پرتشدد انتہا پسندی پرسربراہ کانفرنس:چودھری احسن پریمی




وائٹ ہاو س کے زیر اہتمام گزشتہ 17 فروری کو پ رتشدد انتہا پسندی کے انسداد پر ایک سربراہ اجلاس منعقد ہوا۔اس سربراہ اجلاس میں امریکہ یا بیرون ملک تشدد کی سرگرمیاں کرنے والوں سے نبردآزما ہونے کے سلسلے میں داخلی اور بین الاقوامی کوششوں کی نشاندہی کی گئی۔اس سربراہ اجلاس میں جن باتوں کا جائزہ لیا گیا، ا ن میں شدت پسند اور ا ±ن کے حامیوں، سخت گیر نظریات کی طرف مائل کرنے والوں اور شدت پسندوں کی بھرتی سے متعلق معاملات شامل تھے۔گفت و شنید اور مباحثے کے دوران، ا ن کوششوں کو بھی پیش نظر رکھا گیا، جو دنیا بھر میں ہونے والے حالیہ المناک حملوں کے تناظر میں لازم ہیں۔پ ±رتشدد انتہا پسندی کے خلاف اقدام کا ایجنڈا تیار کرنے کی خاطر، وائٹ ہاو ¿س سربراہ اجلاس کے ایک حصے کے طور پر، محکمہ خارجہ اسی اجلاس کے دوران وزرائ، اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام، جن میں عالمی ادارے کے سکریٹری جنرل بان کی مون بھی شامل تھے، اور کثیر جہتی تنظیموں، نجی اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کی میزبانی بھی کی۔اِس اعلیٰ سطحی اجلاس سے صدر براک اوباما نے بھی خطاب کیا; جبکہ وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے ابتدائی کلمات ادا کیے؛ جب کہ اختتامی کلمات نیشنل سکیورٹی کی مشیر، سوزن رائس پیش کیے۔پینل کے اجلاسوں میں بیرون ملک سے آنے والے اہل کاروں کا ایک وسیع تر اجتماع اور سول سوسائٹی اور نجی شعبے کے نمائندگان بھی شریک ہوئے۔امریکی محکمہ خارجہ کے وزرا پرمشتمل یہ اجلاس اس اقدام کسے سلسلے میں حاصل ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا، جس کا اعلان سنہ 2014 میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے
خطاب کے دوران صدر اوباما نے کیا تھا۔
اِس ضمن میں، انتہا پسندی سے نبردآزما ہونے کے سلسلے میں داخلی طور پر اپنی سرحدوں کے اندر اور خطے کے لیے کیے جانے والے اقدام کو مدنظر رکھا گیا۔ امریکہ میں انسدادِ دہشت گردی کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا بھر میں شدت پسندی میں اضافے کے اسباب اور ان کے سدِ باب کی حکمتِ عملی پر غور کیا گیاہے۔ واشنگٹن میں شروع ہونے والی کانفرنس میں 60 ملکوں کے مذہبی رہنما، پولیس اور حکومتی نمائندے شریک ہوئے۔امریکی صدر براک اوباما کانفرنس کے دوسرے روز شرکا سے خطاب کیا جس میں انہوں نے امریکہ میں شدت پسندی کے سدِ باب کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے مندوبین کو آگاہ کیا۔اس سے قبل کانفرنس کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ شدت پسندی کے سدِ باب کے لیے فضائی بمباری اور زمینی حملوں کو واحد راستہ نہ سمجھے اور متبادل حکمتِ عملی ترتیب دے۔اپنے خطاب میں امریکی نائب صدر کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کا جواب طاقت سے دینا حل نہیں اور ان اسباب پر بھی غور کرنا ہوگا جو پرتشدد رویوں کا سبب بنتے ہیں۔کانفرنس میں امریکی شہروں لاس اینجلس، بوسٹن اور منیاپلس کے پولیس حکام بھی شریک تھے جہاں، امریکی حکام کے مطابق، نوجوانوں کے ساتھ حکام کے براہِ راست رابطوں کے ذریعے شدت پسندی کے رجحانات کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔اوباما انتظامیہ ان شہروں میں جاری انسدادِ شدت پسندی کے منصوبوں کو مثال قرار دیتی ہے اور انہیں دیگر شہروں تک وسعت دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔جبکہ پاکستان کے وزیر داخلہ، چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں پہلی مرتبہ پاکستان کی حکومت، فوج اور عوام دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے پر مکمل اتفاق رائے رکھتے ہیں۔بقول ا ±ن کے، پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ وہ ’ٹرننگ پوائنٹ‘ تھا، جس نے فوج اور سویلن حکومت کو پہلی مرتبہ ایک نکتے پر یکجا کیا، گو کہ پاکستان میں کچھ سیاسی جماعتیں مذہبی پس منظر کی حامل ہیں۔انہوں نے پشاور واقعے کے بعد سات دنوں میں دہشت گردی کے خلاف ’نیشنل ایکشن پلان‘ تیار کرنے میں حکومت کی مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کو دہشت گردی کے خطرے پر قابو پانے کے لئے مل کر کوششیں کرنی ہونگی۔چوہدری نثار واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک، ’یونائیڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس‘ سے خطاب کر رہے تھے۔وائٹ ہاوس میں شدت پسندی کے خلاف جاری تین روزہ کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے، ا ±نھوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے ایجنڈے پر کم از کم 11 نکات ایسے ہیں جو دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے پاکستان کے قومی ایکشن پلان کا حصہ ہیں۔تاہم، ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کے شدت پسندوں کو مشرق وسطیٰ اور مغربی افریقہ کے شدت پسندوں سے ملانے کی کوشش ایک غلطی ہوگی۔ ان کے بقول، دنیا کے مختلف خطوں میں سرگرم دہشت گردوں کے ایجنڈوں کی نوعیت علاقائی ہے۔چوہدری نثار کے بقول، داعش کہلانے والا گروہ صرف مشرق وسطیٰ تک محدود ہے؛ پاکستان یا جنوبی ایشیا میں اس کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں اس کے لئے میدان خالی کریں گی۔ تاہم، مستقبل میں اس خطرے پر قابو نہ پایا گیا تو داعش اور مقامی دہشت گردوں کے درمیان اتحاد بن سکتے ہیں۔چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں عبادت گاہوں پر حملے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کا ردعمل ہیں۔ مگر ان کے بقول، پاکستانی حکومت نے ملٹری آپریشن سے پہلے شدت پسندوں سے مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے تعاون کی بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن، ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی برادری کی توجہ افغانستان اور پاکستان سے ہٹنے نہ پائے۔وزیر داخلہ کے بقول، تشویش کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں شدت پسندوں کی تعداد کم نہیں ہوئی، مگر ایساف اور اتحادی فوج کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سابقہ پاکستانی حکومتوں نے دہشت گردی کے خلاف کیا اقدامات کئے، اس سے قطع نظر، اس وقت پاکستانی حکومت اور فوج ایک نکتے پر یکسو ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے لئے تمام اداروں کو مل کر چلنا ہوگا۔ لیکن، سویلین اور ملٹری اداروں پر مبنی ’ریپڈ ریسپونس فورس‘ کے قیام میں کم سے کم ایک سال کی مدت لگے گی۔پشاور اور شکارپور میں امام بارگاہوں میں ہونے والے حملوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وقتاً فوقتاً ابھرنے والی فرقہ واریت افغان جنگ کی دین ہے۔ چونکہ، ان کے بقول، افغان جنگ میں حصہ لینے والے بعض گروہوں نے بعد میں فرقہ واریت کا راستہ اختیار کیا تھا۔تاہم، چوہدری نثار کے بقول، فرقہ وارانہ تنظیموں کے لوگ ہمارے اندر ہی سے آتے ہیں۔ اس لئے، خفیہ ایجنسیوں کے لئے ان کی کمیونیکیشن کا پتہ چلانا آسان نہیں ہوتا۔ دوسرے، وزیر داخلہ کے بقول، دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں مذہبی عناصر کو ساتھ لے کر چلنا بھی ضروری ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ فرقہ واریت کے مسئلے کا حل اندر سے کیسے تلاش کیا جائے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں لشکر جھنگوی ہی نہیں کئی اور دہشت گرد تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔ جن کے لوگ افغانستان سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں۔ایک سوال پر چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے حوالے سے سابقہ پاکستانی حکومت کی پالیسیاں بےحد مبہم رہیں۔ ’لیکن، ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام کالعدم تنظیموں پر یکساں پالیسی اختیار کی جائے گی۔ یعنی کسی گروہ کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔جبکہ کانفرنس سے اپنے خطاب میں صدر براک اوباما مندوبین کو امریکہ میں جاری انسدادِ شدت پسندی کے منصوبوں کی کامیابی سے آگاہ کیا اور شدت پسندی کا شکار معاشروں میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے ساتھ رابطے بڑھانے پر زوردیا۔امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور پ ±رتشدد انتہا پسندی کے خلاف اقدام میں تمام ملکوں کو یکجا ہونا پڑے گا۔انسداد دہشت گردی کے عنوان پر منعقدہ بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، ا ±نھوں نے کہا ہے کہ دہشت گرد، ایک ارب مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتے۔امریکی صدر نے دنیا بھر کے شہری اور مذہبی راہنماو ¿ں پر زور دیا کہ وہ ’شدت پسندوں کے جھوٹے وعدوں‘ کے خلاف جنگ میں متحد ہوجائیں اور اس خیال کو مسترد کردیں کی ’دہشت گرد‘ گروہ اسلام کی غمازی کرتے
