آرمی چیف کی ضمانت سے سیاسی بحران کا خاتمہ۔چودھری احسن پریمی



مذاکرات تعطل کا شکار رہنے کے بعدآخر آرمی چیف کو ضامن بنانے سے سیاسی بحران ختم ہونے کی امید یقین میں بدل رہی ہے۔کیا اچھا ہوتا اگر دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ جائز مطالبات مان لیتے
اور یہ نوبت نہ آتی تاہم امید ہے اب معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے گا۔گزشتہ پندرہ دن سے جاری سیاسی بحران پر عوام کو بے وقوت بنانے والے بعض نجی ٹی وی چینلز کے ضمیر فروش اینکر ز نے شعبہ صحافت کو جس طرح رسوا کیا ہے۔اور مبینہ ان پر یہ بھی الزام آیا ہے کہ انہوں نے لاکھوں روپے لیکر جو حرامزدگی کا کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کے عوام نے ان کو لعنتی کردار کا خطاب سے نوازا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ صحافی کی سب سے بڑی ذمہ داری غیر جانبداری ہے جس کی انہوں نے پاسداری نہیں کی۔بلکہ عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔جن اینکرز نے اس سیاسی بحران پر لاکھوں روپے بٹورے ہیں ان کی فہرستیں مرتب ہوگئی ہیں امید ہے کہ ایک دو روز تک وہ شائع ہوجائیں گی۔جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ثالث مقرر کر دیا ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنرل راحیل، عمران خان اور طاہر القادری سے ملاقات کریں گے۔ادھر تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی موجودہ سیاسی بحران میں بری فوج کے سربراہ کی ثالثی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مذاکرات کرنے کا کہا ہے۔جمعرات کو بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل کی وزیراعظم نواز شریف سے تین دن کے دوران دوسری ملاقات ہوئی تھی اور اس ملاقات میں معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔وزیراعطم کے قریبی ساتھیوں کے مطابق وزیراعظم نواز کی درخواست پر جنرل راحیل نے یہ ملاقات کی تھی۔ جمعرات کو حکومت نے ماڈل ٹاو ¿ن واقعے کا مقدمہ درج کرنے میں لچک دکھائی اور شام کو لاہور کے فیصل ٹاو ¿ن تھانے میں وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف سمیت 21 حکومتی شخصیات کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا۔عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے جمعرات کو یوم انقلاب کا اعلان کرنے کے ساتھ حکومت کو خبردار بھی کیا تھا کہ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔تاہم جمعرات کی رات کو شاہراہ دستور پر جمع اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے موجودہ صورت حال میں فوجی سربراہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل نے 24 گھنٹوں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مل کر معاملات کو حل کرنے کے لیے فارمولہ تیار کرنے کی پیشکش کی ہے۔انھوں نے کہا ’پاکستان آرمی کے سربراہ نے ثالث اور ضامن بن کر ہمارے تمام مطالبات کا پیکج تیار کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے مانگے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آرمی ضامن بنی ہو۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے طاہر القادری کی تقریر سے کچھ دیر پہلے کئی دنوں سے متوقع اپنا اہم اعلان موخر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہیں مذاکرات ہو رہے ہیں اور وہ اس کے نتیجے میں انتظار میں ہیں۔طاہر القادری کی موجودہ صورت حال میں فوج کی مداخلت کے اعلان کے فوری بعد عمران خان نے اپنے دھرنے کے شرکاءسے خطاب میں کہا ’جنرل راحیل نے کہا ہے کہ مذاکرات کریں اور چوبیس گھنٹے کے لیے رک جائیں۔انھوں نے دھرنے کے شرکاء سے کہا کہ کل یا تو خوشخبری ملے گی یا پھر تحریک کو آگے بڑھایا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ حکومت اور نواز شریف اس وقت بند گلی میں کھڑے ہیں۔اس پیشکش رفت سے پہلے مقامی ذرائع ابلاغ میں وفاقی وزیر داخلہ سے منسوب بیان نشر ہونا شروع ہوا تھا جس میں فوج کوسیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔جبکہ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے شاہراہِ دستور اور پریڈ ایونیو پر دھرنے میں شریک شرکاءسے نمٹنے کے لیے اگرچہ وفاقی حکومت اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے انتظامات تو کیے ہیں لیکن یہ انتظامات کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔پنجاب، آزادکشمیر، اسلام آباد اور ریلوے پولیس کے ہزاروں اہلکار پارلیمنٹ ہاو ¿س، کیبنٹ ڈویژن اور پاک سیکرٹریٹ کے باہر موجود تو ضرور ہیں لیکن ا ±نھیں یہ نہیں معلوم کہ مظاہرین کی طرف سے سرکاری عمارتوں پر حملہ ہونے کی صورت میں کیاحکمتِ عملی طے کی جائے گی۔وزارتِ داخلہ کے مطابق دونوں جماعتوں کے مظاہرین کی تعداد 15 سے 20 ہزار کے قریب ہے جس میں زیادہ تر تعداد خواتین کی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی مظاہرے میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے اور ان کا تعلق پنجاب کے دور دراز علاقوں سے ہے۔ان احتجاجی مظاہرین سے نمٹنے کے لیے 40 ہزار کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اسلام آباد میں موجود ہیں۔ تعداد کے حساب سے قانون نافذ کرنے والے دو اہلکاروں کے حصے میں مظاہرہ کرنے والہ ایک شخص آتا ہے۔اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کسی بھی ممکنہ واقعہ سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی تو ضرور بنائی گئی لیکن بظاہر اس پر عمل درآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔پنجاب اور آزاد کشمیر پولیس کے اہلکاروں کی 20 ریزرو یونٹوں کو شاہراہِ دستور پر پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین پر تعینات کیا گیا ہے۔ پولیس کی ایک ریزرو یونٹ میں 20 سے 24 اہلکار ہوتے ہیں۔ان یونٹوں کے انچارج کے مطابق ہر ایک ریزرو کے پاس ایک عدد آنسو گیس کے گولے پھینکنے والی بندوق اور ربڑ کی گولیاں چلانے والی ایک بندوق ہے۔ ریزرو کے انچارج پولیس افسران جن کے نام ظاہر نہیں کیے جا رہے کا کہنا ہے کہ ا ±ن کا اسلام آباد، ریلوے پولیس اور رینجرز کے ساتھ کوئی رابطہ یا تعاون نہیں ہے۔عوامی تحریک کی مقامی قیادت مظاہرین کے درمیان کنچے اور غلیل کے ساتھ ساتھ ڈنڈے بھی تقسیم کررہے ہیں۔جب ا ±ن سے پوچھا گیا کہ اگر مظاہرین پارلیمنٹ ہاو ¿س، کیبنٹ ڈویژن یا وزیر اعظم ہاو ¿س کی طرف سے مارچ کریں گے تو ا ±ن کو روکنے کے لیے کیا کریں گے تو ایک پولیس افسرنے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے اور اگر ہم ناکام رہے تو پھر فوج تو ہے۔ا ±نھوں نے کہا کہ متعلقہ حکام کی طرف سے ا ±نھیں روزانہ کی بنیاد پر بریفنگ تو دی جاتی ہے لیکن حکمت عملی کے بارے میں نہیں بتایا جاتا کہ ان مظاہرین سے کس طرح نمٹنا ہے۔ان پولیس افسران کا کہنا تھا کہ پولیس حکام کو سب سے بڑا مسئلہ خواتین اور بچوں کا ہے اور ان ہی کو ڈھال بنیاد بناتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے کارکن ریڈ زون میں داخل ہوئے تھے۔اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے مدد کے لیے فوج کو طلب کر رکھا ہے اور ریڈ زون کی سکیورٹی کی ذمہ داری فوج کے حوالے کی گئی ہے تاہم وہ مظاہرین کے سامنے موجود نہیں ہے۔ فوج کے اہلکار پارلیمنٹ ہاو ¿س اور وزیر اعظم ہاو ¿س سمیت دیگر اہم عمارتوں پر تعینات ہیں۔مبصرین کا کہنا تھا کہ جس شہر کی انتظامیہ سپریم کورٹ کے حکم پر شاہراہ دستور کے ایک حصے کو پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین سے خالی نہیں کروا سکی تو وہ ہزاروں مظاہرین کے سرکاری عمارتوں کی طرف مارچ کو کیسے روکے گی۔جبکہ لاہور کے تھانہ فیصل ٹاو ¿ن میں تحریک منہاج القرآن کی انتظامیہ کی مدعیت میں سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے مقدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں وزیراعطم نواز شریف کا نام شامل نہیں ہے اور اس کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل نہیں ہیں۔طاہر القادری کے ردعمل پر سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ ایف آئی آر میں وزیراعظم کا نام شامل ہے اور یہ سیشن کورٹ کے فیصلے کے عین مطابق درج کی گئی ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل نہیں ہیں۔لاہور کے سی سی پی او ذوالفقار حمید کے مطابق مقدمہ منہاج القرآن کی انتظامیہ کی درخواست کے مطابق درج کیا گیا ہے۔منہاج القرآن کی درخواست میں 21 حکومتی شخصیات کو نامزد کیا گیا ہے جس میں وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت کئی وفاقی اور صوبائی وزرا شامل ہیں۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ایف آئی آر کے اندارج کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ مسئلہ وزیراعظم کا نہیں بلکہ آئین کا ہے جس کی پاسداری ضروری ہے۔اس سے پہلے اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے مشاورتی اجلاس کے بعد وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی ایف آئی آر درج کرنے کا عندیہ دیا تھا۔خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا: ’وزیراعظم، وفاقی وزرا اور جن جن افراد کے نام علامہ طاہر القادری نے اپنی شکایت میں لکھے ہیں، ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم اس فیصلے کے خلاف انٹرکورٹ اپیل کریں گے نہ ہی سپریم کورٹ جائیں گے۔ ہم نے اپنے دفاع کے قانونی حق کو استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ایک دن پہلے بدھ کو بھی عوامی تحریک کے وکلا پانچ گھنٹے تک تھانہ فیصل ٹاو ¿ن میں مقدمے کے اندارج کے لیے بیٹھے رہے لیکن ایس ایچ او اور محرر کی عدم موجودگی کے باعث ایف آئی آر درج نہ ہو سکی۔ جبکہ تھانے میں مسلم لیگ ن کے حامیوں کی آمد کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے جس پر علاقے کے ڈی ایس پی نے تھانے پہنچ کر قابو پایا۔لاہور کی سیشن عدالت نے چند روز پہلے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت 21 حکومتی شخصیات کے خلاف مقدمے کے اندراج کا حکم دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔اس سے پہلے پولیس کی مدعیت میں بھی سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کی ایک ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، جس پر کارروائی جاری ہے۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس ایف آئی آر میں نامزد پانچ ملزمان کو پانچ ستمبر تک گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس ایف آئی آر میں نامزد تین ملزمان عبوری ضمانت پر ہیں جبکہ دو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے حکومت کے خلاف شاہراہ دستور پر احتجاج دھرنا دے رہے ہیں۔ان کے مطالبات میں ماڈل ٹاو ¿ن واقعے کی ایف آئی آر اور وزیراعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ شامل ہے۔پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کی جانب سے حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے دی جانے 48 گھنٹے کی ڈیڈلائن گذشتہ بدھ کی شام بوقت چھ بجے ختم ہوگئی تھی اور اس سے قبل طاہر القادری نے اپنے حامیوں سے مشاورتی عمل تیز کردیا تھا۔اس سلسلے میں ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت نے دو اہم شخصیات کے ساتھ طاہر القادری سے ملاقات کی تھی۔اسلام آباد میں ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے حالات پھر کشیدہ ہوتے جارہے تھے۔ ریڈزون میں کارکنوں کی تعداد بڑھتی گئی جواپنے قائد کے حکم پر کسی بھی انتہائی قدم اٹھانے کیلئے تیار تھے۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات تک نوازشریف استعفیٰ دیں، ہم اس نظام کےخلاف بغاوت کرتے ہیں، جمہوریت کے بغیرپاکستان کاکوئی مستقبل نہیں، نئے پاکستان میں میرٹ کا بول بالا ہوگا۔عمران خان نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کے ہوتے ہوئے دھاندلی کی شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی، دھاندلی کرنے والوں کا احتساب نہ ہوا تو آئندہ انتخابات کا فائدہ نہیں، دھرنے کامقصدپاکستان میں حقیقی جمہوریت اورآزادی لاناہے۔جبکہ لاہور پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاون کا عبوری چالان تیار کر لیا ہے، جس میں کسی بھی حکومتی شخصیت کو نامزد نہیں کیا گیا بلکہ صرف سرکاری اہلکاروں کے نام شامل کیے گئے ہیں۔دس صفحات پر مشتمل چالان میں ایس پی سیکیورٹی سمیت 9 پولیس اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا ہے جبکہ منہاج القرآن کی جانب سے بھی فائرنگ کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کے لیے تیار کیے جانے والے عبوری چالان میں کہا گیا ہے کہ حالات خراب ہونے پر کراس فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایس ایچ او سمیت 29 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔چالان کے مطابق پولیس کو کسی نے گولی چلانے کا حکم نہیں دیاتھا۔پولیس کی جانب سے تیار کیے گئے چالان میں سابق ایس پی سیکیورٹی سلمان سمیت نو اہلکاروں کو واقعے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایس پی سیکیورٹی سلمان اور نو پولیس اہلکاروں کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔لاہور کی پولیس کی جانب سے واقعہ کے بارے میں اٹھائیس اگست کو عبوری چالان پراسیکیوٹر جنرل کو جمع کروائے گی۔چالان کا جائزہ لینے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پراسیکیوٹر جنرل جمع کروائیں گے۔جبکہ ایس ایس پی (سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس) اسلام آباد نے بدھ کو دارالحکومت میں امن و امان کے حوالے سے نیا حکم جاری کیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں ایس ایس پی اسلام آباد نے کہا ہے کہ پولیس کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔نوٹیفیکشن میں پولیس کو مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر لاٹھی چارج یا آنسو گیس شیلنگ کے استعمال سے منع کیا گیا ہے۔اس سے پہلے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔انہوں نے کہا حکومت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے مذاکرات معطل ہو جائیں۔ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے جتنے طول پکڑتے جا رہے ہیں۔ملک میں سیاسی اقتصادی اور سلامتی سے متعلق مسائل بھی اتنے ہی گھمبیر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔عوامی حلقوں میں تشویش پیدا ہو رہی ہے کہ آخرمفلوج نظام سے کب نجات ملے گی۔یہ احتجاج شروع ہوئے دو ہفتے ہونے کو ہیں اور معاملات ابھی تک ڈیڈ لاک کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والی جماعتوں سے حکومت اور دوسرے سیاستدانوں کے رابطے بھی کئی بار ہو چکے ہیں جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں۔وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق تحریک انصاف اور عوامی تحریک دونوں کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔انھوں نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ’اب تک پی ٹی آئی سے مذاکرات کے چار دور اور ان گنت فون رابطے ہوئے لیکن (عمران خان کی) ایک ضد ہے کہ چونکہ میں کہہ دیا ہے کہ وزیراعظم استعفی دے دیں، اس لیے انھیں استعفی دینا پڑے گا۔ بھلے 30 دن کے لیے۔ کیا وزیراعظم کے دفتر کو او ایس ڈی کا درجہ دے دیا جائے؟ بھلا ایسے ملک چلایا جا سکتا ہے۔سعد رفیق نے بتایا کہ عوامی تحریک سے سات بار مذاکرات ہو چکے ہیں، لیکن دونوں جماعتوں کے ساتھ بات چیت میں عمران خان سے براہ راست کسی مذاکرات کار کو رسائی نہیں ملی جبکہ طاہرالقادری سے مذاکراتی کمیٹیوں کی صرف ایک ملاقات ہوئی۔ان براہ راست رابطوں کے علاوہ ایم کیو ایم، پاکستان پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی بھی عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی حکومت سے مصالحت کروانے کی کوششوں میں سرگرم دکھائی دیں۔گزشتہ ہفتہ کوپیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے رائیونڈ میں وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی تو اس ملاقات سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی گئیں۔انھوں نے رابطے تو کیے لیکن کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہو سکی۔یہ پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا ہو چکا ہے۔ عوام کی تو یہی خواہش ہے کہ معاملات جلد از جلد حل ہوں۔ لیکن یہ حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ دونوں فریق اپنا اپنا موقف چھوڑنے کو تیار نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے ذرا سی بھی لچک دکھائی تو یہ ان کی سیاسی موت ہوگی۔گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کراچی میں سندھ کے گورنر سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم کا وفد اسلام آباد میں وزیراعظم اور پھر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملا۔ دوسری جانب منصورہ میں موجودہ سیاسی صورتحال پر مشاورتی اجلاس بھی ہوا۔ایم کیو ایم کے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کوئی ایسی پیشکش کریں جس سے معاملات حل ہوجائیں۔پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے بیان دیا کہ وزیراعظم سے اس طرح استعفی لینا اچھی روایت نہیں ہوگی جبکہ جماعت اسلامی کے سراج الحق کا موقف تھا کہ حکومت کی تبدیلی آئین اور دستور کی روشنی میں ہونی چاہیے۔سابق صدر آصف زرداری بھی مختلف سیاست دانوں سے رابطے کر کے معاملات کو حل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔حکومت کے حق میں قومی اسمبلی کی قرارداد کے باوجود لگتا ایسا ہے کہ موجودہ بحران پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس کے باوجود بظاہر سب ہی مصالحت کے لیے اپنے اپنے تئیں کوششوںمیں مصروف ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والا پانچواں دور بھی ناکام ہوچکا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ بظاہر تو حالات میں بہتری ہوتی نظر نہیں آ رہی جب تک کہ فوج مداخلت نہ کرے۔ لیکن فوج براہ راست مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سیاستدان آپس میں لڑتے مرتے رہیں۔ اگر یہ چاہتے ہیں کہ فوج ان کا گند صاف کرے تو ایسا نہیں ہوگا۔تاہم بعض تجزیہ نگاروں کی رائے کچھ مختلف ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’جو ادارہ خود کو کسی ملک کا محافظ سمجھتا ہے اس کے لیے اس طرح کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہو سکتی۔ اس کا اظہار نوازشریف اور راحیل شریف کی حالیہ ملاقات سے بھی ہوا۔ یہ تیسرا موقعہ تھا کہ جس میں فوجی قیادت کی طرف سے یہ پیغام آیا کہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل کو سیاسی انداز میں جلد حل کریں۔ فوج نے بظاہر خود کو اس قضیے سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ وہ درپردہ کس حد تک اس بحران میں ملوث ہیں۔ملک میں تمام سیاسی جماعتیں ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں اور اس کی مضبوطی کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کے دعوے بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن یہ کہنا شاید بے جا نہ ہو کہ اس وقت پاکستان میں ضد کی سیاست اپنے عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ معاملہ وزیراعظم کے استعفے کا ہو۔ یا پھر سانحہ ماڈل ٹاون میں 21 بااثر حکومتی شخصیات کے خلاف ایف آئی آر کا۔کوئی بھی اپنی جگہ سے ہٹنے کو تیار نہیں۔جبکہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ 20 کروڑ عوام کی نمائندہ ہے لہذا آئین کی پاسداری اور جمہوریت کا سفر جاری رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں اور وزیرِ اعظم آتے اور چلے جاتے ہیں تاہم جمہوری نظام پر ایمان رکھنا جمہوریت کی فتح ہے۔انھوں نے کہا پارلیمان میں موجود دس میں سے نو جماعتوں نے ان کی حکومت کے حق میں پیش کی گئی قرار داد کی حمایت کی۔انھوں نے ارکانِ پارلیمان سے کہا کہ ’میں آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاو ¿ں گا۔‘ وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ ان تمام طبقات کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے ان کی حمایت کی۔اگر کوئی اس نظام میں خلل ڈالنا چاہے گا تو اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ ملک میں جاری ترقیاتی کام جاری رہیں گے۔ انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ حکومت اپنی مدت پورا کرے گی۔ وزیرِ اعظم نے یہ خطاب ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یہ عندیہ دے رکھا ہے کہ آج ہونے والے مذاکرات آخری ہوں گے جس کے بعد ان کی جماعت آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔موجودہ سیاسی کشیدگی پر سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔پاکستان تحریکِ انصاف کے مطالبات میں پہلا مطالبہ وزیرِ اعظم کا استعفیٰ ہے جس کے باعث مذاکرات میں تعطل برقرار ہے۔حکومت کی مذاکراتی ٹیم پاکستان تحریکِ انصاف کے مذاکراتی وفد سے بدھ کو بھی ملی ہے۔وزیرِ اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی بحران سے ملک میں معاشی صورتحال ابتر ہوئی ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں سے ملکی معیشت کو بھی قابل ذکر نقصان پہنچا ہے اور سٹاک ایکسچینج میں لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ ا ±نھوں نے کہا کہ جب وہ گذشتہ برس انتخابات کے بعد عمران خان سے ملنے ہسپتال گئے تھے تو ا ±نھوں نے خود مجھے (نواز شریف) کو مبارکباد دی تھی۔ ان احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہو رہا ہے۔وزیر اعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جس طرح پارلیمنٹ نے ا ±ن پر بھروسہ کیا ہے وہ کبھی بھی ا ±ن کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔ ا ±نھوں نے کہا کہ وہ اس بات کا ذکر پھر کبھی کریں گے کہ ان احتجاجی ریلیوں کے اصل محرکات کیا ہیں۔دوسری جانب سپریم کورٹ نے دارالحکومت اسلام آباد کی شاہراہ دستور کے ایک حصے کو مکمل طور پر خالی کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ کے رجسٹرار، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے وکلاءکو باہمی کوششیں کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔عدالت نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو جمعرات کی صبح تک عدالتی احکامات کی تکمیل سے متعلق رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ممکنہ ماورائے آئین اقدام اور شہریوں کے حقوق سے متعلق دائر سات درخواستوں کی سماعت کی۔پاکستان عوامی تحریک کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ا ±ن کی جماعت کے کارکن حکومت کی طرف سے سماجی ناہمواریوں کے خلاف میدان میں آئے ہیں۔ا ±نھوں نے کہا کہ ’احتجاج سب کا حق ہے اور جب تک ا ±نھیں اپنا حق نہیں ملتا پاکستان عوامی تحریک کے کارکن سڑکوں پر ہی رہیں گے۔‘چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگریہ مجمع ا ±ن کے کنٹرول میں نہیں ہے تو بتادیں تاکہ عدالت کوئی مناسب حکم فراہم کرے۔بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری جب تقریر کرتے ہیں تو ا ±س کے بعد کارکن جذباتی ہوجاتے ہیں اور ایسے میں لوگوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔بینچ میں موجود جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کا حق سب کو ضرور ہے لیکن کیا مجمع اکھٹا کرکے ایک منتخب وزیر اعظم سے زبردستی استعفی لیا جاسکتا ہے؟۔ا ±نھوں نے کہا کہ اگر یہ روایت پڑ گئی تو کل کوئی اور جماعت اس سے بڑا مجمع لے کر ا ±س وقت کی حکومت کو مستفی ہونے کا مطالبہ کرے گی۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن گاڑیوں کو روک کر وکلا اور عام لوگوں کی تلاشی لے رہے ہیں جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔بینچ میں موجود جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے شاہراہ دستور سے زیادہ ملکی دستور کا معاملہ ہے۔ ا ±نھوں نے کہا کہ ملک کے دستور اور جمہوریت کو خطرہ ہے۔ا ±نھوں نے کہا ملک میں لگنے والے چار مارشل لاو ¿ں کا نام لیے بغیر کہا کہ چار مرتبہ ہڈیوں کے ڈاکٹر دماغ کی سرجری کرچکے ہیں اور اب ا ±نھیں پانچویں بار ایسا کرنے سے روکنا ہے۔پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین کو متبادل جگہیں فراہم کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کی طرف سے رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ جماعتیں مختلف معاملات پر سیاست چمکا رہی ہیں۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ سیاسی گند عدالت میں نہ لائیں۔ ا ±نھوں نے کہا کہ عدالت کسی کو احتجاج کرنے سے نہیں روک سکتی۔ ا ±نھوں نے کہا کہ ملکی آئین کا تحفظ کیا جائے۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ملک کی آزاری کے بعد جو نعمت ملی ہے وہ پاکستان کا متفقہ آئین ہے جس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔بنچ میں موجود جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ججز کا کام انصاف فراہم کرنا ہے لیکن ابھی تک ججز کو بھی سپریم کورٹ پہنچنے میں رکاوٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ا ±نھوں نے کہا کہ احتجاج کا طریقہ کارکی ایک حد ہونی چاہیے۔عمران خان نے دھرنے سے خطاب میں کہا کہ’نون لیگ جنرل ضیاءالحق نے پیدا کی تھی اور آئی ایس آئی نے اس کو بنایا تھا، مہران بینک کے فنڈز دلوائے تھے، جنرل درانی کا کیس سپریم کورٹ میں کہ نواز شریف کو پیسے دیے تھے آئی جے آئی میں۔نون لیگ کے لوگوں کو پیسے دے کر انھوں نے پارٹی کو بنوایا تھا۔‘عمران خان کے مطابق ہم نے سارے جمہوری طریقے استعمال کیے ہیں اور کوئی یہ نہ کہے کہ ہم فوج کے کہنے پر یہاں آئے ہیں۔جبکہ گزشتہ بدھ کی رات نو بجے کے قریب گورنر پنجاب چوہدری سرور اور وزیراعلیٰ سندھ گورنر عشرت العباد نے دس سے پندرہ منٹ تک پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے کنٹینر میں ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد طاہرالقادری دونوں صوبائی گورنرز کو سٹیج پر لے کر آئے اور دھرنے کے شرکائ کو بتایا کہ دونوں شخصیات عوامی تحریک سے اظہار یکجہتی کے لیے آئے ہیں اور حکومتی وفد کی آمد کا انتظار ہے۔ اس کے ساتھ طاہر القادری نے اپنی دو شرائط تسلیم کیے جانے کے لیے حکومت کو دی گئی ڈیڈ لائن میں توسیع کر دی ۔ انھوں نے ان شرائط کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مئی 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا اجلاس اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی صدارت میں منعقد ہوا۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد طاہر القادری نے اپنے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے یہ آخری حکومتی وفد آیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ فوری طور پر 2 شرائط اپنی شرائط پوری کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور حکومتی وفد کو 2 گھنٹے کی مہلت دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اپنی شرائط پورے ہونے تک واپس نہیں جائیں گے۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی جانب سے حکومت کو دی گئی 48 گھٹنے کی مہلت ختم ہو گئی ہے۔ عوامی تحریک کے کارکنان نے علامتی کفن پہن رکھے ہیں تاہم جماعت کے سربراہ ابھی کنٹینر میں ہی موجود رہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران کے مطابق انھیں ڈپٹی وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی گئی ہے تاہم وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ برقرار ہے۔ حکومت سے مذاکرات میں ڈیڈلاک براقرار رہنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں عمران خان نے کہا کہ حکومت کی صرف ایک کوشش ہے کہ دھرنا ختم ہو جائے۔عمران خان نے بعد میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام اکھٹے ہوں اور وہ آج شام کو ایک اہم اعلان کریں گے۔’جب تک نواز شریف مستعفی نہیں ہوتے میں یہاں سے نہیں اٹھوں گا اور حکومت سے بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے مستعفی ہونے تک حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی میں وزیراعظم کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس کی تحقیقات تک وزیراعظم کے عہدے سے الگ ہو جائیں۔’نواز شریف وقت خرید رہے ہیں انھیں معلوم ہے کہ دھاندلی ثابت ہو جائے گی۔تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور حکومتی ٹیم کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار ہے جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ان مذاکرات سے قبل کہا تھا کہ آج حکومت سے آخری بار مذاکرات ہوں گے جس کے بعد وہ اہم اعلان کریں گے۔جبکہ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ بحران کے حل کے لیے اب بھی گنجائش ہے اس لیے کوشش کی جائے۔ انھوں نے کہا کے الطاف حسین نے سب سے کہا ہے کہ بحران کا حل نکالیں۔ فاروق ستار کے بقول انھوں نے وزیرِ اعظم سے کہا ہے کہ مولانا طاہر القادری کے ساتھ معاملے کے حل کے لیے اگر مسلم لیگ ن کی اعلی سطحی قیادت ( وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلی پنجاب) سے براہِ راست مذاکرات کی ضرورت پڑے تو بھی کیے جائیں۔جبکہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے معاون خصوصی عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اور حکومت عدلیہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ عمران خان کے مطالبے پر انتخابی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔عرفان صدیقی کے مطابق ماڈل ٹاو ¿ن کا معاملہ آئین اور قانون کے مطابق حل ہو گا۔حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے تاہم مقامی ہوٹل میں ہونے والی ملاقات بے نتیجہ ختم ہو گئی تھی۔یاد رہے کہ تحریک انصاف کے کل 6 میں سے 5 مطالبات حکومت تسلیم کر چکی ہے تاہم وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر دونوں جماعتوں میں اختلاف رائے موجود ہے۔عمران خان نے کہا کہ اگر ان کے یا طاہر القادری کے پرامن دھرنے کے خلاف کوئی بھی اقدام کیا تو اس کے بعد کے حالات کے ذمہ دار وزیراعظم نواز شریف ہوں گے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ایک تاثر مل رہا ہے کہ ادارے دباو ¿ میں ہیں، خطرات کے بادل ہیں اور اس دباو ¿ میں جب ادارے کام کریں گے اور فیصلے کریں گے تو اس پر حرف آئے گا کہ کہیں یہ فیصلے دباو ¿ میں تو نہیں ہوئے۔ایم کیو ایم کے وفد کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وہ ایم کیو ایم سے توقع کرتے ہیں کہ وہ احتجاج کرنے والوں کو سمجھائیں گے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور پارلیمانی کمیٹیوں کے قیام اور دیگر حکومتی اقدامات کے بعد وہ احتجاج پر نظر ثانی کریں گے۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ 23 گھنٹوں کے بعد فیصلہ ہو جائے گا یا تم یا ہم۔ انھوں نے کہا کہ اب 23 گھنٹے رہ گئے ہیں اور فیصلے کی گھڑی آنے والی ہے۔ طاہر القادری نے اپنے خطاب میں جہاں گھروں میں موجود لوگوں کو دھرنے میں شامل ہونے کی دعوت دی وہیں کھل کر فوج کو خراج تحسین بھی پیش کیا اور کہا کہ فوج سیاست میں نہیں آئی اور غیر جانبدار ہے۔جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمود مقبول نے 4 وفاقی وزراءکی وہ درخواست مسترد کر دی ہے جس میں انھوں نے سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کے سلسلے میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت 21 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سیشن کورٹ کا یہ فیصلہ برقرار ہے رہے گا جس میں عدالت نے وزیراعظم ، وزیراعلی، چار وفاقی وزراءاور سابق و زیر قانون سمیت 21 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔اپنے مختصر فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ درخواست گذار اپنے موقف کے حق میں کوئی ٹھوس قانونی جواز پیش نہیں کر سکے۔ لاہور کی مقامی عدالت نے 16 اگست کو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف، پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف، آٹھ وزرا جن میں صوبائی اور وفاقی وزرا شامل ہیں اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداران سمیت 21 افراد کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔منہاج القران کی انتظامیہ اور مقتولین کے لواحقین نے سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کی کسی بھی پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر درج نہ ہونے پر چند دن بعد عدالت میں سیکشن 22 اے بی کے تحت درخواست دائر کی جن میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور اکیس افراد کے خلاف قتل اور ڈکیتی کا مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ایڈیشنل سیشن جج اجمل خان نے اس کیس کی سماعت کی اور اس پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پولیس کو قانون کے مطابق مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا۔تاہم گزشتہ بدھ کی شام تک لاہور میں سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر کا معاملہ حل نہیں ہو سکا،عدالت کا وقت ختم ہو نے کے بعد عوامی تحریک کا نمائندہ تھانے پہنچا۔ تھانہ فیصل ٹاو ¾ن کے ایس ایچ او، بیٹ آفیسر اور محرر فیصل ٹائون سارا دن تھانے سے غائب رہے اور روزنامچے میں لکھ دیا کہ اہم میٹنگ میں جا رہے ہیں۔ پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات ہائی کورٹ کی جانب سے دیئے گئے تھے۔ عوامی تحریک کے وکیل منصور آفریدی نے میڈیا کو بتایا کہ عدالتی احکامات کی نقل طاہرالقادری کو پہنچا دی ہے اور ایف آئی آر کے حوالے سے فیصلہ بھی وہی کریں گے۔جبکہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پلڈاٹ کے احمد بلال نے اپنے ایک مضمون میں تجویز دی ہے کہ موجودہ سیاسی بحران پوری طرح انتخابی اصلاحات کے گرد گھوم رہا ہے۔ بھلے ہی 2013 کے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف الزامات اب حکومت کے خلاف تحریک کا روپ دھار چکے ہیں، لیکن پھر بھی انتخابی اصلاحات کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ مندرجہ ذیل آٹھ شعبوں میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان: اس وقت آئین کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ممبران کا بیک گراو ¿نڈ اعلیٰ عدلیہ سے ہونا ضروری ہے۔ یہ پابندی نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے، بلکہ اس سے انتظامی امور کی مہارت رکھنے والے لوگ بھی باہر رہ جاتے ہیں۔ چار میں سے ایک ممبر کا قانونی بیک گراو ¿نڈ ہونا ٹھیک ہے، لیکن پانچوں عہدوں پر سابق ججز کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر، اور الیکشن کمیشن کے ممبران کے لیے عمر کی اوپری حد رکھنا معقول ہوگا۔ اس کے علاوہ ان کے انتخاب کے عمل پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ان کے انتخاب کی آئینی شق میں دو طرفہ مشاورت کے بجائے دو سے زیادہ گروہوں سے مشاورت کی جانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کے اسٹاف کی بھرتیوں، ترقیوں، اور ٹریننگ کے نظام کو بھی پوری طرح بدلنے کی ضرورت ہے۔ووٹنگ: گزشتہ الیکشن میں سب سے زیادہ شکایات ووٹروں کی شناخت کے حوالے سے ہیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے، اور نادرا کی جانب سے انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ کے بعد یہ تصدیق کی گئی ہے، کہ ووٹس کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر اصل ووٹروں کے علاوہ دوسرے لوگوں نے ڈالی ہے۔ کچھ کیسز میں تو ایک شخص کی جانب سے سو سے زیادہ ووٹس بھی ڈالے گئے، جس کا انکشاف نادرا نے انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ کے بعد کیا ہے۔ اس لیے ووٹنگ کے لیے جلد از جلد بایومیٹرک سسٹم لانے کی ضرورت ہے، تاکہ ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی ووٹر کی شناخت ممکن ہو سکے۔پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے، جہاں بالغ آبادی کے 90 فیصد سے زائد لوگوں کے، اور رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 100 فیصد لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات نادرا کے ڈیٹا بیس میں موجود ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے نہ صرف بایومیٹرک شناخت کو ممکن بنا دیا ہے، بلکہ اب یہ کم قیمت بھی ہوگئی ہے۔ بایومیٹرک شناخت والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو بتدریج متعارف کرانا چاہیے، جس کی شروعات ضمنی انتخابات کے اگلے راو ¿نڈ سے کی جا سکتی ہے، تاکہ اس نئے انتظام کو اگلے بلدیاتی اور عام انتخابات تک مکمّل طور پر ٹیسٹ کر لیا جائے۔کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1977 میں ترمیم کی سفارش کی تھی، تاکہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے وقت کو 1 ہفتے سے بڑھا کر 30 دن کیا جا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ترمیم گزشتہ قومی اسمبلی سے پاس نہیں ہو سکی، لیکن اسے اب واپس اٹھایا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کو بھی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح، اور اگر ضرورت پڑے تو ترمیم کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، تاکہ ان دونوں آرٹیکلز میں موجود ابہام دور کیے جا سکیں، اور انہیں مو ¿ثر طریقے سے نافذ کیا جا سکے۔انتخابی اخراجات: 2013 کے انتخابات میں الیکشن مہم کے نئے رواج دیکھے گئے، کیونکہ کمرشل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مہم چلانے کے لیے سیاسی جماعتوں نے بہت پیسہ خرچ کیا۔ اس وقت انتخابی قوانین امیدواروں کے انفرادی اخراجات پر تو حد لگاتے ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کے مجموعی اخراجات کے حوالے سے کوئی حد موجود نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمرشل میڈیا میں الیکشن مہم پر کیے جانے والے اخراجات کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے الیکشن کمیشن انفرادی طور پر امیدواروں کی جانب سے کیے گئے اخراجات پر بھی چیک لگانے میں ناکام رہا۔ اس ایریا میں الیکشن کمیشن کو ہندوستان کے الیکشن کمیشن سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انڈین الیکشن کمیشن نے پچھلے کئی سالوں میں آزادانہ طور پر ہر حلقے میں انتخابی مبصرین کی تعیناتی کا ایک بہترین طریقہ کار وضع کیا ہے، تاکہ اخراجات کو حد سے نہ بڑھنے دیا جائے۔نگران حکومتیں: 2013 میں حاصل ہونے والے تجربات کے بعد اب 20 ویں ترمیم کے تحت نگران حکومتوں کے قیام کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ایک سیاسی جماعت، جو صوبائی حکومت میں اتحادی تھی، اس نے الیکشن سے فوراً پہلے حکومت کے ساتھ اتحاد ختم کر لیا۔ قائد حزب اختلاف اس جماعت سے منتخب ہوگئے، جس کی وجہ سے نگران حکومت کی تقرری اصل اپوزیشن کی مشاورت کے بغیر ہوئی۔ اس لیے ایسی سکیم تیار کرنے کی ضرورت ہے، جس کی مدد سے اس طرح کے مسائل سے بچا جا سکے۔ نگران وزیر اعظم اور وزرا اعلیٰ کی زیادہ سے زیادہ عمر بھی قانونی طور پر طے ہونی چاہیے۔ نگران حکومتوں کے قیام کی مشاورت میں نہ صرف قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف، بلکہ دوسری پارلیمانی پارٹیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔نتائج کا اعلان: موجودہ پولنگ مرحلے میں ایک سقم یہ بھی ہے، کہ پولنگ اسٹیشنز پر ترتیب دیئے جانے والے نتائج کو ریٹرننگ افسران کی جانب سے اکٹا کیے جانے سے پہلے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے گنتی کے مرحلے کی شفافیت بڑھانے کے لیے پولنگ سٹیشن کی گنتیوں کو الیکشن کمیشن میں موصول ہوتے ہی ای سی پی کی ویب سائٹ پر پوسٹ کر دینا چاہیے۔پولنگ اسٹاف: پولنگ اسٹاف کی اکثریت صوبائی حکومتوں کے مختلف ڈیپارٹمنٹس سے آتی ہے، اور ان کے نام جاتی ہوئی صوبائی حکومتوں کی جانب سے تجویز کیے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں زیادہ تر بھرتیاں مقامی سیاستدانوں کے زیر اثر ہوتی ہیں، جو الیکشن میں ان پولنگ اسٹاف سے فائدے کی توقع رکھتے ہیں۔ ای سی پی کی جانب سے کڑی نگرانی، اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے اسٹاف کے خلاف سخت ایکشن معملات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ڈویڑن کے پولنگ اسٹاف کو دوسرے ڈویڑن میں تعینات کرنا چاہیے، تاکہ وہ مقامی طور پر طاقتور سیاستدانوں کے اثر رسوخ سے محفوظ رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔الیکشن ٹریبونلز: قانون کے تحت الیکشن ٹربیونل الیکشن پٹیشنز کو 4 ماہ کے اندر نمٹانے کے پابند ہیں، لیکن بدقسمتی سے کل وقتی ججز کی تعیناتی کے باوجود بمشکل آدھی پٹیشنز ہی مقررہ وقت میں نمٹائی گئیں۔ تمام پٹیشنز کا فیصلہ 4 ماہ کے اندر اندر کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔اے پی ایس