معاملات طے،ستمبر میں ممکنہ الیکشن؟۔چودھری احسن پریمی



پاکستان تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے کور کمیٹی کو بتایا کہ ‘بیجز’ والے کہتے ہیں کہ طاہر القادری کے ساتھ چلیں۔ ہم فوج کے بغیر نہیں چل سکتے۔پارلیمنٹ ہاو ¿س کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے کہا کہ معاملات طے ہو گئے ہیں اور ستمبر میں الیکشن ہوں گے۔یہ اسکرپٹ کس نے تیار کیا؟۔قانونی ماہر اور سینئر وکیل رہنما عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ آرمی حکومت پر قبضہ کر سکتی ہے۔ انہوں نے آئی ایس پی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ جاوید ہاشمی کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کرے۔عاصمہ جہانگیر نے مطالبہ کیا کہ ان الزامات پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔تحریک انصاف کے صدر نے کہا کہ عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘وہ’ کہتے ہیں کہ طاہرالقادری کے ساتھ چلیں۔جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ معاملات طے ہو گئے ہیں اور ستمبر میں الیکشن ہوں گے۔ عمران خان نے کہا کہ فوج کے بغیر نہیں چل سکتے۔مزید تفصیل سے پہلے ضروری ہے کہ صحافیوں پر وحشیانہ تشدد کی مذمت کی جائے اور مطالبہ کیا جائے کہ ذمہ داروں کے خلاف مقدمات درج کروا کر انہیں سزائیں دلوائی جائیں۔گزشتہ اتوار کی صبح جب شاہراہِ دستور پر سورج کی کرنیں پھیل گئیں، تو بے چین مظاہرین کے ہجوم کے ساتھ مختلف ٹی وی چینلوں کے صحافیوں اور کیمرہ پرسنز نے ریکارڈنگ شروع کردی اور فوٹیج و اطلاعات کو عین اسی وقت اپنے ہیڈکوارٹرز میں بھیجنا شروع کردیا۔مظاہرین جو طویل وقت سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے وہ پتھریا ان کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہوتا پولیس کی جانب پھینک کر اپنے ہاتھ خالی کردیتے تھے۔اس مقام پر پولیس کی تازہ نفری تعینات کرکے ان کا راستہ روکا گیا ہے۔سماءنیوز کے کیمرہ مین خرم فیاض نے بتایا ”میں ایک طرف کھڑا تھا، اور مظاہرین کی وڈیو بنارہا تھا، جب میں نے کسی کو پکارتے سنا کہ ’میڈیا والوں کو مارو۔خرم فیاض میڈیا کے ان نمائندوں میں سے پہلے فرد تھے، جن پر حملہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی مارپیٹ کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کا کیمرہ ٹوٹ گیا ہے، پھر وہ ڈی چوک کے قریب پارک کی گئی ڈی سی این جی وین کی سمت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے کہا ”میں نے دنیا ٹی وی کی وین میں پناہ لینی چاہی، لیکن اس کے ڈرائیور نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا، اور پیچھا کرنے والے پولیس اہلکاروں نے میرے ساتھ اس کو بھی پکڑلیا، انہوں نے مجھے گاڑی سے باہر نکالا اور میرے ساتھ یہ سلوک کیا۔یہ کہہ کر انہوں نے اپنی پیٹھ دکھائی، جس پر لاٹھیوں کی چوٹ کے سیاہ اور نیلے نشانات موجود تھے۔خرم کے سر میں بھی چوٹیں آئی تھیں، اور جب ان کو پمزلایا گیا تھا تو ان کے سرسے بے تحاشہ خون بہہ رہا تھا۔ وہ نیم بے ہوشی میں تھے اور ان کے زخموں کو بند کرنے کے لیے آٹھ ٹانکے لگانے پڑے۔سماءٹی وی کے عجب خان پر بھی ہفتے کی علی الصبح اس فساد کے دوران حملہ ہوا تھا۔انہیں پولی کلینک پہنچایا گیا۔بعد ازاں عجب خان کو ان کی کھوپڑی کے سی ٹی اسکین کے لیے شفاءہسپتال منتقل کیا گیا ہے، جس پر بہت شدید زخم آئے تھے۔سماءٹی وی کے ایک رپورٹر عامر سعید عباسی کو اس وقت لاٹھیوں سے پیٹا گیا، جب وہ اپنے ساتھی کیمرہ مین اویس قاضی کو بچانے کی کوشش کررہے۔ تھے۔ اویس بھی مظاہرین پر کیے جانے والے لاٹھی چارج کی ریکارڈنگ کررہے تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔وقت ٹی وی کی ٹیم آنسوگیس کی شیلنگ کی براہِ راست زدمیں آئی۔ کیمرہ مین عاطف یوسف اور عمران اقبال، ڈی سی این جی آپریٹر محمد زاہد اور ان کے ڈرائیور جمیل کیانی سانس کے ساتھ بے انتہا آنسوگیس چلی جانے کے باعث بے ہوش ہوگئے اور گھنٹوں بعد ہی ہوش میں آسکے۔نصف درجن سے زیادہ ڈان نیوز کے کیمرہ مین اور رپورٹرز بھی پولیس کی میڈیا پرسنز کے خلاف سخت غیض و غضب کا نشانہ بنے۔ ڈان نیوز اسلام آباد ڈیسک کے اسائنمنٹ ایڈیٹر حسنین رضا نے بتایا کہ کاشف عباسی کا بازو ٹوٹ گیا، نوشاد عباسی کو ڈنڈوں سے پیٹا گیا اور انہیں براہِ راست لگنے والے آنسوگیس شیل سے بھی زخم آئے تھے، جبکہ رپورٹرز یاسر ملک اور ثمر عباس بھی آنسو گیس سے متاثر ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ”اشفاق حسین کو پشاور بیورو سے بلایا گیا تھا، انہیں بھی پلاسٹک کے چھرّے اور ربڑ کی گولیاں لگی ہیں، جبکہ کیمرہ مین عمران چوہدری اور منصور احمد بھی پر بھی حملہ کیا گیا، جب وہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے حمائتیوں پر پولیس کے لاٹھی چارج کی کوریج کررہے تھے۔ایکسپریس نیوز کے امیر عالم جو ایک ہاتھ سے سہارا دے کر اپنے زخمی کیمرہ مین کو لے جارہے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اپنا پریس کارڈ دکھارہے تھے، پر بھی حملہ کیا گیا۔انہوں نے کہا ”پولیس ہم پر پتھروں سے حملہ کررہی تھی۔“انہیں لاٹھیوں سے بھی پیٹا گیا اور ان کے سر، گھٹنے اور ہاتھوں پر زخم آئے۔ایکسپریس نیوز کے کیمرہ مین عثمان افضل اور ڈرائیور بخت زمین اتوار کو پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہوگئے تھے۔آج ٹی وی کے رانا طارق خوش قسمت تھے کہ آنسو گیس کی مہلک مقدار کے قریب ہونے کے باجود وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن ان کے ساتھی کیمرہ مین ہارون خورشید اور غلام علی کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا، وہ پولیس کے گھیرے میں آگئے اور پولیس کی جانب سے انہیں ب ±ری طرح پیٹا گیا۔اے آر وائی نیوز کے کیمرہ مین آصف عبداللہ اور اقبال زیب اور دنیا ٹی وی کے عملے کے اراکین سید عیسٰی نقوی، حسن ایوب، ڈی سی این جی انجینئر عدنان اور کیمرہ مین انجم فاطمی بھی ریڈزون میں صحافیوں کے خلاف اتوار کو ہونے والے تشدد میں زخمی ہوئے۔ان میڈیا پرسنز میں سے زیادہ تر کو ہفتے کی صبح پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں پہنچایا گیا۔ ایک صحافی طاہر عمران اس وقت پمز میں موجود تھے، جب میڈیا کے نمائندوں میں سے پہلے زخمی کو وہاں لایا گیاتھا۔انہوں نے کہا ”ایک کیمرہ مین نوشاد نے مجھے بتایا کہ انہیں اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے بچایا، جو ان پر ڈنڈے برسانے والے شخص کو روک رہے تھے۔مذکورہ بالا افسوسناک پیش آنے واقعہ پرپاکستان کی صحافتی برادری نے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافیوں پر نواز حکومت کی جانب سے دہشت گردی کرنے سے ان کی نام نہاد جمہوری چادر اترگئی ہے۔صحافتی گلو کریسی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مذکورہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے اور اس وقت تک ان کا پیچھا کرنا چاہیے جب تک یہ کیفر کردار تک نہیں پہنچ سکتے۔جبکہ دارالحکومت کی انتظامیہ اور پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی ہدایت پر دھرنے کے شرکاءکے خلاف طاقت استعمال کی گئی۔ انہوں نے مظاہرین کو ٹریپ کرنے کی منصوبہ بندی کی اور انہیں وزیر اعظم ہاو ¿س فورتھ ایونیو سے پہنچنے کے لئے کہا جس کا مقصد مظاہرین سے شاہراہ دستور کو خالی کرانا تھا اور مارچ کے شرکاءکو فورتھ ایونیو منتقل کرنا تھا۔پی اے ٹی کے رہنماو ¿ں نے مارچ کے شرکاءکو وزیر اعظم ہاو ¿س پہنچنے کے لئے فورتھ ایونیو استعمال کرنے کی ہدایت دیں اور یہ بات وزیر کے علم میں بھی لائی گئی تھی۔ تاہم پی اے ٹی کے رہنما کے وزیر اعظم ہاو ¿س میں دھرنا دینے کے اعلان کے بعد مظاہرین نے تجویز کیے گئے راستے کے بجائے کیبنٹ ڈویژن کی جانب مارچ کیا۔انہوں نے بتایا کہ جب وزاعظم کو اس پیش رفت کے بارے میں مطلع کیا گیا تو انہوں نے پولیس اور انتظامیہ کو کسی بھی قیمت پر مظاہرین کو روکنے کا کہا، لیکن پولیس اور انتظامیہ کے افسران نے طاقت استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔بعد میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنماو ¿ں نے ایس ایس پی اسلام آباد سے ملاقات میں شرکاءکے پر امن رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور نتیجے کے طور پر پولیس نے شرکاءکو کابینہ ڈویڑن کے سامنے کا علاقہ خالی کرنے اور سیکریٹریٹ چوک منتقل کرنے کا کہا۔اس دوران مظاہرین نے کابینہ ڈویڑن اور ایوان صدر کے سامنے کچھ کنٹینرز کو ہٹا دیے اور ان میں سے کچھ عمارت کے اندر داخل ہو گئے۔ جس پر مذکورہ وزیر نے پولیس اور انتظامیہ کو عمارتوں کو خالی کرانے کے لئے کہا۔ وزیر خود موقع پر پہنچے اور شرکاءکے خلاف طاقت کے استعمال کرنے کے لئے پولیس کی حوصلہ افزائی کی اگرچہ انہیں افسران نے مطلع کیا کہ عمارتیں پہلے ہی خالی کرا لی گئی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آنسو گیس شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کے استعمال کی وجہ سے کچھ مظاہرین پارلیمنٹ ہاو ¿س میں داخل ہو گئے اور انہوں نے وہاں پناہ لے لی۔سابق آئی جی آفتاب چیمہ کے وزیر داخلہ کے ساتھ سنگین اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور 15 اگست، کو دارالحکومت میں مظاہرین کو روکنے میں ناکامی پر منسٹر نے انہیں ڈانٹا تھا۔بعد میں ایک اجلاس میں وزیر اعظم نے پولیس کی کارکردگی پر اپنی ناراضگی ظاہر کی جس کے نتیجے میں آئی جی نے دو ماہ کی چھٹی کی درخواست دی جسے 17 اگست کو منظور کر لیا گیا۔تاہم چیمہ نے دعوٰی کیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے منع کرنے پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف سے ناراض جاوید ہاشمی نے پارلیمنٹ کے سامنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان نے بتایا تھا کہ ’وہ‘ کہتے ہیں کہ قادری صاحب کے ساتھ چلو۔‘ان کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں جائیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا تاہم وہ پارلیمنٹ کی حفاظت کے لیے اپنی جان دے دیں گے۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ ’کاش عمران خان نے پی ٹی آئی کے آئین کو پڑھا ہوتا وہ کل بھی صدر تھے اور آج بھی پارٹی کے صدر ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اختلافات ہو سکتے ہیں کشمیر کے معاملے پر سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے اعتراضات ہو سکتے ہیں لیکن ہم مل کر بات کرتے ہیں۔جاوید ہاشمی نے کہا کہ وہ کل بھی پی ٹی آئی کے صدر تھے اور آج بھی صدر ہیں عمران خان نے انھیں نکالنے کے لیے آئینی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ ’کبھی پڑھتے تو صحیح اس آئین کو جو وہ اپنے صدر کے ساتھ جو وہ سلوک فرما رہے ہیں وہ نہ تو ان کی شان کے مطابق ہے اور نہ ہی قانون کے مطابق۔‘پاکستان کی تاریخ پر اشارہ کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ بندوق کی طاقت کو تسلیم کیا ووٹ کی طاقت کو تسلیم نہیں کیا‘۔جاوید ہاشمی نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں سپریم کورٹ کے ججوں کو ایک شہری کی حیثیت سے اپنی آواز پہنچا سکتا ہوں کہ ہمارے لیڈر نے ہمیں بتایا تھا کہ ابھی تصدق جیلانی ریٹائر ہو جائیں گے اور نئے چیف جسٹس سے ہماری بات چیت طے شدہ ہے اور وہ بیٹھ کر نواز شریف، شہباز شریف اور باقیوں کو فارغ کر دیں گے۔جاوید ہاشمی نے بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ منصوبہ کس کا ہے۔ یہ نہیں معلوم آئی ایس آئی کا ذکر ہے، فوج کا ذکر ہے، یا کور کمیٹی میں اس کا ذکر ہوا: ’تاہم انھوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ اگست کے آخر یا ستمبر میں انتخابات ہوں گے۔گزشتہ سوموار کوقومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہواتو اجلاس میں نہ تو وزیر اعظم نواز شریف آئے اور نہ ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر برائے ریلوے سعد رفیق آئے ۔ان کے علاوہ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین بھی موجود نہیں تھے۔اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے دو اراکین جب اسمبلی میں داخل ہوئے تو ان کا استقبال میزیں بجا کر کیا گیا۔ ان دونوں اراکین نے پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کی جانب سے دھرنوں کی مخالفت کی۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کچھ باتیں جاوید ہاشمی کی صحیح لگتی ہیں اور کچھ کی تصدیق باقی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب جاوید ہاشمی کو عمران خان نے فوج کے مطالبے کے بارے میں بتایا تھا تو انھیں فوراً بتانا چاہیے تھا۔پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پیر کو وزیراعظم نواز شریف سے تفصیلی ملاقات کی جس میں موجودہ سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس ملاقات کے بعد بعض ٹیلی ویڑن چینلز پر ایک غیر مصدقہ خبر نشر ہوئی کہ فوج کے سربراہ نے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔لیکن وفاقی حکومت اور اس کے بعد پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی جانب سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے یا چھٹی پر جانے کے مشورے کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں۔ا ±دھر پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس ناصر الملک نے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو فوری طور پر اسلام آباد پہنچنے کا کہا ہے، لیکن یہ واضح نہیں ایسا کیوں کیا گیا۔عدالتوں میں چھٹیاں ہیں اور بہت سے جج سالانہ تعطیلات پر اسلام آباد سے باہر ہیں۔کشیدہ سیاسی صورت حال کے باعث دن بھر کئی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں، جن میں سے بعض میں یہ بھی کہا گیا کہ منگل کو پارلیمان کے ہونے والے مشترکہ اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل کے خلاف کوئی قرار داد پیش کی جا سکتی ہے۔لیکن وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کی سختی سے تردید کی ”یہ قطعی طور پر بے بنیاد بات ہے۔۔۔۔ دور دور تک ایسی کسی تجویز کا نام نشان بھی نہیں ہے۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کی تردید کرتا ہوں۔بعض مبصرین اور مختلف سیاسی حلقے موجود صورتحال میں فوج کی مداخلت کا خدشہ ظاہر کرتے آرہے تھے لیکن اتوار کو دیر گئے ختم ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں سے ایسے تاثر کی نفی ہوئی۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد ایک بیان میں کہا گیا کہ طاقت کے استعمال سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وقت ضائع کیے بغیر عدم تشدد کے ساتھ بحران کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔تحریک انصاف اور عوامی تحریک وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں اور اسی کو لے کر ان جماعتوں کے ہزاروں کارکن 15 اگست سے اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے بقول احتجاج کرنے والی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے اس ضمن میں کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔حکومت مخالف ان جماعتوں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم کا استعفیٰ لیے بغیر نہیں رکیں گے لیکن حکومت اس مطالبے کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر چکی ہے۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنے کارکنوں سے حلف لیا تھا کہ کسی سرکاری عمارت پر حملہ کرنا ہمارا ایجنڈا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ پرامن لوگوں پر پر تشدد ہوا۔پی ٹی وی پر مظاہر ین کی جانب سے قبضہ کر نے پر مریم نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان حملے کی زد میں ہے، حملہ آور عمران خان اور طاہرالقادری ہیں۔ بدنما ایجنڈا بے نقاب ہو گیا۔گزشتہ سوموار کوچند گھنٹوں کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر ریڈ زون میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔اس دوران مظاہرین کی تعداد زیادہ تھی تاہم پولیس نے ان کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں تاہم مظاہرین نے پولیس کو پیچھے دھکیل دیا ۔مظاہرین پاک سیکریٹیریٹ کے سامنے صبح ہی سے موجود تھے۔ صبح مظاہرین نے بارش اور پولیس کی کم نفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکینِ سندھ اسمبلی نے اپنے استعفے جمع کروا دیے ہیں۔پاکستا ن تحریک انصاف کے سینیئر رہنما شفقت محمود نے کہا ہے کہ اگر حکومت مذاکرات کے لیے سازگار ماحول قائم کرے تو ان کی جماعت بات چیت سے انکار نہیں کرے گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ تشدد کے سائے میں بات چیت مشکل ہے۔جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک نے عدالت عظمیٰ کے تمام ججز کو فوری طور پر اسلام آباد پہنچنے کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ کے ترجمان شاہد کمبوہ کے مطابق عدالتوں میں سالانہ تعطیلات ہیں اس لیے متعدد جج صاحبان چھٹیوں پر تھے۔ ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ ان ججز کو اسلام آباد کیوں طلب کیا گیا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر چیف جسٹس نے یہ اقدام ا ±ٹھایا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی جانب سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کے کے مشورے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو مستعفی یا چھٹی پر جانے کے مشورے کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں۔اس سے قبل حکومت کی جانب سے مقامی میڈیا پر چلنے والی اس خبر کی تردید کی گئی ہے کہ آرمی چیف نے وزیراعظم نواز شریف کو 3 ماہ کے لیے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔سرکاری ٹی وی پر حکومتی ترجمان کا بیان نشر کیا جا تارہا جس میں کہا گیا ہے کہا کہ ایک نجی ٹی وی پر وزیر اعظم کے استعفے کی خبر بے بنیاد ہے‘۔حکومت کی جانب سے مقامی میڈیا پر چلنے والی اس خبر کی تردید کی گئی کہ آرمی چیف نے وزیراعظم نواز شریف کو 3 ماہ کے لیے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔بّری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماو ¿ں کو مشاورت کے لیے ایوان وزیر اعظم بلا لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم دیگر سیاسی قیادت کے ساتھ ان تجاویز پر تبادلہ خیال کریں گے جو بّری فوج کے سربراہ کی جانب سے سیاسی بحران کے حل کے لیے پیش کی گئی ہیں۔جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا کہ ’عمران خان نے وزیراعظم کے استعفے کے بجائے انتخابی دھاندلی سے متعلق عدالتی کمیشن کے فیصلے تک انتظار کرنے پر غور کرنے کا وعدہ کیا لیکن اس کے بعد ان کا پنڈی آنا جانا ہوگیا‘۔’ میں سمجھتا ہوں پنڈی جانا یا کسی کو سہولت کار بنانا بڑی بات نہیں اہم بات یہ ہے کہ مسائل کو حل کیا گیا یا نہیں‘ تاہم انھوں نے بحرا ن کے خاتمے کے لیے عدالتی پیشکش کا خیرمقدم کیا۔جمہوریت کو چلنا چاہیے ۔ آئین اور جمہوریت اور پارلیمنٹ سے ماوراءکسی چیز کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔پارلیمنٹ پر حملہ پی ٹی وی پر حملہ اور قبضہ جمہوری رویوں کی خلاف ورزی ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ اب بھی ہم کہتے ہیں کہ مذاکرات کا راستہ آزمودہ راستہ ہے۔ ’دونوں فریقین پارلیمنٹ کو ضامن بناتے ہیں توسراج الحق نے کہا کہ ان حالات میں قومی قیادت کو تماشہ کرنے کے بجائے قوم کی قیادت کرنی چاہیے اور حالات کو مثبت رخ دے۔عمران خان نے اسلام آباد پولیس کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو رہا کریں کیونکہ انھیں ناجائز طور پر حراست میں لے رکھا ہے۔انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی ہے۔ درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بول کر حلف کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابق اٹارنی جنرل نے یہ کیس مفت میں لیا ہے۔جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کا کہنا ہے کہ ملک کے قانون کو توڑنے سے وفاق کو نقصان پہنچے گا۔ ’آئین اور حکومت خود کو حالات کے دھارے پر نہ چھوڑے۔‘
متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنماو ¿ں کے ساتھ ملاقات کے بعد ان کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ ’ہم نواز شریف کی طرزِ حکمرانی سے مطمئن نہیں۔مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی کا کہنا ہے کہ ’عمران خان اور قادری سے اچھے تو صوفی محمد تھے جس نے کم از کم کبھی آپ کی ریاست کی کسی عمارت یا پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں پر قبضے نہیں کیے تھے۔ حنیف عباسی نے کہا کہ عمران خان طاہرالقادری اور شیخ رشید پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے مظاہرین کو بتایا کہ کہاں کہاں فوج اور رینجرز موجود نہیں۔ ’میں حیران ہوں کہ قبضہ چھڑوا کر ان دہشت گردوں کو آسانی کے ساتھ جانے دیا گیا۔اسلام آباد پولیس کے ترجمان محمد نعیم نے بتایا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، پاکستان عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہرالقادری اور ان جماعتوں کے دیگر رہنماو ¿ں کے خلاف ریاست کے خلاف بغاوت کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔اسلام آباد پولیس نے یہ مقدمہ سیکریٹیریٹ تھانے میں درج کیا ہے۔ پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت کے علاوہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید پر بھی بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔معروف قانونی ماہر عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ فوج کو پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں کو خود گرفتار کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے سافٹ ک ±و کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے لوگ باشعور ہو چکے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اس پورے ڈرامے کے پیچھے کون ہے۔واپسی پر بھی میریٹ ہوٹل ہی کے سامنے سے آئے۔ چیک پوسٹ پر موجود پولیس اہلکار نے کہا ’آپ کہاں تک گئے تھے اور مہربانی کر کے ہمیں بتائیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو گا۔جبکہ ایس ایس پی اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو نے اپنے بیان میں ایک بار پھر مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ پرامن رہیں اور قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور ’ریڈ لائنز‘ کی خلاف ورزی نہ کریں۔انھوں نے کہا کہ مظاہرین کے خلاف ’مہلک طاقت‘ کا استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم حکومت کی یہ پالیسی نہیں ہے۔عصمت اللہ جونیجو پر گزشتہ صبح مظاہرین کا نشانہ بنے تھے اور ان کے سر پر چوٹ آئی ہے۔اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹریفک معمول سے بہت کم ہے اور شہر میں سراسیگمی کا عالم ہے۔ دارالحکومت کے جنوبی اور شمالی علاقوں کو ملانے والی اہم سڑک سیونتھ ایونیو سے جو کل کی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے نتیجے میں ٹریفک کے لیے بند کردی گئی تھی، حکام نے مظاہرین کی طرف سے توڑے گئے سائن بورڈز کے ٹکڑے، پتھر اور اینٹیں ہٹادی ہیں اور وہاں ٹریفک رواں دواں ہے۔دارالحکومت میں موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے بند کئی نجی سکول بھی کل سے نہیں کھل سکے ہیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے موجودہ بحران کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی پیشکش پر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا کام یہ نہیں ہے۔’سپریم کورٹ کا ایشو یہ نہیں ہے اس کا کام ثالثی کرنا نہیں ہے۔ ہر جگہ پر فوج موجود ہے، جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ بعض میڈیا چینلز اور اینکرز نے شاندار کردار ادا کیا۔ ملک کی تاریخ پڑھ لیں سمجھ آجائے گی۔جسٹس(ر)ناصرہ اقبال کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ یہاں ثالثی کرنے نہیں بیٹھی ہوئی۔ اگر کسی نے کچھ کیا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے اور اب تو سب کچھ سامنے نظر آرہا ہے ۔انھوں نے کہا کہ آئین کی رو سے سپریم کو کو یہ اختیار ہے کہ انھیں کہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ غیر آئینی ہے۔ ’عدالت کے سامنے ایک مقدمہ ہے اور وہ کسی بھی وقت حکم صادر کر سکتی ہے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ ملک میں موجودہ بحران کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔سپریم کورٹ نے اس ضمن میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے وکلا سے تجاویز طلب کرلی ہیں۔عدالت نے کردار ادا کرنے کی پیشکش ممکنہ ماورائے آئین اقدام سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران دی۔ عدالت نے دونوں جماعتوں کے وکلا کو ایک گھنٹے میں تجاویز دینے کا حکم دیا ہے۔اسلام آباد میں کشیدگی کے باعث اکثر پیٹرول پمپ بند ہوگئے ہیں اور جو تھوڑے بہت کھلے ہیں ان پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں جس کے باعث عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامناہے۔اسلام آباد میں واقع سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز ہسپتال میں گزشتہ پیر کو دوسو سے زیادہ زخمی لائے گئے جو لاٹھیاں اور آنسوگیس کی شیل لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔ تاہم ان میں سے کسی زخمی کی حالت زیادہ خراب نہیں ہے اور نہ ہی زخمیوں میں کوئی پولیس اہلکارشامل ہے۔ہسپتال انتظامیہ کے مطابق گذشتہ دو دنوں میں پمز ہسپتال لائے گئے زخمیوں کی تعداد پانچ سو سے زیادہ تک پہنچ گئی تھی۔پاک سیکریٹریٹ کی عمارتوں میں سول اہلکار موجود نہیں اور عمارتوں کا کنٹرول فوج کے پاس تھا۔مظاہرین سیکریٹیریٹ کی عمارت کے قریب پانی کی پائپ لائن توڑ کر وہاں نہانے میں مشغول رہے۔عمران خان نے مظاہرین سے خطاب میں کہا کہ کوئی مک مکا یا این آرو ڈیل نہیں ہوئی اور 48 گھنٹے کی بات ہے نواز شریف کو الوداع کہیں گے۔ان کاکہنا تھا کہ میڈیا پر غلط بات پھیلائی جا رہی ہے کہ ’میں فوج کو بلا رہا ہوں۔‘تحریک انصاف کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ شب انھیں اور طاہرالقادری کو گرفتار کرنے کا پورا ارادہ تھا۔جبکہ وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اگر کسی عمارت میں فوج یا پولیس نہیں تو اسے جواز بنا کر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ پرویز رشید نے کہا کہ پی ٹی وی پر حملے کی ذمہ داری عمران خان اور طاہرالقادری پر عائد ہوتی ہے اور اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچا ہے۔عمران خان کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر ہونے والے حملے میں ملوث نہ ہونے کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان کو طاہر القادری سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی تقاریر اور بیانات واپس لینے چاہیں اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔اسلام آباد میں وزیر اعظم میاں نواز شریف اور بّری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی ملاقات ہو ئی ہے۔ریڈ زون میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور کور کمانڈر میٹنگ کے بعد ملاقات پہلی ہے۔ریڈ زون میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کی وزیر اعظم ہاو ¿س کی جانب پیش قدمی کے نتیجے میں مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔یاد رہے کہ پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں کور کمانڈرز کے اجلاس میں جمہوریت کی حمایت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔اجلاس کے بعد فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ طاقت کا استعمال مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر عدم تشدد کے ساتھ بحران کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔بیان کے مطابق اجلاس میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور اعادہ کیا گیا کہ فوج اب بھی ریاست کے تحفظ کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔اسلام آباد کے ریڈ زون میں پی ٹی وی کی عمارت پر مظاہرین کی جانب سے قبضے اور رینجرز کی جانب سے مظاہرین کو عمارت سے نکالنے کے بعد پی ٹی وی نیوز اور ورلڈ کی نشریات بحال ہو گئی ہیں۔پی ٹی وی کی عمارت کی حفاظت کے لیے فوج عمارت کے گیٹ کے اندر پہنچ گئی تھی جبکہ رینجرز کے جوان گیٹ سے باہر تعینات ہو گئے ہیں۔جن مظاہرین کو پی ٹی وی کی عمارت سے نکالا گیا ان کا کہنا ہے کہ وہ گیٹ سے باہر مظاہرین کی بڑی تعداد جمع ہے اور حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔اس سے قبل پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت میں مظاہرین کے قبضے اور اس کی ٹرانسمشن بند ہونے کے بعد رینجرز کے دستے پی ٹی وی کی عمارت پہنچے اور مظاہرین کو عمارت سے باہر نکالنا شروع کردیا تھا۔نجی ٹی وی چینلز پر چلنے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پی ٹی وی عمارت کے اندر داخل ہونے والے مظاہرین جہاں نیوز روم میں داخل ہوئے وہیں کچن میں بھی گئے جہاں انھوں نے چائے پی اور جو پڑا تھا وہ بھی کھایا۔پاکستان ٹیلی وژن چینل کے ڈائریکٹر نیوز اطہر فاروق بٹر نے صحافیوں کو بتایا کہ عمارت میں داخل ہونے والے حملہ آور تربیت یافتہ اور ایسے سازوسامان سے لیس تھے جسے انہوں نے ٹی پی وی کی نشریات بند کرنے کے لیے استعمال کیا۔’بہت واضح تھا کہ ان لوگوں کا مقصد نشریات بند کروانا تھا اور انہیں معلوم تھا کہ یہ کام کیسے ہو گا۔گزشتہ سوموار کوسپریم کورٹ کے تمام ججز اپنی عدالتوں میں پہنچ گئے تھے۔ ان جج صاحبان کو ایوان صدر کے عقبی راستے سے سپریم کورٹ کی عمارت میں پہنچایاگیا ۔پی ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز نے بتایا کہ قبضہ کرنے والے مظاہرین سب سے پہلے اس حصے میں گئے جہاں سے انگریزی زبان میں خبریں نشر ہوتی ہیں۔ ان کا پہلا ہدف انگریزی نشریات ہی تھیں، جس کے بعد انہوں نے اردو نیوز چینل کو بند کیا۔اطہر بٹر نے کہا کہ نیوز روم کے اندر داخل ہونے والے افراد نے ان کے ساتھیوں کو ڈرایا اور دباو ¿ ڈالا کہ وہ نشریات ازخود بند کر دیں۔قبل ازیںعمران خان نے تھوڑی دیر قبل خطاب کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو تلقین کی کہ وہ پاکستان ٹیلی ویژن یا کسی بھی سرکاری عمارت میں داخل نہ ہوں، اور اگر کسی عمارت میں ہیں تو وہاں سے نکل جائیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کارکنان کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج پرامن ہے، اسے پرتشدد بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔عمران خان کے خطاب کے بعد طاہرالقادری نے بھی تقریر میں کارکنان کو تاکید کی کہ کسی بھی سرکاری عمرات میں داخل نہیں ہونا۔ انھوں نے زور دیا کہ وزیر اعظم ہاو ¿س کے باہر رہنا ہے اس کے اندر داخل نہ ہوں۔مظاہرین نے پاکستان ٹیلی ویژن میں گھس کر پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات بند کروا دی تھی۔ کیبل پر پی ٹی وی نیوز چینل کی سکرین سیاہ ہو گئی تھی۔اسلام آباد ریڈ زون میں مظاہرین سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کے دفتر کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے تھے۔تاہم پی ٹی وی انتظامیہ نے مظاہرین کو نکلوانے کے لیے فوج کو طلب کر لیا تھا۔جبکہ اسلام آباد ریڈ زون میں مظاہرین نے پاک سیکریٹیریٹ کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مختصر خطاب کرتے ہوئے کارکنان کو پرامن رہنے کی ہدایت کی۔انھوں نے پرامن رہنے کی تلقین بار بار کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس والے کچھ نہیں کرتے تو ہمیں بھی کچھ نہیں کرنا چاہیے۔دوسری جانب طاہرالقادری کنٹینر سے باہر نکلے تو انھوں نے ٹوپی اتار کر ہیلمٹ پہن لی۔کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے طاہرالقادری نے بھی کارکنان سے پرامن رہنے کی تاکید کی۔اسلام آباد کے ریڈ زون میں قومی اسمبلی کے سامنے پاکستان تحریک انصاف کے قائد اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کے کنٹینر قریب قریب کھڑے ہیں۔کچھ دیر قبل عمران خان اپنے کنٹینر کے اوپر آئے اور اس کے ساتھ ہی طاہرالقادری بھی کنٹینر سے نکلے اور دونوں رہنماو ¿ں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہاتھ ہلائے۔گزشتہ پیر کی صبح مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پاک سیکریٹیریٹ کے سامنے جھڑپوں میں ایس ایس پی آپریشنز عصمت اللہ جونیجو زحمی ہو گئے ۔پولیس کے مطابق ایس ایس پی کے سر پر چوٹ آئی ہے اور ان کو پولی کلینک ہسپتال لے جایا گیا ہے۔عصمت اللہ جونیجو کی تقرری ایس ایس پی محمد علی نیکوکارہ کی جگہ ہوئی ہے جو تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف پولیس کارروائی میں آنسو گیس کے بےدریغ استعمال پر عہدہ چھوڑ کر چھٹی پر چلے گئے ہیں۔سرکاری ذرائع کے مطابق ریڈ زون میں مظاہرین کی جانب سے وزیر اعظم ہاو ¿س کی جانب پیش قدمی کو روکنے پر جھڑپوں میں اب تک مبینہ پچاس افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں پچہتر سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔اسلام آباد ریڈ زون میں مظاہرین نے پاک سیکریٹیریٹ کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے ہیں جبکہ رینجرز اور فوج کی جانب سے اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ مظاہرین آگے نہ بڑھیں۔اسلام آباد ریڈ زون میں مظاہرین کی جانب سے مائیکرو فون پر اعلان کیے جا رہے ہیں کہ مظاہرین پاک سیکریٹیریٹ تک پہنچ گئے ہیں۔اعلانات کر کے کیبنٹ ڈویژن اور پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود مظاہرین کو پاک سیکریٹیریٹ پہنچنے کا کہا جا تارہا ہے۔صبح کے وقت پولیس کی نفری کم ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مظاہرین نے ایک بار پھر وزیر اعظم ہاو ¿س کی جانب پیش قدمی کرنے کی کوشش کی ہے۔مظاہرین، جو اتوار تک پاک سیکریٹیریٹ کے سامنے لگے کنٹینروں تک محدود تھے، اب کنٹینر ہٹانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پولیس نے بھرپور شیلنگ کی اور ربڑ کی گولیاں چلائیں لیکن بارش کے باعث آنسو گیس زیادہ پراثر نہیں تھی۔جبکہ پاکستان بار کونسل نے گزشتہ پیر کو پورے ملک میں احتجاج کی کال دے دی ہے جس کے بعد ملک بھر کے وکلا عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ وکلا نمائندوں کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنے میں شریک خواتین اور بچوں پر تشدد پر احتجاج کے طور پر بار روم کی عمارتوں پر سیاہ سپرچم لہرائے جائیں گے۔اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے حکومت مخالف مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کا سلسلہ ایک نسبتاً طویل وقفے کے بعد پیر کی صبح دوبارہ شروع ہوگیا تھا۔وزیر اعظم ہاو ¿س کی جانب جانے والے راستے پر پاکستان سیکریٹیریٹ کا علاقہ جھڑپوں کا مرکز بنا رہا۔مظاہرین پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں پر پتھراو ¿ کرتے رہے ہیں اور انھیں غلیلوں سے بنٹے مارتے رہے ہیں جبکہ پولیس اہلکار جواباً وہی پتھر اٹھا کر مظاہرین کو مارتے رہے ہیں۔ہفتہ کی شب میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے والا اسلام آباد کا ریڈ زون اتوار کی شب نسبتاً خاموش رہا اور آنسو گیس کے شیل اور ربر کی گولیاں چلنے کی آوازوں کی جگہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے ترانے سنائی دیتے رہے ہیں۔اگرچہ حکومت مخالف مظاہرین اور ان کے قائدین پاک سیکریٹیریٹ کے سامنے موجود تھے اور انھیں وزیراعظم ہاو ¿س کی جانب جانے سے روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات ہے لیکن فریقین میں شروع میں کسی قسم کی جھڑپیں نہیں ہوئیں۔اسلام آباد پولیس کے نئے ایس ایس پی آپریشنز عصمت اللہ جونیجو نے کہا ہے کہ نہتے عوام پر طاقت کا بےدریغ استعمال نہیں کیا جائے گا۔اتوار کی شب میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں جن ریڈ لائنز کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی ہے ہم ان کا تحفظ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے یقینی بنائیں گے۔انھوں نے کہا کہ وہ کسی فرد کی نہیں بلکہ اس آئینی پوزیشن کا دفاع کر رہے ہیں جس کی ذمہ داری انھیں دی گئی ہے۔عصمت اللہ جونیجو نے اتوار کو صحافیوں پر تشدد کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے معذرت بھی کی۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس ایک احکامات پر عمل درآمد کرنے والا ادارہ ہے وہ کوئی پالیسی نہیں بناتی بلکہ وہ ملنے والے احکامات پر عمل کرتی ہے۔پاکستان میں جاری سیاسی بحران میں فوج نے براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اپنا وزن بظاہر حکومت مخالف جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے تاہم فریقین ابھی تک اپنے اپنے مو ¿قف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بتایا کہ وزیراعظم کے استعفے پر کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ابھی تک کسی بھی فورم یا موقع پر وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے امکان پر غور نہیں کیا اور نہ ہی اس موضوع پر کسی بھی جماعت سے مذاکرات کا ارادہ ہے۔اسلام آباد کے ایس ایس پی آپریشن محمد علی نیکوکارا دو مہینے کی چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق انھوں نے کہا تھا کہ مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کا بے دریغ استعمال نہ کیا جائے تاہم ایس پی سٹی مستنصر اور ایس ایس پی صدر سرکل کیپٹن ریٹائرڈ محمد الیاس نے ضرورت سے زیادہ آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ حکام نے کیپٹن الیاس کو چارج سنبھالنے کی پیش کش کی تھی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ بھی چھٹی پر چلے گئے تھے ان کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا انھوں نے بھی مظاہرین پر تشدد اور فائرنگ کے استعمال سے انکار کیا تھا۔عمران خان کا کہنا ہے کہ کل نوجوان تیار نہیں تھے لیکن آج تیار ہیں۔ دھرنے کے شرکا سے مختصر خطاب میں انھوں کہا کہ آج رات فیصلہ ہونے والا ہے کہ کس کا عزم زیادہ ہے۔جماعت اسلامی نے موجودہ سیاسی صورتحال پرگزشتہ سوموار کو اسلام آباد میں قومی مجلس مشاورت طلب کی تھی ہے۔سراج الحق کا کہنا تھا کہ تمام فریقین سے اب بھی درخواست کرتے ہیں کہ مذاکرات سے مسائل کا حل اور قوم کو اس بحران سے نکالیں۔ اب بھی ثالثی کے لیے تیار ہیں۔اسی روزشاہراہِ دستور سرکاری عمارات کی سکیورٹی کے لیے نئے تازہ دم پولیس کے دستے آئے۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ انھیں ابھی تک شیلنگ اور لاٹھی چارج کا حکم نہیں ملا۔پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کا دھرنا چاروں اطرف سے سیل ہے۔ نہ کوئی اندر جا سکتا ہے نہ باہر آسکتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے دھرنے میں شامل ہونے کے لیے آنے والے مزید خاندانوں کو پولیس نے ریڈ زون سے ہی واپس بھیج دیا۔ تاہم پہلے سے موجود مظاہرین نعرے بازی کرتے رہے ہیں۔عمران خان نے مظاہرین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج رات بھی تیار رہیں، اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جاوید ہاشمی سے کہا کہ ’آج سے آپ کے اور ہمارے راستے الگ ہیں۔‘عمران خان نے جاوید ہاشمی کے تحفظات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طاہرالقادری نے ہم سے رابطہ کر کے ساتھ چلنے کو کہا، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کو خدشہ تھا کہ عوامی تحریک کے کارکن مشتعل ہیں، اس لیے احتجاج پر امن نہیں ہوگا۔ اسی لیے وہ جانے پر رضا مند نہیں تھے۔عمران خان کے بقول طاہر القادری کی جانب سے پر امن رہنے کے یقین دہانی پر وہ آگے بڑھے تھے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ کسی کے اشاروں پر نہیں چل رہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم اشاروں پر چل رہے ہوتے تو 17 دن یہاں انتظار نہ کرتے، بلکہ پہلے ہی دن ہلہ بول دیتے۔ وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس منگل کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اتوار کو وزیراعظم ہاو ¿س میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر سرحدی امور عبدالقادر بلوچ نے شرکت کی۔ اجلاس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس منگل کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں وزیر داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ جانی نقصان کے بغیر ریاستی اداروں کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اجلاس میں میڈیا کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات کی مذمت کی گئی۔متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کر کے اپنے مینڈیٹ کو متنازع کر دیا ہے۔ تنظیم کی رابطہ کمیٹی اور الطاف حسین حالات کا جائزہ لے کر صلاح مشورہ کر رہے ہیں، اور وہ 24 آئندہ گھنٹوں میں اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے چار اہم ستون لز رہے ہیں، ملکی معشیت کو ایک ہزار ارب رپے سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، جس سے معاشی بریک ڈاون ہوگیا ہے، دارالاحکومت اسلام آباد مفلوج ہے جس کے اثرات پورے ملک پر ہو رہے ہیں بین الاقوامی تعلقات میں بریک ڈاو ¿ن ہے، سیاسی عمل رک ہوا ہے جو چوتھا بریک ڈاو ¿ن ہے ۔اقتدار کو بچانے کے لیے جس طرح کریک ڈاو ¿ن کیا گیا اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کرلی۔ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا موجودہ صورتحال میں کیا ہوگا؟ اٹھارہ کروڑ عوام کی ذہنوں میں یہ سوال ہے، وزیر اعظم اور حکومت پارلیمنٹ کو کہہ کے راستہ تلاش کرے اور دوسرا وزیر اعظم منتخب کرسکتی ہے تو یہ موقعہ دینا چاہیے یہ ایک جمہوری اور آئینی راستہ ہے۔اس سے قبل وزیراعظم کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد میں پرتشدد کارروائیوں میں انفرادی سطح پر لوگ ملوث ہیں، جبکہ مشاورتی اجلاس میں وزیر اعظم کو گذشتہ شب اسلام آباد میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کی رپورٹ بھی پیش کر دی گئی۔وزیراعطم ہاو ¿س نے میڈیا چینلز پر ہونے والے تشدد کی تحقیقات کا حکم بھی دیا ہے۔ لاہور کے داخلی راستوں ٹھوکر نیاز بیگ ملتان روڈ اور شاہدرہ چوک پر تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے دھرنا دے رکھا ہے۔ان دونوں مقامات پر دوپہر سے ہی ٹریفک جزوی طور پر مسدود ہے اور عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ملتان روڈ ٹھوکر نیاز بیگ پر بار بار ٹائر جلائے جارہے ہیں اور یہاں مظاہرین میں وحدت المسلمین کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ڈیفنس لالک چوک فیروز پور روڈ اور جی ٹی روڈ سمیت شہر کے مختلف حصوں میں چھوٹے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔اتوار کو آئی ایس پر آر کی جانب سے پہلے بیان جاری ہوا تھا کہ کور کمانڈز کا اجلاس پیر کو منعقد ہونا ہے تاہم اس کے کچھ دیر بعد ہی آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک اور بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ اجلاس اب پیر کی بجائے اتوار کی شام کو فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں منعقد ہو گا۔اسلام آباد کے ریڈ زون کی سکیورٹی اس وقت فوج کے پاس ہے اور شاہراہ دستور پر تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کا پولیس سے تصادم گذشتہ رات سے جاری ہے۔ اس سے پہلے جمعرات کو رات گئے جنرل راحیل شریف نے عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے رہنما عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات سے پہلے جمعرات کو ہی جنرل راحیل کی ملاقات وزیراعطم نواز شریف سے ہوئی تھی۔طاہر القادری نے فوج کے سربراہ سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ حکومت نے سیاسی معاملات میں جنرل راحیل کو ’ثالث اور ضامن‘ بنا دیا ہے جبکہ اس سے اگلے روز وزیراعظم نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری نے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس بیان کے چند گھنٹوں بعد فوج کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کو ’سہولت کار‘ کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جاوید ہاشمی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان نے پارٹی رہنماو ¿ں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ پریڈ گراو ¿نڈ سے وزیر اعظم ہاو ¿س کی جانب پیش قدمی نہیں کریں گے۔ اسی فیصلے کی توثیق شاہ محمود قریشی سمیت تحریکِ انصاف کے دوسرے رہنماو ¿ں کی تھی لیکن کچھ دیر بعد شیخ رشید اور شاہد سیف اللہ آئے اور عمران سے بات کی۔ عمران نے کہا کہ وزیر اعظم ہاو ¿س کی جانب جائیں گے کیونکہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ جب تک عمران پیش قدمی کا اعلان نہیں کریں گے وہ بھی نہیں کریں گے۔’میں نے دوبارہ کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طاہرالقادری کیا کہتے ہیں۔ اپنے ان کارکنوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ اس پر عمران نے کہا کہ آپ نے جانا ہے تو چلے جائیں۔جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں نے بغاوت نہیں کی میں اب بھی تحریکِ انصاف کا منتخب صدر ہوں۔ اگر عمران خان واپس پریڈ گراو ¿نڈ میں آ جاو ¿ں تو میں بھی واپس آ جاو ¿ں گا: ’میں نے سات سال جن جمہوری اداروں کے تحفظ کے لیے جیل کاٹی، اب ان پر حملہ نہیں کر سکتا۔تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ انھوں نے اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کل رات مل کر فیصلہ کیا تھا کہ دھرنے کو ڈی چوک سے ہٹا کر وزیرِ اعظم کے سامنے منتقل کر دیا جائے۔انھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم ہاو ¿س کے سامنے دھرنا دینا ہمارا جمہوری حق ہے، اور برطانیہ میں 10 ڈاو ¿ننگ سٹریٹ اور امریکہ میں وائٹ ہاو ¿س کے سامنے بھی پرامن احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔انھوں نے تمام ملک سے اور خاص طور پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے عوام سے اپیل کی کہ وہ ’تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے ریڈ زون پہنچیں، کیوں کہ یہاں پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ہو گا، میں نے وعدہ کیا تھا کہ آزادی یا موت، میں آخری دم تک یہیں ہوں۔عمران خان نے کہا: ’کل رات ہم لوگ تیار نہیں تھے، لیکن آج تیار ہیں، کیا کرے گی حکومت، گولی چلائے گی؟ ہم گولی کے لیے تیار ہیں۔انھوں نے مزید کہا: ’کل حکومت کیسے چلے گی؟ پارلیمنٹ اور سیکریٹیریٹ کیسے کام کریں گے؟۔انھوں نے کہا کہ پولیس نے آنسو گیس کی اندھادھند شیلنگ کر کے کیمیائی ہتھیاروں کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کے سامنے آج صبح دو نوجوان مارے گئے ہیں۔اپنے احتجاجی کنٹینر پر سے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار پر قتل کا مقدمہ چلایا جائے گا، اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے گا تاکہ وہ ملک سے فرار نہ ہو سکیں۔اسلام آباد میں سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز کے میڈیا رابطہ کار ڈاکٹر خواجہ کا کہنا ہے کہ ریڈ زون میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم میں زخمی ہونے والا ایک اور شخص چل بسا ہے۔اس ہلاکت کے بعد ریڈ زون جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی ک ±ل تعداد تین ہو گئی تھی اور زخمیوں کی ک ±ل تعداد 475 تھی۔ریڈ زون میں مظاہرین نے کابینہ ڈویژن کے سامنے کھڑے کیے کنٹینر کو آگ لگا دی۔ تاہم پولیس اہلکاروں نے آگ بجھا دی۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کو وہی ختم کر سکتے ہیں جنھوں نے اس کا آغاز کیا تھا۔صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پنجاب اسمبلی، وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ، وزیر اعلیٰ ہاو ¿س، سول سیکریٹریٹ سمیت اہم سرکاری عمارتوں کو کنٹینر لگا کر سیل کر دیا گیا ہے۔ ان عمارتوں کے اردگرد پولیس کے مسلح دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔تحریک انصاف کے ضلعی صدر عبدالعلیم خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کی دوپہر پورے شہر میں دھرنے ہوں گے اور شہر سیل کر دیا جائے گا۔مال روڈ پر نوے شاہراہ اور گورنر ہاو ¿س جانے والے راستے جزوی طور بند کر دیے گئے ہیں۔جاتی عمرہ رائے ونڈ روڈ پر وزیر اعظم ہاو ¿س کے گھیراو ¿ کی اطلاع پر پولیس کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔شہر کے اہم چوراہوں اور بازاروں میں بھی پولیس تعینات کی جا رہی ہے اور کنٹینر پکڑ پکڑ کر مختلف مقامات پر پہنچائے جا رہے ہیں۔شہر کے تمام داخلی راستوں پر پولیس ناکے لگائے گئے ہیں اور لوگوں کو تلاشی لے کر جانے دیا جا رہا ہے۔اسلام آباد کے ریڈ زون میں پاکستان عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔اسلام آباد میں سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز کی ترجمان ڈاکٹر عائشہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریڈ زون میں جاری مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں اب تک دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص ریڈ زون ہی میں گڑھے میں گر کر پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ ایک زخمی شخص پمز ہسپتال میں چل بسا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ گولی لگنے کے کتنے کیسزہسپتال آئے ہیں، تو ان کا کہنا تھا: ’ہم گولی کا لفظ استعمال نہیں کریں گے لیکن جو زخمی شخص چل بسا ہے اس کو تیز دھار آلے سے چوٹ آئی تھی۔اس کے بعد پمز کے ڈاکٹر خواجہ نے بتایا کہ ایک اور زخمی شخص چل بسا ہے۔ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ زیادہ تر مریض آنسو گیس کے اثرات کے آئے ہیں، جب کہ کچھ لوگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں پاکستان عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان 12 گھنٹے سے زیادہ وقت سے جاری جھڑپوں میں 400 مظاہرین اور 75 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔مظاہرین دو دھڑوں میں بٹ گئے ۔ ایک گروپ پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود ہے جبکہ دوسرا عمران خان کے کنٹینر کے ساتھ ہے جو کیبنٹ ڈویژن کے سامنے ہے۔پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود مظاہرین نے خیمے ڈال لیے ہیں۔دوسری جانب عمران خان نے تھوڑی دیر قبل اعلان کیا کہ کارکن کنٹینر کے قریب انتظار کریں تاکہ مزید لوگ بھی آجائیں کیونکہ آگے پولیس کی بھاری نفری موجود ہے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کا کہنا ہے کہ صحافیوں پر پولیس دونوں کی جانب تشدد جاری ہے۔ ایک طرف پولیس نے نشانہ بنایا اب تک دوکیمرا مین اور چار رپورٹر زخمی ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا: ’پہلے تو ہماری اپنے ساتھیوں سے گزارش ہے کہ آپ خبر کی تلاش میں خبر مت بنیں۔ دوسرا ہماری چینل مالکان سے گزارش ہے کہ خدا کے واسطے حقائق پرمبنی رپورٹنگ کریں۔ اپنے ایجنڈے سیٹ نہ کریں۔ آپ کے ایجنڈوں کی وجہ سے میڈیا ورکر مارا جا رہا ہے۔دونوں جماعتوں اور حکومت کے خلاف ہمارا احتجاج ہوگا کہ سارا غصہ میڈیا پر مت نکالیں۔ اگر صورت حال یونہی رہی تو شام کو ہم اسلام آباد پریس کلب میں احتجاج کریں گے اور ملک بھر میں احتجاج کی کال دیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ پارٹی کی مذاکراتی ٹیم سے مشاورتی اجلاس جاری ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جارہا ہے کہ آیا اسلام آباد واقعے کا کیا قانونی ایکشن لیا جائے اور ایف آئی آر کس کے خلاف درج کرائی جائے ۔ اسکے علاوہ مذاکرات کرنے ہیں یا نہیں اِس پہ بھی مشاورت جاری ہے ۔اسلام آباد کے ریڈ زون میں پاکستان عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں آٹھ گھنٹے کا وقت گزر جانے کے بعد بھی وقفے وقفے سے جاری ہیں۔اب ان جھڑپوں کا مرکز پاک سیکریٹریٹ کا علاقہ بنا ہوا ہے اور پولیس کی بھاری نفری مظاہرین کو وزیرِ اعظم ہاو ¿س کی جانب جانے سے روکنے کے لیے تعینات ہے۔مظاہرین پولیس پر پتھراو ¿ کے علاوہ غلیلوں سے بنٹے مار رہے ہیں جبکہ پولیس جواباً شیلنگ کر رہی ہے جس کی شدت جائے وقوع سے کئی کلومیٹر دور تک محسوس کی جا سکتی ہے۔اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو کسی صورت وزیرِ اعظم ہاو ¿س کی جانب جانے نہیں دیا جائے گا۔رات کو پارلیمان کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد اس کے سبزہ زار میں بیٹھ جانے والے مظاہرین فوج کی جانب سے علاقہ خالی کرنے کے اعلانات کے بعد اب آہستہ آہستہ واپس باہر نکل رہے ہیں۔عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اور پاکستان تحریکِ انصاف مل کر ملک کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے خلاف ’دہشت گردی اور اقدامِ قتل‘ کے مقدمات درج کروائیں گے۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ اب حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔اب بات ختم ہوچکی ہے۔انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے ’اپنا دھرنا منتقل کیا ہے‘ اور وہ اب صرف اب وزیراعظم ہاو ¿س کے سامنے جا کر دھرنا دیں گے۔آئی جی اسلام آباد پولیس خالد خٹک کا کہنا ہے کہ اب تک 100 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔پارلیمنٹ ہاو ¿س کے احاطے کے اندر اب بھی مظاہرین موجود ہیں اور فوج کے اہلکار میگا فونز کی مدد سے انھیں پرامن رہنے اور جگہ خالی کرنے کے لیے کہتے رہے ہیں۔پولیس کی شیلنگ کے نتیجے میں پارلیمان سے احاطے سے باہر نکل جانے والے احتجاجی کارکن شیلنگ رکتے ہی ایک مرتبہ پھر عمارت کے سبزہ زار میں پہنچ گئے ۔عوامی تحریک کے کارکنوں نے ایک بار پھر وزیر اعظم ہاو ¿س کی جانب پیش قدمی بھی شروع کی اور طاہر القادری بھی اپنی بلٹ پروف گاڑی میں ان کی گاڑی کے گرد کارکنوں نے حفاظتی حصار قائم کیا ہوا تھا۔پولیس نے شیلنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے اور اسلام آباد پولیس کے قائم مقام آئی جی پولیس نے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صبح تک ضلعی انتظامیہ پارلیمنٹ ہاو ¿س کے احاطے میں موجود مظاہرین کو وہاں سے نکال دے گی۔ان کے مطابق گرفتار کیے گئے مظاہرین کے قبضے سے ’بڑی بڑی ہتھوڑیاں، کلہاڑیاں اور کٹرز برآمد ہوئے ہیں۔پولیس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے کیبنٹ ڈویڑن کے بیرونی جنگلے توڑ دیے اور عمران خان کا کنٹینرکیبنٹ ڈویڑن کی عمارت کے احاطے میں پہنچ گیا تاہم عمران خان کنٹینر سے باہر نہیں نکلے ہیں۔معروف وکیل اور حقوقِ انسانی کی کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ ’جن قوتوں کو یہ آواز دینا چاہ رہے ہیں وہ اس ملک کا بیڑا غرق کریں گی۔ یہ کرکٹ کھیلتے تھے تو اِن کی عزت تھی اب تو یہ لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ ’یہ پاکستان کی تاریخ میں تیسرا سیاہ ترین دن ہے۔ ان لوگوں نے ایندھن کے طور پر استعمال کیا ہے اپنے کارکنوں کو۔ میں نواز شریف کا سخت ناقد ہوں خود مگر آپ کنپٹی پر بندوق رکھ کے استعفیٰ مانگ نہیں سکتے۔ وزیراعظم کو چاہیے ڈٹ جانا چاہیے۔ایم کیو ایم نے اسلام آباد میں مظاہرین کے خلاف کارروائی پر اتوار کو ملک گیر یومِ سوگ کا اعلان کیا ۔ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ ’ہم نہیں چاہتے تھے کہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو۔ اب ہم مجبور ہیں کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے ریڈ زون کے دورے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ لوگ سرکاری عمارات پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے بھی آئین اور ملک کی حفاظت کا حلف لے رکھا ہے۔عمران خان نے کہا کہ ’یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اب عوام کی اصل طاقت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔‘ اسی دوران وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ فوج کے 245 تحت اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو فوج کو کارروائی کی ہدایت کی جا سکتی ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ ’تشدد کے ماحول میں ممکن نہیں کہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکے۔ ہمارے سر پر بندوق رکھ کر مذاکرات کرنا ممکن نہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے سٹیج سے اعلان کیا کہ ’فوج نے کہہ دیا ہے کہ وہ کچھ نہیں کریں گے‘۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے اپنے کارکنوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ عمران خان نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ عوامی تحریک کے پیچھے وزیراعظم ہاو ¿س کی جانب مارچ کریں گے۔ عوامی تحریک کے کارکنوں بہت آرام سے وزیراعظم ہاو ¿س کی جانب پیش قدمی کرتے رہے ہیں اور انھیں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔ عمران خان نے مظاہرین کو نہ روکنے پر پولیس اہلکاروں کا شکریہ ادا کیا۔آزادری اور انقلاب مارچ کا وزیرِ اعظم ہاو ¿س کی جانب پیش قدمی جاری ہے۔ اسی اثناءمیں وزیرِ اعظم کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے استعفے یا رخصت پہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔عوامی تحریک کے کارکنوں کے پاس ایک کرین موجود تھی اور اس کی مدد سے وزیراعظم ہاو ¿س کی جانب جانے والے راستے میں آنے واکے کنٹینرز کو ہٹایا جاتا رہا ۔ یہ وہی کرین ہے جس کی مدد سے عوامی تحریک کے کارکنوں نے آبپارہ چوک سے شاہراہ دستور کی جانب مارچ کے وقت استعمال کیا تھا۔ اب بھی تقریباً وہ ہی مناظر تھے جس میں کارکن آرام سے کنٹینر ہٹا تے رہے ہیں اور پولیس اہلکار ایک جانب کھڑے رہے ہیں اور اجتجاجی کارکنوں کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی۔پاکستان تحریکِ انصاف نے سربراہ عمران خان نے بھی آزادی مارچ کے شرکا کو وزیرِ اعظم ہاو ¿س کی جانب منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ابھی صرف میں اور نوجوان جائیں گے جبکہ خواتین اور بچے پیچھے ہی رہیں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم ہاو ¿س کے سامنے دھرنا دینا ان کا جمہوری حق ہے اور جس طرح ریڈ زون میں آئے تھے اسی طرح پر امن طریقے سے وزیرِ اعظم ہاو ¿س جائیں گے۔عمران خان نے فوج اور پولیس کو بھی پرامن رہنے اور مارچ کے شرکا کے خلاف تشدد کا استعمال نہ کرنے کی اپیل کی۔جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر پاکستان تحریکِ انصاف سے اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔ اور اگر ’اس کمیشن کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ انتخابات میں کسی قسم کی بھی دھاندلی ہوئی ہے تو وزیرِ اعظم استعفیٰ دے دیں گے۔ حکومت ختم کر دی جائے گی اور نئے انتخابات ہوں گے۔‘ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ابھی وزیرِ اعظم مستعفی نہیں ہوں گے۔اس موقع پر پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود نے کہا کہ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہراتے رہیں گے کیونکہ نواز شریف کی موجودگی میں شفاف تحقیقات ممکن نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تمام معاملات سنجیدگی سی حل کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سٹیج پر آکر آزادی مارچ کے شرکا سے ایک مختصر خطاب میں کہ اب آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے۔ اپنے قائدین کے ہمراہ کنٹینر پر آکر انھوں نے کہا کہ پہلے خواتین نہیں بلکہ مرد کارکن آگے بڑھیں گے۔ اس سے قبل ہفتہ کو تحریک انصاف اور حکومتی وفود میں مذاکرات ہوئے تھے تاہم ان مذاکرات کے بعد فریقین نے میڈیا سے بات کرنے سے گریز کیا گیا۔گزشتہ ہفتہ کو پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور ختم ہو گیا تھا۔تاہم مذاکرات کے بعد حکومت وفد یا تحریک انصاف کے وفد کے کسی رہنما نے میڈیا سے بات نہیں کی۔ اس سے پہلے جمعے کو ہونے والے مذاکرات بھی بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم جمعرات کو رات گئے عمران خان کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف نے جمعے کو مذاکرات دوبارہ شروع کیے تھے۔ حکومت کے مطابق تحریک انصاف کے انتخابی اصلاحات سمیت 5 مطالبے مان لیے گئے لیکن وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا جبکہ تحریک انصاف کے مطابق اس مطالبے پر کوئی لچک نہیں دکھائی جا سکتی ہے۔عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری شاہراہ دستور پر احتجاجی دھرنے سے خطاب میں کہا کہ آج اپنے خطاب کے آخر میں وہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ قادری کا اعلان جمعے کو ہونا تھا تاہم انھوں نے معاملات کو حل کرنے میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل کی ثالث اور ضامن بننے کا اعلان کرتے ہوئے اس لائحہ عمل کو موخر کر دیا تھا اور فوج کے سربراہ سے ملاقات کرنے چلے گئے تھے۔ اس کے بعد گذشتہ روز جمعہ کو بھی ان کا اہم اعلان متوقع تھا تاہم انھوں نے آخری موقع پر تحریک انصاف کے وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر 24 گھنٹوں کے لیے مو ¿خر کرنے کا اعلان کیا تھا۔قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے سٹاف سے کہا ہے کہ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کے بیان کے من و عن الفاظ ان تک پہنچائے جائیں کیونکہ آج کل ایک ایک لفظ کی بہت اہمیت ہے اور وہ کسی قسم کا ردِ عمل ان کے الفاظ جاننے کے بعد دیں گے۔ میڈیا سے بات کرتے انھوں نہ کہا کہ جمہوریت کی بقا کے لیے کسی بھی قسم کی مفاہمت پارلیمنٹ کے ذریعے ہونی چاہیے۔جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی گلزار خان کا کہنا ہے کہ وہ استعفٰی دینے کو تیار نہیں ہیں اور اگر جماعت ان کی رکنیت ختم کر دیتی ہے تو وہ اسمبلی میں آزاد رکن کی حیثیت سے بیٹھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز عمران خان نے کہا تھا کہ تحریکِ انصاف کے جو ارکانِ اسمبلی استعفیٰ نہیں دیں گے تو انھیں جماعت سے نکال دیا جائے گا۔ گلزار خان کا کہنا تھا کہ ان کا موقف ہے کہ انھوں نے پارٹی کی رکنیت سے استعفٰی نہیں دیا نہ ہی کوئی فارورڈ بلاک بنا ہے تاہم ان کا مطالبہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی پارٹی کے تمام ارکانِ اسمبلی استعفی دیں۔ اگر جماعت تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفی دے تو وہ بھی مستعفی ہونے کو تیار ہیں۔حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے تھے۔ تحریکِ انصاف کی جانب سے مذاکرات میں شاہ محمود قریشی ، پرویز خٹک، اسد عمر اور عارف علوی شامل ہیں۔ جبکہ حکومتی ٹیم میں اسحاق ڈار، احسن اقبال، عبدالقادر بلوچ اور پرویز رشید سامل ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کال پر انتحابات میں مبینہ دھاندلی اور وزیراعظم نواز شریف کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر لاہور، کراچی، فیصل آباد اور ملتان میں احتجاجی دھرنے دیے گئے۔ عمران خان نے ایک بار پھر اپنے دیرینہ مطالبے کو دوہراتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات ممکن نہیں ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے پوری پارلیمنٹ کے سامنے جھوٹ بولا۔ کیا ایسے وزیرِ اعظم کے عمل سے جمہوریت خطرے میں نہیں ہے؟ دوسری جانب وزیر اعلی پنجاب نے ایف آئی آر تبدیل کرنے کی کوشش کی۔پانی وبجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا ہے کہ حکومت نے دھرنے دینے والوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن عمران خان اور طاہر القادری اسلام آباد میں خون خرابہ چاہتے ہیں ۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا ایجنڈا انتخابی اصلاحات نہیں بلکہ ملک میں انتشار پھیلانا ہے۔’مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دھرنے دینے والوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ اپنے غیر آئینی مطالبات پر اڑے ہوئے ہیں جنہیں کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ’یہ ایک ہیجانی کیفیت ہے جو چند دن میں ختم ہو جائے گی۔ پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ ایک حکومت جس کو ڈیڑھ کروڑ عوام نے ووٹ دیا ہے ساتھ ہی ساتھ جس کی حمایت دیگر سیاسی جماعتیں ہیں ان کے ووٹ کو ملایا جائے جن سب نے پارلیمنٹ میں ریزولوشن پاس کی ہے۔’جو ماننے والے مطالبے تھے وہ ہم نے مانے ہیں وہ ہمارے منشور کا بھی حصہ تھے تو ہم نے کہا ضرور۔ چند ہزار لوگوں کو پارلیمنٹ کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔اے پی ایس