ہندو جمہوریت کی فتح ۔چودھری احسن پر یمی



امریکہ کے صدر براک اوباما نے بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی کو عام انتخابات میں ان کی جماعت کی کامیابی پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے امریکہ آنے کی دعوت دی ہے۔صدر اوباما نے نریندر مودی کو انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دینے کے لیے ٹیلی فون کیا ہے۔وائٹ ہاو ¾س کے بیان کے مطابق امریکی صدر نے امید ظاہر کی کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے وہ اور جناب مودی مستقبل میں مل کر کام کریں گے۔ امریکی صدر نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے نریندر مودی کو امریکہ کے دورے کے دعوت دی۔قبل ازیں 'وہائٹ ہاو ¾س' کے ترجمان نے نریندر مودی کو ان کی جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' کی عام انتخابات میں شاندار کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مودی کوا مریکہ آنا ہوا تو انہیں ویزہ جاری کردیا جائے گا۔خیال رہے کہ 2002ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں نریندر مودی کے مبینہ متنازع کردار پر امریکہ نے 2005ء میں انہیں ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ان فسادات میں لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مودوی پر الزام لگتا رہا ہے کہ انہوں نے بطور وزیرِاعلیٰ گجرات ان فسادات کی روک تھام میں غفلت برتی تھی اور فسادیوں کی بلواسطہ حوصلہ افزائی کی تھی۔نریندر مودی کےخلاف ان الزامات کا چرچا بھارت کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران بھی رہا تھا۔ لیکن مودی ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے 'وہائٹ ہاو ¾س' کے ترجمان جے کارنے نے واضح کیا کہ امریکہ کا سفر درپیش ہونے کی صورت میں نریندر مودی کو ویزہ جاری کردیا جائے گا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت میں نئی حکومت کے قیام کے بعد امریکہ نومنتخب وزیرِاعظم اور ان کی کابینہ کے ساتھ قریبی تعاون برقرار رکھنے کا خواہاں ہے تاکہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کیا جاسکے۔ بھارت میں تیس برس بعد پہلی بار کسی جماعت نے حکومت سازی کے لیے تن تنہا اکثریت حاصل کی ہے ۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جیت رقم کی ہے اور اب مودی ملک کے نئے وزیر اعظم ہوں گے ۔وزیراعظم منموہن سنگھ اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ صدر مملکت نے موجودہ پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے۔بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ عام انتخابات میں اپنی جماعت کے شکست کے بعد مستعفی ہوگئے ہیں اور انھوں نے اپنا استعفیٰ صدرِ جمہوریہ کو بھجوا دیا ہے۔وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے آخری خطاب میں عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھوں نے آنے والی حکومت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔انھوں نے کہا: ’میرے ہم وطنو، میں بھارت کے وزیراعظم کی حیثیت سے آپ سے آخری بار مخاطب ہوں۔ مجھے آپ نے دس سال قبل جب یہ ذمہ داری سونپی تھی تو میں نے جانفشانی کو اپنے حربے، سچائی کو اپنا راہ نما اور اس دعا کے ساتھ اسے قبول کیا کہ میں جو کام بھی کروں وہ درست کروں۔’آج جب کہ میں اپنا عہدہ چھوڑ رہا ہوں تو مجھے اس بات کا پوار احساس ہے کہ خدا کی جانب سے حتمی فیصلے سے پہلے عوام کی عدالت سے ایک فیصلہ آیا ہے جس کا تمام منتخب نمائندے اور حکام احترام کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ’میرے ہم وطنو! ہم میں سے ہر ایک کو اس فیصلے کا احترام کرنا چاہیے جو آپ نے دیا ہے۔ ابھی ختم ہونے والے انتخابات نے ہماری جمہوری سیاست کی بنیاد کو مزید مستحکم کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے بہت بار کہا ہے کہ میری پوری زندگی اور اقتدار میں میری عوامی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنی پوری صلاحیت سے اپنے عظیم ملک کی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ گذشتہ دس سالوں کے دوران بھارت نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن پر انھیں فخر ہے: ’آج ہمارا ملک گذشتہ دس سالوں کے مقابلے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ملک کی کامیابی کا سہرا میں آپ سب کو دیتا ہوں۔ لیکن ابھی بھی ہمارے ملک میں ترقی کے بہت امکانات ہیں۔ جن کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں متحد ہوکر کڑی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔‘منموہن کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی آپ کا پیار اور محبت کی یاد ہمارے دل میں تازہ رہے گی۔ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے اسی دیس سے ملا ہے۔ ایک ایسا دیس جس نے تقسیم میں بے گھر ہونے والے ایک بچے کو اتنے اونچے عہدے تک پہنچا دیا۔ یہ ایک ایسا قرض ہے جسے میں کبھی ادا نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ایسا اعزاز بھی ہے جس پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا۔’دوستو، مجھے بھارت کے مستقبل کے بارے میں پورا اطمینان ہے۔ میرا مکمل یقین ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے جب بھارت دنیا کے بدلتے معاشی نظام میں ایک اہم طاقت کے روپ میں ابھرے گا۔ روایت کو جدیدیت کے ساتھ اور تنوع کو اتحاد سے ملاتے ہوئے ہمارا دیس دنیا کو آگے کا راستہ دکھا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی خدمت کرنا ان کی خوش بختی رہی ہے اور وہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں مانگ سکتے تھے۔انھوں نے آنے والی حکومت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ دعاگو ہیں کہ آنے والی حکومت اپنے کام کاج میں ہر طرح کامیاب رہے اور ’میں اپنے ملک کے لیے اور بھی بڑی کامیابیوں کی تمنا کرتا ہوں۔الیکشن کمیشن کی طرف سے منتخب ارکانِ پارلیمان کی فہرست صدر مملکت کے پاس پہنچنے کے بعد ان کی طرف سے نریندر مودی کو حکومت سازی کی دعوت دے دی گئی ہے۔بی جے پی نے یہ غیر معمولی فتح ملک گیر سطح پر حاصل کی ہے ۔ انھیں پہلی بار ملک کے ان علاقوں میں کامیابی حاصل ہوئی ہے جہاں اسے پہلے انھیں رسائی نہیں مل سکی تھی۔ان چھوٹی بڑی جماعتوں کو بھی زبردست کامیابی ملی جنھوں نے بی جے پی سے اتحاد کیا۔ اتر پردیش اور بہار میں اس نے حریف جماعتوں کا پوری طرح صفایا کر دیا ہے اور بنگال ، آندھرا اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں اس نے اپنے پیر جما لیے ہیں۔نریندر مودی کی سیاسی پرورش ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی سر پرستی میں ہوئی ہے۔ انھیں ایک ہندو قوم پرست اور سخت گیر رہنما تصور کیا جاتا ہے اور گجرات میں ان کے اقتدار کے ابتدائی دنوں کا ماضی متنازع رہا ہے۔ان کی قیادت میں بی جے پی نے پہلی بار اپنے طور پر پارلیمان میں اکثریت حاصل کی ہے۔ تو کیا بھارت کی عوام نے ایک اکثریتی فرقے کی جمہوریت یا دوسرے لفظوں میں ہندو جمہوریت کے لیے ووٹ دیا ہے؟۔بی جے پی نے 543 رکنی پالریمنٹ کے لیے اپنی جماعت سے محض ایک یا دو مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بھارت میں زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے اور مسلمانوں سمیت ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ اس تشویش میں مبتلا ہے کہ مودی کی جیت کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ ملک کا سیکولر نظام بدل جائےگا۔کہیں یہ ملک سیکیولر جمہوریت کی جگہ ایک ہندو جمہوریت میں تو نہیں تبدیل ہو رہا ؟۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی جے پی ایک قدامت پسند اور ہندو قوم پرست جماعت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی نے 543 رکنی پارلیمنٹ کے لیے اپنی جماعت سے محض ایک یا دو مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے جب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے مسلمانوں کے خطے اتر پردیش سے ایک بھی مسلم رکن پارلیمان منتخب ہو کر دلی نہیں پہنچا ہے۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار سب سے کم مسلمان پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں ۔لیکن دوسری سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ انتخاب مذہب اور منفیت کے ایجنڈوں پر نہیں لڑا گیا۔ مودی نے پوری انتخابی مہم کے دوران صرف ترقی اور ایک شفاف حکومت کے قیام کی بات کی۔ اس کے برعکس کانگریس اور علاقائی جماعتوں نے اپنے پروگرام اور پالیسیوں کو اجاگر کرنے کی بجائے منفی پراپیگنڈے کا سہارا لیا۔منموہن سنگھ کی حکومت عوام کے ذہن میں ایک مفلوج حکومت تھی۔ لوگ اسے بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی حکومت سمجھتے تھے۔ گزشتہ پانچ برس میں لوگ مہنگائی سے تنگ آ چکے تھے اور منموہن سنگھ میڈیا سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ان حالات میں لوگوں نے مودی کے تبدیلی کے نعرے کو قبول کیا۔ عوام نے تبدیلی کو ووٹ دیا ہے اور ان کا یہ ووٹ بی جے پی کے لیے نہیں بلکہ صرف مودی کے لیے ہے۔مودی یہ بات جانتے ہیں۔ انھوں نے اپنی فتح کے بعد ہندوئیت کے خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت کا رہنما اصول ملک کا آئین ہوگا۔بھارتی عوام نے ایک مضبوط ، مستحکم اور شفاف حکومت کی امید میں مودی کو اپنا رہنما منتخب کیا ہے جو بھارت کی سیاست اور جمہوریت میں ایک مثبت تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ملک کے نئے وزیراعظم مودی کا انتخاب بھارتی قوم کا ایک اجتماعی مثبت عمل ہے۔ ترقی اور تبدلی کے ان کے نعرے کو نہ صرف پورے ملک میں عوام نے قبول کیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے والی جماعتیں اس وقت اپنے وجود کے بحران سے نبرد آزما ہیں۔بھارتی انتخابات میں واضح برتری لینے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کو عام انتخابات میں ملنے والی ’جیت مودی کی جیت نہیں بلکہ پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کی جیت ہے۔انھوں نے یہ بات نئی دہلی میں جماعت کے صدر دفتر میں موجود حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ان کا کہنا تھا کہ ’آج آپ نے ایئرپورٹ سے یہاں تک جس گرم جوشی سے استقبال کیا ہے اس کے لیے میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔‘بی جے پی کے حامیوں کے نعروں کی گونج کے درمیان نریندر مودی نے کہا ’یہ فتح مودی کے کھاتے میں نہ ڈالی جائے، یہ بی جے پی کے لاکھوں کارکنوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔نریندر مودی نے دہلی میں بی جے پی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں شرکت کی جس میں پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ اور سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی سمیت کئی اہم رہنما موجود تھے۔اجلاس کے بعد راج ناتھ سنگھ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ حلف برداری کی تقریب کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔ اس بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائی ہو رہی ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے 20 مئی کو دوپہر 12 بجے پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ بلائی ہے جس میں لیڈر کا انتخاب ہوگا اور اس کے بعد ہی حلف برداری کی تاریخ طے کی جائے گی۔مودی دہلی کے دورے کے بعد اپنے انتخابی حلقے وارانسی (بنارس) بھی گئے جہاں سے انھوں نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کو شکست دی تھی۔ وارانسی میں بھی ان کی جماعت کے کارکنوں اور رہنماو ¿ں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔بی جے پی نے انتخابی مہم میں وارانسی کے لیے بھاری سرمایہ کاری اور اس تاریخی شہر کے لیے بڑے منصوبوں کا وعدہ کیا ہے۔یہاں خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا: ’جو بغیر مانگے دے اسے ماں کہتے ہیں۔ مجھے بنارس کے عوام سے مانگنے کا موقع نہیں ملا۔ میرے منہ پر تالا لگا تھا اس لیے میں نے بنارس کے لوگوں سے خاموشی سے بات چیت کی۔خیال رہے کہ شہر کی انتظامیہ نے نریندر مودی کو بنارس میں انتخابی جلسے کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔مودی نے کہا کہ بنارس آنے کا تجربہ ان کے لیے ماں کی گود میں آنے جیسا ہے۔بھارت میں سات اپریل سے شروع ہو کر 12 مئی کو نو مراحل میں مکمل ہونے والی ووٹنگ کا یہ عمل دنیا کا سب سے بڑا انتخابی عمل تھا جس میں 55 کروڑ سے زیادہ شہریوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا جو 2009 کے مقابلے 32 فیصد زیادہ ہے۔بھارت کے الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں اس مرتبہ 81 کروڑ سے زیادہ افراد کو ووٹ دینے کا حق ملا اور یہ تعداد تھی جو یورپی یونین کی پوری آبادی سے زیادہ ہے۔ اس بار سب سے زیادہ 66.38 فیصد ووٹنگ ہوئی اور 1984 میں اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والی 64 فیصد ووٹنگ کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔بڑی ریاستوں میں اس بار مغربی بنگال (81.8 فیصد)، اوڈیشا (74.4 فیصد) اور آندھر پردیش (74.2 فیصد) میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ تاہم سب سے اہم انتخابی ریاست اتر پردیش اور بہار میں اوسطاً کم ووٹنگ ہوئی ہے۔ یوپی میں 58.6 فیصد جبکہ بہار میں 56.5 فیصد پولنگ ہوئی۔اس بار حکومت ہندوستان نے انتخابات پر کل 3426 کروڑ روپے خرچ کیے جو 2009 کے 1483 کروڑ روپے کے مقابلے 131 فیصد زیادہ ہے۔یاد رہے کہ سنہ 1952 میں ہونے والے پہلے لوک سبھا انتخابات میں صرف 10.45 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔انڈیا کی حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بی جے پی ان انتخابات میں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے ایسے ابھری ہے جیسے تخیلاتی پرندہ (فینکس) برسوں پرانی راکھ سے ابھرنے کے بعد ایک شاندار اڑان بھرتا ہے۔ انتخابی نتائج سے بالکل واضح ہوگیا ہے کہ اس جماعت نے اپنی 30 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی فتح حاصل کی ہے بھارتی جنتا پارٹی دو انتخابات میں شکست کے بعد سنہ 2009 میں محض 116 نشستیں جیت پائی تھی۔ آج کے نتائج بی جے پی کے حق میں تو ہیں ہی، لیکن یہ نتائح ایک لحاظ سے جماعت کے کرشماتی اور متنازع رہنما نریندر مودی کی ذات کی بطور رہنما زبردست توثیق ہیں جنھوں نے ان انتخابات کو صدارتی انتخاب بنا دیا اور اپنی اس شہرت کے بل بوتے پر جیتے کہ وہ بھارت میں ترقی اور مضبوط قوم پرست خیالات والے رہنما ہیں جو زیادہ باتیں نہیں کرتے بلکہ کام کرتے ہیں۔اس عظیم فتح کی مثال کم ہی ملتی ہے۔بھارت میں علاقائی دھڑے بندیوں اور چھوٹی جماعتوں کی بہتات کے درمیان بی جے پی جیسی اس عظیم فتح کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ آخری مرتبہ سادہ اکثریت کانگریس پارٹی کے حصے میں اس وقت آئی تھی جب اندرا گاندھی کے قتل کے بعد رائے دہندگان کی ہمدردیوں کی وجہ سے سنہ 1984 کے انتخابات میں اسے 415 نشستیں ملی تھیں۔انتخابی مہم کے آخری روز جب میں وارانسی سے واپس آ رہا تھا تو دورانِ پرواز میں نے بی جے پی کے رہنماو ¿ں سے پوچھا کہ انھیں کتنی نشستیں جیتنے کی امید ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا خیال تھا کہ وہ 240 اور 250 کے درمیان نشستوں پر کامیاب ہوں گے۔مشہور تجزیہ کار سواپن داس گپتا کا کہنا ہے کہ اتنی نشستوں پر کامیابی بی جے پی کی اپنی توقعات سے بھی کہیں زیادہ ہے: ’یہ فتح مسٹر مودی کی فتح ہے۔ وہ مودی جسے بھارت کے انگریزی بولنے والے امیر طبقے نے طرح طرح کے القابات سے نواز کر ٹکٹکی پر چڑھا رکھا تھا کہ جیسے ان سے خیر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی، وہی مودی ان انتخابات میں ایک امید کے طور پر سامنے آئے ہیں۔دوسری جانب کانگریس کو اپنی سب سے بری انتخابی کارکردگی کی سامنا ہے۔ اس کے لیے ان نتائج کے ذریعے عوام نے اپنا پیغام واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ تو مہنگائی اور بدعنوانی پر قابو پا سکی ہے بلکہ وہ ملک بھر میں ایک نئی نوجوان سیاسی قیادت کو تیار کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔لگتا ہے کہ آج کے بے صبر اور ترقی کی خواہشات سے بھرپور انڈیا میں نہروگاندھی خاندان کو وہ مقام حاصل نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔بی جے پی کی فتح پر تجزیہ کاروں کے قلم ا ±س پرانی اور بڑی سیاسی جماعت کی تعزیتں لکھنے پر رواں ہیں جس نے آزادی کے بعد کے عرصے میں سب سے زیادہ مدت بھارت پر حکومت کی ہے لیکن جو کچھ بھی کانگریس کے بارے میں لکھا جا رہا ہے ا ±س میں زیادہ تر قبل از وقت ہے۔یہ پہلی بار نہیں کہ کانگریس کے زوال اور ختم ہونے کے بارے میں لکھا جا رہا ہو اور پہلے بھی ایسی تحریریں ردی کی ٹوکریوں کی نظر ہو چکی ہیں۔اس سے پہلے کانگریس کم از کم دو بار مردہ قرار دی جا چکی ہے۔ پہلی بار یہ موت تب سامنے آئی تھی جب وزیراعظم اندرا گاندھی کو دو سال تک ایمرجنسی لگانے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کا دفتر خالی کرنا پڑا تھا لیکن تین سال بعد ہی کانگریس 70 فی صد نششتیں لے کر واپس اقتدار میں آ گئی۔ اور تب تک یہ کانگریس کی سب سے بڑی انتخابی کامیابی تھی۔کانگریس کی دوسری موت کا اعلان 1999 میں اس وقت ہوا جب کانگریس کے مقتول وزیراعظم راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی نے ہچکچاتے ہوئے قیادت کی باگ ڈور سنبھالی۔
اسی سال ہونے والے انتخابات میں پارٹی کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 543 کے ایوان میں کانگریس کو صرف 114 نششتیں ہی مل سکیں۔ لیکن 2004 نے زوال کا رخ عروج کی طرف موڑ دیا اور کانگریس نے ایک نہیں دو مدتوں کے لیے مسلسل کامیابی حاصل کی۔اس میں تو کوئی شک نہیں حالیہ انتخابات میں کانگریس اپنے زوال کی ا ±س سطح پر جا گری ہے جو اس سے پہلے ا ±سے کبھی نہیں دیکھنا پڑا تھا لیکن پھر بھی ا ±سے ملنے والے ووٹوں کو غیر اہم نہیں کہا جا سکتا۔کانگریس کو 20 فی صد سے بھی کم ووٹ ملے ہیں۔ پارٹی اپنے وفادار ووٹ بنک کو بھی برقرار نہیں رکھ سکی۔ ہر چند کہ اسے مستقل قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ ایک بڑا اور خوفناک دھچکا ضرور ہے۔ہر چند کہ ذرائع ابلاغ کی نظریں ابھی ایوان زیریں یعنی لوک سبھا پر ہی ہیں لیکن بھارت کا نظام دو ایوانی ہے۔ ایوان بالا یا راجیہ سبھا کے ارکان کا انتخاب بالراست اور ہر چھ سال بعد ہوتا ہے۔بی جے پی نے ایوان زیریں میں اپنی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے لیکن ایوان بالا میں اس کے صرف 46 ارکان ہیں جب کہ کانگریس کے ارکان کی تعداد 68 ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ 240 کے ایوان میں بی جے پی کو اتحادی تلاش کرنے پڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ 2015 کے اختتام پر جب 23 نششتوں کے لیے انتخاب ہوں تو صورتِ حال کچھ بدل جائے۔ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اقتدار کی طاقت دہلی سے ریاستی دارالحکومتوں کی جانب سرک رہی ہے اور 29 میں سے 11 صوبائی حکومتیں کانگریس کے ہاتھ میں ہیں جب کہ دو ریاستوں میں وہ اتحادی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر ابھی خاصی طاقت کانگریس کے ہاتھ میں ہے۔وزرائے اعلیٰ سے قطع نظر ریاستی اسمبلیوں میں اراکین کی 27 فیصد تعداد کا تعلق کانگریس سے ہے جب کہ 21 فیصد کا بی جے پی سے۔ حالیہ انتخابات کے اثرات کے نتیجے میں کانگریس کا اثر چار ریاستوں میں اور کچھ کم ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ریاستی اسمبلیوں میں کانگریس ہی کے ارکان کی تعداد سب سے زیادہ رہے گی۔اب پارٹی کو اپنی قیادت کے بارے میں کڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ پارٹی کو وراثت میں پانے والے کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کو یا تو آگے بڑھ کر پوری ذمے داری سنبھالنی ہو گا یا خوش دلی سے ایک طرف ہو جانا ہو گا، ’ہیں بھی اور نہیں بھی‘ والی ڈگمگاہٹ نے پارٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔کانگریس کو بی جے پی سے سبق سیکھنا چاہیے اور علاقائی لیڈروں کو اختیارات منتقل کرنے چاہیں۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ بی جے پی کو ایک ایسی غیر متحد جماعت کہا جاتا تھا جس کی علاقائی شاخیں زیادہ طاقتور تھیں اور اس بات کو اس کی کمزوری قرار دیا جاتا تھا لیکن ا ±س کی یہی کمزوری ا ±س کی طاقت بن گئی اور اسی طاقت کا اظہار اب قومی سیاست میں دیکھا جا سکتا ہے۔کانگریس کی دوسری موت کا اعلان 1999 میں اس وقت ہوا جب سونیا گاندھی نے ہچکچاتے ہوئے کانگریس کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی۔اور آخری اقدام کے طور پر کانگریس کو اپنے سکیولر ازم جمع نیشنل ازم جمع سماجی بہبود نسخے میں تبدیلی لانی چاہیے۔ اس سلسلسے میں پارٹی کو بھارت کے معاشی مستقبل کو نظر میں رکھنا چاہیے، جو مسٹر مودی کی بھی توجہ کا مرکز ہے۔اس سلسلے میں دو باتیں اہم ہیں ایک تو یہ کہ اگلے پندرہ سال تک ہر ماہ دس لاکھ نوجوان بھارت کی افرادی قوت میں شامل ہوں گے اور ایک اندازے کے مطابق 2010 سے 2050 تک 50 کروڑ افراد دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کو نقل مکانی کریں گے۔ بھارت کو دو باتوں کے لیے تیاری کرنی ہو گی۔ ایک تو اس تعداد کے لیے روزگار کے مواقع اور دوئم اس ساری تعداد کے لیے سماجی تحفظ کے ذرائع۔اس کے باوجود کانگریس کے احیا کی کوئی ضمانت نہیں ہے لیکن اگر تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو کانگریس کے مخالفیں بھی یہ حماقت نہیں کر سکتے کہ ا ±سے نظر انداز کر دیں کیوں کہ یہ کانگریں کا ایک اور زوال ہے اختتام نہیں۔نریندر مودی کی اکثریت کے ساتھ جیت مسلمانوں کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟ ان کے دل میں مودی حکومت کے خلاف کہیں کوئی خدشہ تو نہیں؟۔بعض ایسے ہی سوالات کے ساتھ مسلمانوں کی دو نمائندہ شخصیتوں کا موقف سامنے آیا ہے۔ ان میں مسلم پرسنل لاءبورڈ کے سید قاسم رسول الیاس اور جمیعت علماء ہند کے محمود مدنی شامل ہیں۔جمیعت علماءہند کے مولانا محمود مدنی کا کہنا ہے ’ہمیں اس بات کا احساس تو انتخابی مہم کے دوران ہی ہو گیا تھا کہ اس بار سیکولر پارٹیاں، کانگریس یا یو پی اے حکومت نہیں بنا پائے گی اور یہ امید تھی کہ بی جے پی حکومت میں آئے گی۔ اب جو انتخابات کے نتائج آئے ہیں وہ حیران کن نہیں ہیں۔‘تاہم محمود مدنی نے کہا کہ انھیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر بی جے پی اپنے ایجنڈے پر قائم رہتی ہے تو ان کے نشانے پر اقلیت اور ان کے مسائل ہوں گے۔ایگزٹ پولز میں نریندر مودی کی جیت میں مسلمانوں کے ووٹوں کے بھی کردار کو دکھایا گیا ہے’پہلے بھی مرکز میں بی جے پی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تھی۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہاں انھوں نے اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمان وہاں اپنی شناخت اور دیگر مسائل کے ساتھ رہ رہے ہیں۔‘محمود مدنی کا خیال ہے کہ مودی حکومت میں کئی اہم مسئلے پیدا ہو سکتے ہیں جیسے کہ یکساں سول کوڈ یا رام مندر کی تعمیر یا دفعہ 370، لیکن اس بار لوگوں نے ان مسائل سے ہٹ کر ترقی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔مدنی کے مطابق لوک سبھا انتخابات 2014 کے دوران کہیں ’ہندوتو‘ کا مسئلہ نہیں تھا۔محمود مدنی نے مزید کہا: ’بہر حال بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران کوشش کی کہ ان تضادات کو سامنے نہ آنے دیا جائے۔ یہ دکھایا گیا کہ ملک کی آبادی صلح و آشتی اور امن چاہتی ہے۔ ساتھ ہی وہ بدعنوانی سے آزاد سماج بھی چاہتی ہے۔‘انھوں نے کہا: ’اگر واقعی بی جے پی یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ ایک مستحکم حکومت دے سکتی ہے تو اسے ان تمام مسائل سے خود کو علیحدہ رکھنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ بی جے پی کے لیے خود کو ثابت کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار کے انتخابات میں ترقی کا نعرہ اہم تھا اور اس میں سب شریک تھے۔دوسری جانب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سید قاسم رسول الیاس کو آنے والی مودی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ ’مسلمان نہ کبھی ڈرا ہے اور نہ آئندہ کبھی ڈرےگا۔ اس ملک میں سماج میں بہت قوی ہے۔ ایسے میں صرف مسلمان کو ہی نہیں کسی کو بھی ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں: ’کوئی آئے اور کوئی جائے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اتحاد، بھائی چارہ اور امن قائم کرنا، لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔انھوں نے مزید کہا: ’نئی حکومت اپنی اس ذمہ داری کو کس طرح ادا کرتی ہے اس کا تو کچھ دن بعد ہی پتہ چلے گا۔ اسی کے بعد یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کیسی ہے کیسی نہیں ہے۔اے پی ایس