شا ہراہ دستور سے ۔۔۔۔آئین شکن کون؟۔چودھری احسن پریمی



متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اپنی پارٹی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے استعفے ڈپٹی کنوینر کے پاس جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی میں منتخب اراکین کی تعداد 35 جب کہ سندھ اسمبلی میں 51 ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اراکین نے نائن زیرو پہنچ کر اپنے استعفے جمع کرانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔جبکہ اپوزیشن کی جانب سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی سربراہی میں قائم کئے گئے جرگے سے ملاقات کے بعد پاکستان عوامی تحریک ڈیڈ لاک ختم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔عوامی تحریک کی کمیٹی جرگے کی موجودگی میں حکومتی ٹیم سے مذاکرات کرے گی۔خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے لیکن عوامی تحریک سیاسی نہیں، شاہ محمود قریشی کی تقریر سے باہر بیٹھی جماعتوں میں دراڑ پڑ گئی ہے۔قائد حزب اختلاف نے مولانا فضل الرحمان، خواجہ آصف اور دیگر سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تحمل سے کام لیں، ابھی بھی سازش ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مولاناصاحب! میاں صاحب کے دوست بنیں، مشکلات نہ بڑھائیں اور خواجہ آصف صاحب جذبات سے کام نہ لیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ شاہ محمودقریشی عوامی تحریک پر فرد جرم عائد کر کے چلے گئے، شاہ محمودقریشی نے پارلیمنٹ پر حملے میں عوامی تحریک کو ذمہ دار ٹھہرایا۔انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کا اعتراف پارلیمنٹ کی فتح ہے، یہ وزیر اعظم کی نہیں پارلیمنٹ کی فتح ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے کہا ہے کہ آج یہ پارلیمنٹ جیت گئی ہے، اسپیکر صاحب ہم آپ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کر سکتے، آپ نے جو فیصلہ کیا وہ پارلیمنٹ کے وقار اور جمہوریت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔اس موقع پر انہوں نے فضل الرحمان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ نے جاوید ہاشمی کا استقبال کیوں کیا، دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اگر جاوید ہاشمی کو بولنے کی اجازت ملی ہے تو آج شاہ محمود قریشی کو بھی ملنی چاہیے تھی، ہم معاملات کے حل کی طرف جا رہے ہیں۔اسپیکر ایاز صادق نے اپنی بات کلیئر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس آج حکومت اور اپوزیشن سے کچھ سینئر رہنما آئے جنھوں نے شاہ محمود قریشی کو بات کرنے کی اجازت دینے کی درخواست کی۔انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ پر حملے کی ایف آئی آر درج کرادی گئی ہے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کی جانب سے استعفے دیئے جانے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ جماعتیں پارلیمنٹ کو ہلانے کے لیے استعفے دیتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ جن ارکان سے جبری استعفے لئے گئے ان کی تحقیقات کی جائے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے صاحبزادہ طارق اللہ نے حکومت سے سوال کیا کہ کہ دھرنے والوں کو لاہور سے آنے ہی کیوں دیا گیا؟۔انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بے حرمتی کی ذمہ دارحکومت بھی ہے اور دھرنے دینے والے آئین شکن ہیں۔جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ڈھونگ ہے اور ایم کیو ایم کوئی رکن ایسی اسمبلیوں کا حصہ نہیں رہ سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ غریبوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور ایسی پارلیمنٹ لوگوں کے مسائل حل نہیں کرسکتی۔انہوں نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کو طرزعمل ٹھیک کرنے کیلئے ایک ہفتہ دوں گا اور اگر طرز عمل ٹھیک نہ ہوا تو استعفیٰ دے دیں گے۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالنبی بنگش نے شاہ محمود قریشی کو اظہار خیال کی اجازت دینے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کو چاہیے تھا کہ وہ ان سے استعفوں پر پہلے بات کرتے۔انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کے اراکین مستعفی ہو گئے ہیں تو انہیں ایوان میں تقریر کی اجازت نہیں ملنی چاہیے تھی کیونکہ وہ اس کے ممبر نہیں ہیں۔عبدالنبی بنگش نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف کی حمایت میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف مسلم لیگ (ن) کے صدر نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے صدر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کارکنوں کو چھوڑ کر خود بنی گالا میں عیاشی کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تاہم اراکین نے شور مچا کر انھیں بولنے نہ دیا۔تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی تقریر ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف ایوان میں واپس آ گئے جہاں وہ تقریر شروع ہونے سے پہلے ایوان سے چلے گئے تھے۔محمود خان اچکزئی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے محض کہنے کی حدتک کہا ہے کہ پارلیمنٹ پرحملہ غیرآئینی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اورپی ٹی وی پر حملے کے خلاف ایوان میں قراردادلائی جائے۔پارلیمٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران شاہ محمود قریشی کی تقریر ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے اراکین ایوان سے چلے گئے، جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے شاہ محمود قریشی کو استعفوں کے معاملے پر اپنے چیمبر میں طلب کیا تھا۔تحریک انصاف کے اراکین کے پارلیمنٹ سے جانے پر حکومتی اراکین کی جانب سے شدید شور اورغصے کا اظہار دیکھنے میں آیااور بعض اراکین نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین استعفے دیے بغیر ہی ایوان سے چلے گئے ہیں۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اراکین کی جانب سے شور اور مداخلت کی جارہی تھی۔شاہ محمود قریشی نے ایوان میں شور پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ جمہوریت کا دفاع کرنے والے بے صبرے ہورہے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا گیارہ مئی کے انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں نے انگلیاں نہیں اٹھائیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام اس الیکشن کو مسترد کرچکے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ریڈ زون میں آنے کا ڈر تھا کہ کہیں حالات کشیدہ نہ ہوجائیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اسلام آباد میں دھرنا کیا دیا، دارالحکومت غزہ بن گیا۔ان کا کہنا تھا آنے سے قبل ہم نے کارکنوں سے یہ حلف لیا تھا کہ کوئی بھی سرکاری عمارت میں داخل نہیں ہوگا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت پرامن ہے، پارلیمنٹ پر حملہ کیسے کرسکتی ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوامی تحریک نے بھی پرامن جمہوری جدوجہد کا یقین دلایا۔ اسلام آباد آنے دیا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں، لیکن لاشیں پر کس کا شکریہ ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ آج اپنی سفارشات کے پیپر اپوزیشن کے جرگے میں پیش کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن پاکستان کی خوشحالی پر کوئی اختلاف نہیں۔شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اراکین کی جانب سے مداخلت پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کھڑے ہو کر ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہ جو بول رہے ہیں، انھیں سنا جائے۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایوان کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے۔پارلیمانی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے مارشل لاءلگانے کی کوشش کی گئی تو ہم بھی مذمت کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم آج گھر کو جلانے نہیں، بلکہ بچانے کے لیے آئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے فلور پر کہتا ہوں کہ دھرنا عوام کے اشارے پر دیا۔تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایوان میں موجود نہیں تھے۔پارلیمنٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی جماعت جمہوریت کے خلاف ہے نہ ہی ہوگی۔مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں عمران خان کی ٹیم کا حصہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ کل انہوں نے بہت سے لوگوں کو سنا، لیکن وہ ایوان کا ماحول خراب کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بحران اگر حل نہ ہوا تو تاریخ ہمیں ذمہ دار ٹہرائے گی۔پارلیمنٹ میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کے مو ¿قف کا اعادہ کیا کہ گیارہ مئی کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوتی تھی۔ وہ آج ایوان میں اپنی جماعت کی نمائندہ کرنے کے لیے آئے ہیں، تاکہ ہم اپنا مو ¿قف پیش کرسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرے اراکین کی طرح ہمیں بھی یہ ایوان عزیز ہے۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو جلتی پر تیل ڈال رہا ہے اور ایک معاملات کو بہتری کی جانب لے جانا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میری سیاسی تربیت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا ایک بڑا حصہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ آج اس لیے اس ایوان میں آئے ہیں کہ انہیں نے گزشتہ روز اراکین کے درد کو سنا۔ پی ٹی آئی کسی کو بھی جمہوریت کے خلاف اقدمات نہیں کرنے دے گی۔جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے اسلام آباد کے ریڈزون میں دھرنا ختم کرنے سے متعلق خبروں کی تردید کردی ہے۔دھرنے کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو جاسکتا ہے،لیکن میں یہاں بیٹھا ہوں اور اپنے کارکنوں کے لیے جان تک دینے کے لیے تیار ہوں۔طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جاگیردار اور سرمایہ کار نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت زیادہ طاقت دی ہے اور میں فولادی جسم کا مالک ہوں۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے پارلیمنٹ ہاو ¿س کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور دونوں فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہوگیا ہے اور قوم بہت جلد خوشخبری سننے گی۔انہوں نے کہا کہ مثالثی جرگہ آج کسی وقت بھی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کرے گا۔شیر پاو ¾ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف میں جمہوریت موجود ہی نہیں ہے اور عمران خان کو چاہیے کہ وہ پہلے اسمبلی کے رکن بنتے اور اس کے بعد وزیراعظم کے استعفے کی بات کریں۔تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کو چاہیے کہ وہ وزیراعظم کے استعفیٰ کا خیال اپنے ذہنوں سے نکال دیں۔آفتاب خان شیر پاو ¿ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس ڈرامے میں جو اسکرپٹ ہے وہ پرانے پاکستان کے کسی شخص نے لکھا تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ آج بھی ہم نوے کے دور کے پاکستان میں اور دھاندلی کے الزامات لگا کر وزیراعظم کو استعفے پر مجبور کریں گے، لیکن آج ہم متحد ہیں۔اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آفتاب خان شیر پاو ¿ کا کہنا تھا کہ صوبہ خیبر پختنونخوا ڈھائی ہفتے سے حکومت کے بغیر چل رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے جن اراکین نے استعفے پیش نہیں کیے، میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ریاست کے ٹی وی چینل کی عمارت پر حملہ کرکے کیا تاثر دینے کی کوشش کی گئی۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج تک کسی سیاسی جماعت نے پی ٹی وی پر حملہ نہیں کیا۔آفتاب شیر پاو ¿ نے کہا کہ وزیراعظم آج بھی اپنے عہدے پر ہیں اور مزید چار سال بھی قائم رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ عدلیہ پر عدم عتماد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ وزیراعظم سے کہتے ہیں کہ وہ دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئے، لیکن ثبوت پیش نہیں کرتے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آفتاب خان شیرپاو ¿ نے کہا ہے ہے کہ یہ پارلیمنٹ کا تقدس ہے کہ ان حالات میں جب تمام راستے بند ہیں، لیکن تمام اراکین پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ آج بھی تمام اراکینِ پارلیمنٹ جمہوریت کے لیے متحد ہیں۔ ہم حکومت میں نہیں ہیں، لیکن اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے تاکہ ملک کو اس سیاسی بحران سے باہر نکالا جائے۔سینیٹر حاصل بزنجو نے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا طاہر القادری اپنے کارکنوں کو کفن پہننے اور قبریں کھودنے کا کہتے ہیں، کیا وہ پارلیمنٹ کو قبرستان بنانا چاہتے ہیں۔ قبریں بنانےوالوں کی سیاست کو ہم پارلیمنٹ کےااندردفن کریں گے۔حاصل بزنجو نے کہا کہ اگر نواز شریف کو نہیں مانتے تو نہ مانیں، میں بھی نہیں مانتا، لیکن اخلاق کا ایک دائرہ ہوتا ہو اور سیاسی اخلاقیات کے بغیر سیاست نہیں ہوتی۔انھوں نے کہا کہ سیاسی اخلاقیات کا پہلا اصول یہ ہے کہ سیاسی مخالف کی ذاتی کردار کشی نہیں کی جانی چاہیے۔حاصل بزنجو نے عمران خان اور طاہر القادری کی جانب سے وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکالنے کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس بیان کے بعد پاکستان کی سیاسی جماعتیں آپ کا ساتھ نہیں دیں گی۔سیاست میں گالم گلوچ نہیں ہوتی بلکہ بات چیت ہوتی ہے۔انھوں نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قائدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ صبر وتحمل سے کام لیں ، یہ ملک جتنا میاں محمد نواز شریف کا ہے، اتنا ہی آپ کا اور ہر پاکستانی کا ہے۔آخر میں حاصل بزنجو نے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئیں اکٹھے ہو کر پاکستان کوغربت، جہالت اور بیروزگاری سے نکالیں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔یہ ہمارا جمہوری رویہ ہے کہ مظاہرین کو یہاں آنے دیا۔سینیٹر حاصل بزنجو نے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اتنا آرام دہ لانگ مارچ کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا تھا کہ کہیں لانگ مارچ ناشتہ کر رہا ہے، کہیں لنچ کر رہا ہے اور کہیں ڈنر۔۔۔۔ یہ لانگ مارچ نہیں ہوتا۔انھوں نے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان بہت بڑی مشکل میں پھنس گیا ہے، لیکن ہم کسی مشکل میں نہیں ہیں۔حاصل بزنجو نے کہا کہ پولیٹکس پولیٹیکل پارٹیز کےساتھ ہوتی ہے۔پارلیمنٹ جلانے کے بعد پولیٹیکل پارٹیز اکٹھی ہوتی ہیں، لیکن آج جبکہ پارلیمنٹ کو چیلنج کیا گیا ہے تو تمام پولیٹیکل پارٹیز دائیں بائیں اس کی حفاظت کے لیے کھڑی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آئین کوچیلنج کرنےوالوں کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔انھوں نے طاہر القادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاو ¿ن کو بہانہ بنا کر پارلیمنٹ پر چڑھائی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔آئین کسی فرد یا قومی اسمبلی کا نہیں ہوتا، آئین ریاست کا ہوتا ہے اور آئین کی مخالفت کامطلب ہے پاکستان کی مخالفت۔حاصل بزنجو نے کہا کہ برطانیہ کے آئین کوہاتھ تولگائیں عوام آپ کے ٹکڑےکردیں گے، لیکن یہاں کھلے عام دھرنوں اور جلسوں میں کہا جا تا ہے کہ ہم اس ناجائز پارلیمنٹ کو نہیں مانتے۔اے این پی کے رہنما نے کہا ہے کہ وزیراعظم کسی صورت استعفیٰ نہیں دیں گے اور پارلیمنٹ نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا استعفیٰ پارلیمنٹ کے ایوان کی توہین ہوگی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے زاہد خان نے کہا ہے کہ کے پی میں تحریکِ انصاف کی حکومت الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن سے بنی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں انتخابی نتائج جمہوریت کے لیے تسلیم کیے۔ان کا کہنا ہے ملک میں اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور اسٹیبلیشمنٹ نے اس کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوسرے دن اظہارِ خیال کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماءزاہد خان نے کہا ہے کہ امید ہے کہ پارلیمنٹ کے اس اجلاس کا ثمر سامنے آئے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پوری قوم دھرنے میں الجھی ہوئی ہے اور میڈیا ان آئی ڈی پیز کو بھول گیا ہے جو آپریشن ضربِ عضب سے متاثر ہوکر نقلِ مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ شیخ رشید احمد نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 31سال سے ملک میں شریف خاندان کی بادشاہی ہے اور انھوں نے ہمیں یرغمال بنایا ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امپائرکی انگلی سفید کوٹ میں ہے اور بس آخری5 اوورزکا میچ باقی ہے۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اس دھرنے میں مڈل کلاس لوگ شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 16 ماہ ضائع کر دیئے اور آنے والے دنوں میں الطاف حسین اورآصف زرداری اچھافیصلہ کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ میں جب اسکول میں تھا تو نور خان رپورٹ کا حصہ تھا، محمود الرحمان کمیشن اور میمو گیٹ کی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی۔ان کا کہنا تھا کہ ایکسپریس ٹرین مسافروں کا انتظار نہیں کرتی۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اٹھارہویں ترمین کو منظور کرکے اس کے ذریعے وزیراعظم کو پارلیمنٹ کا جوابدہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کریک ڈاو ¿ن کے لیے پارلیمنٹ کا کنڈھا استعمال کرنا چاہتی ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں الطاف حسین اور آصف علی زرداری اچھا فیصلہ کریں گے۔دوسری جانب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے اراکین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو اسلام آباد انتظامیہ نے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے ساتھ مذاکرات کے بعد پارلیمنٹ ہاو ¿س کے سامنے پارکنگ ایریا کو کلیئر کروالیا ۔پارلیمنٹ کا مشترکہ دوسرے دن بھی جاری رہا جس میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمد قریشی کے علاوہ دیگر اراکین نے بھی شرکت کی۔خیال رہے کہ گزشتہ روز اجلاس کے پہلے دن تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ مذاکرات کرکے وقت ضائع کیا جارہا ہے اور پاک فوج کو چاہیے کہ وہ اب عملی اقدامات اٹھائے۔انہوں نے صدر ممنون حسین سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کریں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاو ¿س کے سامنے دنیا میں بھی مظاہرے ہوتے ہیں اور یہ عوام کا جمہوری حق ہے۔اس موقع پر الطاف حسین نے مذاکرات میں جرگہ سسٹم پر شدید تنقید بھی کی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ سفر جہاں سے رکا تھا وہیں سے دوبارہ شروع ہوا ہے، مذاکرات میں شامل لوگ بہت تجربہ کار ہیں، جب تک حل نہیں نکلے گا مذاکرات جاری رہیں گے۔