وزیراعظم نواز شریف کا پارلیمان سے فکر انگیز خطاب۔چودھری احسن پریمی




وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کا گھیراو کر کے حکومت کو گھر بھیجنے کی روایت نہیں پڑنے دیں گے۔پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے اختتام پر ا ن کا کہنا تھا کہ بڑی قربانیوں کے بعد پاکستان جمہوریت کی حکمرانی کی منزل تک پہنچا ہے اور ”کسی کو جمہوریت پر کلہاڑا نہیں چلانے دیں گے۔آج پھر کہہ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز کو ایسا جنگل نہیں بننے دیں گے جہاں ’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘ کا قانون چلے۔ آئین ، قانون، نظام عدل و انصاف اور مضبوط ادارے رکھنے والی کوئی ریاست اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مٹھی بھر افراد پارلیمنٹ کا گھیراو ¾ کر کے حکومت اور وزیر اعظم کو گھر بھیجیں۔ ہم یہ روایت نہیں پڑنے دیں گے۔ا ±نھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ دھرنوں کے باوجود حکومت اپنا کام جاری رکھے گی۔ کوئی کھیل تماشہ، کوئی فتنہ و فساد ، کوئی ہنگامہ آرائی، کوئی لانگ مارچ یا کوئی شارٹ مارچ ہمیں اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکتا۔ اگر کسی کے دل میں کوئی شک ہے تو دور کر لے۔ اللہ کے فضل و کرم اور پاکستانی قوم کے بھرپور اعتماد کے ساتھ ہم خدمت کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی کے حل کے لیے ستمبر کے اوائل سے جاری پارلیمان کا مشترکہ اجلاس گزشتہ جمعہ کو ختم ہو گیا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب حکومت دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان انتہا پسندی سے نکل کر مہذب جمہوری ریاست بن رہا ہے پارلیمان کے سامنے دھرنوں سے ملک کی ساکھ متاثر ہوئی۔ہم سب گزشتہ پانچ ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر کیا کچھ ہو رہا ہے؟ کس طرح کی اشتعال انگیز تقریریں کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو مشتعل کر کے بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ شیر خوار بچوں کو کفن پہنا کرجذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ خوبصورت سبزہ زاروں پر قبریں کھودی جا رہی ہیں۔ا ±ن کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کے کئی قائدین کو ضمانت دینے اور انتظامیہ سے تحریری عہد کے باجود مظاہرین اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہوئے۔قومی نشریاتی ادارے کا گلا گھونٹ کر انھوں نے اہل پاکستان اور پوری دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان لاقانونیت کے نرغے میں ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ تشدد اور لاقانونیت کا یہ کھیل، آزادی اور انقلاب کے نام پر کھیلا جاتا رہا۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔حکومت نے کھلے دل سے دونوں پارٹیوں کے بیشتر مطالبات مان لیے۔ ہائی کورٹ میں اِنٹرا کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلوں کا استحقاق رکھتے ہوئے بھی عوامی تحریک کی درخواست کے عین مطابق ایف آئی آر درج کرلی گئی میں نے شہباز شریف اور اپنا نام بھی ا ±س ایف آئی آر میں آنے دیا۔ لیکن دوسری طرف سے لچک کا کوئی مظاہرہ نہ ہوا۔ا ±نھوں نے کہا کہ حکومت کو مکمل یقین ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی۔ پاکستان اور دنیا بھر کے دوسو کے لگ بھگ مبصرین کی متفقہ رائے ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے منصفانہ اور شفاف انتخابات تھے جن کے نتائج دنیا کے معتبر ترین انتخابی جائزوں کے عین مطابق تھے۔انھوں نے کسی بھی ادارے کو معاف نہیں کیا۔ لاتعداد شخصیات پر الزامات لگائے۔ لیکن پوری قوم گواہ ہے کہ منظم دھاندلی کا کوئی ایک ،کوئی ایک، ثبوت سامنے نہیں لایا جا سکا۔ حالیہ دھرنوں کے باعث ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی رفتار میں کمی آئی ہے جب کہ ا ±ن کے بقول روپے کی قدر کی کمی اور سٹاک مارکیٹ میں بے یقینی کے سبب ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 600ارب روپے لگایا جا رہا ہے۔بیرونِ ملک سے آنے والے سربراہانِ مملکت اپنے دورے منسوخ کررہے ہیں۔ ہمارے دیر ینہ دوست چین کے صدر کے دورے کے التوا سے پوری قوم کو د ±کھ پہنچا ہے۔ مسئلہ صرف 35 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا نہیں، ا ±س گہرے رشتے کا ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان قائم ہے۔ کس قد ر افسوس کا مقام ہے کہ چینی صدر اِس خطے کے دورے پر ہوں اور پاکستانی قوم ان کی میزبانی سے محروم رہے۔وزیراعظم نے احتجاج کرنے والی جماعتوں سے کہا کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی کہا کہ وہ چاہتے ہیں پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کرنے والی جماعتوں سے بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دینے والی جماعتوں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قائدین وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات منوائے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ وہ شکر گزارہیںکہ مجھے اپنی معروضات پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس گذشتہ کئی دنوں سے موجودہ ملکی صورتحال پر بحث کر رہا ہے۔ پاکستان کے 18کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے والا یہ ایوان پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرتا رہا ہے کہ اس صورتحال کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیوں کر پاکستان کو دنیا بھر کی نگاہوں میں ایک تماشا بنا دیا گیاہے۔ اس دوران معزز ارکان نے معاملے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا۔ اپنی قیمتی آراءپیش کیں اور حکومت کی رہنمائی بھی کی۔ پارلیمنٹ کا یہ کردار ہماری جمہوری پارلیمانی تاریخ کا ایک سنہری وَرَق ہے۔ آنے والے کئی برسوں تک یہ کردار جمہوری قوتوں کے لئے مشعلِ راہ بنا رہے گا۔ پارلیمنٹ کے ایک ایک رُکن نے ایک اہم سیاسی مرحلے میں اپنا وزن آئین اور جمہوریت کے پلڑے میں ڈالا۔ میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ اورتمام پارلیمانی جماعتوںکے قائدین نے جماعتی سیاست کے تقاضوں سے بالا تر ہو کر آئین اور جمہوریت کا بھرپور ساتھ دیا اور آئین شکنی کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی۔ وکلائ، صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے دیگر طبقوں نے آئین اور قانون کی پاسداری کی۔ میڈیا جس کا بڑا حصہ آئین اور جمہوری نظام کی آوازبن کر اُبھرا اور جس نے انتشار پھیلانے والے عناصر کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ پاکستان کے باشعورعوام نے فتنہ و فساد اور انتشار پھیلانے والے عناصر کو مکمل طور پر مسترد کر کے جمہوری نظام کے ساتھ اپنی بھرپور یکجہتی کا مظاہر ہ کیا ۔ گزشتہ پانچ ہفتوں سے دےکھا جارہا ہے کہ اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر کیا کچھ ہو رہا ہے؟ کس طرح کی اشتعال انگیز تقریریں کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو مشتعل کر کے بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ شِےر خوار بچوں کو کفن پہناکرجذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ سپریم کور ٹ آف پاکستان نے ہدایت جاری کی کہ دھرنے دینے والے شاہراہ ِدستور خالی کردیں۔ اس ہدایت کو بھی پائوں تلے روند دیاگیا۔ پھر وکلاءکے ذریعے سپریم کورٹ کو تحریری ضمانت دی گئی کہ یہ شاہراہ ِدستور پر واقع کسی عمارت میں داخل نہیں ہوں گے۔ لیکن پوری قوم نے دیکھا کہ ُانہوں نے پارلیمنٹ ہائوس، ایوانِ صدر، وزیراعظم ہائوس پر کس طرح جارِحانہ یلغار کی۔ کئی دن یہ پارلیمنٹ ہائوس کے لان(Lawn) میں خیمے لگائے بیٹھے رہے ۔اٹھارہ کروڑ عوام کے حقِ حکمرانی کی یہ مقدس علامت ان کے نرغے میں رہی۔ یہ ہائوس کسی فرد ، کسی پارٹی یاکسی گروہ کا نہیں، یہ پاکستان کے وقار، جمہوریت کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کی علامت ہے۔ ِان علامتوں کی توہین، اٹھارہ کروڑ عوام کی توہین ہے ۔پھر آپ نے دیکھا کہ پی ٹی وی پر یلغار کر دی گئی۔ عملے پر تشدد کیا گیا۔ توڑ پھوڑ کی گئی۔ نیوز روم پر قبضہ کر لیا گیا۔ قیمتی سامان لُوٹ لیا گیا۔ نشریات بند کردی گئیں۔ قومی نشریاتی ادارے کا گلاگھونٹ کر انہوں نے اہلِ پاکستان اور پوری دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان لاقانونیت کے نرغے میں ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ تشدد اور لاقانونیت کا یہ کھیل، آزادی اور انقلاب کے نام پر کھیلا جاتارہا۔حکومت نے ہرطرح کی اشتعال انگیزی کے باوجود ہر مرحلے پر صبر و ضبط سے کام لیا۔ ھکومت یقین رکھتی ہے کہ بات چیت سے مسائل کا حل نکالنا ہی جمہوریت کی روح ہے۔ لہذا حکومت نے مارچ کرنے والی دونوں جماعتوں سے بات چیت کیلئے کمیٹیاں قائم کر دیں۔ حکومت کی درخواست پر قائد ِ حزبِ اختلاف سیدخورشید شاہ صاحب نے بھی حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی۔ تمام تر مشکلات اور انتہائی منفی روےے کے باوجود حکومت خلوصِ دل کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے رہی ہے۔ ادھر ہم نیک نیتی سے مذاکرات کی کوششیں کرتے رہے ادھر کفن پوش دستوں ، قبروں ، شہادت کے نعروں، آنسوئوں کی جگہ خون طلب کرنے، پارلیمنٹ کو قبرستان میں بدل ڈالنے،حساس عمارات پر قبضے کرنے اور پولیس پر منظم حملے کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔دھرنا دینے والوں کا خیال ہے کہ قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے لیکن ایسا نہیں۔ میںچند حقائق اعدادوشمار کے ساتھ خود دھرنا دینے والوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کل اُن کا موقف کیاتھا اور آج وہ کیا کہہ رہے ہیں۔11مئی2013ءکو انتخابات ہوئے۔ تحریک اِنصاف نے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں 241امیدوار کھڑے کئے۔ 27نشسوں پر اُنہیں کامیابی ملی۔ 55حلقوں میں اُن کے امیدواروں کی ضمانیتں ضبط ہو گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 55حلقوں میں PTIکے امیدوار 12.5%ووٹ بھی نہیں لے سکے۔ انتخابات کے ساٹھ دن بعد الیکشن کمیشن نے عذرداریوں کے لئے ٹریبونلز(tribunals) بنائے۔ ساٹھ دن تک پی ۔ٹی ۔آئی غور کرتی رہی۔ پوری قیادت سر جوڑ کر ایک ایک حلقے کا جائزہ لیتی رہی۔ دو ماہ کے غور و خوض کے بعد اُنہوں نے قومی اسمبلی کے صرف 30حلقوں کے بارے میں دھاندلی کی شکایت پر پٹیشنز (Petitions)دائر کیں۔ ان میں سے صرف 20نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) جیتی ہے۔ بالفرض یہ بیس نشستیں انہیں مل بھی جاتیںتو عملی طور پر کچھ فرق نہ پڑتا۔مسلم لیگ (ن ) پھر بھی وا ضح اکثریت کے ساتھ کامیاب قرار پاتی۔ ان سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ جب سارے انتخابی نتائج کا مکمل جائزہ لینے کے بعد آپ کو صرف 30حلقوں پر شک پڑا تو آج آپ 342کی پارلیمنٹ کو کس جواز پر گھر بھیجنا چاہتے ہیں۔ کس دلیل کی بنیاد پر 272سیٹوں کے انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔پھر 35پنکچرز کی پُر اسرار کہانی تراش لی گئی۔ کہا گیا کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نے ان 35حلقوں میں نتائج بدل ڈالے۔ جناب سپیکر حقیقت یہ ہے کہ ان 35حلقوں میں سے بھی صرف 15حلقے پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں ۔20کا تعلق باتی تین صوبوں سے ہے۔جن نام نہاد 35پینکچرز(punctures) کی بات کی جاتی ہے ان میں سے مسلم لیگ (ن) نے صرف 12میں کامیابی حاصل کی۔یہ ہے ان کی دیانت ، امانت اور سچائی کا حال جو تبدیلی لا نے اور ایک نیا پاکستان بنانے چلے ہیں ۔ میں یہ بھی یاد دلا دوں کہ نگران وزیراعظم اور چاروں نگران وزرائے اعلیٰ میں سے کوئی ایک بھی PML (N)کا تجویز کردہ نہیں تھا۔اور آج میں اس ہائوس کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ تقریباً چھ ماہ قبل میں اپنی کابینہ کے دو ارکان کے ساتھ بنی گالہ جناب عمران خان سے ملنے گیا جہاں اُن کی پارٹی کی ساری اعلیٰ قیادت موجود تھی۔ اِس ملاقات میں ملکی معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ خان صاحب نے بعض تجاویز بھی دیں۔لیکن اس ملاقات میں انہوں نے انتخابی دھاندلی، یا چار یا دس حلقوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ مجھے نہیں معلوم ان چھ ماہ کے دوران یکایک دھاندلی کا یہ غبار کیسے اُٹھا اور آج وہ اس نظام کو لپیٹ دینے کی خواہش لے کر شاہرادستور پہ کیوں آ بیٹھے ہیں؟۔مئی 2013ءکے انتخابات کی روشنی میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیںبھی وجود میں آئیں جو اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجودحکومت 10مئی کو انتخابی عمل کی جانچ پڑتال کیلئے سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان پر مشتمل ایک اعلیٰ کمیشن کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کر چکی ہے۔ اگر مسئلہ انتخابی اصلاحات ہیں تو پارلیمنٹ کی 33رکنی کمیٹی اپنا کام تیز رفتاری کے ساتھ شروع کر چکی ہے۔ ہم نے اس بارے میں بھی تحریک ِ انصاف کی تمام تجاویز مان لی ہیں۔ ہم تحریری طور پر کہہ چکے ہیں کہ اس کمیٹی کی متفقہ سفارشات کیلئے قانون سازی ہی نہیں، آئینی ترامیم کیلئے بھی تیار ہیں۔ایک ایسا کھیل بدستور جاری ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی کا سبب بن رہا ہے، جو ہماری بین الاقوامی ساکھ کو مجروح کررہا ہے۔ ہماری سٹاک ایکسچینج جو تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی تھی، بے یقینی کا شکار ہو گئی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو رہی ہے جو گزشتہ چھ ماہ سے مستحکم چلی آ رہی تھی۔ ہماری برآمدات کیلئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی رفتار میں کمی آ گئی ہے۔ روپے کی قدر کی کمی اور سٹاک مارکیٹ میں بے یقینی کے سبب ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 600ارب روپے لگایا جا رہا ہے۔ موڈیز اور دوسرے بین الاقوامی ادارے معیشت کو مثبت ریٹنگ دینے کے بعد اب منفی قرار دےنے کے بارے میں سو چ رہے ہیں۔ تعمیر و ترقی کے منصوبوں میں خلل پڑ رہا ہے۔ بیرونِ ملک سے آنے والے سربراہانِ مملکت اپنے دورے منسوخ کررہے ہیں۔ ہمارے دیر ینہ دوست چین کے صدر کے دورے کے التواءسے پوری قوم کو دُکھ پہنچاہے۔ مسئلہ صرف 35ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا نہیں، اُس گہرے رشتے کا ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان قائم ہے۔ کس قد ر افسوس کا مقام ہے کہ چینی صدر اِس خطے کے دورے پر ہوں اور پاکستانی قوم ان کی میزبانی سے محروم رہے۔آج چین کے صدر بھارت میں ہیں جنہیں پاکستان کے دورے کے بعدوہا ں جانا تھا ۔وہا ں پر وہ اربوں ڈالر زکی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کررہے ہیں۔ اسلام آباد کی ڈیڑھ فرلانگ سڑک پر بیٹھے چند ہزارلوگ دنیا بھر میں پاکستان کا ایسا چہرہ پیش کر رہے ہےںجو کسی بھی پاکستانی کیلئے باعثِ فخر نہیں۔ ان لوگوں کو ایک نہ ایک دن عوام کی عدالت میں پیش ہو کر اپنے اس وطن دشمن روّیے کا حساب دینا پڑے گا۔ اس کھیل کیلئے ایسا وقت چناگیا جب مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہےں۔ جن مناظر کے خلاف ہمارے بہادر فوجی افسر اور جوان قربانیاں دے رہے ہیں، وہ مناظر ان لوگوں نے اسلام آباد کی شاہراہ ِ دستور پر لا بٹھائے ہیں۔ اس وقت جب کہ میڈیا کی پوری توجہ
آپریشن ضربِ عضب کے جانبازوں اور بے گھر ہو جانے والے لاکھوں افراد پر مرکوز ہونی چاہیئے تھی، شاہراہ دستور کا کھیل ٹی وی اسکرین پر چھایا رہا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں شدید بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ ہونے والے لاکھوں ہم وطنوں کے دُکھ بھی ان کے دلوں کو موم نہیں کر سکے۔ میں اس موقع پر پوری قوم اور پارلیمنٹ کی طرف سے مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں ، سول انتظامیہ ، پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کے اہل کارو ں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جو سیلاب کے متاثرین کی بھرپور امداد میں مصروف ہیں۔شاہراہ ِ دستور پر دھرنا دےنے والو ں کو بتانا چاہیے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں کےوں پاکستان کو تماشا بنایا جا رہا ہے ؟ کےوں 18 کروڑ عوام کی تقدےر سے کھےلا جارہا ہے ؟ شاندار مستقبل کی نوےد دےنے کے بجائے کیو ں زندہ بچو ں کو کفن پہنائے جا رہے ہےں؟ کےوں شاہراہےں، درسگاہےں، بندرگاہےں اور ڈےم بنانے کے بجائے قبرےں کھودی جا رہی ہےں؟ کےوں نوجوانوں کے ہاتھوں مےں قلم، کتابوں اور لیپ ٹاپس کے بجائے ڈنڈے، ہتھوڑے، کٹرز اور کلہاڑےاں تھما ئی جا رہی ہےں؟ کےوں جمہوری روےوں اور سےاسی اخلاقےات کی دھجیا ں بکھیری جا رہی ہیں ؟ کےوں سول نافرمانی جےسی کالز دے کر پاکستان کو غربت، بے روزگاری اور بدحالی کی دلدل مےں دھکےلا جا رہا ہے؟ پاکستان اور اس کے عوام سے کس بات کا انتقام لیا جا رہا ہے؟ کیوں اورسیز پاکستانیوں کو تلقین کی جارہی ہے کہ وہ ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجیں؟ کیوں ٹیکس اور بل نہ ادا کرنے کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔آئےنی و جمہوری رواےات کو پامال کرنے والوں کے منہ سے قائد اعظم کا نام سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ قائد اعظم نے تو اےسا طرزِ عمل سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک چلاتے ہوئے بھی اختیار نہیں کیا تھا۔میں انہیں قائد اعظم کی تقریر کا ایک حصہ یاد دلانا چاہتا ہوں۔ 28مارچ1948کو ڈھاکہ سے ریڈیو پاکستان پر اپنی ایک نشری تقریر کے دوران قائد اعظم نے جو کچھ کہا، وہ شاہراہ دستور پر بیٹھے ہوئے جتھوں کیلئے لمحہِ فکریہ ہونا چاہیئے۔ آپ بھی غور سے سنیں۔ یوں لگتا ہے جیسے قائد اعظم شاہراہِ دستورکے ڈی چوک پر کھڑے ہو کر ےہ بات کہہ رہے ہیں ۔ قائد نے فرمایا: ©”یہ درست ہے کہ غیر ملکی غلبے سے نجات کے بعد عوام خود اپنی تقدیر کے مالک بن گئے ہیں۔ انہیں اس بات کی مکمل آزادی ہے کہ آئینی ذرائع سے اپنی پسند کی حکومت قائم کریں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی گروہ غیر قانونی ہتھکنڈوں سے عوام کی منتخب حکومت پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ حکومت اور اس کی حکمتِ عملی کو اسمبلی کے منتخب نمائندوں کے ووٹوں کے ذریعے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی حکومت لمحہ بھر کیلئے بھی بے لگام اور غیر ذمہ دار لوگوں کی طرف سے اس طرح کی غنڈہ گردی اور ہنگامہ آرائی برداشت نہیں کرتی”۔لیکن جناب اسپیکر ! ہم یہ سب کچھ برداشت کررہے ہیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ فتنا و فساد پرآمادہ ان عناصر کو اپنے مقاصد کے لئے کوئی بہانہ ملے ۔میں واضح کر دوں کہ مجھے کرسی یا اقتدار کا لالچ نہیں۔ میں نے یہ ذمہ داری اللہ کی امانت سمجھ کر عوام کے مینڈیٹ کی بنیاد پر سنبھالی ہے۔ انشااللہ کوئی کھیل تماشہ، کوئی فتنہ و فساد ، کوئی ہنگامہ آرائی ، کوئی لانگ مارچ یا کوئی شارٹ مارچ ہمیں اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکتا۔ اگر کسی کے دل میں کوئی شک ہے تو دور کر لے ۔ اللہ کے فضل و کرم اور پاکستانی قوم کے بھرپور اعتماد کے ساتھ ہم خدمت کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔ میں نے اپنی گزشتہ تقریر میں بھی کہا تھا اور آج پھر کہہ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز کو ایسا جنگل نہیں بننے دےں گے جہاں “جس کی لاٹھی، اس کی بھینس” کا قانون چلے۔ آئین ، قانون،نظام عدل و انصاف اور مضبوط ادارے رکھنے والی کوئی ریاست اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مٹھی بھر افراد پارلےمنٹ کا گھےرائو کرکے حکومت ےا وزےراعظم کو گھر بھےج دےں۔ ہم ےہ روایت نہیں پڑنے دےں گے کہ صدیوں پہلے کی طرح آج بھی چھوٹے بڑے لشکر حکومتیں الٹتے پلٹتے رہیں۔ ہم بڑی جدوجہد اور قربانےوں کے بعد آئےن کی بالادستی اور جمہورےت کی حکمرانی کی اس منزل تک پہنچے ہےں۔ کسی کو جمہوریت پر کلہاڑا نہیں چلانے دیں گے۔ آئین کے تحت حکمرانی کا حق پاکستان کے عوام کو حاصل ہے جس کا اظہار وہ ووٹ کی پرچی سے کرتے ہیں۔ ہم ووٹ کے تقدس ،کمزوریوں سے پاک انتخابی نظام، جمہوریت کے استحکام ،عوام کی حکمرانی اور پاکستان کے وقارکے لئے آخری حدوں تک جائیں گے۔ اس پارلیمنٹ کا ہر رُکن اس قومی مشن میں اپنا کردار ادا کرے گا لیکن یہ نہیں ہونے دیں گے کہ کوئی گروہ قوم و ملک کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اکیسویں صدی کے پاکستان میں صرف آئین کی حکمرانی ہوگی اور ہر راستہ آئین و قانون ہی سے نکلے گا۔پاکستان کے آئین سے کھیلنے ، تشدد اور لاقانونیت کا مظاہرہ کرنے ، قومی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے اور وطن عزیز کی ساکھ کو ساری دنیا میں مجروح کرنے والے یہ عناصر اپنے طرزِعمل پر نظر ثانی کریں۔ انتشار ار افراتفری کا یہ راستہ ترک کردیں۔ حکومت نے گذشتہ 5ہفتوں کے دوران انتہائی صبر وتحمل سے کام لیا ہے۔ شاہراہ دستور کے تقدس کو بحال کر نانہ کل مشکل تھا نہ آج مشکل ہے لیکن ہمیں اُن مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور معصوم بچوں کا درد ہے جنہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم نے صبر و تحمل کے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، اُسے نہیں چھوڑنا چاہتے ۔تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین بھی اس پر متفق ہیں لیکن دھرنے دینے والے بھی لمحہ بھر کے لئے ضرور سوچیں کہ پاکستان کو شاہراہ ِدستور کے اس کھیل کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔آخر میں ،میں ایک بار پھر پارلیمنٹ ، معاشرے کے تمام طبقوں اور عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس اہم مرحلے میں ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ اس کردار نے جمہوری نظام کو مستحکم کیا اور جمہوری قوتوں کو نیا حوصلہ دیا ہے۔ انشاءاللہ آئین کی حکمرانی ، قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی کارفرمائی کا یہ سفر جاری رہے گا۔ہم کسی قیمت پر بھی عوام کی ترقی و خوشحالی کے ایجنڈے اور پاکستا ن کی عزت و وقار کو فتنہ و فساد کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان کے مزدور ،کسان ، محنت کش اورباہمت نوجوان برسو ں سے اپنی آ نکھو ں میںمستقبل کے جو خواب لئے بےٹھے ہیںاُن کی تعبیر کا وقت آ گیا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ترقی و خوشحالی کی راہیں روک دی جائیں اور محرومی کے اندھیرو ں میں بھٹکتے لو گ تعلیم ، صحت اور صاف پانی جیسی سہولتوں کو تر ستے رہیں ۔انہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ آ ئے اور غربت و پس ماندگی کے اندھیرے ان کا مقدر بنے رہیں ۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ جب بھی تعمیر و تر قی کا سفر شروع ہوا اور ایک نئی صبح کی رو شنی دکھائی دےنے لگی ۔ کچھ لوگ انتشار کا ایجنڈا لے کر سڑکو ں پہ آ گئے ۔انشاءاللہ اب یہ روایت ہمیشہ کے لئے دفن ہوجائے گی۔مجھے یقین ہے کہ پاکستان اپنے مسائل پر قابو پا کر دنیا کی اقوام میں ایک سر بلند ملک کے طور پر کھڑا ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ ہم اس صلاحیت کو ہنگامو ں کی آگ کا ایندھن نہیں بننے دیں گے ۔ میں اللہ کے فضل و کرم سے اپنے آ ئینی حلف کی پاسداری کرتے ہوئے اٹھارہ کروڑ عوام اور اس پارلیمنٹ کے اعتماد کا پرچم کبھی نہیں جھکنے دوں گا۔اے پی ایس