ہیں۔کہا کہ ’وہ اپنے آپ کو مذہبی راہنما اور مقدس جنگجو ظاہر کرتے ہیں‘۔بقول ا ±ن کے، ’وہ مذہبی لیڈر نہیں ہیں، وہ دہشت گرد ہیں۔ ہم اسلام کے خلاف صف آرا نہیں ہیں۔ ہم ا ±ن افراد کے خلاف نبردآزما ہیں جنھوں نے اسلام کا نام بدنام کیا ہے‘۔اس سے قبل، امریکی صدر نے کہا کہ، ’ضرورت اِس بات کی ہے کہ پ ±رتشدد انتہا پسندوں کو بھرتی کرنے والوں اور پروپیگنڈہ پر مامور افراد کا دنیا متحد ہوکر یکسوئی سے مقابلہ کرے، کیونکہ فوجی طاقت سے دہشت گردی ختم نہیں کی جا سکتی‘۔امریکی سربراہ نے یہ بات اخبار ’لاس انجلیس ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہی ہے، جس کے بعد ا ±نھوں نے واشنگٹن میں انسداد دہشت گردی سے متعلق بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کیا۔مسٹر اوباما کے بقول،’ ہمیں پتا ہے کہ صرف فوجی طاقت کے ذریعے اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا‘۔ا ±نھوں نے کہا کہ، ’اور، نہی سب دہشت گردوں کا پکڑا جانا اتنا آسان ہے، جو بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، ہمیں پ ±رتشدد انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنا ہے، جن میں پروپیگنڈہ کرنے والے، بھرتی کرنے والے اور ا ±ن کے سہولت کار شامل ہیں، جو خود، براہ راست دہشت گردی میں ملوث نہیں، لیکن وہ انتہاپسندی پر مائل کرتے ہیں، بھرتی کرتے ہیں اور دوسروں کو ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘یہ سربراہ اجلاس ایسے میں منعقد ہواہے جب امریکہ اور ا ±س کے اتحادی عراق اور شام میں داعش کے شدت پسند گروہ تیزی سے اور خونخوار طریقے سے اپنے پیر پختہ کر رہا ہے، جنھوں نے حال ہی میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس اور ڈنمارک میں دہشت گرد حملے کیے ہیں۔مسٹر اوباما نے کہا کہ ’داعش اور القاعدہ جیسے مہلک گروہ ا ±س غصے اور مایوسی کو ابھار کر ہمدردیاں سمیٹتے ہیں جو بے انصافی اور بدعنوانی کے نتیجے میں پروان چڑھ رہی ہیں؛ اور وہ (نوجوان) یہ دیکھتے ہیں کہ ا ±ن کی زندگی میں بہتری آ ہی نہیں سکتی۔ دنیا کو چاہیئے کہ نوجوانوں کو بہتر مستقبل کا یقین دلائیں‘۔تاہم، اوباما انتظامیہ محتاط ہے اور وہ اس ہفتے کے اجلاس کو صرف اسلامی انتہاپسندی تک محدود نہیں رکھنا چاہتی۔ لیکن، وہ تمام قسم کی انتہا پسندی کو اجاگر کرنا چاہتی ہے، جس حکمت عملی پر قدامت پسند، ریبپلیکن پارٹی کے ارکان تنقید کر رہے ہیں۔جبکہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ پر عمل درآمد وفاق اور تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ صوبائی حکومت ا ±ن مشکلات سے بھی آگاہ کرے جس کا ا ±نھیں اس سلسلے میں سامنا ہے۔”وفاقی حکومت کی طرف سے، فوج کی طرف سے جس قسم کی بھی مدد آپ کو چاہیئے وہ آپ کو مزید دی (جائے گی)، تاکہ آپ اس قومی لائحہ عمل پر صحیح طریقے سے موثر عمل درآمد کریں سکیں اور کے اس نتائج قوم دیکھ سکے۔“وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کا قومی لائحہ عمل صرف وفاقی حکومت یا کسی ایک فریق کا تیار کردہ نہیں ہے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی۔ تمام صوبوں کو اس پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیئے۔وزیراعظم نے گورنر اور وزیراعلی بلوچستان کو یقین دلایا کہ صوبے میں امن وامان کی بحالی کے لیے جو بھی وسائل درکار ہیں وہ فراہم کئے جائیں گے۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ افغانستان سے تخریب کاروں کے داخلے کو روکنے اور ایران کے سرحدی علاقے میں کارروائیاں کرنے والوں کی نگرانی کو مزید سخت کیا جائے گا۔ملک بھر میں انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت کارروائیاں جاری ہیں جن میں ہزاروں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر صورت جیتنا ہو گی اور اس کے سوا کوئی اور ’آپشن‘ نہیں ہے۔ دہشت گردی کی لعنت کو ہر صورت ختم کیا جائے گا۔ انسداد دہشت گردی کا قومی لائحہ عمل کسی ایک فریق یا حکومت نے تنہا نہیں بنایا بلکہ یہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے تیار کیا گیا۔ قوم اس لائحہ عمل پر کامیابی سے عمل درآمد ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔اے پی ایس