سانحہ لاہور:پولیس کامجرمانہ فعل۔چودھری احسن پریمی



کسی بھی معاشرہ میں ایک خوب تربیت یافتہ،ایک مناسب وسائل کی حامل قانون نافذ کرنے والی ایجنسی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔دنیا بھر میں پولیس فورسز کی طرف سے عمومی طور پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانیوں کی بہت سی اور مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔قانون نافذ کرنے والے حکام معاشرے میں افراد کے حقوق کے تحفظ اور خدمات پر مامور ہوتے ہیں۔وہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں۔انہیں طاقت کے استعمال سے پہلے جذبہ خدمت کو بروئے کار لانا چاہیے۔جب وہ اپنے مخصوص مفادات کیلئے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں یا بعض صورتوں میں کسی بدمعاش حکمراں کے مقاصد کیلئے طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو وہ قابل قبول اور طے شدہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔وہ بین الاوقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں جن کی حفاظت کی انہیں ذمہ داری سونپی گئی ہوتی ہے۔کسی بھی معاملہ میں طاقت یا آتشیں اسلحہ کا قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے غیر قانونی استعمال ایک مجرمانہ فعل ہے۔جہاں قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے زخم لگانے یا موت واقع کرنے میں طاقت یا آتشیں اسلحہ کا استعمال ہوا ہو تو اس واقعہ کی فوری اطلاع اپنے افسران بالا کو کردی جائے۔اس بات کا ذمہ دار اعلی افسروں کو ٹھہرایا جائے کہ اگر وہ یہ جانتے ہوں یا انہیں جاننا چاہیے تھا کہ ان کے ماتحت قانون نافذ کرنے والوں نے طاقت اور آتشیں اسلحہ کا غیر قانونی استعمال کیا تو انہوں نے اپنے اختیارات کے تحت ایسے غلط کام کو روکنے یا اس کی اطلاع دینے میں تمام ذرائع استعمال نہیں کئے۔یہ اصول ہر زمانہ میں بشمول عوامی ہنگامی حالات میں بھی پابندی کا تقاضا کرتے ہیں۔جبکہ سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کے خلاف ملک بھر میں فضا سوگوار ہے۔ شرکاءنے جاں بحق افراد کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کی ۔ ملک بھر کے شہروں میں بھی عوامی تحریک کے کارکنوں نے دھرنے دیئے۔ مظاہرین نے شہداءکیلئے فاتحہ خوانی کی سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کے خلاف پاکستان بار کونسل کی اپیل پر لاہور ہائیکورٹ بار نے مذمتی قرارداد منظور کی جبکہ سیشن کورٹ ، ضلع کچہری ماڈل ٹاو ¿ن کچہری ، کینٹ کچہری اور ایوان عدل میں عدالتی کام بند رہا۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کی عدالتوں میں بھی وکلا نے ہڑتال کی ، بار رومز پر سیاہ جھنڈے لہرائے گئے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار میں وکلاءکی ہڑتال کے باعث مقدمات کی سماعت ملتوی ہو گئی۔ ملتان میں وکلا نے عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا اور عمارتوں پر سیاہ پرچم لہرائے۔وکلاءعدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ سترہ جون بروزمنگل کی صبح یہ اطلاع کہ لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ اور منہاج القران کے سیکریٹیریٹ کے قریب رکاوٹیں ہٹانے کے معاملے پر تحریک ِمنہاج القرآن کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا ہے، ایک افسوسناک خبر تھی۔کئی سوالات و خدشات نے سر ابھارا۔۔۔ سڑک پر لگے بیریرز ہٹانے کا معاملہ ایک ایسا تنازعہ کیسے بن گیا جس میں آٹھ بے گناہ شہری، جن میں دو خواتیں بھی شامل تھیں، اپنی جان کی بازی ہار گئے اور 80 کے لگ بھگ ابھی بھی ہسپتالوں میں زخمی حالت میں موجود ہیں؟ کیا سڑک پر موجود حفاظتی رکاوٹیں ہٹانا اتنا ہی بڑا مسئلہ ہے کہ ریاستی اداروں اور عام شہریوں میں مرنے مارنے کی نوبت آجائے؟ حکومت کو بلڈوزر بھیجنے پڑیں، پولیس لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے بعد گولیاں چلانے پر مجبور ہو جائے؟۔۔۔ اور اگر یہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں تو پھر سانحہ ِلاہور کے محرکات کیا تھے؟۔کینیڈا میں پاکستانی عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے اس واقعے کو ’حکومت کی نااہلی کے ساتھ ساتھ اسے عوامی انقلاب کی تحریک کو کچلنے کی ایک کوشش‘ بھی قرار دیا۔
طاہر قادری نے 23 جون کو پاکستان آنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں، ’چار سال پہلے جب میں نے دہشت گردی کا فتویٰ دیا تھا تو دہشت گردوں نے قتل کی دھمکیاں دیں اور بم بلاسٹ کی دھمکیاں دی تھیں تو پولیس نے خود حکومت کے کہنے پر اور ہائی کورٹ کے کہنے پر سیکورٹی فراہم کی تھی۔ چار سال سے کسی نے شکایت نہیں کی۔ مگر میری 23 جون کو پاکستان آمد پر اچانک کیسے شکایت ہو گئی؟‘۔دوسری طرف، پنجاب کے وزیر ِقانون رانا ثنا اللہ نے کہا کہ تحریک ِ منہاج القرآن کے کارکنوں نے اس علاقے کو حفاظتی رکاوٹوں سے بند کرکے اسے عملاً ’نو گو ایریا‘ بنا رکھا تھا۔رانا ثناءاللہ کے الفاظ، ’جب سے طاہر القادری صاحب کی واپسی کی خبریں آ رہی تھیں تو طاہر القادری صاحب کے پرائیویٹ لوگوں نے ان رکاوٹوں کو ٹیک اوور کر لیا۔ اور اس کے بعد اس علاقے کو عملاً نو گو ایریا بنا دیا گیا‘۔بقول ا ±ن کے، ’یہ لوگ جب کل گئے ہیں بیریرز کو ہٹانے کے لیے تو یہ بات واضح تھی کہ وہاں پر کوئی آپریشن نہیں ہوگا؛ ان کے ادارے یا کسی بلڈنگ کے خلاف۔ مقصد یہ تھا کہ اس علاقے کو کھول دیا جائے‘۔مگر طاہر القادری کہتے ہیں کہ رات کو دو بجے اگر رکاوٹیں ہی ہٹانا مقصود تھا تو پھر پولیس سیکریٹیریٹ کے اندر کیوں داخل ہوئی؟ طاہر القادری کے بقول، ان کے لوگ نہتے تھے اور ان میں سے کسی نے گولی نہیں چلائی۔طاہر القادری کے الفاظ میں: ’سیکریٹریٹ میں کون سے بیریرز تھے، بتائیے؟ بیریر تو انہوں نے ہٹا دئیے تھے۔ اور میرے گھر پر انہوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کی۔ 33 برس کی زندگی میں آج تک گولی چلی نہیں ہے‘۔ا ±نھوں نے مزید کہا کہ، ’ہمارے گارڈ اندر ہوتے ہی نہیں ہیں۔ وہ باہر دروازے پر کھڑے تھے۔ اور اگر وہ گولیاں چلاتے تو 8,10 آدمی ان کے بھی مارے جاتے۔ کسی ایک شخص نے گولی نہیں چلائی۔ نہتے کارکنوں نے پولیس کے پھینکے ہوئے پتھر انکو مارے۔ یا ڈنڈوں سے اپنا دفاع کیا۔ نہ کوئی اسلحہ تھا نہ کوئی گولی چلی۔۔۔ ‘پنجاب کے صوبائی وزیر ِ قانون کا کہنا ہے کہ اس افسوسناک واقعے کے تمام پہلوو ¿ں کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ، ’وہ کیا۔ محرکات تھے جن کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ اس کے متعلق حکومت نے ہائی کورٹ کے جج کے تحت جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے کہ آیا اس میں پولیس کی طرف سے کوئی تجاوز ہوا ہے یا پھر وہ کیا حالات تھے کہ جو اس صورتحال کو اس طرف لے گئے؟ اور اس میں کون سی سائیڈ قصوروار تھی؟ جس غلطی کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا‘۔مگر، طاہر القادری نے جوڈیشل کمیشن کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بقول ا ±ن کے، وہ اس واقعے کے بعد حکومت کی جانب سے قائم کردہ کسی جوڈیشل کمیشن کو نہیں مانتے۔