دولت اسلامیہ کی تباہی کیلئے عالمی اتحاد۔چودھری احسن پر یمی



 امریکہ کے صدر براک اوباما اس بارے میں واضح ہیں کہ دولت اسلامیہ نہ صرف امریکہ کے مشرقِ وسطی میں مفادات اور اس کے دوست ممالک کے لیے بلکہ ممکنہ طور پر امریکی سرزمین کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔صدر اوباما نے اس عزم کا ظاہر بھی کیا ہے کہ امریکہ دولتِ اسلامیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک وسیع اتحاد کی قیادت کرے گا۔ بہت سارے ممالک پہلے ہی دولتِ اسلامیہ کے خلاف کوششوں میں شامل ہو گئے ہیں۔مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کے خطرے کی وجہ سے خطے میں دیرینہ حریف ممالک یعنی شیعہ اکثریتی ایران اور سنی اکثریتی سعودی عرب کے درمیان طویل اختلافات کم ہونا شروع ہوئے ہیں اور دونوں ممالک شدت پسند تنظیم کے خلاف کارروائیوں میں عراق کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔امریکی صدر براک اوباما پر لیبیا کی جنگ کے دوران امریکی ذمہ داریوں کو نہ نبھانے اور پیچھے رہنے پر تنقید کی گئی تھی۔ صدر اوباما نے گزشتہ دنوں اپنی تقریر میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی میں قیادت کی پیشکش کی ہے۔اس پیشکش کو مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں اچھے تناظر میں لیا جاتا ہے یا کہ نہیں تاہم جہاں اوباما انتطامیہ اور کانگریس کی جانب سے شام میں کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا تھا۔امریکی صدر کی چار نکاتی پالیسی میں فضائی حملے، زمین پر دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں میں مصروف فورسز کی تکنیکی اور سامان فراہم کی مدد، انسداد دہشت گردی کی سرگرمیاں اور انسانی امداد فراہم کرنے کی پالیسی شامل ہیں۔دولت اسلامیہ نے چند ماہ پہلے شام کے بعد عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں 29 اگست کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ایک تجزیے میں اس کا ذکر پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے کسی حد تک دولتِ اسلامیہ کی پیش قدمی کو روک دیا گیا اور اب صدر اوباما نے اس پالیسی کو دولتِ اسلامیہ کو پیچھے دھکیلنے کے طور پر اپنایا ہے۔یہ سیاسی اور عملی طور پر قابل عمل پالیسی ہے اور اس کو اندرونِ ملک اور بیرونی ممالک سے وسیع حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔یہ ایسی پالیسی ہے جو آگے تک جا سکتی ہے اور اس میں ہر چیز کا انحصار قائم کیے جانے والے اتحاد کے موثر اور دیرپا ہونے پر ہوگا۔کیا ترکی رضاکارانہ طور پر دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے والے شدت پسندوں کو شام میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے گا۔اور اس سے بڑھ کر کیا تمام اہم فریقین کے درمیان اختلافات دولتِ اسلامیہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے کم ہو سکیں گے اور کیا اس وقت تک قائم رہ سکیں گے جب تک اس حکمت عملی کے نتائج سامنے آ سکیں۔عراقی سکیورٹی فورسز دولتِ اسلامیہ کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہیں۔اور کیا محض چند فضائی حملوں کے بعد حالات معمول پر آ جائیں گے اور خطے میں پرانے اختلافات پر دشمنیاں دوبارہ شروع ہو جائیں گی۔مثال کے طور پر امریکہ اور ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات میں تعلقات خراب ہوتے ہیں تو اس صورت میں ایران اور امریکہ کا معروضی اتحاد بھی متاثر ہو گا۔کیونکہ نہیں، اس نئی حکمت عملی کا ایک بڑا امتحان عراق اور شام میں ہو گا۔عراق کی نئی حکومت نے امریکی کارروائیوں کو تیز کرنے کا راستہ اختیار کیا، اگرچہ اس میں عسکری اور سیاسی طور پر چلینج برقرار رہیں گے۔ملک میں سیاسی اصلاحات ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے اور حکومت سازی کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے۔ اس میں ابھی ایسے تمام اقدامات کرنے ہیں جس میں ملک کی سنی آبادی کو اس بات پر قائل کیا جا سکے گا کہ ان کا مستقبل عراق کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔عراق میں امریکہ سے تربیت یافتہ فوج دولت اسلامیہ کی پیش قدمی کا سامنا کرنے میں ناکام رہی۔ امریکی صدر اوباما نے عراقی فوج کی ازسرنو تربیت کا اعلان بھی کیا ہے۔ تربیت فراہم کرنے کے لیے امریکہ کے اضافی 475 اہلکاروں اور مشیروں کو عراق بھیجا گیا ہے لیکن ایک منصفانہ حکومت کے قیام اور موثر فوج کو تیار کرنے میں وقت درکار ہو گا۔جبکہ شام کے بارے میں صدر اوباما کی پالیسی کو ایک بڑے امتحان کا سامنا ہو گا۔امریکی صدر کی جانب سے دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی کارروائیوں کے دائرہ کار کو شام تک وسعت دینے کی پالیسی میں صدر اوباما کا لچک دکھانا ناگزیر ہے کیونکہ یہ سمجھ سے بالاتر ہو گا کہ دولت، اسلامیہ کو شام میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہوں۔اس حکمت علمی میں عسکری خطرات بھی ہوں گے۔ اس میں شام اپنے فضائی دفاع کے نظام کو کس جگہ پر تعینات کرتا ہے، امریکہ کو تکنیکی اعتبار سے حاصل برتری، اور یہ حقیقت کہ شامی حکومت کو بھی دولت اسلامیہ سے خطرہ لاحق ہے اور اس صورتحال میں امریکی جنگی جہازوں اور بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کو ہو سکتا ہے کہ کم خطرات لاحق ہوں۔دولتِ اسلامیہ نے شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور شامی حکومت فورسز کو مغرب کی حمایت حاصل تھی۔کیوں نہیں، امریکی جنگی جہاز شامی صدر کے دشمنوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور امریکی منصوبہ صدر بشارالاسد کے اقتدار کو دوام بخشنے میں مددگار ثابت ہو گا۔یہاں امریکہ شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی تنظیم فری سیرئین آرمی کو مسلح اور تربیت فراہم کر رہا ہے لیکن شاید یہ وہ گاڑی ہو سکتی ہے جو پہلے ہی روانہ ہو چکی ہے، ابھی تک کسی طرح سے واضح نہیں ہو سکا کہ یہ تنظیم کسی طرح سے دوبارہ ایک قابل اعتبار جنگی طاقت بن سکے گی اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو اس میں کافی وقت درکار ہو گا۔یہ فرض کرنا کہ شامی صدر بشارالاسد کے اقتدار سے الگ ہونے کی صورت میں شام ایک پرامن ملک ہو گا اور یہاں دولت اسلامیہ کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل نہیں ہوں گی۔ بہت سارے تجزیوں میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شامی صدر کا اقتدار ختم ہونے کے بعد شام میں مزید افراتفری ہو گی جس میں شام کے اقلیتی فرقے علوی کا قتل عام کرنے کا امکان اور مختلف گروہوں میں اقتدار حاصل کرنے کی کشمکش شامل ہے۔امریکہ نے عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی کارروائی پہلے ہی شروع کر رکھی ہےایک واضح حکومت عملی کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ شام کی صورتحال کا انجام کیا ہو گا۔ درحقیت یہاں وسیع سٹریٹیجک مسائل دریپش ہیں جو خطے کے مسائل کی جڑ کی طرف جاتے ہیں۔خطے میں دولت اسلامیہ کا وجود میں آنا اور اس کے بعد شام، عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لینا ’خود ساختہ‘ عرب سپرنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے ہوا ہے۔ جس میں مصر میں اقتدار پر فوج کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا اور عرب دنیا میں جمہوریت اور پہلے سے زیادہ کھلے معاشرے کی خواہش پر دھیان نہ دینا شامل ہے۔اس تناظر میں دولتِ اسلامیہ کا وجود میں آنا، خطے میں پائی جانے والی بے چینی اور اس کے نتیجے میں ممالک کو درپیش خطرات، خطے کے ممالک میں سے کئی کا جمہوری طرزِ حکومت سے بہت دور ہونا ہی وہ تناظر ہے جس میں اس شدت پسند گروہ کے خلاف کاررائی کا سوچا جا رہا ہے۔یعنی یہ وہ اتحاد ہے جس کے ساتھ صدر اوباما نے کام کرنا ہو گا کیونکہ آفت کے وقت ساتھی بنانے سے پہلا دیکھا نہیں جاتا۔جبکہ روس نے خبردار کیا ہے کہ شام میں جنگجوو ¿ں کے خلاف کسی قسم کی امریکی فوجی کارروائی بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہو گی۔انٹر فیکس نیوز ایجنسی کے مطابق روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کیے بغیر کسی قسم کی کارروائی کھلی جارحیت ہو گی۔روس کی جانب سے یہ موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی میں عرب ممالک کی حمایت کے حصول اور دولت اسلامیہ کے خلاف اتحاد بنا نے کے لیے سعودی عرب پہنچے ہیں۔امریکی حکام کے مطابق جان کیری جدہ میں عرب رہنماو ¿ں سے ملاقاتوں میں دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی کارروائی میں تعاون حاصل کرنے کے لیے بات چیت کی ہے۔قبل ازیں امریکی صدر براک اوباما نے سنّی شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف حکمتِ عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ عراق کے ساتھ ساتھ شام میں بھی دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی سے نہیں ہچکچائے گا۔نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر القاعدہ کے دہشت گرد حملوں کے 13 برس مکمل ہونے پر امریکی قوم سے خطاب میں براک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ کو دھمکی دینے والے کسی بھی گروپ کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
امریکی صدر کے بقول دولت اسلامیہ کو پسپا کرنے کے لیے امریکہ ایک وسیع البنیاد اتحاد کی سربراہی کرے گا۔کیری سعودی عرب اور تیل کے ذخائر سے مالامال دیگر عرب ممالک سمیت مصر، اردن، عراق، لبنان اور ترکی کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ جان کیری کے دورے کا مقصد دولت اسلامیہ کے خلاف اتحاد وسیع کرنے اور شدت پسند تنظیم کے خلاف کاروائیاں موثر اور تیز کرنا ہے۔رپورٹ کے مطابق جان کیری عرب رہنماو ¿ں کے ساتھ ملاقاتوں میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف برسرِپیکار باغیوں کو سعودی عرب میں تربیت دینے اور دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی کارروائیوں کے لیے خلیجی ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنے کے امور پر اہم بات چیت کی ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے عراق میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ دنیا دولتِ اسلامیہ کی ’برائی‘ کو پھیلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔جان کیری نے مشرق وسطیٰ کے دورے میں کہا کہ دولتِ اسلامیہ عراقی عوام کو درپیش اب سب سے بڑا خطرہ ہے۔انھوں نے کہا دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے ایک عالمی منصوبہ بنایا جا ئے گا تاہم اس لڑائی میں عراق کی نئی حکومت کا کردار ایک انجن کا سا ہوگا۔دولتِ اسلامیہ نے شمالی عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے انھیں بعض سنّیوں کی حمایت حاصل ہے۔اسی اثنا میں مشرقی بغداد میں سلسلہ وار کار بم دھماکوں میں کم سے کم 13 لوگ ہلاک ہو گئے۔ یہ دھماکے ایک منٹ کے وقفے سے ہوئے جن میں 20 افراد زخمی بھی ہوئے۔امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے مشرقِ وسطی کا دورے کا آغاز عراق کے غیر اعلانیہ دورے سے کیا۔ اس دورے کا مقصد دولتِ اسلامیہ کے خلاف فوجی، سیاسی اور اقتصادی تعاون بڑھانا ہے۔امریکی وزیرِخارجہ نئے عراقی وزیرِ اعظم کی اصلاحات سے پر امید ہیںانھوں نے عراق کے نئے وزیر اعظم حیدر العبادی سے ملاقات کی جنھوں نے دولتِ اسلامیہ کے ’کینسر‘ کو شکست دینے کے لیے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی تھی۔جان کیری کے ملاقات کے بعد العبادی نے کہا: ’یقیناً ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک کا دفاع کریں لیکن بین الاقوامی برادری بھی عراق کی تحفظ کے لیے ذمہ دار ہے۔نئے شیعہ وزیر اعطم نے سنّیوں کے اختیارت میں اضافے اور وفاقی حکومت کی ک ±رد اقلیت سے تعلقات میں بہتری لانے کا وعدہ کیا ہے۔جان کیری نے کہا ’ ایک نئی ہمہ گیر حکومت کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف عالمی لڑائی کا انجن بننا ہو گا۔عراق کے سابق شیعہ وزیرِ اعظم نوری المالکی پر الزام ہے کہ انھوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھایا اور سنیوں کو اقتدار سے الگ کر دیا اور کرد اقلیت کے مطالبات بھی پورے نہیں کر سکے۔دولتِ اسلامیہ اس وقت شام اور عراق میں ایک بڑے علاقے پر قابض ہے اور اس کے ارکان نے حال ہی میں دو امریکی صحافیوں کو گلے کاٹ کر ہلاک کیا ہے۔امریکہ نے اب تک اس شدت پسند گروہ کے خلاف عراق میں ڈیڑھ سو سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں اور اس کے علاوہ وہ عراقی اور کرد افواج کو اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے۔صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ’عراقی حکومت کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم اپنی کوششوں کو صرف اپنے عوام اور امدادی قافلوں کے تحفظ سے آگے لے جائیں گے تاکہ ہم دولتِ اسلامیہ فی عراق و شام (دولتِ اسلامیہ کا سابقہ نام) پر اس وقت ضرب لگائیں جب عراقی فوج بھی ان پر حملے کر رہی ہو۔براک اوباما عراقی فوج کے لیے پہلے ہی ڈھائی کروڑ ڈالر کی امداد کی منظوری دے چکے ہیں۔انھوں نے دولتِ اسلامیہ کو ایک ’کینسر‘ قرار دیا اور کہا کہ اسے تباہ کرنے کے لیے انتھک مہم چلائی جائے گی تاہم انھوں نے امریکی عوام کو یقین دلایا کہ اس جنگ میں امریکی فوج کے زمینی دستوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی کے لیے وہ کانگریس کی منظوری کا خیرمقدم کریں گے لیکن ان کے پاس اس منظوری کے بغیر بھی کارروائی کا اختیار موجود ہے۔گذشتہ برس صدر اوباما نے کانگریس کی منظوری نہ ملنے کی وجہ سے شام میں حکومتی افواج پر فضائی حملے کرنے کا منصوبہ ترک کر دیا تھا۔اگرچہ شامی حکومت کی افواج بھی دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے میں مصروف ہیں لیکن اپنی تقریر میں امریکی صدر نے شامی صدر بشار الاسد کا ساتھ دینے کا امکان رد کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’دولتِ اسلامیہ فی الحال عراق و شام کے خلاف جنگ میں ہم اسد حکومت پر بھروسہ نہیں کر سکتے جو خود اپنے شہریوں کو دہشت زدہ کر رہی ہے۔جبکہ علاقائی طاقتوں کا رجحان یہ ہے کہ ایران: دولتِ اسلامیہ کے خلاف تعاون کا یقین تاہم امریکی فوجی کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار۔شام: بشار الاسد کی حکومت دولتِ اسلامیہ کی مخالف ہے لیکن امریکہ شامی باغیوں کا حامی ہے جو حکومت مخالف ہیں۔ترکی: دولتِ اسلامیہ کی مخالف لیکن جون میں موصل سے اغوا ہونے والے ترک سفارتکاروں اور ان کے خاندانوں کی خیریت کے پیش نظر حزبِ مخالف خاموش۔سعودی عرب: اسلامی شدت پسندوں سمیت شامی باغیوں کے بڑے حمایتی تاہم دولتِ اسلامیہ کی براہِ راست حمایت سے انکاری۔براک اوباما نے کہا کہ امریکہ اس کے برعکس شامی حزبِ مخالف کو مضبوط کرے گا۔امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ انھیں امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر بھی شام اور عراق میں سرگرم سنّی شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف عسکری کارروائی کا دائرہ وسیع کرنے کا اختیار ہے۔تاہم وہ شام میں حزبِ مخالف کے جنگجوو ¿ں کو ہتھیار فراہم کرنے کے بارے میں کانگریس کی منظوری لیں گے۔براک اوباما نے کانگریس کے رہنماو ¿ں کو شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں کے خلاف کارروائی میں توسیع کے ارادے کے متعلق آگاہ کیا ہے۔انھوں نے وائٹ ہاو ¿س میں ملک کی دونوں جماعتوں کے رہنماو ¿ں کو آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کیا۔یہ مشاورت امریکی صدر کے متوقع خطاب سے قبل کی گئی ہے۔ایک برس قبل امریکی قانون سازوں نے براک اوباما کو شام میں میزائل حملوں سے روک دیا تھا۔ تب سے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں نے شام اور عراق کے بڑے حصہ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔جون میں دولتِ اسلامیہ نے خلافت کا اعلان کرتے ہوئے اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
گذشتہ ماہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں نے امریکی صحافیوں کو عراق میں کیے جانے والے امریکی فضائی حملوں کا انتقام لینے کے لیے قتل کر دیا تھا۔رائے عامہ کے ایک جائزہ کے مطابق امریکیوں کی بڑی تعداد دولتِ اسلامیہ کو امریکہ کے لیے بڑا خطرہ تصور کرتی ہے اور وہ شام اور عراق میں فضائی حملوں کے حق میں ہے۔ایسی اطلاعات ہیں کہ 100 کے قریب امریکی شہری بھی دولت اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں کے ساتھ مل گئے ہیں۔ادھر فرانس نے 15 ستمبر کو عراق کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی ہے اور فرانس کے صدر فرانسوا اولاند اس ہفتے کے آخر میں عراق کا دورہ کریں گے۔امریکہ نے عراق میں دولت اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔ حکام کے مطابق تازہ حملہ عراق کے حدیثہ ڈیم کے نزدیک کیا گیا۔امریکہ کی جانب سے اس علاقے میں یہ پہلا فضائی حملہ تھا۔امریکہ نے عراق کے شمالی اور مغربی علاقوں میں فوج اور کردوں کی مدد کے لیے سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں تاکہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔اس سے قبل کرد فوجیوں نے اہم زرتک پہاڑیوں پر دو بارہ قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ایک امریکی اہلکار نے کہا ’عراقی حکومت کی درخواست اور عراق میں امریکی فوجیوں اور ان کے ٹھکانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے اپنے مشن کے تحت امریکی فوجی طیاروں نے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں پر حدیثہ ڈیم کے قریب حملہ کیا۔‘انھوں نے کہا ’یہ حملے دہشت گردوں کو ڈیم کی حفاظت پر تعینات سکیورٹی فورسز کو دھمکانے سے باز رکھنے کے لیے ہیں۔ امریکہ نے گذشتہ ایک ماہ کے دوران سو سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں۔واضح رہے کہ رواں سال اگست کے اوائل سے اب تک امریکہ نے 130 سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں۔دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں نے اپنی پیش قدمی کے دوران متعد ڈیموں کو نشانہ بنایا ہے۔ان جنگجوو ¿ں نے موصول کے سب سے بڑے ڈیم پر بھی قبضہ کرلیا تھا لیکن امریکی فضائی حملے کے نتیجے میں انھیں اس سے محروم ہونا پڑا۔دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اب تک حدیثہ کے ڈیم پر قبضہ کرنے کی اپنی کوششوں میں ناکام رہے ہیں۔ یہ مغربی انبار صوبے میں ملک کا دوسرا سب سے بڑا ڈیم ہے۔دولت اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں نے مبینہ طور پر اگست میں فلوجہ کے ڈیم کے دس میں سے آٹھ دروازے بند کر دیے تھے جو کہ ندی کے بہاو ¿ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ان سے فرات دریا کے بالائی علاقوں میں سیلاب کی صورت حال پیدا ہو گئی جبکہ عراق کے جنوبی اور فرات کے نشیبی علاقے میں سطح آب میں کمی آئی ہے۔امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا کہ نیٹو ممالک کا ایک اتحاد امریکہ کے ساتھ مل کرعراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ویلز میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ سے پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک ’مرکزی اتحاد‘ بنا لیا گیا ہے۔امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کہا کہ اس اتحاد میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، اٹلی، پولینڈ اور ترکی شامل ہیں۔خیال رہے کہ دولتِ اسلامیہ نے شام اور عراق میں بہت بڑے علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔امریکی صدر براک اوباما اور سیکریٹری خارجہ جان کیری نے نیٹو کے سربراہی اجلاس کے موقع پر، دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی کے لیے اتحاد میں مزید ممالک کو شامل ہونے کا کہا ہے لیکن انھوں نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں زمینی فوج کے استعمال کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔جان کیری نے نیٹو کے اجلاس کو بتایا کہ ’ہمیں ان (دولتِ اسلامیہ) پر اسطرح حملہ کرنا چاہیے کہ انھیں علاقوں کو اپنے زیر کنٹرول لانے سے روکا جائے اور ہمیں عراقی اور خطے میں ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار دیگر ممالک کی سکیورٹی فورسز کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔اجلاس کے اختتام پر صدر اوباما نے کہا کہ ایک ’مرکزی اتحاد‘ عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف فوجی، انٹیلی جنس، قانون نافذ کرنے اور سفارتی ذرائع سے کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔حال ہی میں امریکی صحافیوں جیمز فولی اور سٹیون سوٹلوف کی سر قلم کرنے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد دولتِ اسلامیہ سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں تیز کر دی گئیں ہیں۔امریکہ کو امید ہے کہ اتحادی نیویارک میں آئندہ ماہ ہونے والے اقوامِ متحدہ کے جنرل باڈی اجلاس سے پہلے، دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ایک مربوط منصوبہ تیار کر لیں گے۔امریکہ نے کہا ہے کہ وہ عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں ایران کے ساتھ کسی قسم کے فوجی تعاون کا منصوبہ نہیں رکھتا۔امریکہ کی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن ایران کو ’اٹیلی جنس‘ یا معلومات فراہم نہیں کرے گا۔اس سے پہلے ایران کے سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ ملک کے اعلیٰ ترین رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایرانی فوجی کمانڈروں کو دولت اسلامی کے خلاف امریکہ، عراق اور کرد فوجیوں کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت دے دی ہے۔لیکن ایران کے وزارتِ خارجہ نے بھی اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیا۔ایران روایتی طور پر امریکہ کا عراق میں ملوث ہونے کے خلاف ہے۔ عراق ایران کا اتحادی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے کہا کہ ’ہم ایران کے ساتھ اپنی فوجی کارروائی کے حوالے سے رابطے نہیں رکھتے اور انھیں خفیہ معلومات فراہم نہیں کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’بے شک ہم ان کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں جس طرح کے ماضی میں تھا، خاص کر افغانستان کے حوالے سے لیکن ہم ان سے رابطے میں رہ کر اکٹھے فوجی کارروائی نہیں کریں گے۔ایران دولت اسلامی نامی سخت گیر نظریات کی حامل سنی تنظیم کو ایک خطرہ تصور کرتا ہے۔ایران خطے میں امریکہ کی مداخلت کا روایتی طور پر مخالف رہا ہے۔گزشتہ ماہ امریکی فوج کی فضائی کارروائی کی وجہ سے شیعہ مسلح تنظیمیں اور کرد فوج دولت اسلامی کے جنگجوں کی طرف سے عراقی شہر امرلی کا دو ماہ سے جاری محاصرہ ختم کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔دولت اسلامیہ شمالی اور مغربی عراق اور مشرقی شام کے وسیع علاقوں پر قابض ہے۔ماضی میں آیت اللہ علی خامنہ ای عراق میں امریکہ سمیت بیرونی طاقتوں کی مداخلت کی شدت سے مخالف رہے ہیں۔پاسداران انقلاب ایران کی قدس فورس ملک سے باہر بھی کارروائیاں کرنے کی مجاز ہے۔ایرانی ذرائع نے بتایا تھا کہ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایرانی پاسدران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر غشام سلیمانی کو دولت اسلامی کے خلاف برسرپیکار قوتوں کے ساتھ تعاون کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ پاسدران انقلاب کی قدس فورس ایران کے باہر کارروائیاں کرنے کی مجاز ہے۔جنرل سلیمانی گذشتہ کئی ماہ سے عراقی دارالحکومت بغداد کا دفاع مضبوط کرنے کے لیے عراقی شیعہ گروہوں کو تیار کرنے میں مصروف ہیں۔امرلی کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائی کے دروان جنرل سلیمانی کی شمالی عراق میں تصاویر انٹرنیٹ پر بھی نظر آئی تھیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایران نے دولت اسلامی کے خلاف لڑنے والی فوجوں اور تنظیموں کے ساتھ پہلے ہی تعاون شروع کر دیا ہے۔دولتِ اسلامیہ ایک اسلامی تنظیم ہے جو گذشتہ کچھ عرصے میں شام اور عراق کے بڑے علاقوں کو اپنے زیر نگیں کر چکا ہے۔دوسری جانب دولتِ اسلامیہ کے اقدامات کے خلاف دنیا بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اب امریکہ بھی اس معاملے میں اپنی فوجی طاقت کے ساتھ داخل ہو چکا ہے۔ دولت اسلامیہ کے جنگجو مشرقی شام اور عراق کے شمالی اور مغربی علاقوں میں اقلیتی عقائد اور اقلیتی نسلوں کے افراد کے اغوا اور سرعام قتل جیسی بہیمانہ کارروائیوں کے علاوہ اب تک کئی فوجیوں اور دو صحافیوں کے سر بھی قلم کر چکے ہیں۔دولت اسلامیہ کا ہدف ایک اسلامی خلافت کا قیام ہے۔اگرچہ فی الحال یہ گروہ عراق اور شام تک محدود ہے لیکن اس کا عہد ہے کہ وہ ’اردن اور لبنان کی سرحدوں کو مسمار کر کے فلسطین کو آزاد کرائے گا۔‘ دولت اسلامیہ کو دنیا بھر سے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ ہر مسلمان ان کے رہنما ابو بکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کر لے۔دولت اسلامیہ کا آغاز:سنہ 2010 میں جب ابوبکر البغدادی آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو اس تنظیم کو تقویت ملی۔دولت اسلامیہ کی جڑیں اردن کے مرحوم ابو مصعب الزرقاوی کی تنظیم سے ملتی ہیں جنھوں نے سنہ 2002 میں ’توحید والجہاد‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔عراق پر امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کے حملے کے ایک سال بعد الزرقاوی نے اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر عراق میں القاعدہ قائم کی جو اتحادی فوجوں کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ثابت ہوئی۔سنہ 2006 میں الزرقاوی کی وفات کے بعد ’القاعدہ فی العراق‘ نے ’دولت اسلامیہ فی العراق‘ یا آئی ایس آئی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جسے عراق میں مزاحمتی گروہوں کی نمائندہ تنظیم کہنا بے جا نہ ہوگا۔ امریکی افواج کی مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے آئی ایس آئی آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی اور پھر عراق کے سنی قبائل کی تنظیم ’سہوا‘ کے منظر پر آنے سے آئی ایس آئی مزید ماند پڑ گئی۔سنہ 2010 میں جب ابوبکر البغدادی آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو اس تنظیم کو تقویت ملی اور اس کی استعداد میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اور پھر سنہ 2013 میں یہ تنظیم دوبارہ اتنی منظم ہو گئی کہ اس نے ایک برس کے اندر اندر عراق میں درجنوں کامیاب حملے کر ڈالے۔ اس دوران آئی ایس آئی نے شام میں بشارالاسد کے خلاف جاری مزاحمت کے ساتھ روابط بنا لیے اور ایک نئی تنظیم ’النصرہ، بھی قائم کر لی۔اپریل 2013 میں ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنی تنظیموں کو یکجا کرنے کا اعلان کیا اور’دولت اسلا میہ فی العراق ولشام‘ یا داعش کے نام سے ایک بڑی تنظیم بنا لی۔ اس موقع پر النصرہ اور القاعدہ کے رہنماو ¿ں نے البغدادی کی نئی تنظیم کو ماننے سے انکار کر دیا، لیکن النصرہ کے وہ جنگجو جو البغدادی کے حامی تھے انھوں نے داعش میں شمولیت اختیار کر لی۔سنہ 2013 کے اختتام پر داعش نے اپنی توجہ ایک مرتبہ پھر عراق پر مرکوز کر لی اور ملک کی شیعہ اکثریتی حکومت اور سنی آبادی کے درمیان موجود سیاسی تناو ¿ سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہی وہ موقع تھا جب مقامی قبائل کی مدد سے داعش نے عراق کے مرکزی شہر فلوجہ پر قبضہ کر لیا۔ بات یہاں رکی نہیں بلکہ سنہ 2014 میں داعش کے جنگجو شمالی شہر موصل کو روندتے ہوئے بغداد کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔داعش نے خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا نام تبدیل کر کے ’دولتِ اسلامیہ‘ رکھ لیا۔دولت اسلامیہ کے زیر اثر علاقوں میںکچھ اندازوں کے مطابق دولتِ اسلامیہ اور اس کی اتحادی تنظیمیں شام اور عراق کے تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر چکی ہیں جو کہ بیلجئم کے کل رقبے کے برابر ہے۔ دیگر کا خیال ہے کہ یہ رقبہ اس سے کہیں زیادہ، یعنی 90 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو کہ اردن کے کل رقبے کے برابر ہے۔ اندازوں میں یہ فرق اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عراق کے چار بڑے شہر موصل، تکریت، فلوجہ اور طل افعار اور شام میں رقہ کے بڑے علاقے کے علاوہ تیل کے کئی کنویں، ڈیم، مرکزی سڑکیں اور سرحدی چوکیاں دولت اسلامیہ کے قابو میں ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت 80 لاکھ لوگ ان علاقوں میں پائے جاتے ہیں جو کہ کلی یا جزوی طور پر دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں اس تنظیم نے نہایت سخت گیر شریعت کا اطلاق کیا ہوا جس میں عورتوں کو پردے پر مجبور کیا جا رہا ہے، غیرمسلموں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں ورنہ جزیہ دیں اور چھٹے موٹے جرائم پر بھی سخت سزائیں دی جارہی ہیں جن میں مجرموں کو د ±رے لگانا اور سرعام پھانسی یا گولی مار دینا بھی شامل ہیں۔دولت اسلامیہ کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ باقی دنیا مذہب سے عاری لوگوں پر مشتمل ہے۔امریکی افسران کا خیال ہے کہ دولت اسلامی کے جنگجوو ¿ں کی تعداد تقریباً 15 ہزار ہے، تاہم عراقی ماہر ہشام الہشامی کہتے ہیں کہ ان کے اندازے کے مطابق رواں ماہ کے اوائل میں دولت اسلامیہ کے پاس 30 سے 50 ہزار جنگجو موجود تھے جن میں سے تقریباً 30 فیصد پکے ’نظریاتی‘ تھے جبکہ باقی وہ تھے جنہوں نے خوف یا دباو ¿ کے تحت اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔دولت اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں کی ایک اچھی خاصی تعداد نہ تو عراقی ہے اور نہ ہی شامی۔ ایک تازہ ترین اندازے کے مطابق دولت اسلامیہ میں 81 ممالک کے کم و بیش 12 ہزار جنگجو شامل ہیں جن میں سے 2,500 ایسے ہیں جو پچھلے تین سالوں میں مغربی ممالک سے شام میں جاری جنگ میں حصہ لینے آئے تھے۔دولت اسلامیہ کے پاس نہ صرف مختلف انواع کے چھوٹے اور بڑے ہتھیار موجود ہیں بلکہ اس کے جنگجو ان ہتھیاروں کو استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں ٹرکوں پر لگی ہوئی مشین گنز، راکٹ لانچر، طیارہ شکن بڑی توپیں، اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس وہ ٹینک اور بکتربند گاڑیاں بھی موجود ہیں جو انھوں نے شامی اور عراقی فوجیوں سے چھینی تھیں۔اس کے علاوہ دولت اسلامیہ نے بارود اور چھوٹے ہتھیاروں کی ترسیل کا ایک نظام بھی ترتیب دے رکھا ہے جس کے تحت وہ جب چاہیں نیا اسلحہ اور بارود منگوا سکتے ہیں۔ یہ دولت اسلامیہ کی بے پناہ بارودوی طاقت ہی تھی جس کی بدولت انھوں نے اگست میں شمالی عراق میں کرد پیش مرگہ فوجی کی چوکیوں پر قبضہ کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔عراق کے یزیدیوں کو دولتِ اسلامی نے بےے گھر کیا ہے۔اطلاعات کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے پاس دو ارب ڈالر کیش کی شکل میں موجود ہیں جو اسے دنیا کا امیر ترین شدت پسند گروہ بناتے ہیں۔ ابتدا میں اسے زیادہ تر مالی مدد خلیجی ریاستوں کے مخیر افراد سے ملی، تاہم آج کل یہ تنظیم کافی حد تک خو کفیل ہو چکی ہے اور لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت، اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکسوں کی آمدنی ، چونگی، سمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ تنظیم کے مختلف ذرائع آمدن ہیں۔دولت اسلامیہ کے ارکان ان جہادیوں پر مشتمل ہیں جو سنی اسلام کی سخت گیر تعبیر پر یقین کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ باقی دنیا مذہب سے عاری ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسلام کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔تنظیم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے مخالفین کے سر قلم کرنے، سرعام مصلوب کرنے اور کئی لوگوں کو قطار میں کھڑے کر کے گولیاں مارنے جیسے اقدامات سے مقالی لوگوں اور باقی دنیا میں خوف ہراس پھیلانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اگرچہ دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی پیروی کر رہے ہیں، لیکن باقی دنیا کے مسلمان ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے بھی الزرقاوی کو سنہ 2005 میں کہہ دیا تھا کہ اس قسم کی بہیمانہ کارروائیوں سے مسلمانوں کے دل و دماغ نہیں جیتے جا سکتے۔ برطانیہ کی مالی معاونت سے بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم عراق اور شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگی جرائم کا کیس تیار کرنے کے لیے شواہد اکٹھے کئے تھے ۔ماہرین نے کئی مہینے لگا کر دولتِ اسلامیہ کے سینیئر رہنماو ¿ں کے خلاف پراسیکیوشن کو دینے کے لیے تقریباً 400 فالیں تیار کی ہیں۔ٹیم کی حاصل کردہ دولتِ اسلامیہ کے اندرونی دستاویزات سے بہت سے پرتشدد واقعات کے لیے’گروپ کے حکام‘ کی ذمہ داریوں کا پتہ چلتا ہے۔دولتِ اسلامیہ نے حالیہ مہینوں میں عراق اور شام کے بہت سے علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے۔ماہرین کی یہ ٹیم خفیہ انداز میں کام کر رہی ہے اور اس نے تقریباً ایک سال تک دولتِ اسلامیہ کے کمانڈروں، امیروں، صوبائی گورنروں کی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے حوالے سے تفتیش کی ہے۔دولتِ اسلامیہ کی طرف سے مبینہ طور پر کی جانی والی پرتشدد کاررائیوں میں اغوا برائے تاوان، سر قلم کرنا، پھانسی دینا، تشدد کرنا اور بغیر کسی مقدمے کے سزائے موت دینا شامل ہیں۔جنگی جرائم کی تحقیقات میں مہارت رکھنے والے ماہرین یورپ کے ایک شہر میں اپنے ہیڈ کوارٹر میں خفیہ طور پر کام کر رہے ہیں اور انھوں نے ابھی تک اپنے کام کے حوالے سے کسی بات نہیں کی۔لیکن انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ انھیں برطانوی حکومت کی طرف سے ماہانہ تقریباً 70000 امریکی ڈالر ملتے ہیں اور انھوں نے شام اور اس کے پڑوسی ممالک میں معلومات جمع کرنے کے لیے لوگوں کو بھرتی کیا ہوا ہے۔تفتیش کاروں کی ٹیم کے سربراہ نے بتایا کہ ’ہم چاہیں گے کہ جیمز فولی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے لیکن اس قسم کے مخصوص قاتل ہماری تحقیق کا مرکز نہیں ہیں۔"ہم دولتِ اسلامیہ کے اعلیٰ سطح کے حکام کے پیچھے لگے ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اسی طرح ان تمام ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں جس طرح ان آدمیوں نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیے ہوں۔اس ٹیم کے پاس شام سے سمگل کیے گئے ثبوتوں کے بکسے ہیں جس میں دستاویزات، کمپیوٹر کے میموری سٹک اور گواہان کی سندیں ہیں۔ان کے پاس درحقیقت دولتِ اسلامیہ کے صوبائی سطح کے ایک اجلاس کی کارروائی بھی ہے جس کی تفصیلات کے مطابق شدت پسندوں کمانڈروں حلب میں اپنے محافظوں کو ساڑھے سات بجے کے بعد سونے سے منع کیا گیا تھا۔تفتیش کار دولتِ اسلامیہ کی اندرونی ساخت کے چانچ کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں خود ساختہ خلیفہ ابوبکر بغداد تنظیم کے سربراہ ہیں۔ ان کے نیچے براہ راست چار مشاورتی کونسل ہیں جو اسلامی قوانین، شوریٰ، عسکری اور سکیورٹی پر مشتمل ہے اور جس میں آخری دو بہت طاقتور ہیں۔ اور اس ایک جمع چار ساخت کو نیچے کی سطح پر دہرایا گیا ہے۔ایک ہفتہ قبل ویلز میں صدر اوباما نیٹو کے سربراہی اجلاس میں اعلان کرنے والے تھے کہ دولتِ اسلامیہ سے پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک مرکزی اتحاد بنا لیاگیا ہے۔اس کے بعد جب صدر اوباما نے دولت اسلامیہ سے نمٹنے کی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا تو اسی دن ایک اور اتحاد کے رہنما تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے کے صدارتی محل میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر جمع تھے۔شنگھائی تعاون تنظیم ’ایس سی او‘ کے بعض ممالک کو امریکہ کے عراق اور شام کے بارے میں منصوبے کو استحکام بخشنے یا اس کو ناکام بنانے کی صلاحیت حاصل ہے۔چھ رکنی شنگھائی تعاون تنظیم 2001 میں قائم ہوئی تھی اور اس میں چین اور روس کے علاوہ وسط ایشیائی ممالک قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے اور اب 13 سال پرانی تنظیم میں ایران اور پاکستان مبصر ممالک کے شامل ہوتے ہیں اور یہ تنظیم کے باقاعدہ رکن بننے کے خواہش مند ہیں۔یہاں تک کہ ترکی بھی اجلاس میں شرکت کرتا ہے جبکہ اس سے پہلے مغرب کے نزدیک ہونے کی وجہ سے اس سے اجتناب کیا جاتا تھا۔تاجکستان کے ڈپٹی وزیر خارجہ پرویز ڈاولزوٹا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اجلاس دوشنبے کو جغرافیائی سیاست کا مرکز بنا دے گا۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ایران کے صدر حسن روحانی بعض معاملات پر ایک موقف اپنانے میں کامیاب ہوئے۔ ایران کو اس کے جوہری پروگرام اور روس کو یوکرین میں مداخلت کی وجہ سے اس وقت مغرب کی پابندیوں کا سامنا ہے۔دونوں ممالک شام کے صدر بشارالاسد کے ثابت قدم حمایتی ہیں اور ان کو نازک وقت میں مدد فراہم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ خلاف توقع اقتدار پر اب تک فائز ہیں۔دونوں ممالک ہو سکتا ہے کہ صدر اوباما کے شام کے مسئلے کے سیاسی حل کے اعلان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس سے پہلے امریکہ نے مسلسل شامی صدر پر زور دیا کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں اور اس کے مطالبہ پر نہ تو شامی صدر اور نہ ہی ماسکو اور تہران نے کوئی دھیان دیا۔سال 2001 میں شنگھائی فائیو کے نام سے وجود میں آنے والے اتحاد کے پیچھے سرحدی تنازعات، دہشت گردی، اسلامی شدت پسندی کی وجوہات شامل تھیں۔تاہم شامی صدر کا مستقبل مرکزی مسئلہ ہوگا۔ مغرب اور اس کے عرب اتحادی اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہر صورت میں دولت اسلامیہ کے خاتمے کے لیے نئی عسکری کارروائیوں کا فائدہ شامی حکومت کی بجائے اعتدال پسند حزب مخالف کو پہنچنے۔عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ ایک ہی طرف کھڑے ہیں اگرچہ ایرانی حکام نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے کہ زمین پر ایران کا امریکہ، عراق اور کرد فوسرز کا غیرمعمولی طور پر عسکری تعاون بھی موجود ہے اور اس تعاون کی منظوری ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے دی تھی۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لووروف دوشنبے کے اجلاس کے بعد ایس سی او کی صدارتی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ انھوں نے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ’ہمارا تنظیم کو زیادہ بہتر انداز میں موثر بنانے کا منصوبہ ہے تاکہ آج کی دنیا میں درپیش کئی چیلنجز سے نمٹا جا سکے اور مشترکہ طور پر خطے اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے مناسب انداز میں نمٹا جا سکے۔نیٹو کے بارے میں انھوں نے کہا کہ’ایس سی او یعنی شنگھائی تعاون کونسل 21ویں صدی کے مطالبات اور حقائق سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔تاہم ’ایس سی او‘ کے اپنے بہت سارے حقائق ہیں جن کے بارے میں اس کانفرس کے دوران تکرار ہو گی۔ وسطی ایشیائی رہنما، جن کے یوکرین میں روسی مداخلت کے بارے میں ملی جلی آراءہے، وہ ماسکو کے مغرب کے ساتھ نئے بحران پر کیا کہیں گے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے بعض رکن ممالک دولت اسلامیہ کے خلاف نئی حکمت عملی کو استحکام بخش سکتے ہیں یا اس کو ناکام بنانے کا صلاحیت رکھتے ہیں۔تجارت میں اضافہ خطے کے ترجیحات میں سرفہرست ہے لیکن معیشت سے بھی سیاست الگ نہیں ہو سکی۔ ایران اور روس تیل بدلے سامان پر بات چیت کر رہے ہیں، جس میں اب روس سے اجناس کے بدلے میں ایران سے تیل لینے پر توجہ مرکوز ہے تاکہ ان پر عائد پابندیوں میں سے بعض کا مقابلہ کیا جا سکے۔اجلاس کے پہلے دن کے اختتام پر اس میں شامل رہنما’ دوستی کے نام شام‘ کے لیے جمع ہوں گے جس میں ثقافتی روایات کی عکاسی اور موسیقی کا اہتمام ہوگا۔دوسرے اور آخری روز تنظیم میں مزید رکن ممالک کی شمولیت کے عمل کو تیز کرنے پر بات چیت ہو گی جس میں دوستی کا مطلب بہت زیادہ بحرانوں کا سامنا کرتی ہوئی دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی سٹریٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہے۔جبکہ دولت اسلامیہ کی جنگ میں ایک سرحد ایسی ہے جو کپاس کے کھیتوں اور اور زیتون کے باغات کے عین درمیان سے گزرتی ہے۔ اس سرحد کی ایک جانب نیٹو کا ایک طاقتور رکن ہے جبکہ دوسری جانب وہ ملک جو اسلامی شدت پسندوں کی نہ ختم ہونے والی کارروائیوں سے نبرد آزما ہے اور جہاں مغربی ممالک کی فوجیں داخل ہوا چاہتی ہیں۔ترکی کا دعویٰ ہے کہ شام کے ساتھ اس کی 560 میل سرحد ہی دراصل وہ لکیر ہے جس نے دولت اسلامیہ اور شام میں لڑنے والے دوسرے جہادی گروہوں کو روک کر رکھا ہوا ہے۔ لیکن ترکی کا ماضی کچھ اور ہی کہانی سناتا ہے۔شام میں گذشتہ ساڑھے تین سال سے جاری لڑائی میں ترکی ہی وہ ملک رہا ہے کہ جہاں سے جنگجوو ¿ں کو اسلحہ جاتا رہا ہے اور غیر ملکی جنگجو بھی ترکی کے راستے ہی شام میں داخل ہوتے رہے ہیں۔اس تمام عرصے میں ترکی نے جو حکمت عملی اپنائے رکھی اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اسے شام میں سب کچھ قبول ہے سوائے صدر بشارالاسد کے، لیکن گزشتہ چند ماہ میں صورت حال تبدیل ہو گئی ہے۔ جون میں دولتِ اسلامیہ نے عراق کے شہر موصل میں ترک سفارتکاروں اور ان کے خاندانوں کے 49 افراد کو اغوا کر لیا جو ابھی تک دولتِ اسلامیہ کی قید میں ہیں۔لگتا ہے کہ اس واقعے، اور پھر عراق اور شام کے وسیع علاقوں میں دولت اسلامیہ کے تیز پھیلاو ¿ نے ترکی کو جگا دیا ہے۔ اب ترکی نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ترک فوج نے ملک کے شمال میں ’ہاتے` کے علاقے میں سرحد کی نگرانی بھی سخت کر دی ہے۔ سرحد کے قریب ہی تعینات ایک بٹالین کے کمانڈر کرنل امید درماز اس اعتراض کو مسترد کرتے ہیں کہ ترکی نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی میں تاخیر کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جیسے ہی جنگ شروع ہوئی، ہم نے سرحد پر اقدامات شروع کر دیے تھے۔ کمانڈر سے پوچھا گیاکہ آیا ترکی اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ یورپ کو دولتِ اسلامیہ کے خطرے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ ’اس سرحد کو عبور کرنا ناممکن ہے، اس لیے میں یورپ کو کہتا ہوں کہ ہم پر بھروسہ کریں۔ دولتِ اسلامیہ یا کوئی دوسرا گروہ ہماری سرحد پر حملہ نہیں کر سکتا اور اگر ان میں سے کوئی ایسا کرتا ہے تو ہم پوری قوت سے جواب دیں گے۔ یہاں پر ہمار کنٹرول ہے، کسی دوسرے کا نہیں۔بظاہر اس سرحد پر آپ کو زیادہ ہلچل نظر نہیں آتی۔ کرنل امید درماز کہتے ہیں کہ روزانہ تقریباً دس، پندرہ سمگلروں سے ان کا پالا پڑتا ہے جو تیل یا سگریٹ سمگل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اکثر ان کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کرنا پڑتا ہے۔’چونکہ سرحد کی دوسری جانب کسی حکومت کا زیادہ اختیار نہیں، اس لیے ہر کسی کو اسلحہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ترکی اور شام کی اس سرحد کے ذریعے گذشتہ مہینوں میں ہزارہا پناہ گزین شام سے فرار ہو چکے ہیں۔صرف اس سال جنوری سے اب تک، ترک فوج 17 ہزار افراد کو پکڑ چکی ہے جو شام سے سرحد عبور کر کے ترکی میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں دوگنا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی نے شام کے ساتھ سرحد پر سختی میں اضافہ کیا ہے۔اگرچہ سرحد عبور کرنے والوں کی اکثریت شامی فوج اور باغی گروہوں کے ستائے ہوئے شامی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس راستے وہ غیر ملکی جنگجو بھی آ جا رہے ہیں شام میں مختلف متحارب گروہوں کی جانب سے لڑ رہے ہیں۔جن 9 ہزار افراد کو ترک فوج نے شام میں داخل ہوتے ہوئے پکڑا، ان میں 15 مختلف ممالک کے شہری شامل تھے جن میں صومالیہ، ڈنمارک اور فرانس بھی شامل ہیں۔ماضی میں ہاتے کے ہوائی اڈے پر اترنے والی پروازیں غیر ملکی جنگجوو ¿ں سے بھری ہوئی ہوتی تھیں جو بلا روک ٹوک اس سرحد کو عبور کر کے شام میں داخل ہو جاتے تھے۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔جبکہ امریکہ کے خفیہ ادارے سنٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) نے کہا ہے کہ عراق اور شام میں سرگرم س دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں کی تعداد ماضی کے اندازوں سے تین گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔خفیہ ادارے کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ مئی سے اگست کے دوران خفیہ اطلاعات کے تجزیوں کے بعد یہ تعداد 31 ہزار تک ہو سکتی ہے۔ادھر امریکہ نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف ممکنہ عالمی عسکری کارروائی کے لیے ریٹائرڈ جنرل جان ایلن کو رابطہ کار مقرر کر دیا ہے۔دولتِ اسلامیہ نے عراق میں وسیع علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اس نے دو امریکی صحافیوں سمیت متعدد افراد کے سر قلم بھی کیے ہیں جن کے بعد امریکہ کی جانب سے اسے فضائی حملوں میں نشانہ بنانے کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری آج کل دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مشرقِ وسطی اور عرب ممالک کے دورے پر ہیں۔
ان کے اس دورے کے دوران سعودی عرب سمیت دس ممالک نے دولت اسلامیہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے عراق اور شام میں فوجی کارروائیاں کرنے کے کیلئے امریکہ کے ساتھ تعاون پر اتفاق کیا ہے۔کیری ترکی بھی جا رہے ہیں جس نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کے اعلان پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ مبصرین اس فیصلے کی وجہ شدت پسند گروپ کی جانب سے سفارتکاروں سمیت 49 ترک باشندوں کو یرغمال بنانا قرار دے رہے ہیں۔سی آئی اے کے ترجمان رائن تراپانی کا کہنا ہے کہ ادارے کے سابقہ اندازوں کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے ارکان کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ تھی۔انھوں نے کہا کہ ’یہ نئی تعداد جون کے بعد دولتِ اسلامیہ میں بھرتی ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کا نتیجہ ہے اور اس کی وجہ خلافت کا اعلان اور حکومتی افواج کے خلاف مختلف محاذوں پر کامیابی ہو سکتی ہے۔امریکی خفیہ ادارے کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو ¿ں کی تعداد میں اضافے کا اندازہ صدر براک اوباما کی جانب سے اس گروہ کے خلاف کارروائی کی حکمتِ عملی کے اعلان کے ایک دن بعد ہی سامنے آیا ہے۔اس پالیسی کے تحت امریکی صدر نے عراق کی طرح پہلی مرتبہ شام میں بھی شدت پسند گروہ کو فضائی حملوں میں نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔روس کی جانب سے امریکہ کے شام میں کارروائی کرنے کے اعلان کی مذمت کی گئی ہے اور کہا ہے کہ شام میں جنگجوو ¿ں کے خلاف اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کیے بغیر کسی قسم کی امریکی فوجی کارروائی بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی اور کھلی جارحیت ہو گی۔حالیہ مہینوں میں دولتِ اسلامیہ نے شام کے مشرقی علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے جبکہ عراق میں مزید قصبات، فوجی اڈوں اور ہتھیاروں پر قبضہ کیا ہے۔دولتِ اسلامیہ نے رواں برس جون میں اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں ’خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا اور گروپ کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو خلیفہ مقرر کیا گیا تھا۔امریکہ عراق میں پہلے ہی دولتِ اسلامیہ کے خلاف 150 سے زیادہ فضائی حملے کر چکا ہے اور اس نے عراقی حکومت اور کرد فورسز کی مدد کے لیے سینکڑوں عسکری مشیر بھی بھیجے ہیں تاہم وہ اس کارروائی میں اپنی زمینی فوج نہیں بھیجنا چاہتا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی حکمتِ عملی کے اعلان کے بعد ممکنہ عالمی عسکری کارروائی کے لیے جنرل ریٹائرڈ جان ایلن رابطہ کاری کے فرائض سرانجام دیں گے۔جنرل جان ایلن ماضی میں عراق اور افغانستان میں تعینات رہ چکے ہیں اور وہ اس بات کا تعین کریں گے کہ اتحادی ممالک میں سے کون کتنی رقم، لاجسٹک امداد، تربیت اور اسلحہ دے گا۔جان ایلن نے آٹھ برس قبل عرب ممالک کی مدد سے عراق میں القاعدہ کے خلاف سنّی مزاحمتی تحریک کی مدد کی تھی۔سعودی عرب سمیت دس عرب ملکوں نے دولت اسلامیہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے عراق اور شام میں فوجی کارروائیاں کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون پر اتفاق کر لیا ہے۔قبل ازیں روس نے امریکہ کو شام میں فوجی کارروائی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قسم کی کارروائی کے لیے سلامتی کونسل سے قرار داد منظور کروانا ضروری ہے۔دریں اثنا امریکہ وزیر خارجہ جان کیری نے عرب رہنماوں پر زور دیا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف امریکی صدر براک اوباما کی فوجی مہم کی حمایت کریں اور شدت پسندوں کو مالی وسائل کی فراہمی کے راستوں کو مسدود کرنے اور عرب ذرائع ابلاغ پر شدت پسندانہ رجحانات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔امریکہ پر ستمبر سنہ 2001 کے حملوں کی برسی کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور فوجی کارروائی کا راستہ استوار کرنے کے لیے سعودی شہر جدہ پہنچے ہیں۔ایک روز قبل ہی امریکی صدر براک اوباما نے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے فوجی ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے کا اعلان کیا تھا۔سعودی عرب میں اپنے دورے کے دوران جان کیری نے امریکی فوج کے لیے مزید اڈے حاصل کرنے اور امریکی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی پروازوں کے لیے منظوری چاہی ہے۔سعودی عرب نے کئی دہائیوں کے بعد عراق میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کی بات کی ہے۔سعودی عرب شام میں کئی سنی تنظیموں کی بھرپور مدد کر رہا لیکن دولت اسلامیہ کو ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے۔ سعودی عرب نے اس تنظیم کے خلاف صدر اوباما کی جنگی مہم کی حمایت کرنے اور معتدل گروپوں کے جنگجووں کو تربیت دینے کے لیے اڈے فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔شیعہ اکثرت والے ملک ایران نے دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی اتحاد پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے امریکی ارادوں پر بھی شک ہے۔اوباما نے اعلان کیا تھا کہ وہ دولت اسلامیہ کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ایک نئے اتحاد کی قیادت کریں گے جس سے امریکہ خطے میں جاری دو تناعات میں براہ راست الجھ جائے گا۔امریکہ دولت اسلامیہ کو نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ قرار دیتا ہے کیونکہ اس تنظیم میں مغرب ملکوں سے بھی نوجوان شامل ہو رہے ہیں۔دولت اسلامیہ شام میں صدر اسد کی حکومت کے خلاف اور عراق میں شیعہ اکثریتی حکومت کے خلاف برسر پیرکار ہے جب کہ یہ کردوں اور معتدل سنیوں سے بھی نبردآزما ہے۔دولت اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں ایسے ملکوں کو بھی شامل ہونا پڑے گا جو ایک دوسرے کے سخت مخالف اور دشمن ہیں۔امریکہ ایک طرف تو عراق میں شیعہ حکمرانوں کی حمایت کر رہا دوسری طرف یہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف ہے اور ایران سے بھی اس کے تعلقات خراب ہیں۔ امریکہ ایسی سنی ریاستوں کا بھی اتحادی ہے جن کے ایران سے بہتر تعلقات ہیں۔جدہ میں ہونےوالی ملاقات میں عرب ممالک اور غیر عرب سنی ملک ترکی نے بھی شرکت کی۔جان کیری کے ہمراہ آئے ہوئے ایک اعلیٰ امریکی سفارت کا مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں سے کہیں گے کہ وہ خطے میں امریکی اڈوں پر علاقے کی فضاوں میں زیادہ امریکی وجود کے لیے تیار رہیں۔ان کا کہنا تھا ’ کہ امریکہ کو اڈوں اور فضاو ¿ں میں زیادہ موجودگی درکار ہوگی اور اس سلسلے میں تفصیلات طے کرنے کے لیے وزراءدفاع کا جلد اجلاس ہوگا۔جان کیری نے علاقائی ٹی وی چینل خاص طور پر قطر میں قائم الجزیرہ اور سعودی ٹی وی چینل العربیہ پر زور دیا کہ وہ شدت پسندوں کی حوصلہ شکنی کریں۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شام کی خانہ جنگی کے متاثرین کے لیے اضافی امریکی امداد کے طور پر تقریباً 50 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔کیری نے یہ اعلان ترکی میں کیا جہاں کے دورے کا مقصد شام اور عراق میں دولت الاسلامیہ کے خلاف لڑنے کے لیے بین الاقوامی حمایت کا حصول ہے۔شام کے 30 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں نے حالات سے مجبور ہوکر ہمسایہ ملکوں میں پناہ لی ہے۔ اس امداد میں سے تقریباً 25 کروڑ ڈالر کا سامان اِن متاثرین پر خرچ ہوگا؛ جب کہ بقیہ زیادہ تر رقم شام کے اندر نقل مکانی کرنے والے شہریوں پر خرچ ہوگی۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے شام کی نصف آبادی خانہ جنگی سے متاثر ہوکر بھاگ کھڑی ہوئی ہے، جب کہ دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں کی طرف سے علاقہ ہتھیانے کے نتیجے میں صورتِ حال مزید بگڑ گئی ہے۔اِس وقت، کیری ایک ہفتے کے دورے پر ہیں۔ ا ±ن کا مقصد انتہا پسند گروپ کے ساتھ نمٹنے کے لیے ایک عالمی اتحاد تشکیل دینا ہے، جس نے سر قلم کرنے کی وارداتیں کرکے اور فرقہ وارانہ قتل عام میں ملوث ہوکر دنیا بھر کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔کیری کی طرف سے سعودی عرب میں بات چیت کے دوران، ترکی نے امریکی قیادت میں ا ±س مربوط منصوبے کی توثیق کرنے سے انکار کیا جس کا مقصد سنی شدت پسند گروپ کو شکست دینا ہے۔عرب ملکوں نے اِس اتحاد میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ وہ دولت الاسلامیہ کو تباہ کرنے میں امریکہ کی مدد کریں گے، چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں، جس میں عراق اور شام بھی شامل ہیں۔ایک بیان میں، اتحاد نے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کی آمد و رفت بند کردے گا، گروپ کے فنڈز کی ترسیل روکی جائے گی اور تشدد کیے جانے والوں کی امداد کو یقینی بنایا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاں کہیں بھی ممکن ہوگا، وہ جاری کام اور مربوط فوجی مہم کے سلسلے میں ہر ممکن اعانت کریں گے۔ترکی کی شام کے ساتھ 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ ترکی اتحاد میں متحرک کردار ادا کرنے سے گریزاں ہے۔ دولت الاسلامیہ کے جنگجوو ¿ں نے اِس وقت 45 ترکوں کو یرغمال بنا رکھا ہے، جس میں سفارت کار اور ا ±ن کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، جنھیں جون میں ایک قونصل خانے پر حملہ کرکے اغوا کیا گیا تھا۔اے پی ایس