دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل۔چودھری احسن پریمی




ملک کو غیر معمولی صورتِ حال کا سامنا ہے جو غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کر تی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔جبکہ ملک میں انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی کو حتمی شکل دینے کے لیے ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کا اہم اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوچکا ہے۔اسلام آباد میں وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والی اس کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل کی تیاری کے لیے وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کی سربراہی میں قائم کی گئی قومی ایکشن کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔ اجلاس کے آغاز میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم پاکستان نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ کسی اور سانحے کا انتظار کیے بغیر اکٹھے ہو کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سخت فیصلے کیے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع ہوئی ہے اور اگر کمزور فیصلے کیے گئے تو قوم مطمئن نہیں ہو گی۔ اس وقت پوری قوم کی نظریں پارلیمانی رہنماں کے اس اجلاس پر لگی ہوئی ہیں اور گذشتہ اجلاس میں تمام جماعتیں ایک صفحے پر تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ بار بار مذاکرات کو وقت دیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔پہلے روزقومی ایکشن پلان کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام اور مدارس کی اصلاحات کے معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔وزیرِ اعظم نے کانفرنس کے شرکا پر زور دیاتھا کہ وہ ٹھوس اور مضبوط فیصلے کرنے سے نہ کترائیں۔انھوں نے خبردار کیا کہ اگر بروقت اور درست فیصلے نہ کیے گئے تو دہشت گردی کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں۔آپریشن ضربِ عضب کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ضربِ عضب کے بہتر نتائج سامنے آ رہے ہیں لیکن اس کا دائرہ شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ملک کے شہروں تک پھیلانا ضروری ہے۔افغانستان سے دہشت گردی کے خلاف تعاون پر بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ موجودہ افغان قیادت ماضی کے مقابلے میں مختلف سوچ رکھتی ہے اور دنوں رہنماں (اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ) نے تعاون کی مکمل یقین دہانی کروائی ہے۔انھوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف تعاون کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے اور دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔نواز شریف کے خطاب کے بعد اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے بتایا کہ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پانچ ہزار جوانوں پر مشتمل خصوصی فورس قائم کریگی جس کی تیاری اور تربیت پاکستانی فوج کرے گی۔انھوں نے بتایا کہ ان پانچ ہزار میں سے ایک ہزار اہلکار وفاقی دارالحکومت جبکہ ایک ایک ہزار چاروں صوبوں میں تعینات کیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ دس ہزار فوجی شہروں میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے تعینات ہیں۔وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ شہروں میں فوج کو بلانے کے لے آرٹیکل 245 ضروری ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے پر فوجی افسران اور جوانوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔چوہدری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی دھمکیاں اور بیانات ذرائع ابلاغ پر نشر نہیں ہونے چاہییں۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ خود دہشت گردں کو بلیک لسٹ کرے۔تاہم انھوں نے سانحہ پشاور کے بعد میڈیا کے کردار کو ذمہ دارانہ قرار دیا۔یہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد منعقد ہونے والی دوسری کل جماعتی کانفرنس ہے۔اس کانفرنس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر امین فہیم سمیت ملک کی پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنماں کے علاوہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی شریک ہوئے تھے۔یہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد منعقد ہونے والی دوسری کل جماعتی کانفرنس تھی جس میں دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل کو حتمی شکل دی گئی۔اس سے قبل طالبان کے حملے میں 144 افراد کی ہلاکت کے اگلے ہی دن پشاور میں ایک ایسی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان بنانے کے لیے سات دن کی مہلت دی گئی تھی۔اس ضمن میںقومی ایکشن کمیٹی نے اپنی سفارشات تیار کر لی تھیں جن میں قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کو مزید فعال بنانے اور پورے ملک میں انسدادِ دہشت گردی کی سریع الحرکت فورس تعینات کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔تاہم قومی ایکشن پلان کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام اور مدارس کی اصلاحات کے معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا اور یہ معاملہ اگلے روز کل جماعتی کانفرنس میں زیرِ بحث آیا۔دہشت گردی کے نشانے پر ہونے کے باعث پاکستان میں زندگی کا ہر پہلو ہی متاثر ہوا ہے لیکن خاص طور پر پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں، مذہبی رہنماں اور سیاست دانوں سمیت سب ہی اداروں کی پالیسیوں اور کردار پر بحث جاری ہے۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ملک میں موجود جنگ کی سی کیفیت پیدا کرنے میں ذرائع ابلاغ کی حکمت عملی پر بھی کئی سوال اٹھائے ہیں۔وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دہشت گردی کے خلاف قومی پلان آف ایکشن کی سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک طرف پاکستان فوج کا موقف آ رہا ہو اور دوسری طرف دہشت گردوں کا موقف پیش کیا جا رہا ہو۔ان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا ان کو بلیک آٹ نہیں کرے گا اور ان کی خبروں کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کرے گا تو یہی تاثر ہو گا کہ شدت پسندوں کی سرگرمیاں بھی اسی طرح ہیں جس طرح حکومت یا فوج کے اقدامات۔وزیر داخلہ نے پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں یہ بھی بتایا کہ اس پر اتفاق ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو اس حوالے سے نیا قانون لایا جائے جس سے انٹرنیٹ اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر شدت پسندوں کو مکمل طور پر بلیک لسٹ کیا جا سکے۔اور صرف وزیر داخلہ ہی نہیں سوشل میڈیا پر بھی کچھ شہریوں کی طرف سے یہ مہم چلائی گئی ہے کہ طالبان اور ان کے ہمدردوں کو ایئر ٹائم دینے سے گریز کیا جائے۔ٹوئٹر پر نو ایئر ٹائم فار طالبان کا ہیش ٹیگ بھی شروع کیا گیا ہے۔ اس ہیش ٹیگ پر شہریوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اس آن لائن پٹیشن پر سائن کریں جس میں ایسے ٹیلی ویژن چینلوں پر پابندی کا تقاضا کیا گیا ہے جو مسلح گروہوں اور ان کے ہمدردوں کا موقف پیش کر رہے ہیں۔یہ شکایت درست ہے کہ میڈیا کو دہشت گردی کی خبریں دیتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ہمارا معاشرہ پہلے ہی کافی تکلیف میں ہے۔ تشدد کی تشہیر سے اذیت مزید بڑھ جاتی ہے۔اس سلسلے میں خاص طور پر کئی نیٹ ورکس کی جانب سے سانحہ پشاور کے بعد لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کا انٹرویو پیش کرنے کی مثال پیش کی جا رہی ہے۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی تشدد کا راستہ اپنانے والی تنظیموں کے موقف کو نشر کرنے کے بارے میں میڈیا کے کردار پر بحث ہوتی رہی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے صحافتی اداروں میں اس طرح کا تجربہ اور سمجھ بوجھ کس حد تک موجود ہے کہ آزادی بھی برقرار رہے اور نازک حالات میں ذمہ داری اور غیرجانبداری کے تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں؟۔جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے پشاور واقعے کے بعد پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سے پابندی ہٹانے کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ان کا کہنا تھا: معاف کیجیے گا، یہ واضح طور پر پاکستان کا مسئلہ ہے، پاکستان کا فیصلہ ہے، اسے جانچنا ہمارا کام نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے پشاور کے واقعے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم سے بات کی اور ہر قسم کی مدد کرنے کی پیشکش کی تھی۔دوسری جانب یورپی یونین نے پاکستان کی جانب سے سزائے موت دیے جانے پر عائد پابندی اٹھانے کی مذمت کرتے ہوئے پابندی کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔یاد رہے کہ 17 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے اگلے ہی دن وزیرِ اعظم نواز شریف نے دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس اعلان کے بعد اب تک جی ایچ کیو پر حملے کے ایک مجرم محمد عقیل عرف ڈاکٹر عثمان اور سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کے پانچ مجرمان سابق نائیک ارشد محمود، غلام سرور بھٹی، راشد محمود قریشی عرف ٹیپو، زبیر احمد اور اخلاص روسی کو فیصل آباد میں پھانسی دی جا چکی ہے۔حکومت اور پارلیمانی جماعتوں نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے سپیشل ٹرائل کورٹس سمیت قومی ایکشن پلان پر اتفاق رائے کر لیا ہے جسے وزیراعظم نواز شریف نے تاریخ ساز قرار لمحہ قرار دیا ہے۔وزیراعظم کی سربراہی میں کل جماعتی کانفرنس کا آغاز ہوا جو تقریبا گیارہ گھنٹے جاری رہا۔اجلاس میں فوجی عدالتوں جنھیں سپیشل ٹرائل کورٹس کا نام دیا گیا ہے کے قیام پر حکومت اور پارلیمانی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا۔اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزمان کائرہ نے میڈیا کو بتایا کہ سپیشل ٹرائل کورٹس کی سربراہی فوجی نمائندہ کریگا۔انھوں نے کہا تمام جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان عدالتوں کو محدود وقت کے لیے استعمال کیا جائیگا اور انھیں سیاسی یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائیگا۔انھوں نے مزید بتایا کہ ان سپیشل کورٹس کی مدت دو سال ہوگی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بتایا ہے کہ یہ عدالتیں آئین میں ترمیم کے ذریعے قائم کی جائیں گی۔پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت انسداد دہشت گردی کے لیے قومی ایکشن پلان کے مسودے کو حتمی شکل دینے کے لیے اکھٹی ہوئی تھیں تاہم فوجی عدالتیں قائم کرنے کے مسئلے پر سیاسی قیادت میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اعلامیہ میں تاخیر ہوئی۔خصوصی عدالتوں کے معاملے پرحکومتی یقین دہانی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ بھی اطلاعات کے مطابق رضامند ہوگئی۔اس سے قبل حکمران پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریک انصاف، قومی وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ضیا فوجی عدالتیں قائم کرنے کے نکتے پر متفق ہیں۔تاہم سرکاری اور نجی میڈیا پر یہ خبریں بھی نشر ہوئی کہ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانونی مسودہ دیکھنے کا مطالبہ بھی کیا۔اجلاس کے آغاز میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم پاکستان نے کہا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ کسی اور سانحے کا انتظار کیے بغیر اکٹھے ہو کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سخت فیصلے کیے جائیں۔یاد رہے کہ پشاور سانحے میں 133 بچوں سمیت 149 افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے وزیراعظم نے کل جماعتی کانفرنس بلائی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں بننے والی پارلیمانی کمیٹی سات روز میں قومی ایکشن پلان مرتب کرے گی۔کمیٹی نے سات روز کے اختتام پر اپنی سفارشات وزیرداخلہ کے حوالے کیں جس کے بعد کل جماعتی کانفرنس کا آغاز ہوا۔اس کانفرنس میں وزیراعظم، آرمی چیف کے علاوہ وفاقی وزرا سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور اہم رہنما بھی شریک ہوئے۔جبکہ اسی روز پاکستان ہندو کونسل کے صدر چیلارام کیلوانی نے اسلام آباد میں منعقدہ ایکشن پلان کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں ملک بھر کے ہندو اور دیگر اقلیتی باشندوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن انسدادِ دہشت گردی کیلیے قائم کردہ حکومتی ایکشن پلان کمیٹی میں اقلیتی نمائندوں کومکمل طور پر نظرانداز کرنے سیاقلیتوں میں پائی جانے والی مایوسی و بے چینی میں مزید اضافہ ہوا۔انھوں نے تشویش کا اظہار کیاکہ وطن عزیز میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بنا پر انسدادِ دہشت گردی کہیں زیادہ پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے، جب تک دہشت گردی سے متاثرہونے والے طبقات کا موقف واضح طور پر سمجھنے کے لیے انھیں فیصلہ سازی کے امور میں شامل نہیں کیا جائے گا، دہشت گردی پر قابو پانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔پاکستان ہندو کونسل مذہبی انتہا پسندی، اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم، زبردستی مذہب تبدیلی، جبری شادی سمیت دیگر جرائم کو ملک کو لاحق سنگین اندرونی خطرات میں شمار کرتی ہے۔ صدر چیلا رام نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ الیکشن اصلاحات کمیٹی، متروکہ وقف املاک بورڈ سمیت اقلیتوں سے متعلقہ دیگر فیصلہ سازی کے امور میں بھی اقلیتی نمائندوں کو شامل نہیں کیا جارہا۔جبکہ ملک میں جاری دہشتگردی کو روکنے کے لیے پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔نواز شریف نے کہا کہ ان کی حکومت مسلح جتھوں کی اجازت نہیں دے گی اور پنجاب سیمت ملک کہ کسی حصے میں بھی انتہا پسندوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں پیدا کی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ بطور وزیراعظم دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنا میری ذمہ داری ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردوں نے قوم کے نونہالوں کو نشانہ بنا کر ہمارے مستقبل کے سینے میں خنجر گھونپا ہے۔دہشت گردوں کو لہو کیایک ایک قطرے کا حساب دینا ہوگا اور جلد دینا ہوگا۔وزیر اعظم نے کہا کہ سانحہ پشاور کے بعد کا پاکستان بدل چکا ہے، جس میں دہشت گردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔، ہم نہ صرف دہشت گردی بلکہ دہشت گردانہ سوچ کا بھی خاتمہ بھی کریں گے۔انھوں نے بتایا کہ ملک کی سیاسی پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متفقہ ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ جس کے اہم نکات یہ ہیں۔فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتیں بنائی جائیں گی جس کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔کالعدم تنظیموں کو کسی دوسرے نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔دینی مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی۔دہشتگردوں سے نمنٹے کے لیے سپیشل اینٹی ٹیررازم فورس بنائی جائے گی۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گردوں کی خبریں نشر کرنے پر مکمل پابندی ہوگی۔نٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔وسیع ترسیاسی مفاہمت کے لیے تمام سٹیک ہولڈروں کی جانب سے بلوچستان حکومت کو اختیار دیا جا رہا ہے۔دہشت گردوں کے مواصلاتی نیٹ ورکس کا مکمل خاتمہ کیا جائیگا۔پنجاب سمیت ملک کے ہر حصے میں انتہا پسندی کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائیگی۔کراچی میں جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کی جارہی ہے۔افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کے ابتدائی مرحلے کے ساتھ ان کے بارے میں ایک جامع پالیسی تشکیل دی جارہی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ آج ایک تاریخی دن تھا اور کل کا پاکستان ایک پرسکون پاکستان ہوگا۔ہم پہ ایک قرض تھا جو آج بہت عرصے کے بعد چکایا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ جانتا ہوں کہ چھوٹے چھوٹے تابوت والدین کے کندھوں پر کتنے بھاری تھے۔تم نے ہمارے معصوم بچوں کا خون بہا کر پاکستانی قوم کو جو درد دیا ہے اس کا منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔انسداد دہشت گردی کے لیے قومی ایکشن پلان کے جس نکتے کی گونج سب سے زیادہ سنائی دی وہ انسداد دہشت گردی کیلیے فوجی افسران کی نگران میں خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز تھی لیکن پاکستان کے آئین اور قانون میں فوجی عدالتوں کے قیام کی کتنی گنجائش ہے۔پاکستان کے سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کا کہنا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کے دوسرے دور حکومت میں بھی فوجی عدالتوں کے قیام کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ آئین کے منافی متوازی نظام عدل قائم نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس سیعد الزمان صدیقی نے جو فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ سنانے والے بینچ کا حصہ تھے، کہا کہ :محرم علی کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ عدالتیں آئین کے مطابق نہیں۔ عدالت نے شق وار بتایا تھا کہ فلاں فلاں شق آئین کے متصادم ہے۔فاٹا میں فوجی ٹرائیبونل بن سکتے ہیں۔فاٹا اور سرحدی علاقوں میں جہاں فوج ہے وہاں تو فوجی ٹرابیونلز قائم ہوسکتے ہیں لیکن قدرے پرامن علاقوں میں ایسا ممکن نہیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس عدالتی فیصلے میں دی گائیڈلائنز کو ذہن میں رکھے وگرنہ سپریم کورٹ اسے دوبارہ کالعدم قرار دے دے گی۔پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس وجہیہ الدین کے مطابق موجودہ صورتحال میں پورے ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام ناممکن دکھائی دیتا ہے تاہم حکومت آرٹیکل 245 کا سہارا لے سکتی ہے۔جسٹس وجہیہ الدین کا کہنا ہے کہ فاٹا اور سرحدی علاقوں میں جہاں فوج ہے وہاں تو فوجی ٹرابیونلز قائم ہوسکتے ہیں لیکن قدرے پرامن علاقوں میں ایسا ممکن نہیں۔ وفاق اور پنجاب میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج موجود ہے اس لیے حکومت اب سندھ سمیت دیگر صوبوں سے ایسی ہی درخواست کر رہی ہے، جس کے بعد فوجی ٹرائبیونلز کو قانونی جواز فراہم کیا جاسکے گا۔جسٹس سعید الزمان صدیقی کہتے ہیں پاکستان کے حالات کے پیش نظر اگر فوجی عدالتیں بنتی ہیں لیکن انہیں آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔جسٹس وجہیہ الدین کا خیال ہے کہ اے پی سی میں حمایت کے باوجود ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کو ان جماعتوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان جماعتوں کو اپنے حلقوں کی جانب سے کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے:مجھے یقین ہے کہ اگر فوج کے ٹرائبیونل بنا بھی لییگئے تو ان پر عمل نہیں ہوگا۔پاکستانی فوج اپنے انتظامی امور کے علاقوں میں فوجی عدالتیں قائم کرتی ہے۔ تاہم پورے ملک یا پھر چند مخصوص علاقوں کیلیے یہ کیسے ممکن ہوگا؟۔متحدہ قومی مومنٹ سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون دان سینیٹر فروغ نسیم سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا قیام غیر آئینی ہے۔ہاں اگر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کے قیام پر متفق ہوتی ہیں تو انہیں پھر آئین میں ترمیم کرنی ہوگی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں فوجی عدالتوں کو کراچی میں قائم کیا تھا اور سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام اور ان میں فوجی افسران کی تعیناتیاں آئین کے آرٹیکل 173 کی خلاف ورزی ہے۔لیکن فوجی عدالتوں کی حمایت کرنے والے دنیا کے دیگر ممالک کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ جواز بھی کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور جنگ زدہ علاقوں میں بین الاقوامی قانون بھی خصوصی اقدامات کی اجازت دیتا ہے۔قانونی ماہرین اور تجزیہ کار فوج کے ماتحت عدالتوں کو موجودہ عدالتی نظام کے متوازی کوشش قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ حالت جنگ میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہے لیکن یہ خدشہ اب بھی قائم ہے کہ دو سال کے عرصے کے لیے بنائی جانے والی فوجی عدالتیں کیا انصاف کی فراہمی میں آئین اور قانون کے تقاضے پورے کریں گی یا ان پر آنے والے عرصے میں سوالات اٹھائے جائیں گے۔جبکہ سپریم کورٹ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو شدت پسندی سے متعلق مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات اور ان عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس منعقد ہوا۔یہ اجلاس گذشتہ ہفتے پشاور میں سکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کے بعد انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کو فوری طور پر نمٹانے کے لیے بلایا گیا تھا۔اجلاس میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں دس سے 15 فیصد ایسے مقدمات زیرِ سماعت ہیں جو شدت پسندی اور بم دھماکوں کے بارے میں ہیں جن میں مبینہ طور پر کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں۔اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے جج سماعت کے دوران گواہوں، وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ مقررہ تاریخ پر عدالت میں حاضر ہوں تاکہ ایسے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرتے ہوئے انھیں جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔اجلاس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ بلوچستان اور مالاکنڈ ڈویژن میں فرنٹیئر کور اور لیویز کے اہلکاروں کی جگہ ڈیپیوٹیشن پر پولیس افسران کو لگایا دیا جائے جنھیں مقدمات کے اندراج اور ان کی تفتیش کی تربیت دی جاتی ہے۔اجلاس میں صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیں۔اجلاس میں اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے والے ہائی کورٹس کے جج صاحبان مہینے میں ایک مرتبہ اجلاس طلب کریں گے جس میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے ججوں کے علاوہ پراسیکیوٹر، جیل حکام اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے افسران سمیت تمام سٹیک ہولڈر شریک ہوں گے۔اس اجلاس کی کارروائی سپریم کورٹ کے ان ججوں کو بھجوائی جائے گی جو متعلقہ ہائی کورٹس کی کارکردگی کو مانیٹر کرتے ہیں۔اجلاس میں صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیں۔اجلاس میں اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ شدت پسندی کے مقدمات میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف جو اپیلیں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں ان کو الگ کر دیا جائے تاکہ ایسی اپیلوں کو سماعت کے لیے ترجیح دی جا سکے۔اجلاس میں قانون و انصاف کمیشن کے سیکریٹیریٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا جائزہ لے اور اس ضمن میں سفارشات مرتب کرے تاکہ اس حوالے سے موثر اقدامات کیے جا سکیں۔پشاور کے سانحے نے پاکستانی معاشرے کی روح اور جسم پر جو گہرے زخم لگائے ہیں ان کا جلد مندمل ہونا ممکن نہیں ہے۔سانحے کو ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ذہنوں میں کلبلانے والے تکلیف دہ سوالات ذرائع ابلاغ اور نجی محفلوں میں پوری شدت سے گونج رہے ہیں۔یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستانی میڈیا کی ہر دوسری رپورٹ اور پروگرام میں پشاور سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے کیے جارہے ہیں۔لیکن کیا انسداد دہشت گردی پلان کی تیاری میں مصروف حکومت اور پاکستانی معاشرہ دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہونے والے خاندانوں خصوصا بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی بحالی کی اہمیت کا بھی احساس کی معاونت درکار ہوگی؟۔ تعلیمی اداروں کے تمام سٹاف کو تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور خطرے کی صورت میں حفاظتی اقدامات کے لیے مشق کے ساتھ ساتھ نصاب میں بھی ردوبدل کریں، اور تعلیمی نصاب کے اندر اس قسم کا مواد شامل کریں جو بچوں کو دہشت گردوں کے حملوں سے بچا نے سے آگاہ کرے۔ سکولوں کی سطح پر دہشت گردی سے متاثرہ بچوں کی بحالی کے لیے خصوصی سٹاف مقرر کیا جائے۔ دہشت گردی ہمارا قومی مسئلہ ہے جو پیچیدہ بھی ہے لیکن تیاری اس لحاظ سے نہیں ہے۔اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کے لیے سکولوں میں بچوں کے لیے مختلف مشقوں کے علاوہ چند خصوصی اور اضافی کورس بھی کروائے جانے ضروری ہیں۔ہمسایہ ممالک میں بچوں کو تربیت دی جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ ماہرین نفسیات کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی حادثاتی صورت میں نفسیاتی فرسٹ ایڈ فراہم کرتے ہیں۔ اس ضمن میں عام ڈاکٹروں کو بھی تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے، نفسیاتی علاج کے لیے الگ نرسوں، سوشل ورکروں اور این جی اوز کے نمائندوں پر مشتمل ٹیمیں بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ آگہی اور معلومات فراہم کرنے کے لیے میڈیا کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم پاکستانی میڈیا کے نمائندوں کو بھی تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔حالات سے آگاہی ضروری ہے تاکہ لوگ اس کے لیے تیار رہیں، لیکن آپ بار بار اگر خون دکھائیں گے، اندوہناک واقعات کے بعد آپ متاثرین سے بار بار پوچھیں کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں درست نہیں، انھیں غم اور صدمے کی کیفیت سے نکلنے کا موقع دیں۔منفی خبروں کو بار بار نشر نہ کیا جائے، کیونکہ جب آپ بار بار صدماتی سین دکھائیں گے تو لوگ بار بار اسی کیفیت سے گزریں گے۔ پاکستانی میڈیا تربیت کے فقدان کی وجہ سے اکثر ایسی غلطیاں کرتا ہے جو نہ صرف اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں بلکہ ناظرین کے لیے بھی بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ دہشت گردی کے بعد سے عالمی جنگ کے آغاز سے اب تک پاکستان کا کوئی ایسا چینل نہیں جس نے باضابطہ طور پر اپنے نمائندوں کو یہ تربیت دی ہو کہ اس نے جنگ کے حالات میں رپورٹ کیسے کرنی ہے اور انپی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں۔پاکستانی میڈیا کو تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے، آپ ایسے مقامات سے جب رپورٹ کرتے ہیں تو کیسے کرنا چاہیے، الفاظ کا چنا وکیا ہونا چاہیے، آپ کے چہرے کے تاثرات کیسے ہونے چاہییں۔ بعض اوقات زبان سے ایسے جملے نکل جاتے ہیں جو بہت زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔لیکن کیا وجہ ہے کہ صحافتی ذمہ داریاں اداکرنے کے لیے پاکستانی میڈیا ایک متفقہ ضابطہ اخلاق مرتب نہیں کر سکا؟۔ میڈیا اب تک اپنے اپنے ضابطہ اخلاق پر چلتا ہے یعنی اس نے اپنی حدیں خود مقرر کر رکھی ہیں۔ مجموعی طور پر ایک ضابطہ اخلاق بہت ضروری ہے لیکن اس کی کمی ہے، سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس لائن سے آگے ہم نہیں جا سکتے، واقعہ ہوگیا لیکن اب بات یہ ہو رہی ہے کہ ان کے ساتھ لڑنا کیسے ہے۔پاکستانی حکومت جلد ہی انسداد دہشت گردی کے لیے ایکشن پلان پیش کرنے والی ہے۔ وہ کیا ہوگا اور اس میں بچوں، عوام اور میڈیا کے لیے کیا تجاویز اور مدد ہوگی، یہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔لیکن ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ اس پیچیدہ صورتِ حال میں ہمارا خاندانی نظام ہی شاید صدماتی کیفیت سے نکالنے کے لیے مدد دے سکتا ہے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسے اپنا قومی مسئلہ تسلیم کریں۔اے پی ایس