طاہر القادری کے الفاظ، ’ہم جوڈیشل کمیشن کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ کمیشن بنیں گے جب ان کا ظالمانہ اقتدار ختم ہو گا اور قانون کی حکمرانی کا دور آئے گا اور عدلیہ آزاد ہوگی اور کمیشن قانون کے مطابق آزاد ہوں گے۔ آپ دیکھیں کہ پولیس سے کیا کام لیا ہے انہوں نے؟ دنیا کے کسی ملک میں کبھی تاریخ میں پولیس نے یہ کام کبھی کیا ہے نہتے شہریوں پر؟ جو انہوں نے کیا‘۔ادھر، پاکستانی تجزیہ کار اس واقعے کو ایک ’افسوسناک‘ امر قرار دے رہے ہیں۔ ا ±ن کی نظر میں، اس واقعے میں ریاستی اداروں کی نا اہلی ایک مرتبہ پھر سامنے آئی ہے۔دوسری طرف، چند تجزیہ کار اِن خیالات کے حامل ہیں کہ سڑک پر لگی حفاظتی رکاوٹوں پر شہریوں کی جانب سے مزاحمت کی ’بظاہر کوئی توجیہہ موجود نہیں‘ اور اس معاملے کو قانون کی روشنی میں بآسانی حل کیا جا سکتا تھا۔جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے لاہور میں پاکستان عوامی تحریک اور پولیس کے درمیان گزشتہ روز ہونے والی جھڑپ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے عزم اعادہ کیا ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین اور انہیں سزا دلانے کی غرض سے عدالتی ٹریبونل قائم کردیا گیا ہے۔ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے ذمہ دار سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کسی کو ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان عوامی تحریک اور پولیس کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپ میں شدت آگئی تھی اور اس دوران پولیس کی جانب سے شدید لاٹھی چارج، ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔اس جھڑپ میںدو خواتین سمیت کم سے کم سات افراد ہلاک، اور درجنوں زخمی ہوگئے جن میں کئی پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ویڈیو لنک کے ذریعے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کارکنوں کی عیادت کرنے والی جماعتوں کا شکر گزار ہوں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا لوگ قتل کر کے چلے جاتے ہیں اور مقتول کو قاتل بنا دیا جاتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں پنجاب پولیس کے ذریعے اجتماعی قتل اور اجتماعی دہشت گردی ہوتی رہی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا پولیس نے ہمارے کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائیں اور میڈیا کی ٹیموں نے بروقت پہنچ کر سب کچھ دیکھا اور فوٹج میں ہمارے کسی ایک گارڈ نے گولی نہیں چلائی۔ نہایت مشکل وقت میں میڈیا کا ساتھ دینے پر شکر گزار ہوں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جن پولیس اہلکاروں نے قتل کیے انہوں نے ہی راتوں رات سرکاری ایف آئی آر درج کر ائی ہم اپنی ایف آئی آرمیڈیا کی موجودگی میں درج کرائیں گے ۔ موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کو مسترد کرتے ہیں اور موجودہ حکومت کے کمیشن میں ہمارا کوئی کارکن پیش نہیں ہو گا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا وزیراعظم ، وزیر اعلی نے قتل کی منصوبہ بندی کی۔ جوڈیشل کمیشن کے جج سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ خود ہی لاتعلقی کا اظہار کر دیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ نام نہاد جمہوری حکومت مخالفین کو ریاستی جبر و تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنانا بند کرے۔جبکہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے ماڈل ٹاون میں طاہر القادری کی رہائشگاہ پر ان کے بیٹے ڈاکڑ حسن محی الدین کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن میں 83 افراد کو گولیاں لگیں اور جن میں سے 11 افراد جاں بحق ہو گئے۔ انہوں نے کہا آمریت میں بھی ایسی حرکت نہیں ہوتی اور مریضوں نے بتایا سامنے سے گولیاں ماری گئیں عورتوں کے منہ پر گولیاں چلائی گئیں ، عورتوں پر ایسا ظلم کبھی نہیں دیکھا ۔ عمران خان نے کہا شہباز شریف نہیں ابھی تک استعفی کیوں نہیں دیا، رانا ثنااللہ کو جیل میں ڈالا جائے۔ عمران خان نے کہا ہائی کورٹ کے احکامات پر بیرئیر لگائے تھے اور ایسی کیا ضرورت پڑ گئی تھی جو رات کو بیرئیر ہٹانے کیلئے آپریشن کیا گیا۔ انہوں نے کہا کیا گولیاں چلانے سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہو رہی۔ عمران خان نے کہا پولیس کو ن لیگ کے ونگ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور پولیس کو الیکشن کے دوران بھی استعمال کیا گیا تھا، عمران خان نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا پورے ملک نے ٹی وی پر سب کچھ دیکھا ، شہباز شریف تم کیا کر رہے تھے۔ ؟، شہباز شریف سے پوچھنا چاہتا ہوں ابھی تک استعفی کیوں نہیں دیا اور چھوٹے لوگوں کو پکڑنے کے بجائے ان کو پکڑا جائے جنہوں نے احکامات دیئے۔ ان کا مزید کہنا تھا صرف فیصل آباد میں 1900 پولیس تشدد کے کیسز ہیں۔ پولیس تشدد کے بارے رپورٹ اگلے روز شائع ہو رہی ہے، پولیس کو (ن) لیگ کے مخالفوں کیخلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم نے پولیس کو خیبرپختونخوا میں غیر سیاسی بنا دیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا عوامی تحریک کے مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہیں ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے تک عوامی تحریک کیساتھ ہیں، ہمیں پتا ہے حکومت خوفزدہ تھی سب کچھ ڈرانے کیلئے کیا گیا دہشت گردی صرف دہشت پھیلانے کیلئے کی گئی۔ انہوں نے کہا طاہر القادری جب آئیں گے ان سے ملاقات ہو گی جب ضرورت پڑی تو اکٹھے سڑکوں پر نکلیں گے۔ اس سے پہلے عمران خان نے جناح اہسپتال میں سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کی۔ سانحہ منہاج القران رونما ہونے کے بعد جناح ہسپتال کے مناظر یہ تھے کہ یہاں نوّے سے زیادہ زخمیوں کو لایا گیا، جن میں چوبیس پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔یہ لوگ ماڈل ٹاو ¿ن میں منہاج القرآن کے سیکریٹیریٹ پر تصادم کے نتیجے میں زخمی ہوئے تھے۔ہسپتال لائے جانے والے افراد میں زیادہ تر شدید زخمی تھے، کچھ کا سر پھٹ گیا تھا، اور دیگرکی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔اس ہسپتال میں ان زخمی خواتین و حضرات کو دیکھنے کے لیے آنے والے ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کا ہجوم اکھٹا ہوگیا تھا۔عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کو جس طرز کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔غلام مصطفٰے، جن کے بھائی غلام رسول منہاج القرآن سیکریٹیریٹ پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے تھے، انہوں نے بتایا کہ ”انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ مرد، خواتین اور بچے سب ہی ان کے ظلم کا نشانہ بنے۔ اس ظلم کو الفاظ میں نہیں بیان کیا جاسکتا۔“انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کو ایک پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی گولی سینے میں آکر لگی اور اسی وقت ان کی موت واقع ہوگئی۔کچھ خواتین ہسپتال کے ایمرجنسی ہال میں ایک چودہ برس کے لڑکے محمد عمر کی لاش کے قریب سکتے کی حالت میں بیٹھی تھیں۔عمر کو دو گولیاں لگی تھیں اور وہ فوری طور پر ہلاک ہوگیا تھا۔ہسپتال کی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ ہسپتال لائے جانے والے پچاس سے زیادہ افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ سات افراد جن کی لاشیں ایمرجنسی میں لائی گئیں، ان تمام کی موت کا سبب گولیاں لگنے سے زخمی ہونا اور بھاری مقدار میں خون کا بہہ جانا تھا۔مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ کل چوبیس پولیس اہلکار جنہیں زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا، ان میں سے دو گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ تمام زخمی افراد میں سے بیس کی حالت تشویشناک تھی، چنانچہ انہیں انتہائی نگہداشت کے شعبے یا آپریشن تھیٹر میں منتقل کردیا گیا۔اس واقعہ کے بعد لاہور اور ملحقہ علاقوں سے پاکستان عوامی تحریک کے حمایتوں کی بڑی تعداد ہسپتال میں اکھٹا ہوگئی تھی۔ ان میں سے کچھ مسلسل وزیرِ اعلٰی پنجاب، وزیرِ قانون اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔صدف نامی ایک نوجوان خاتون نے بتایا کہ ان کی کزن شازیہ اور ان کی نند تنزیلہ کو اس واقعہ کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور وہ اس ”قتل“ کی عینی شاہد تھیں۔شازیہ کے مطابق جب انہیں اس چھاپہ مار کارروائی کے بارے میں علم ہوا تو وہ تنزیلہ، ان کے شوہر، شازیہ اور کچھ دوسرے لوگوں کے ہمراہ منہاج القرآن سیکریٹیریٹ کے احاطے میں پہنچ گئی تھیں۔تنزیلہ اور شازیہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائشگاہ کے باہر احتجاج کررہی تھیں، تب انہیں پولیس کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔صدف نے کہا ”پولیس اہلکار نے نزدیک سے ہی ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔“انہوں نے بتایا ”جب میں نے دیکھا کہ انہیں گولیاں لگی ہیں تو میں تھوڑی دیر کے لیے اپنا ہوش کھو بیٹھی تھی۔“ا ±ن کا کہنا تھا ”بھاری مقدار میں خون بہہ جانے کی وجہ سے شازیہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئیں، جبکہ تنزیلہ کچھ دیر بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔ ان پولیس اہلکاروں نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ مرتی ہوئی خواتین کو بھی نہیں۔ دو پولیس اہلکار ان کی طرف پہنچے اور انہیں گٹھری کی مانند ا ±ٹھا کر ایک سرکاری گاڑی میں ڈال دیا۔“صدف نے کہا کہ ان کے بھائی کو پولیس اہلکاروں نے گرفتار کرلیا تھا، اور وہ اپنے بھائی کی سلامتی کے بارے میں فکرمند تھیں۔تنزیلہ کے شوہر غلام مصطفٰے نے کہا کہ بیریئرز کو ہٹائے جانے کے خلاف احتجاج پ ±رامن طریقے سے جاری تھا، تب پولیس اہلکاروں نے اچانک پیش قدمی کی اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس کے شیل فائرکردیے۔اس کے بعد پولیس پھر پیچھے ہٹ گئی، اس کے کچھ دیر بعد مظاہرین دوبارہ متحرک ہوگئے۔ جیسے ہی احتجاجیوں نے پتھراو ¿ شروع کیا، پولیس اہلکاروں نے جواب میں ہجوم پر اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔پاکستان عوامی تحریک لاہور کے سیکریٹری جنرل سلطان محمود چوہدری، جو اس وقت جناح ہسپتال میں داخل زخمیوں کے درمیان موجود تھے، میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب وہ اپنے دو ساتھی کارکنوں کو بچانے کی کوشش کررہے تھے، تو انہیں بھی بندوق کے بٹ کی ضرب لگی تھی۔جنید گولی لگنے سے زخمی ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکار منہاج القرآن کے اسٹوڈنٹ ہاسٹل میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ”جب ہم نے مزاحمت کی تو انہوں نے ہم پر فائرنگ شروع کردی۔“ایک سول انجینئر ہارون احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائشگاہ میں توڑ پھوڑ سے جب انہوں نے پولیس کو روکنے کی کوشش کی تو ان کی دونوں ٹانگوں میں گولیاں ماری گئیں۔ہارون کی والدہ کلثوم نے کہا کہ ”ہم پر حملہ اس لیے کیا گیا کہ ہم نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔“گولی لگنے سے زخمی ہونے والے امجد اقبال کا ہسپتال میں علاج کیا جارہا ہے، انہوں نے بتایا ”ہم پاکستان کے عوام کے حقوق کے لیے باہر آئے ہیں۔ ہم سب کے ساتھ مل کر اس نظام کے خلاف لڑیں گے۔ماڈل ٹاو ¿ن میں ڈاکٹر طاہر القادری کے حامیوں پر فائرنگ کا حکم کس نے دیا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر طرف گردش کرتا رہا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی سیدھا جواب نہیں آیا۔آپریشن کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی سے اجتناب پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صوبے کی ‘اعلیٰ ترین’ شخصیت نے ہی شاید اس آپریشن کی ‘منظوری’ دی ہو۔پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے چیئر مین طاہر القادری کی رہائش گاہ اور قریب ہی واقع منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے اندر اور اطراف میں انسداد تجاوزات سے جڑے سینئر پولیس حکام نے دفاعی حکمت عملی اختیار کی۔ان حکام نے پی اے ٹی کے کارکنوں کوسارے واقعہ کا ذمہ دارٹھراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نا صرف آپریشن کی مزاحمت کی بلکہ پولیس اہلکاروں پر حملے بھی کیے۔کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) چوہدری شفیق احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس پی اے ٹی کے کارکنوں کے سامنے کئی گھنٹوں تک دفاعی پوزیشن میں رہی۔لاہور میں جھڑپ کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب ڈاکٹر قادری نے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے تئیس جون کو پاکستان آنے کا اعلان کر رکھا ہے۔اس وجہ نے پی اے ٹی کے کارکنوں کے لیے آسان بنا دیا کہ وہ انسداد تجاوزات کے آپریشن کو سیاسی کہہ سکیں۔تاہم ، آپریشن کی سربراہی کرنے والے پولیس افسران نے اس تاثر کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ پی اے ٹی کے خلاف پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ پی اے ٹی کی حدود کی جانب والے راستوں سے رکاوٹیں ہٹانے میں محض لاہور شہر کی ضلعی حکومت (سی ڈی جی ایل) کی مدد کر رہے تھے۔انسداد تجاوزات کی یہ کارروائی حیرت انگیز طور پر رات کے اندھیرے میں کی گئی جبکہ ایسے آپریشن عموماً دن کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ سی ڈی جی ایل عملے کے ساتھ پولیس کی بڑی تعداد کا آنا بھی غیر معمولی بات تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پورے واقعہ میں ایک بھی پولیس اہلکار کو فوری طور پر مجرمانہ غفلت پر ذمہ دار نہیں ٹہرایا گیا۔یہ ماضی کی ان روایات کے برعکس ہے جہاں وزیر اعلیٰ شہباز شریف غفلت یا پھر اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام پر ہی افسران کو فوری معطل کر دیتے تھے۔ماڈل ٹاو ¿ن میں ڈاکٹر قادری کی رہائش گاہ اور سیکریٹریٹ کے قریب ایک رہائشی نے بتایا کہ وہ ان دو جگہوں پر پچھلے تین سالوں سے خندقیں اور رکاوٹیں دیکھ رہے تھے جبکہ پولیس اہلکار بھی یہاں معمول کی نگرانی کرتے تھے۔جائے وقوعہ پر موجود رہنے والے ایک پولیس ذرائع نے بتایا کہ پہلے پی اے ٹی کے کارکنوں نے رکاوٹیں ہٹانے میں مزاحمت دکھاتے ہوئے سی ڈی جی ایل اور پولیس حکام پر پتھراو ¿ کیاجس کے بعد خندقوں میں موجود کارکنوں کی جانب سے ہوائی فائرنگ کی وجہ سے پولیس وہاں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ذرائع نے دعوی کیا کہ بعد میں ایک سینئر پولیس افسر کے حکم پر پولیس نے پی اے ٹی کارکنوں پر براہ راست فائرنگ کی۔ذرائع کے مطابق اس موقع پرسات یا آٹھ ڈویژنل ایس پی متضادحکمت عملی اپناتے نظر آئے کچھ براہ راست فائرنگ پر توجہ دیئے ہوئے تھے تو کچھ نے دوسرے طریقوں سے کارکنوں کو منتشر کرنے پر زور دیا۔سی سی پی او نے، جنہیں اب او ایس ڈی بنا دیا گیا، دعویٰ کیا ہے کہ صبح کے وقت منہاج القرآن انسٹیٹیوٹ کے چیف سیکورٹی افسر سے مذاکرات کے دو دور ہوئے تھے، جن میں ان سے رضاکارانہ طور پر رکاوٹیں ہٹانے کو کہا گیا۔اس پر چھتوں اور خندقوں میں موجود پی اے ٹی کے کارکنوں نے پولیس اور سی ڈی جی ایل عملہ پر فائرنگ کر دی۔ سی سی پی او نے مزید دعویٰ کیا کہ کارکنوں نے پولیس کے خلاف پیٹرول بم بھی استعمال کیے تاہم پولیس نے ایسے میں صبر کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے کہا کہ پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ سے سی ڈی جی ایل حکام کو رکاوٹیں ہٹانے میں مدد ملی۔سی سی پی او احمد نے ابتدا میں دعویٰ کیا تھا کہ ہلاکتوں کی وجہ پی اے ٹی کارکنوں کی فائرنگ ہو سکتی ہے تاہم بعد میں انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت یہ تعین کرنے سے قاصر ہیں کہ کس نے کس کو ہلاک کیا۔’پولیس اورعدالت کی تحقیقات کی بعد ذمہ داروں کا تعین ہو سکے گا’۔انسپکٹر جنرل پنجاب مشتاق سکھیرا نے بتایا کہ پولیس حکام کی مجرمانہ غفلت کا تعین کرنے کے لیے تین رکنی محکماتی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ادھر، فیصل ٹاو ¿ن پولیس نے جنرل سیکریٹری خرم نواز گنڈھا پور، شیخ فیاض اور سی ایس او الطاف شاہ سمیت سات نامزد ملزمان، آٹھ نامعلوم مسلح افراد اور سینکڑوں کو نامعلوم کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔جب آئی جی سے پوچھا گیا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پی اے ٹی کے متاثرہ خاندانوں کی درخواستیں موصول ہونے کے بعد کارروائی کی جائے گی۔پولیس نے جھڑپوں کے دوران پی اے ٹی کے 53 کارکنوں کو حراست میں لے لیا تھا۔ پولیس کا دعوی ہے کہ انہوں نے جائے وقوعہ سے دو کلاشنکوف، تین پستول اور 33 خالی خول قبضے میں لے لیے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پاکستان عوامی تحریک اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں زخمی ہونے والے افراد کی میڈیکل رپورٹس میں تبدیلی کے لیے پولیس کے نتیجے میں زخمیوں کی میڈیکل رپورٹس میں ردو وبدل کے حوالے سے سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس کا نوٹس لے لیا ہے۔ واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب پولیس نے جناح اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پر دباو ¿ ڈال کر زخمیوں کی میڈیکل رپورٹس تبدیل کرانے کی کوشش کی ہے۔جبکہ پولیس کا اس سلسلے میں موقف یہ ہے کہ پولیس میڈیکل رپورٹس میں ردو بدل کے لیے نہیں بلکہ زخمیوں کی عیادت کے لیے اسپتال میں موجود تھی۔یاد رہے کہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ واقع ماڈل ٹاو ¿ن کے باہر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے نتیجے میں دو خواتین سمیت سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔اے پی ایس