ’اچھے دن آنے والے ہیں، اور اچھے دن صرف مودی لا سکتے ہیں۔‘پوری انتخابی مہم کے دوران ان کے ساتھ سٹیج پر پارٹی کا کوئی دوسرا لیڈر نظر نہیں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مخالفت برداشت نہیں کرتے اور اسی لیے بہت سے سیاسی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ ایک سیکیولر ملک میں سب کو ساتھ لے کر چلنا اور ملک کے جمہوری اداروں اور روایات کا احترام کرنا ہی ان کی سب سے بڑی آزمائش ہوگی۔مودی کی حمایت میں آر ایس ایس کے ساتھ ملک کا کاروباری طبقہ بھی پیش پیش رہا ہے۔خود نریندر مودی کے خلاف تو مذہبی فسادات کے سلسلے میں کبھی کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا لیکن فسادات سے متعلق ایک کیس میں ان کی وزیر مایا کوڈنانی عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کے سب سے قریبی معتمد اور ریاست کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ کو پولیس کے فرضی مقابلوں کے سلسلے میں قتل کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ فی الحال ضمانت پر رہا ہیں۔امت شاہ ہی اتر پردیش میں پارٹی کی انتخابی مہم کے انچارچ تھے اور الزام یہ ہے کہ انھوں نے انتخابی فائدہ اٹھانے کے لیے الیکشن کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔وزیر اعظم بننے کے بعد مسٹر مودی کے سامنے دو بڑے چیلنج ہوں گے۔ بلندو بانگ وعدوں کو کیسے پورا کیا جائے اور مذہبی تفریق کو کیسے ختم کیا جائے۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ اسے ختم کرنے کی کوشش کریں گے؟۔پہلے چیلنج سے عوام کی توقعات وابستہ ہیں دوسرے سے ملک کا مستقبل۔بھارت کی سیاست میں حالیہ برسوں میں نریندر مودی جیسےمعدودے چند ایسے سیاست داں نظر آتے ہیں جنہوں نے رائے عامہ کو اس قدر متاثر اور مرتکز کیا ہے۔نریندر مودی کے بارے میں یہ بات صادق نظر آتی ہے کہ یا تو آپ ان کے حامی ہونگے یا پھر ان کے مخالف، لیکن آپ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔اگر چہ مودی پر گجرات میں سنہ 2002 کے فسادات کے سلسلے میں الزامات لگے ہوں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی میں انہیں وزیر اعظم کے عہدے کا سب سے مضبوط دعویدار مانتے ہوئے انہیں پہلے بی جے پی کی انتخابی مہم کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا اور انہیں پارٹی کی جانب سے وزارت عظمی کا امیدوار بھی نامزد کر دیا گیا۔اے پی ایس