پاک بھارت تعلقات پر فوج کا رد عمل کیا ہوگا؟۔چودھری احسن پریمی




بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم نواز شریف سے ہونے والی ملاقات میں کہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دینے کے وعدے پر قائم رہنا ہوگا اور سنہ 2008 میں ممبئی حملوں کی تحقیقات کو بھی تیز کرنا ہوگا۔دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد بھارت کی سیکریٹری خارجہ سجاتھا سنگھ نے کہا کہ ’وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کی تشویش کا اظہار کیا۔سجھاتا سنگھ نے مزید کہا کہ وزیراعظم نواز شریف سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی سرزمین اور وہ سرزمین جو اس کے زیر اثر ہے اسے دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے اپنے وعدے پر قائم رہنا ہو گا۔وزیراعظم نواز شریف نے ملاقات کے بعد اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنوں ملکوں میں عوامی مینڈیٹ لے کر منتخب ہونے والے رہنما تاریخ میں ایک نیا باب رقم کر سکتے ہیں۔بھارت کے اپنے دورے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ نریندو مودی اور وہ معاشی ترقی چاہتے ہیں جو خطے میں امن اور استحکام کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ الزامات اور جوابی الزامات عائد کیے جانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان تمام مسائل کو سنجیدگی اور تعاون کے جذبے سے حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے وزیراعظم مودی کو سنہ 1999 میں بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بھاری واجپائی کو لاہور آنے کی دعوت کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی ڈور کو وہیں سے جوڑنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے لوگوں کی خاطر انھیں بداعتمادی اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا۔بھارتی کی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے سیکریٹری خارجہ رابطے میں رہیں گے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے مواقعے تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔بھارت اور پاکستان کے وزراءاعظموں کی ملاقات میں باہمی تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔اس سے پہلے دارالحکومت دہلی کے حیدر آباد ہاو ¿س میں وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کے درمیان بات چیت ہوئی۔یہ بات چیت مقررہ 35 منٹ سے تجاوز کرتے ہوئے پچاس منٹ سے زیادہ دیر تک چلی۔بات چیت میں سرتاج عزیز بھی شریک ہوئے۔ بھارت کی جانب سے وزیر خارجہ سشما سوراج اور خارجہ سیکریٹری سجاتا سنگھ شریک ہوئیں۔ بات چیت کے بعد کوئی بیان نہیں جاری کیا گیا ہے۔پاکستان کے وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ بھارت کے نو منتخب وزیرِاعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات ایک ’اہم موقع ہے اور چونکہ دونوں حکومتوں کو ایک مضبوط مینڈیٹ ملا ہے لہذا وہ باہمی رشتوں میں ایک نئے دور کا آغاز کر سکتی ہیں۔نواز شریف کی نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے حوالے سے ایک اہم اور مثبت پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ دونوں رہنماو ¿ں کو آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔نواز شریف باہمی تعلقات کو ا ±سی جگہ سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں جہاں وہ سنہ 1999 میں ٹوٹ گئے تھے۔خیال رہے کہ 1999 میں پاکستان میں نواز شریف اور بھارت میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت تھی۔تا ہم بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ملاقات سے زیادہ توقع نہیں رکھی جانی چاہیے کیونکہ دونوں رہنماو ¿ں کی یہ پہلی ملاقات ہے اور حلف اٹھانے کے صرف ایک دن کے اندر نریندر مودی کوئی ایسا پیغام نہیں دینا چاہیں گے جس سے ایسا محسوس ہو کہ پاکستان کے ساتھ رشتوں کے تعلق سے وہ اپنے سخت گیر موقف میں نرمی یا لچک لا رہے ہیں۔تاہم نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات ایک دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھانے کا اچھا موقع ہے۔ دونوں حکومتوں کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے اور اس سے باہمی رشتوں میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دونوں ممالک کو خطے میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہ نواز شریف کا بھارت کا پہلا دورہ ہے اور بھارت کا سخت گیر موقف رکھنے والا حلقہ انھیں شک و شبہہ کی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ کارگل کی لڑائی کے وقت وہ پاکستان کے وزیرِاعظم تھے۔واضخ رہے کہ اٹل بہاری واجپئی اور نواز شریف نے 1999 میں ’اعلانِ لاہور‘ پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق دونوں ملکوں نے جوہری جنگ کے خطروں سے بچنے کے طریقوں پر اتفاق کیا تھا لیکن انھی دونوں رہنماو ¿ں کے دور اقتدار میں دونوں نے جوہری آزمائشی دھماکے بھی کیے تھے۔پاک بھارت تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت تعلقات میں سب سے زیادہ برے ادوار اس وقت آئے جب انڈیا میں حکومت سیکولر کانگریس پارٹی کے ہاتھ میں تھی، جبکہ غیر کانگریسی حکومتوں کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ بہتر ہوئے ہیں۔ان کا اشارہ انڈیا کے پہلے غیر کانگریسی وزیرِ اعظم مرارجی ڈیسائی کی سنہ1977 کی دو سالہ حکومت کی جانب ہے جب وہ بی جے پی کی پیشرو جماعت بھارتیہ جنا سنگھ کے سربراہ تھے اور ان کی جماعت برسرِ اقتدار مخلوط حکومت کا حصہ تھی۔سنہ 1990 میں پاکستان نے مرار جی ڈیسائی کو ملک کا سب سے بڑا غیر فوجی اعزاز ’نشانِ امتیاز‘ بھی دیا تھا۔بظاہر پاکستان نے انھیں یہ اعزاز ان کوششوں کو سراہتے ہوئے دیا تھا جو انھوں نے سنہ 1971 کی پاک بھارت جنگ اور اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی اور پھر سنہ 1974 میں انڈیا کے جوہری دھماکوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تناو ¿ کو کم کرنے کے لیے کی تھیں۔پھر سنہ 1998 میں یہ بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی ہی تھے جو بھارت کے پہلے ایسے وزیرِ اعظم ثابت ہوئے جنھوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدگی پسندی اور پھر سنہ 1947 کی تقسیم ہند کی عوامی علامت ’مینارِ پاکستان‘ کا دورہ کیا۔ اگرچہ مسٹرمودی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کو ڈھکی چھ ±پی دھمکیاں بھی دیتے رہے ہیں لیکن اقتدار میں ان کا رویہ واجپائی سے بالکل مختلف نہیں ہوگا۔لوگوں نے انھیں ہندو قوم پرستی کی وجہ سے ووٹ نہیں دیے، بلکہ انھیں یہ ووٹ گجرات میں ان کی معاشی کامیابی کے نتیجے میں ملے ہیں۔ اور اب جب نواز شریف پاکستان میں برسرِ اقتدار ہیں جو کہ خود ایک کاروباری شخصیت ہیں تو امید یہی ہے کہ ہمیں امن اور تجارت کی جانب بڑی پیش رفت دیکھنے کو ملے گی۔لیکن بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک چیز جو مسٹر مودی کو سابقہ وزرائے اعظم سے جدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ا ±ن میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے آر ایس ایس کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا تھا۔’اس کا مطلب یہ ہے کہ واجپائی کے برعکس جب آر ایس ایس کے حامی اور کارکن مقامی سطح پر ریاستی مراعات صرف اپنوں میں بانٹیں گے تو مسٹر مودی انھیں روکیں گے نہیں۔کارکنوں کی ان حرکات کی وجہ سے مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوو ¿ں میں بے چینی میں یقیناً اضافہ ہوگا اور پاکستان کے مذہبی گروہ اس بے چینی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے وزیرِاعظم نواز شریف پر دباو ¿ بڑھا سکتے ہیں جس سے نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔نواز شریف پر ان مشکلات کی نسبت زیادہ دباو ¿ پاکستانی فوج کی جانب سے آئے گا جو ماضی میں بھارت کے ساتھ دوستی کی کسی بھی ایسی کوشش کی مزاحمت کرتی رہی ہے جس میں مسئلہِ کشمیر کا کوئی حل شامل نہ ہو۔
شاید اسی لیے دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ’اگرچہ اشارے حوصلہ افزا ہیں، لیکن ایسا نہیں لگتا کہ دونوں اطراف کے رہنما جلد ہی بیٹھ کر تعلقات کو معمول پر لانے کی باتیں شروع کر دیں گے۔اور جب یہ رہنما مِل بیٹھیں گے بھی تو انڈیا پہلے پہل کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کے لیے راضی نہیں ہوگا۔ بلکہ انڈیا کی توجہ تجارت پر ہوگی۔تو اگر نواز شریف تسلیم کر لیتے ہیں کہ پہلا قدم تجارتی تعلقات کی بحالی ہوگا، تو پاکستانی فوج کا ردعمل کیا ہو گا۔تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں مندرجہ ذیل چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔کشمیر کے حوالے سے اب بھی پاکستانی فوج کے ذہن میں شکوک پائے جاتے ہیں۔مسٹر واجپائی جب بس کے ذریعے لاہور آئے تو اس کے بعد پاکستان نے چ ±پکے سے انڈیا کی کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں محدود پیمانے پر دونوں ملکوں میں لڑائی بھی ہوئی۔ نواز شریف اس وقت وزیرِاعظم تھے اور انھوں نے ک ±ھلے بندوں کہا کہ وہ فوجوں کی نقل و حمل کے بارے میں باخبر نہ تھے۔اس کے بعد سنہ 2004 میں شروع ہونے والے جامع مذاکرات بھی سنہ 2008 میں اس وقت ختم ہو گئے جب کسی گروہ نے ممبئی پر حملے کر دیے۔گذشتہ سال بھی جب تجارتی رعایتوں میں تجدید کا وقت آیا تو پاکستان ایسا کرنے میں اس وقت ناکام رہا جب کشمیر میں سرحد پر تناو ¿ بڑھ گیا جس کے نتیجے میں سرحد کی دونوں جانب ایک درجن سے زیادہ فوجی ہلاک ہو گئے۔لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے اب حالات بدل گئے ہیں۔ خیال لگتا ہے کہ اب فوج کی زیادہ توجہ مغربی سرحدوں پر ہے تا کہ ان سرحدوں کو مضبوط بنا کر افغانستان سے عسکریت پسندوں کے پاکستان آنے کو روکا جا سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ فوج مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ تناو ¿ میں کمی کرنے پر زیادہ رضامند ہوگی۔ اگرچہ مسٹر شریف اور مسٹر مودی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں دشمنوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے اشارے دے رہے ہیں، تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے پاک فوج کے مسئلہ کشمیر پر تحفظات کو ختم کرنے کیلئے اعتماد میں لینا ہوگا۔اے پی ایس