پیپلزپارٹی کے رہنماءرحمان ملک نے کہا کہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے وزیراعظم نواز شریف تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے گرفتار کیے جانے والے تمام کارکنوں کو رہا کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالیں، حکومت آگاہ رہے کہ تحریک انصاف کے مذاکرات پر رضامندی اس کی کمزوری نہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ میچ پہلے ذہن میں ہارا جاتا ہے اور پھر میدان میں ہارا جاتا ہے، نواز شریف نے خوف کے زیراثر فیصلے کرنا شروع کردیئے ہیں۔اسلام آباد میں دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے اسمبلی میں جھوٹ بولا، کون سا لیڈر پرامن جلسے پر فائرنگ کراتا ہے جس سے چودہ افراد شہید اور 45 زخمی ہوگئے۔عمران خان نے کہا کہ میرے خلاف بغاوت اور دہشتگردی کا پرچہ کٹوایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ تحریک انصاف کے تمام منتخب اراکین کو اسلام آباد میں دیکھنا چاہتے ہیں اور انہیں گرفتاری یا کسی اور چیز کے ڈر کو ذہن سے نکال کر ہرصورت میں یہاں پہنچنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو کرسی جاتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے اس لیے وہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ ملک تباہ ہوجائے مگر کرسی نہ جائے۔جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا ہے کہ ہم چاہیں گے دونوں فریقین جوش کے ساتھ ہوش میں بھی ڈیڈلاک ختم کریں۔طاہر القادری سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی طرف سے نہیں، عوام کی طرف سے مذاکرات کیلئے آئے۔انہوں نے کہا کہ عوام اس وقت بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہیں اس لیے آج عمران خان اور طاہر القادری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔سراج الحق نے کہا کہ ہم نے حکومت کو کنٹینر ہٹانے اور عوام کو احتجاج کا حق دینے پر مجبور کیا جبکہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔سابق وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رحمان ملک نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ ان کی ملاقات مثبت رہی، جلد خوشخبری ملے گی۔جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے ہمراہ طاہر القادری سے ان کے کنٹینر میں ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ جہاں سے ڈیڈلاک ٹوٹا تھا، بات چیت کا دور وہیں سے شروع ہوگا جبکہ ان کی خواہش ہے کہ معاملہ جلد حل ہوجائے۔ وہ طاہرالقادری کے پاس دوستی اور محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ مظاہرین کو روکنے کے لیے کراچی سے نئے آئی جی کو بلوایا گیا ہے۔انہوں نے نئے آئی جی کو مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرنے پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر مظاہرین کو کچھ ہوا تو وہ نہیں بچ سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آدھی آبادی 25 سال سے کم ہے، نوجوان نئے پاکستان کا فیصلہ کر بیٹھے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ نواز شریف صرف جسمانی قوت پر لڑرہے ہیں، اخلاقی قوت ان کے پاس نہیں ہے۔عمران خان نے کہا کہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ انہیں پتہ ہے کہ وہ وہاں سے جیتیں گے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو پتہ ہے کہ وہ ہاریں گے، اسی وجہ سے وہ الیکشن کروانے کے لیے رضامند نہیں ہورہے۔عمران خان نے کہا کہ سن 2000 میں مشرف نے شریف فیملی کے خلاف ایک کیس نکالا لیکن بعد میں ملک سے باہر جانے پر مک مکا کرلیا۔کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منی لونڈرنگ کرکے پیسہ انگلینڈ بھجوایا گیا جبکہ اسحاق ڈار نے ایفی ڈیوڈ میں فرضی اکاو ¿نٹس کا انکشاف کیا۔انہوں نے کہا کہ ان اکاو ¿نٹس میں تین ارب روپے منتقل کیے گئے جس پر نواز شریف کا احتساب ہونا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی جاکر تمام الزامات کا جواب دیں گے۔عمران خان نے کہا کہ انہیں پی ٹی آئی رہنما جاوید ہاشمی کی باتوں پر تکلیف ہوئی، ان سے زیادہ کسی سیاست دان کی عزت نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ میں نے شاہ محمود قریشی سے کہاکہ پوری ٹیم پارلیمنٹ لے جاو ¿ اور جواب دو۔عمران خان نے کہا کہ میں کسی کے اشاروں پر نہیں چلتا جبکہ مشرف کی حمایت اس لیے کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ کرپشن ختم کریں گے۔ مجھے ہر دور میں وزارتوں کی آفر ہوئی شوق ہوتا توقبول کرلیتا۔عمران خان نے کہا کہ جس طرح دھرنے کے مظاہرین پر تشدد کیا گیا اس طرح تو فوجی آمروں پرویز مشرف اور ضیاءالحق کے زمانے میں بھی نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کا تشدد اسرائیل کرتا ہے لیکن وہ بھی اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف ایسا نہیں کرتا۔ان کے مطابق کسی جمہوریت میں پر امن مظاہرین پر ایسا تشدد نہیں کیا جاتا۔عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے انتخابات کے صرف 15 فیصد نتائج کے اعلان کے بعد ہی اپنی جیت کا اعلان کردیا تھا۔انہوں نے کہا کہ میچ ختم ہونے سے پہلے اگر کسی کو نتیجہ پتہ چل جائے تو اسے میچ فکسنگ کہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میاں صاحب ہماری تحقیقات کے مطابق آپ خود دھاندلی میں شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب نواز شریف خود دھاندلی میں ملوث ہیں تو ان کے ہوتے شفاف تحقیقات کیسے ہوگی۔عمران خان نے کہا ہے کہ گزشتہ سال کے عام انتخابات کے دوران عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا تاہم اس کی تحقیقات نہیں کروائیں گئیں۔انہوں نے کہا کہ جعلی بیلٹ پیپرز کے باعث ن لیگ کے ووٹ 68 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ انکوائری نہ کرواکر ن لیگ نے خود کو فراڈ ثابت کردیا۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ صاف و شفاف الیکشن بنیادی چیز ہے، اسی پر پارلیمنٹ بنتی ہے۔منگل کو دھرنے کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں اسمبلی سے پوچھتا ہوں، آپ کیسے بیٹھ گئے جب اتنے ووٹوں کی شناخت نہیں ہوسکتی۔ان کے مطابق تمام جماعتوں نے کہاکہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے جبکہ چوہدری نثار نے اسمبلی میں کہا کہ 60 سے 70 ہزار ووٹوں کی شناخت نہیں ہوسکتی۔عمران خان نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ میں نے بہت قریب سے جمہوریت کو کام کرتے دیکھا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ عوام اپنا نمائندہ منتخب کرے۔پاکستان عوام تحریک کے سربراہ نے جاوید ہاشمی کو وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کے حوالے سے کہی گئی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہاشمی صاحب اور میری آج تک اس موضوع پر بات نہیں ہوئی۔میں کون ہوتا ہوں کسی کو وزیر اعظم بنانے والا’۔جاوید ہاشمی نے منگل کو اسمبلی کے فلور پر تقریر میں کہا تھا کہ طاہر القادری نے انہیں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی تاہم انہوں نے اس پر معذرت کر لی تھی۔قادری نے اپنے خطاب کے اختتام کرتے ہوئے ماڈل ٹاو ¿ن واقعے کی ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے پر شرکا کو مبارکباد پیش کی۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ وہ شریف برادارن کے استعفوں کے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ان کا صرف چار حلقوں میں تحقیقات کا مطالبہ تھا لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی، اب انسانوں کا سمندر دیکھ کر جوڈیشل کمیشن بنانے تیار ہیں۔طاہر القادری نے مزید کہا کہ تمام بڑی جماعتوں نے ہاتھ تھامے ہوئے ہیں اور پھر عمران خان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھی ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ آپ نے ہاتھ ہزار خاندانوں کو پالنے کے لیے تھامے ہوئے ہیں اور ہم نے 18 کروڑ عوام کو حقوق دلانے کے لیے ہاتھ تھامے ہیں، آپ نے ہاتھ ناانصافی کے لیے تھامے تو ہم نے انصاف کی فراہمی کے لیے ہاتھ تھامے۔طاہر القادری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ اور ملک کے چھوٹے علاقوں میں جانا پسند نہیں کرتے کیوں کہ وہاں سے پیسہ نہیں ملتا۔انہوں نے کہا کہ وہ نواز شریف صرف غیر ملکی دوروں پر رہنا چاہتے ہیں جہاں سے ان کو پیسہ ملتا ہے اور کمیشن بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ گراس روٹ لیول تک اقتدار نہیں پہنچانا چاہتے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا نظام چاہتے ہیں ہر شخص کو اس کے گھر پر ہی انصاف ملے جبکہ موجودہ حکمران لوٹ مار کو جمہوریت کا نام دیتے
ہیں۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے کہا کہ ہمارے ہاں گکو بٹ یا بلو بٹ نہیں ہوتے بلکہ ہمارے ہاں ‘ڈی جے’ بٹ ہوتے ہیں۔انہوں نے ڈی جے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ڈی کا مطلب ڈیسنٹ اور جے کا مطلب جسٹ ہے جو بالعموم ڈیسنٹ جسٹس ہے۔پاکستان عوامی تحریک انصاف کے سربراہ طاہر القادری پی ٹی وی پر حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں علم نہیں اس میں کون لوگ ملوث تھے۔انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ شاید اس میں ن لیگ کے کارکن ملوث ہوسکتے ہیں جبکہ واقعہ ہوجانے کے بڑی دیر بعد انہیں اس بارے میں میڈیا کے ذریعے خبر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ واقعے کے بعد ان کے مقامی کارکنان جائے وقوع پر پہنچے اور لوگوں کو باہر نکالنے میں مدد فراہم کی۔ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ پی ٹی وی میں موجود تھے ان میں سے کسی کو بھی انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔طاہر القادری نے کہا کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے پر اگر مجھے ذمے دار ٹھہرایا گیا تو استعفیٰ دے دوں گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن کے جج نے شہباز شریف کو ذمے ٹھہرایا اور حکومت پنجاب کو قتل کا ذمے دار ٹھہرایا۔انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوال کیا کہ وہ اپنے قول کے مطابق مستعفی کیوں نہیں ہوئے، کیا یہ جمہوریت ہے؟۔طاہر القادری نے کہا کہ آئین میں ایک سے40 تک کے آرٹیکل عوام کو حقوق دیتے ہیں، منتخب حکومتوں نے آئین کے ابتدائی 40 آرٹیکل نافذ نہیں کیے۔انہوں نے کہا کہ ہماری جنگ آئین کے ان آرٹیکلز کے لیے ہیں جو 40 سال سے معطل پڑے ہیں اور جو عوام کو بنیادی حق دیتے ہیں۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ آئین شہریوں کو تمام طرح کے حقوق فراہم کرتا ہے تاہم آج تک ایک بھی آرٹیکل نافذ نہیں کیا گیا۔شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 41 سال میں پلٹ پلٹ کر یہی حکمران آتے رہے ہیں جبکہ ہماری دلچسپی غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کا آئین صرف کاروبار بڑھانے کے لیے ہے جبکہ دنیا بھر میں آدھے سے زیادہ آئین غربت مٹانے اور حقوق کی بات کرتا ہے۔طاہرالقادری کے دھرنے کا ساو ¿نڈ سسٹم خراب ہوا جس کے بعد وہ عمران خان کے کنٹینر پر پہنچ گئے جہاں سے ان کواپنے کارکنوں سے خطاب کیا۔یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ دونوں رہنما ایک ہی کنٹینر پر موجود رہے۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ہم ا?ئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، کیا کبھی ہم نے آئین اور جمہوریت کے خلاف بات کی؟، وہ جس آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں اس پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔طاہر القادری نے کہا کہ وہ نیشنل اسمبلی جو آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیر کر وجود میں آئی اس میں آج مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔انہوں نے کہا کہ آئین تمام اکائیوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی مساوات کا حق دیتا ہے۔سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ٹیلیفونک گفتگو کے دوران دونوں رہنماو ¿ں نے مسائل کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ کا کہنا ہے فریقین لچک دکھائیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری سے ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’اچھے اشارے ملے ہیں۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا طاہرالقادری سے ہونے والی بات چیت امانت ہے۔جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی رکن اسمبلی استعفی بھیج دے تو اس کی حیثیت منظوری جیسی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخلاقی طور پر استعفی دینے کے بعد پی ٹی آئی کے اراکین کو اسمبلی میں نہیں آنا چاہیے۔ تاہم انھوں نے تجویز دی کہ اگر پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمان کے خصوصی اجلاس میں آئیں تو حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے اراکین کو ان کی کسی بھی بات پر ردعمل نہیں دینا چاہیے۔جبکہ عمران خان نے دھرنے کے شرکاءسے خطاب میں کہا کہ لڑنے کا وقت آگیا ہے ’میں یہاں ہی رہوں گاچاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘شرکا سے ان کا سوال تھا کیا آپ میں کپتان جتنی ہمت ہے؟۔عمران خان کے مطابق انھوں نے جاوید ہاشمی سے زیادہ کسی سیاست دان کی عزت نہیں کی تاہم انھوں نے کہا کہ ہاشمی صاحب مجھے ایک چیز پر بہت تکلیف ہوئی کہ آپ نے کہہ دیا کہ میں فوج کے ساتھ ملا ہوں یا ان کے اشارے پر چل رہا ہوں اور سپریم کورٹ کے ججز بھی میرے ساتھ ہیں۔عمران خان نے جاوید ہاشمی کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کے بارے میں کہا کہ 13 ماہ قبل جاوید ہاشمی اور مرکزی قیادت کی موجودگی میں کہا تھا کہ ’میں الیکشن کی دھاندلی سامنے لانے کے لیے ہر قانونی راستہ ڈھونڈوں گا۔عمران خان نے کہا کہ احتساب کے بغیر جمہوریت نہیں آسکتی۔انھوں نے حکومت سے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت گولیاں ماری گئیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ سب ملٹری ڈکٹیٹرشپ کی پیداوار ہیں ان کو پتہ نہیں کہ جمہوریت کیا ہے۔عمران خان نے ایک بار پھر کہا کہ نواز شریف خود دھاندلی میں ملوث ہیں۔ انھوں نے قومی اسمبلی کے ارکان سے سوال کیا کہ جس حکومت کے مینڈیٹ کا ہی معلوم نہیں تو کس ملک میں پارلیمان ایسے مینڈیٹ کو مانتی ہیں۔کہتے ہیں کہ جب کوئی بات کررہا ہو یہ نہ دیکھیں یہ کون ہے بلکہ یہ دیکھیں کہ اس کے منہ سے کیا نکل رہا ہے۔اس ضمن میں ایمانداری و دیانت داری کا تقاضا ہے کہ ہر کسی شہری کو تمام ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ایک منصف کی حثیت سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کو ن کیا کہہ رہا ہے اس میں کتنی صداقت ہے۔یہ بھی المیہ ہے کہ اس وقت باتیں تو سچ پر مبنی ہیں کہ جب انصاف دینے والے اندھے پن کا مظاہرہ نہ کریں تو پھر انصاف لینے والوں کو اندھے پن کا مظاہر کرنا پڑتا ہے۔اس وقت ہر کوئی اپنے موقف کو مضبوط بنانے کیلئے آئین کا سہارا لے رہا ہے۔اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ جس کسی نے بھی ملک و قوم کی ترقی و استحکام کیلئے آئین کی آڑ لینی ہے اس کے پس پردہ اس کی بدنیتی نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان میںجمہوریت کو بے نقاب کرتے ہوئے طاہر القادری کہتے ہیں کہ جمہوریت تھی کب پاکستان میں، جو اب بچے گی؟ ہم تو پینسٹھ سال سے جاگیر داروں اور صنعت کاروں کی غلامی کر رہے ہیں۔ سب اپنا مفاد سوچتے ہیں، اپنی ملوں اور زمینوں میں اضافہ کرتے ہیں اور اپنی راہ لیتے ہیں۔ دوسرے کو محفوظ راستہ مہیا کرتے ہیں تاکہ کل ان کو بھی محفوظ راستہ مل سکے۔پارلیمنٹ میں جتنی بھی تقریریں ہوئی ہیں ان میں زیادہ لفظ ’آئین، جمہوریت‘ استعمال ہوا ہے۔ عوام کے لیے کوئی بات نہیں ہوئی۔ سب کو وزیراعظم کی کرسی بچانے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ بدھ کو آخری بار تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔اپنے مختصر خطاب میں عمران خان نے کہا کہ شاہ محمود قریشی سے کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جائیں اور بتائیں کہ کون جمہوریت کے ساتھ ہے۔ ان کی باتوں کا جواب دیں، دلیل سے بتائیں کہ کون جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے اور کون جمہوریت کے نام پر اس ملک کی جمہوریت کو تباہ کر رہا ہے۔عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی تقاریر پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور قوم سے خطاب میں تفصیل سے ان وجوہات سے آگاہ کیا جن کی بنا پر وہ وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے ہمراہ سیاسی اراکین کا جرگہ بھی آیا ہے ۔طاہر القادری کا کہنا ہے کہ انھوں نے 29 اگست کو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی ملاقات کی تھی۔یہ پہلا موقع ہے کہ انھوں نے اپنے بیان میں آرمی چیف کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ کا ذکر کیا ہے۔عمران خان کے کنٹینر پر ان کے ہمراہ کھڑے ہو کر اپنے خطاب میں طاہر القادری نے کہا کہ’ہماری تو زندگی میں اب تک پہلی اور آخری (اس وقت تک) ایک ہی ملاقات ہوئی ہے جو نواز شریف کی درخواست کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف سے اس رات ہوئی، اس سے پہلے زندگی میں ٹیلی فون پر بھی نہیں ہوئی، فوج ہمارے پیچھے کیسے ہو سکتی ہے یہ صرف ایک سازش ہے۔عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری اپنے کنٹینر میں ساو ¿نڈ سسٹم کی خرابی کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی دعوت پر ان کے کنٹینر پر پہنچ گئے تھے اور انہوں نے وہاں سے دھرنے کے شرکاءسے خطاب کیا۔جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ملک کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے غیر ملکی سفارتخانوں کی بندش کے حوالے سے کوئی ہدایات وزارت کو موصول نہیں ہوئی ہیں۔ ایک بیان میں وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ مقامی ذرائع ابلاغ میں اسلام آباد میں سفارتخانوں کی بندش کی حوالے سے خبریں نشر کی گئی ہیں۔ترجمان نے کہا ہے کہ وزارت یہ وضاحت کرنا چاہتی ہے کہ اس نے اس سلسلے میں نہ تو کوئی ہدایات جاری کی ہیں اور نہ ہی اسے ایسی کوئی ہدایات ملی ہیں۔تاہم انھوں نے کہا کہ سفارتی عملے کو یہ ہدایت ضرور کی گئی ہے کہ وہ شہر میں سفر کے دوران احتیاط کا مظاہرہ کریں۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام سفارتی مشنز اور ان سے متعلقہ افراد کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضروری اقدامات کی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے متعدد رہنماو ¿ں کی تقاریر کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر نے پارلیمان کا خصوصی مشترکہ اگلے روزتک کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔ گزشتہ منگل کو ہونے والی تقاریر میں جہاں اپوزیشن کے رہنماو ¿ں نے جمہوریت کے تحفظ کا عزم دہرایا وہیں حکومتی کارکردگی پر تنقید بھی کی۔جاوید ہاشمی نے کہا: ’ماڈل ٹاو ¿ن کا واقعہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس سے بڑی نااہلی اور کیا ہو گی؟ آج عمران خان کو کٹہرے میں کھڑا نہ کریں، آج کٹہرے میں کھڑا کریں اس پارلیمان کو جس نے لوگوں کے مسائل حل نہیں کیے۔پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ناراض رہنما جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ اگر قومی اسمبلی کو نظرانداز کیا جائے گا تو حکومت کو گرانے کی آوازیں اٹھیں گی۔انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے سوال کیا کہ وہ 14 ماہ تک سینیٹ کیوں نہیں گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے روایات قائم نہیں کیں۔ یہ ہمارے نظام کی ناکامی ہے کہ ہم مسائل پر قابو نہیں پا سکے۔ نواز شریف 31 سال سے اقتدار میں ہیں لیکن ملک کے حالات نہیں ٹھیک ہوئے۔ ہمارا پارلیمانی نظام کمزور ہوا ہے۔ لوگوں کی مشکلات کا ازالہ نہیں ہو سکا اور ایسے حالات میں جب کوئی اور آ جاتا ہے تو لوگ اسی کو نجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کے ساتھ اب بھی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ وہ اس وقت بھی عروج پر ہیں۔عمران تو پھر بھی نظام کو مانتے ہیں، لیکن قادری صاحب تو کرین لے کر نظام کو گرانا چاہتے ہیں۔تحریک انصاف کے ناراض رہنما جاوید ہاشمی نے تالیوں کی گونج میں ایوان سے خطاب شروع کیا۔ انھوں نے خطاب کا موقع ملنے پر سپیکر کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے کہا کہ میں اب بھی تحریکِ انصاف کا منتخب صدر ہوں۔انھوں نے کہا کہ میں نے جذباتی فیصلے کیے، لیکن کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کی، کوئی غیر پارلیمانی لفظ استعمال نہیں کیا۔جمیعت علما السلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ بات میاں نواز شریف کی نہیں پارلیمنٹ کے منتخب وزیرِ اعظم کی ہے۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’نواز شریف سے نہ استعفٰی لیا جائے گا نہ وہ چھٹی پر جائیں گے۔ وہ پارلیمنٹ کی قیادت کرتے رہیں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم پر دباو ¿ ڈالا جا رہا ہے کہ طاقت کا استعمال نہ کریں۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام آباد کو ان جتھوں سے پاک کرے۔ان کا کہنا تھا کہ تاثر دیا جا رہا کہ کہ اداروں میں تصادم ہے۔ انھوں نے سپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ جن ارکانِ اسمبلی نے استعفے دے دیے ہیں ان کے استعفے قبول کیے جائیں۔جمیعت علما السلام ف کے رہنما مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی سیاسی قیادت جمہوریت کی بساط الٹنے کی سازش ناکام بنا دے گی۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کوئی بھی ذی شعور انسان ماڈل ٹاو ¿ن میں ہونے والے واقعے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ انھوں نے سوال کیا کہ ’کیا وجہ ہے کہ کئی ہفتوں تک اس واقعے میں مرنے والوں کی ایف آئی آر نہیں کٹی، کیا وہ انسان نہیں ہیں؟۔انھوں نے کہا کہ ’صوفی محمد نے کیا گناہ کیا تھا؟ اس نے کہا کہ میں آئین کو نہیں مانتا، حکومت کو نہیں مانتا، یہ لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم آئین اور اداروں کو نہیں مانتے۔پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود اچکزئی کا وزیرِ اعظم سے کہنا تھا کہ آئین کی پاسداری کے لیے تمام ادارے آپ کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ پر حملے سے دنیا کو منفی پیغام جائے گا کہ پاکستان کے ادارے کس قدر کمزور ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ ’یہ احتجاج نہیں بلکہ دہشت گردی ہے اور میڈیا اسے بڑھاوا دے رہا ہے۔جبکہ اسلام آباد کی پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہر القادری اور ان جماعتوں کے قائدین کے خلاف مزید آٹھ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اس طرح ان جماعتوں کے قائدین کی تعداد نو ہوگئی ہے۔ ان مقدمات میں توڑ پھوڑ، سرکاری امور میں مداخلت اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس میاں ثاقب نثار کی سکواڈ کی گاڑی پر حملے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔اس سے پہلے دونوں جماعتوں کے سربراہوں اور قیادت کے خلاف ریاست کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف نے عمران خان کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ ’وہ 10 ڈاو ¿ننگ سٹریٹ کس سیارے پر ہے جہاں دو تین ہزار ہتھوڑوں، ڈنڈوں، کرینوں سے اور کیل کانٹے سے مسلح جتھے کو ہلہ بولنے کی اجازت دی جاتی ہے؟۔اعتزاز احسن نے میڈیا پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو کہتے ہیں کہ پرامن لوگوں پر تشدد ہو گیا: ’یہ لوگ خود عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر سامنے لے کر آتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے وزیرِ اعظم اور حکومت کو یقین دہانی کروائی کہ ’ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن مجبوراً کھڑے ہیں۔ ہمارے ساتھ آپ کا سلوک ظالمانہ رہا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ اس بحران سے نکل جائیں گے آپ کا سلوک ہمارے ساتھ بہتر ہو گا۔انھوں نے کہا کہ ہماری حمایت آپ کے ساتھ غیر مشروط ہے، لیکن امید ہے کہ انتشار کے بعد آپ اپنی کارکردگی پر غور و فکر کریں گے۔سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ: ’فوجی بڑا باخبر ہوتا ہے، کور کمانڈر بڑے باخبر ہوتے ہیں، انھیں نظر نہیں آتا کہ قادری اور عمران 20 دن سے قوم کو کہہ رہے ہیں کہ آخری وقت ہے، کسی نے ان کی باتوں پر کان نہیں دھرا؟۔انھوں نے کہا: ’ان کا جز وقتی دھرنا ان کو نظر نہیں آتا؟۔ انقلاب میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی، آپ انقلاب انقلاب کرتے ہیں لیکن آپ کے دائیں اور بائیں وہ لوگ کھڑے ہیں جن کے خلاف انقلاب آنا چاہیے۔جب وزیراعظم سینیٹ میں پہلی بار تشریف لائے تو میں نے اسحاق ڈار کا شکریہ ادا کیا کہ 
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ حکومت کی حمایت حزبِ اختلاف کے لیے ایک بہت مشکل فیصلہ ہے۔چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ باہر جو لشکری کھڑے ہیں ان کے الزامات میں بڑی حد تک صداقت ہے۔ میں نے خود ایک حلقہ دیکھا ہے کہ جس میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ عمران خان کے بدعنوانی کے متعلق جو الزامات ہیں ان میں بھی بڑی حد تک صداقت ہے۔انھوں نے کہا کہ ’پارلیمان آپ کے ساتھ ہے اور جس طرح حزبِ اختلاف نے آپ کی حمایت کی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقعے پر پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کو حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ان کے ساتھ ہے اور ان کی حکومت کو کچھ نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حزبِ مخالف بھی ان کے ساتھ ہے۔اپنی تقریر کے آغاز میں انھوں نے حکومت اور وزیرِ اعظم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ شکر ہے کہ اس احتجاج نے وزیرِ اعظم کو پارلیمنٹ کی یاد دلا دی۔اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ وزیرِ داخلہ نے میڈیا پر ہونے والے تشدد کی معذرت تو کی ہے لیکن ماڈل ٹاو ¿ن میں جو قیامت برپا ہوئی اس کا ذکر نہیں کیا۔ انھوں نے کہ طاہر القادری اس وقت جہاں پہنچے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔’اگر ماڈل ٹاو ¿ن میں چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں غیر قانونی تھیں تو آپ نے جو کنٹینروں پر کنٹینر رکھے ہیں وہ کیسے آئینی و غیر قانونی ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ عمران اور قادری کی کامیابی پاکستان کے لیے سیاہ دن ہو گا۔ اگر حکومت اس بحران سے بچ نکلی تو اس کے وزرا کے تکبر و رعونت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔چوہدری نثار نے کہا کہ پولیس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، نہ وہ لاٹھی چارج کر سکتے ہیں نہ آنسو گیس استعمال کر سکتے ہیں۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے پر میں پولیس کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔انھوں نے آخر میں حکومتِ پاکستان اور وزارتِ داخلہ کی جانب سے میڈیا کے خلاف تشدد کے واقعات کی معذرت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ نہ صرف قابلِ مذمت بلکہ قابلِ نفرت بھی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اس کی پوری تحقیقات کی جائیں گی۔چوہدری نثار نے کہا: ’جاوید ہاشمی نے جو کہا ہے اس کے صحیح اور غلط ہونے کی میں کوئی گواہی نہیں دینا چاہتا اور میرے پاس ثبوت ہیں کہ ان لوگوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ فوج کا نام استعمال کیا ہے۔ میرے پاس ایسی خبریں تھیں جن سے میں عسکری قیادت کو آگاہ کرتا رہا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فوجی قیادت ملوث ہے یا نہیں، لیکن ان دونوں جماعتوں نے اپنے لوگوں کو باور کرانے کی بار بار کوشش کی ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ اس کی تصدیق جاوید ہاشمی نے کی ہے جو ایک پارٹی کے صدر تھے۔چوہدری نثار نے کہا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس میں عمران خان، جاوید ہاشمی کو بلایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنی سیاست میں عدلیہ کو ملوث کرنے کی کوشش کیوں کی۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں جاری احتجاج نہ دھرنا ہے نہ احتجاج ہے اور نہ یہ سیاسی عمل ہے، بلکہ یہ پاکستان کے خلاف بغاوت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت ہے۔انھوں نے کہا کہ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اسلام آباد میں آنے والے لشکر کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔چوہدری نثار علی خان نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس اس لیے بلایا گیا ہے کہ پارلیمان موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے حکومت اور قوم کی رہنمائی کرے۔ انھوں نے کہا کہ اس رہنمائی سے پولیس کو تقویت ملے گی۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس کی جب کارروائی شروع ہوئی تو وزیرِ اعظم نواز شریف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے قومی اسمبلی پہنچ گئے تھے۔دوسری طرف پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے پاکستان کے قومی نشریاتی ادارے پر حملے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری سیاست کے ذریعے نفرت پھیلا رہے ہیں۔ ان کے بقول ’حکومت ملک میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کی مخالفت کرے گی۔ایوان کے اندر ایک خوشی کا سماں محسوس کیا جا رہا تھا ایسا لگتا ہے کہ جیسے ارکان کسی تہوار میں شرکت کرنے آئے ہیں وہ مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔ اجلاس میں آنے والے ارکان کی تعداد معمول سے زیادہ تھی۔ ارکانِ پارلیمان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کو بچانے کے لیے آئے ہیں۔ملک میں جاری سیاسی بحران کے تناظر میں اسلام آباد میں دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان کی آمد کا سلسلہ شروع ہو ا تو ملک کی سیاسی صورتِ حال پر بحث مباحثہ کرتے رہے۔سینیٹ اور قومی اسمبلی کا یہ مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی تجویز پر کیا گیا۔جبکہ سپریم کورٹ میں ماورائے آئین اقدامات کے حوالے سے جاری مقدمے کی سماعت کے دوران درخواست گزار شفقت چوہان نے کہا کہ اس معاملے کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے تجاویز لی جائیں۔ جس پر سپریم کورٹ نے بائیس جماعتوں کا موقف جاننے کے لیے نوٹس جاری کیا ہے۔ تاہم پاکستان عوامی تحریکِ کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ ایک سیاسی معاملہ اس لیے عدالتِ عظمیٰ سیاسی جماعتوں سے تجاویز طلب نہیں کرسکتی۔ اس پر عدالت نے جواب دیا کہ معاملہ سیاسی ہونے انسانی حقوق سے متعلق بھی ہے جس کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ میں ماورائے آئین اقدامات کے بارے میں جاری مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ناصرالملک نے عمران خان سے کسی قسم کے براہِ راست رابطے کی تردید کی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔جسٹس ناصر الملک کا کہنا تھا کہ ’جب میں الیکشن کمشنر تھا تو ایک مرتبہ عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی جس میں الیکٹرانک و نگ سے متعلق بات ہوئی تھی۔‘ ان کے بقول اس وقت حامد خان اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔دوسری جانباسلام آباد میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کا دھرنا جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے کی رات شروع ہونے والی پر تشدد کشیدگی کے باعث ماحول میں تناو ¿ برقرار ہے، تاہم پیر کی رات نسبتاً پر سکون گزری۔اس سے قبل تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے پارلیمان کے سامنے دھرنے میں موجود کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے سنا ہے کہ آج رات کریک ڈاو ¿ن ہو سکتا ہے۔ جب یہ پتہ چلا تو جلدی واپس آیا تاکہ کریک ڈاو ¿ن کے دوران آپ کے ساتھ رہوں۔عمران تقریباً چھ گھنٹے پہلے دھرنے کی جگہ سے چلے گئے تھے۔ ان کے بارے میں مقامی میڈیا میں کہا گیا تھا کہ ورزش کے لیے گئے تھے۔عمران خان نے کہا کہ سب باتیں مان لی گئی ہیں لیکن نواز شریف استعفیٰ دینے سے انکاری ہے۔ انھوں نے اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’میں استعفیٰ لیے بغیر نہیں جاو ¿ں گا۔اے پی ایس