امریکی خارجہ پالیسی تبدیل،مشرق وسطی اورافریقہ میں تباہی ہوگی۔چودھری احسن پریمی



امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اب نیا صفحہ پلٹنے کا وقت آ گیا ہے اور مستقبل میں زیادہ توجہ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے ملکوں میں موجود القاعدہ کے ٹکڑوں کی سرگرمیوں کو روکنے پر رہے گی۔صدر نے نیویارک میں ویسٹ پوائنٹ کے مقام پر امریکی ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کی نئی حکمت عملی بیان کی اور کہا کہ افغانستان سے فوجوں کی واپسی سے مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں بڑھتے ہوئے خطرات کے لیے وسائل میسر آئیں گے۔صدر اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ اور دنیا کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ عدم مرکزیت کی شکار القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں سے ہے۔انھوں نے کہا کہ اب افغانستان میں امریکہ کا کردار مشاورت اور تربیت تک محدود ہوگیا اور افغانستان میں سرگرمیاں محدود کرنے کے بعد ’ ہم مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ موثر طور پر کر سکتے ہیں۔صدر اوباما نے حاضرین کو بتایا کہ انھوں نے سالِ رواں میں اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کو کہا تھا کہ وہ منصوبہ بندی کرے کہ کس طرح امریکہ جنوبی ایشیا سے لیے کر افریقہ تک نئے روابط بنا سکتا ہے تا کہ دہشگردی کے نئے چیلنجز کا موثر مقابلہ کیا جا سکے۔ ’میں کانگریس کو کہنے جا رہا ہوں کہ دہشگردی کے خلاف اتحاد کے لیے پانچ ارب ڈالر کے فنڈز کی منظوری دے تا کہ اس سے دہشگردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والے صف اول (فرنٹ لائین) ممالک کی تربیت اور استطاعت میں مدد کی جا سکے۔ امریکہ جنگ کے ایک طویل دور کے بعد جتنا مضبوط اب ہے اتنا کبھی نہیں تھا۔صدر اوباما نے ایران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران سے ایٹمی مفاہمت کا مرحلہ ابھی دور ہے لیکن پیش رفت کے امکانات ہیں۔انھوں نے کہا کہ امریکہ شام کے ہمسایہ ملکوں اردن، لبنان، ترکی اور عراق کی امداد میں اضافہ کرے گا۔
صدر اوباما نے خاص طر پر شام کا ذکر کیا اور کہا کہ امریکہ کی نئی حکمت عملی میں شام پر خصوصی توجہ دی جائے۔ گی۔ صدر اسد کی حکومت کے مخالفوں کی مدد کی جائے گی تاہم انھوں نے اس کی تفصیل بیان نہیں کی۔’ اس کا کوئی سادہ جواب نہیں ہے اور ایسا کوئی فوجی حل بھی نہیں کہ جس سے جلد ہی آپ (شام میں) عام لوگوں کی مصیبتوں کو ختم کر سکیں۔‘صدر اوباما کا کہنا تھا کہ بطور صدر یہ ان کا فیصلہ تھا کہ شام میں فوجیں نہ بھیجی جائیں جہاں پر جاری لڑائی ’تیزی کے ساتھ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر چکی ہے۔صدر اوباما نے پانچ ارب ڈالر کے ’ٹیررازم پارٹنر شپ فنڈ‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ اس فنڈ سے ان ملکوں کو مدد دی جائے گی جو شدت پسندوں سے نمٹنے میں مدد دے رہے ہیں۔اس فنڈ سے تربیت کی سہولتوں کے ذریعے ساتھی ملکوں کی صلاحیتوں کو مزید بڑھانے میں مدد ملے گی۔صدر اوباما نے کہا کہ سنہ 2009 سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری حکمت عملی کا مرکزی نقطہ القاعدہ کی مرکزی قیادت تھی، لیکن اب ساڑھے چار برس بعد میدان بدل چکا ہے اور اس دوران پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے درمیان موجود القاعدہ کی قیادت کو مسمار کر دیا گیا ہے اور اوسامہ بن لادن بھی باقی نہیں رہے۔صدر اوباما نے گذشتہ برسوں کی معاشی بدحالی کے حوالے سے کہا کہ ’ان برسوں میں امریکی معیشت کو بہتر کرنے کا کٹھن کام بھی کیا گیا، اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ زوال کا شکار ہے، وہ یا تو تاریخ کا غلط مطالعہ کر رہے ہیں یا محض مخالفت کی سیاست کر رہے ہیں۔ امریکہ وہ قوم ہے جس کے بغیر (دنیا کا ) گذارا نہیں اور یہ بات جس طرح گذشتہ صدی میں سچ تھی اسی طرح آئندہ صدی میں بھی لگتا ہے کہ سچ ثابت ہوگی۔صدر اوباما کا کہنا تھا کہ دنیا بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ جہاں نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں وہاں نئے خطرات بھی جنم لے رہے ہیں۔’ ہم سب نے نائن الیون کے بعد دیکھا کہ ٹیکنالوجی اور عالمگیریت یا گلوبلائزیشن نے افراد کو بھی وہ طاقت دے دی ہے جو کبھی صرف ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی جس سے دہشتگردوں کے اہلیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘امریکی مفادت کے تحفظ کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر امریکہ طاقت کے یکطرفہ استعمال سے گریز نہیں کرے گا۔ ’ اگر ہمارے عوام کو خطرہ ہوا یا ہمارے اتحادیوں کی سکیورٹی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ہم یکطرفہ فوجی کارروائی کریں گے لیکن ہم خود سے یہ سوال ضرور کریں گے کہ آیا ہمارا ردعمل متناسب، موثر اور انصاف پر مبنی ہے یا نہیں۔اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکی مفادات کے دفاع کے علاوہ بھی امریکہ عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی عالمی سطح کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے جس سے امریکہ کے ضمیر پر سوال اٹھتا ہے یا دنیا کو نئے خطرات کی جانب دھکیلا جاتا ہے تو اس صورت میں بھی امریکی فوجی کارروائی ہو سکتی ہے، تاہم ایسا قدم زیادہ سوچ بچار کے بعد اٹھایا جائے گا۔ ’ایسی صورت میں ہمیں اکیلے نہیں جانا چاہئیے۔ بلکہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کو حرکت میں لائیں اور مشترکہ کارروائی کریں۔جبکہ اس قبل صدر براک اوباما نے افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ 2014 کے اختتام تک ’ذمہ دارانہ انجام‘ تک پہنچ جائے گی۔کابل کے قریب بگرام فوجی اڈے کا غیر اعلانیہ دورہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے جب فوجیوں سے خطاب کیا تو ان کا پرجوش خیرمقدم کیا گیا۔امریکی صدر کا افغانستان کا یہ دورہ امریکہ میں میموریل ڈے سے ایک روز قبل کیا گیا ہے۔ اس روز امریکہ میں عوام جنگ میں ہلاک ہوئے اپنے فوجیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں نے 2014 کے اختتام تک انخلا کرنا ہے۔امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں ایک چھوٹی فوج چھوڑ کر جائے تاہم اس کا انحصار آئندہ ماہ ہونے والے افغان صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں کامیابی پانے والے امیدوار پر ہوگا۔باہمی سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کرنے سے صدر حامد کرزئی انکار کر چکے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے حامد کرزئی کو فوجی اڈے پر آنے کی دعوت دی تھی تاہم صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ وہ صدر اوباما سے صرف اپنے صدارتی محل میں ملاقات کریں گے۔اوباما نے فوجیوں کو ان کی خدمات کے لیے امریکی عوام کا شکریہ پیش کیا اور وعدہ کیا کہ وہ زخمی ہونے والے فوجیوں کے علاج کی سہولیات بہتر کریں گے۔انھوں نے کہا ’اس سال کے آخر تک افغان اپنے ملک کی سکیورٹی کی مکمل ذمہ داری لے لیں گے اور افغانستان میں امریکہ کی جنگ ایک ذمہ دارانہ انجام کو پہنچ جائے گی۔انھوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے اپنے تعلقات میں تسلسل رکھے گا بشرطہ کہ نئے افغان صدر باہمی سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کر دیں۔براک اوباما کا افغانستان کا یہ دورہ غیر اعلانیہ تھا۔انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مدِمقابل دونوں امیدواروں نے اس معاہدے کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان ایک اہم موڑ پر ہے اور امریکی فوجوں نے القاعدہ کو تباہ کر دیا ہے، اور امریکہ صحت عامہ اور تعلیم کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کا بہتر نظام چھوڑ کے جا رہا ہے۔ صدر اوباما کی تقریر کا اختتام ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر 9/11 کے روز جلتے ہوئے امریکی پرچم کی تصویر کے ساتھ ہوا۔افغانستان میں 13 سالہ امریکی جنگ میں 2100 سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے پیشِ نظر طالبان نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں فوجی مشن کے اختتام پر سنہ 2014 کے بعد وہاں 9800 امریکی فوجیوں کو رکھیں گے۔وائٹ ہاو ¿س میں اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ بتدریج افغانستان سے فوجیں نکالے گا اور سنہ 2016 کے بعد ان کے فوجیوں کی معمولی تعداد وہاں پر رہے گی۔افغانستان میں اس وقت 32000 امریکی فوجی موجود ہیں جن کی تعداد امریکہ اس سال کے آخر تک کم کرنا چاہتا ہے۔افغانستان میں رہ جانے والے امریکی فوجیوں کو افغان سکیورٹی فورسزکو تربیت دینے اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں معاون کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ان تمام منصوبوں کا دارومدار افغانستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے پر ہے۔افغانستان کے صدر حامد کرزائی نے ابھی تک امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں لیکن امریکہ کو یقین ہے کہ آئندہ منتخب ہونے والے صدر اس معاہدے کی توثیق کر دیں گے۔براک اوباما نے کہا کہ ’ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ افغانستان مکمل طور پر پرامن جگہ نہیں ہوگی اور یہ امریکہ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اسے ایسا بنائے۔‘ لیکن انھوں نے کہا کہ وہ ’مشکل سے حاصل کیے گئے امن‘ کو قائم رکھنے میں افغانستان کی مدد کریں گے۔ صدر اوباما کی طرف سے یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب انھیں خارجہ پالیسی کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا تھا۔صدر اوباما نے خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک اہم تقریر کی ہے اور اس خطاب میں وہ عراق اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد خطے میں امریکی پوزیشن پر روشنی ڈالی ہے۔ابتدائی طور پر افغانستان کے مختلف علاقوں میں امریکی فوجی موجود رہیں گے لیکن سنہ 2015 کے بعد ان کی تعداد کو نصف کر دیا جائے گا اور سنہ 2015 کے آخر میں اس کو کابل کے ارد گرد تک محدود کر دیا جائے گا۔سنہ 2016 کے بعد امریکہ ایک ہزار کے قریب فوجی افغانستان میں اپنے سکیورٹی اور افغان فوجیوں کی تربیت کے لیے رکھنا چاہتا ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس سروس،اے پی ایس نیوز ایجنسی،اسلام آباد