موجودہ جمہوری عہد کا دوسرا پارلیمانی سال۔چودھری احسن پریمی




گزشتہ چار جون کوموجودہ جمہوری عہد کا دوسرا پارلیمانی سال بھی کامیابی سے مکمل ہوا جس پرصدر مملکت ممنون حسین نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ میرے لیے ذاتی طور پر بھی آج کا دن خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ملک کے سب سے بااختیار اور پُروقار ایوان میں آپ سے میری یہ دوسری ملاقات ہے۔ میری خواہش اور دعا ہے کہ پاکستانی عوام کی امنگوں کا ترجمان یہ ایوان اسی طرح شاد اور آباد رہے اور عوام کے منتخب نمائندے عزت و وقار کے ساتھ قوم کی خدمت کرتے رہیں۔ صدر مملکت نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے نظام میں قومی زندگی کے نشیب و فرازکے اجتماعی جا ئزے کی یہ روایت بہت مفید اور خوب صورت ہے جسے آگے بڑھاتے ہوئے جب ہم گزشتہ برس پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتاہے کہ ہمارا ےہ سال ماضی کے مقابلے میں بہتر گزرا ۔ اس دوران اگرچہ بعض پریشان کر دینے والے واقعات بھی رونما ہوئے لیکن مقام شکر ہے کہ اِن آزمائشوں سے ہماری قوم اور اس کے ادارے سرخرو ہوکر نکلے ہیںجوہماری جمہوری بلوغت کا ثبوت ہے جس کے لیے پوری قوم،اس کے ادارے اور پارلیمنٹ مبارکباد کی مستحق ہے۔صدر مملکت کا یہ بھی کہنا تھا کہ انسانی معاشروں میں بعض معاملات پر اختلافِ رائے کاپیدا ہوجانا فطری ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ عرصہ قبل ایسے مسائل پیدا ہوئے لیکن یہ امر اطمینان بخش ہے کہ فریقین نے طویل عرصے تک مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر آئین و قانون کی روشنی میں اپنے اختلافات کا حل تلاش کیا اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے پر متفق ہوئے۔ میں اِس کامیابی پر تمام فریقین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ مجھے توقع ہے کہ اس تجربے کے نتیجے میں ہم ایسی اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو جمہوری نظام کی مزید پختگی کا سبب بنیں گی۔اس ضمن میں انہوں نے اطمینان محسوس کرتے ہوئے کہا کہ وطنِ عزیز جمہوری استحکام کے جس تجربے سے گزررہا ہے ،اِس میں صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ تما م قومی ادارے اور معاشرے کے تمام طبقات شریک ہیں جوبے شمار تلخ و شیریں تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آئین اور قانون کی بالادستی میں ہی قومی ترقی اور استحکام کا راز پوشیدہ ہے۔اگر ہم آئندہ بھی اسی راستے پر گامزن رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ترقی اور خوش حالی کے سلسلے میں اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکے۔صدر پاکستان کاپارلیمنٹ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اِس ایوان میں ہونے والی کارروائی کا جائزہ لینا ان کا فرض ِمنصبی بھی ہے اور جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ان کی ذاتی دلچسپی بھی۔یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ گزشتہ سال پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر رہی۔اگرچہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے لیکن موجودہ حالات میںیہ کارکردگی اطمینان بخش ہے۔ صدر مملکت نے توقع کی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جس طرح قانون سازی کا عمل جاری رہا ، اِسی طرح عوام کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیرنے کے لیے زیادہ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فیصلے ہوتے رہیں گے اور یہ ایوان حقیقی معنوں میں عوامی خواہشات کے مظہر کی حیثیت سے اپنی قدر و منزلت میں اضافہ کرتے رہےں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ایسی حکومت ہی کامیاب کہلا سکتی ہے جو کم اخراجات میں زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکے۔ اس میدان میں موجودہ حکومت کی کارکردگی بہتر رہی ہے جس نے اخراجات میں نمایاں کمی کرکے قومی دولت کا ضیاع روک دیا۔ بچت کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنا چاہیے۔گزشتہ پارلیمانی سال کے دوران اِس ایوان نے وطن عزیز کو درپیش سب سے بڑے مسئلے یعنی دہشت گردی پر قومی اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا۔ صدر پاکستان کا اشارہ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کی طرف تھا۔ وطن عزیز اور اس کے باشندے گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری دہشت گردی اور خون ریزی کی وجہ سے زخموں سے چُور تھے لیکن آرمی پبلک اسکول پر حملہ برداشت کی آخری حد ثابت ہوا اور قوم اور اس کے اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ کیا جو آپریشن ضرب ِ عضب کی شکل میں جاری ہے۔صدر مملکت کی نظر میں قومی سلامتی اور ملک کے اقتصادی مستقبل کے نقطہ ¿ نظر سے یہ اہم ترین فیصلہ تھا جس پر کامیابی سے عمل درآمد جاری ہے۔انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ہم دہشت گردوں اور اُن کے سرپرستوں پر واضح کرتے ہیں کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہے گاخواہ یہ دہشت گرد فاٹا اورقبائلی علاقوں میں سرگرم ہوں یا کراچی یا ملک کے کسی اور حصے میں ، وہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کو نشانہ بناتے ہوں یا اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کسی بھی پاکستانی کو ۔ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ ، نسل یا عقیدے سے ہو ، پاکستان کے برابرکے شہری اور قوم کے لختِ جگر ہیں ۔اِن پر کوئی آنچ آتی ہے تو پوری قوم تکلیف میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔ اس لیے دہشت گرد کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔انہیں ہرصورت میں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ صدرمملکت نے اپنے خطاب کے دوران یہ بھی واضح کیا کہ ہم نہ اپنے ساٹھ ہزار سے زائدشہیدوں کو بھولے ہیں اور نہ دہشت گردوں سے نبرد آزما اپنے افسروں اور جوانوں کو جنھوں نے اپنا آج قوم کے کل پرقربان کر دیا۔ ہم اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کے لواحقین کو یقین دلاتے ہیں کہ قوم اِن کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ دہشت گردی کے اِس تکلیف دِ ہ دور میں اگر چہ پوری قوم نے مسائل کا سامنا کیا ہے لیکن گھروں سے دربدر ہونے والے فاٹا اور قبائلی علاقوں کے عوام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ملک کے اندر ہی ہجرت کا دکھ اٹھانے والے ان پاکستانیوں کی اپنے گھروں میں دوبارہ آبادکاری کے لیے حکومت نے اچھے منصوبے بنائے اور فراخ دلی سے فنڈز مختص کیے ،صدرمملکت نے اس بات پر زور دیا کہ اِ ن لوگوں کی بہبود پر مزید توجہ دی جائے کیونکہ پاکستان میں امن کا راستہ اِن پاکستانیوں کے دل سے ہوکر گزرتا ہے۔ انہوں نے امن کو پاکستان اور اہل پاکستان کی پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس کے بغیر ترقی کا خواب شرمندئہ تعبیرنہیں ہوسکتا اس لیے ہماری حکومت ، افواجِ پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تندہی سے کام کررہے ہیں۔ گزشتہ پچیس تیس برسوں کے دوران کراچی، بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں امن متاثر ہوااور عوا م میں تحفظ کا احساس کم ہوتا چلا گیا۔ وطن عزیز میں ایک طویل عرصے کے بعد اِس صور تِ حال سے نمٹنے کے لیے مو ¿ثر حکمت عملی اختیار کی گئی ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ بدامنی کے خاتمے کے لیے انہی کامیاب کارروائیوں کا ایک خو ش گوار نتیجہ ہمیں اپنے کھیل کے میدانوں میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی صورت میں نظر آرہاہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میںہم صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دیگر کھیلوں کے عالمی مقابلے بھی اپنی سرزمین پر دیکھیں گے تاکہ نوجوانوں کے لیے صحت مند اور تعمیری سرگرمیو ں میں تیزی آئے ۔صدر مملکت نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ امن و امان کی بحالی کا کام بڑی احتیاط اور تیز رفتاری کے ساتھ کیا جائے تاکہ کوئی نیا مسئلہ بھی پیدا نہ ہو اوردہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کا خاتمہ بھی ہوجائے۔ انہوں نے یقین سے کہا کہ بہت ہی کم مدت میں بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے تمام حصوں میں حالات معمول پر آجائیں گے۔گزشتہ چند برسوں کے دورا ن پولیو ایک اُبھرتے ہوئے خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہم بڑی محنت سے کام کررہے ہیں۔یہ بدقسمتی ہے کہ پولیو کو بنیاد بنا کر پاکستان پر پابندیاں لگا ئی گئیں لیکن یہ فراموش کر دیا گیاکہ اِس مرض کے پھیلاو ¿ کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے خطے میں بدامنی،دہشت گردی اور خون ریزی عام ہوئی لیکن میں اپنی قوم اور دنیا پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے بچے عزیز ہیں اور ہم انھیںموت کے منہ میں نہیں جانے دیں گے۔اسی لیے ہم نے ہمیشہ عالمی برداری سے اپیل کی ہے کہ پاکستان کو پولیو کے سلسلے میں ناکردہ جرم کی سزا نہ دی جائے ۔ میری خواہش ہے کہ دنیا میں جس فورم پر بھی آپ کو بات کرنے کا موقع ملے ،آپ بھی یہ پیغام عام کیجیے اورعالمی برادری پر واضح کیجیے کہ مسئلے کا حل پابندیاں نہیں بلکہ ہمدردانہ طرزِ عمل ہے۔ اس موقع پر میں قوم کے اُن بیٹے اور بیٹیوں کوبھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر خدمات سرانجام دیں ۔ میں اُن شہیدوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنھوں نے پولیو کے خلاف مہم کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔ ہم اُن کے لواحقین کو یقین دلاتے ہیں کہ انھیں کبھی بے آسرا نہیں چھوڑا جائے گا۔ آزمائشوں اور مشکلات کی طویل سیاہ رات کے بعد آج پاکستان میں امکانات کے نئے سورج طلوع ہورہے ہیںجب وطنِ عزیز کے کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلیں گی اور اُس کی شاہراہوں پرمال واسباب سے لدے ہوئے ٹرک دوڑیں گے۔ میرا اِشارہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کی طرف ہے۔ جس کے تحت بجلی کی پیداوار کے عظیم الشان منصوبے بھی روبہ عمل آرہے ہیں اور کاشغر کو گوادر سے ملانے والی شاہرات اور اس کے بعد ریلوے لائن کا خواب بھی حقیقت میں تبدیل ہونے جارہا ہے۔ آپ جانتے ہیںکہ یہ منصوبہ خطے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے کامیاب بنانے کے لیے ہمیں سخت محنت کرنا ہوگی۔پاکستان آج بیداری، قومی مفاہمت اور رواداری کے جس شاندار دورسے گزر رہا ہے، اُس میں یہ ممکن نہیں کہ اقتصادی راہداری کے ثمرات سے ملک کا کوئی حصہ محروم رہ جائے۔ آل پارٹیزکانفرنس میں اقتصادی راہداری کے روٹ پر قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان جس خوش اسلوبی سے اتفاقِ رائے سامنے آیا ہے ، وہ قابلِ تحسین ہے ۔اسے میں مستقبل کے لیے نیک فال سمجھتا ہوں۔ قومی مفاد کے اس اہم ترین معاملے پر قومی قیادت کے درمیان اتفاقِ رائے پر وزیر اعظم بھی مبارک باد کے مستحق ہیں اور سیاسی قیادت بھی۔ اِس تاریخی اتفاقِ رائے کے باوجودقوم، حکومت اور سیاسی قیادت کو میرامشورہ ہو گا کہ وہ ہمہ وقت چوکنا رہیں۔ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو بطور ہتھیاراستعمال کرنے کی دھمکی کے بعد یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ہماری صفوں میں کسی قسم کے انتشار کی گنجائش ہی پید ا نہ ہو ۔مجھے یقین ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس مرحلے سے سُرخرو ہوکرنکلیں گے۔ صدرمملکت نے کہا کہ مقامِ اطمینان ہے کہ بہتر اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت میں اُبھارکے آثار نظر آرہے ہیں جس کا اعتراف اسٹیٹ بینک ہی نہیں، عالمی مالیاتی ادارے، دنیا کے ممتاز ماہرینِ اقتصادیات اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی کررہے ہیںکہ پاکستانی معیشت ایک طویل عرصے کے بعدبہتری کی طرف گامزن ہے ۔اقتصادیات کے حوالے سے ملکوں کی ریٹنگ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ بہتر اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں بجٹ کا خسارہ کم ہو رہا ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں کمی کر کے تجارتی استحکام کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی ہے۔ شرح سود میں یہ کمی اِس اعتبار سے تاریخی اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ گزشتہ42برسوں کے دوران اتنی کم شرح سود کبھی نہیں ہوسکی تھی۔یہ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ اس وقت ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش ہےں۔افراطِ زر کی شرح گزشتہ کئی برسوں کے مقابلے میں کم ترین سطح پر ہے ۔ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہورہا ہے اورترسیلات زر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس میں چین کی تقریباً 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے نمایاںہیں۔ یہ معیشت کی بہتری اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کے واضح اشارے ہیں۔
حکومت کی اقتصادی کارکردگی اُس وقت مزیدواضح ہوجاتی ہے جب ہم دو سال پہلے کی صورتِ حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ حکومت برسراقتدار آئی تو ملک پیچیدہ اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ ملک کا میکرو اکنامک فریم ورک عدم استحکام کا شکار تھا، گردشی قرضوں کی وجہ سے پاور سیکٹر تباہ حال تھا اور پورا معاشی نظام داﺅ پر لگ چکا تھا۔ 2012 ءمیں عالمی مالیاتی اداروں کی ریٹنگ میں ہم بہت پیچھے تھے اور انٹرنیشنل بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈیویلپمنٹ (IBRD)سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کو غیر موزوںقرار دے چکا تھاجب کہ عالمی ترقیاتی ادارے پاکستان کو قرضہ نہ دینے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ ایسے حالات میںحکومت نے درست ترجیحات ، طویل المیعاد حکمتِ عملی اور مالیاتی نظم و ضبط کے ذریعے گرتی ہوئی معیشت کو سہارادیا جبکہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے لیے نقدامداداورسبسڈی کاسلسلہ بھی جاری رکھاگیا۔نوجوانوںاور کسانوں کو قرضے دےے جارہے ہیں۔ہنر مند افرادی قوت کی تیاری کے لیے تربیتی پروگرام بنائے گئے ہیں۔ علمی تحقیق کے فروغ کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم اور پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو مفت اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے منصوبوں پر بھی عمل درآمد جاری ہے۔ یہ اقدامات قابلِ تحسین ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری معیشت پٹڑی پر چڑھ چکی ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دن ہمارے لیے مزید اچھی خبریں لائیں گے۔معیشت میں بہتری کے اِن آثار کے باوجود یہ حقیقت بھی ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جب تک ٹیکس نیٹ میں وسعت پیدا نہ کی جائے اور معیشت کو بدعنوانی کی صورت میں لگے ہوئے گُھن کا علاج نہ کیا جائے ، کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی تاہم یہ امرباعثِ اطمینان ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی زوال پذیر ہے۔ معیشت کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی کرکے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کی تدابیر کی جائیںاور ٹیکس چوری کے رحجان کے خاتمے کے لیے مو ¿ثر اقدامات کیے جائیں۔ قومی معیشت کے استحکام کے لیے اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ہی میںآپ سب کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا بتایاہوایہ سنہری اصول ضرور یاد دلانا چاہوں گا کہ ہماری تمام تر پالیسیوں کا محور عوام کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے کیونکہ یہ عوام ہی ہیں جو ہر مشکل موقع پرقربانی دے کر حکومت کاہاتھ بٹاتے ہیں۔اس لیے حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اِن کے مسائل اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں ترتیب دے جن سے کرپشن اور بدعنوانی کا ہر راستہ بند ہو جائے کیونکہ قومی خزانے سے ناجائز طریقے سے نکلنے والا ایک پیسہ بھی براہ راست عوام پر منفی انداز میں اثر انداز ہوتا ہے۔ حکومت نے برآمدات کے فروغ کے لیے قابلِ قدر کام کیا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ اِن کوششوں کے اچھے نتائج برآمد ہوںگے۔ اِس سلسلے میں میرا ویژن یہ ہے کہ وسط ایشیا، مشرق بعید اور افریقہ سمیت ایسے خطوں کی طرف توجہ دی جائے جہاں ہمارے قدم ابھی تک نہیں پہنچے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ دنیا کے بہت سارے ممالک اور خطے پاکستان کے ساتھ تجارت اور مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے خواہشمندہیں ۔ہمیں اِس جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غیر روایتی منڈیاں اور پارٹنر تلاش کرکے ہم اپنی معیشت کے استحکام کے لیے قابل قدر کردار ادا کرسکتے ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے جاری توانائی کے بحران نے بے شمارمسائل پیدا کیے ہیں جن سے عوام میں بے چینی اور معیشت میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ بارہ پندرہ برسوں کے دوران بجلی کی پیداوار کا کوئی نیا منصوبہ نہیں لگایا گیا۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ موجودہ دور میںاِس شعبے کو ترجیح دی جا رہی ہے اور بجلی کی پیداوار کے متعدد نئے منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن میںچولستان میںقائداعظم سولر پارک، کراچی اور چشمہ میں ایٹمی بجلی گھروںکے علاوہ گیس، کوئلے اور ہوا سے بھی بجلی پیدا کرنے پر کام جاری ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی منصوبوں میں ملک کا پرائیوٹ سیکٹر بھی کام کررہا ہے۔ اِسی طرح داسو اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر بھی پیشرفت ہورہی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ منصوبے 2018 ءتک بجلی کی بھرپور پیداوار دے رہے ہوں گے جس کے نتیجے میںہم بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بجلی کی ٹرانسمیشن کی صورت حال پر توجہ دی جائے کیونکہ ٹرانسمیشن کا موجودہ نظام ایک خاص حد سے زیادہ بجلی کی ترسیل کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔اِس لیے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار میں اضافے اور ٹرانسمیشن کے نظام میں بہتر ی کے معاملات پر یکساں توجہ دی جائے۔گیس کے شعبے میں بھی حکومت کی کارکردگی اچھی رہی اس سلسلے میں LNG ٹرمینل کی تکمیل بلاشبہ قابلِ ذکر کامیابی ہے جسے ریکارڈ مدت میں تعمیر کیا گیا۔ قدرت نے پاکستان کو تیل اور گیس کے علاوہ معدنیات سے بھی مالامال کر رکھا ہے۔ ان شعبوں کی ترقی سے ملک کی معیشت میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ ایک زرعی ملک کی حیثیت سے پانی ہماری بنیادی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ہمارے علم میں ہے کہ آنے والے برسوں کے دوران پانی کا بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اِس لیے ہمیں مکمل اتفاقِ رائے کے ساتھ پانی کے ذخائر کی تعمیر پر توجہ دینی ہوگی۔ اِس ضمن میںدیامر بھاشا ڈیم اچھی پیش رفت ہے لیکن ہماری ضروریات زیادہ ہیں۔مجھے یقین ہے کہ حکومت ماہرین کے ذریعے ان معاملات کا جائزہ لے کر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں جلد پیش رفت کرے گی۔ہم پُرامن قوم ہیں اور پوری دنیا، خاص طور پر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔یہ ہمارے خلوص ہی کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ جناب اشرف غنی اور نئی افغان قیادت نے پاکستان کی پُرخلوص پیش قدمی کا جوا ب گرم جوشی سے دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا یہ رشتہ نہ صرف خطے میں امن و استحکام کے فروغ کا ذریعہ بنے گابلکہ تعاون کی نئی راہوں کا بھی تعین کرے گا۔بھارت کے ساتھ باہمی اعتماد اور تعاون کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات ہماری ترجیح ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اپنے وعدے کے مطابق مسئلہ ¿ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار داد اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرے تاکہ خطے میں امن کی مستحکم بنیاد قائم ہوسکے۔کچھ عرصہ قبل بھارت نے کسی وجہ کے بغیر مذاکرات کا عمل معطل کردیا تھا ۔ حال ہی میں خارجہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے لیکن کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہ ہوسکی۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے دیرپاامن کے لیے ضروری ہے کہ خلوص اور نیک نیتی سے مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے اور دونوں ملک پانی سمیت تمام متنازع امور بات چیت کے ذریعے حل کر کے خطے میں امن اورخوش حالی کی راہیں ہموار کریں۔ اسلامی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی پُرجوش ہیں۔حال ہی میں یمن کا بحران پیدا ہوا تو اس کے حل کے لیے پاکستان نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ ہمیں توقع ہے کہ اِن کوششوں کے نتیجے میں یمن کے حالات میں جلد بہتری آئے گی ۔ سعودی عرب، ترکی، ایران اور دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مثالی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اِن میں مزید وسعت آرہی ہے۔چھ دہائیوں پر مشتمل چین کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات ہر آزمائش پر پورے اترے ہیں ۔حال ہی میں چین کے صدر عزت ما ¿ب شی جن پنگ نے اسلام آباد کا دورہ کیا ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان سرمایہ کاری کے تاریخ ساز معاہدے ہوئے ہیں۔پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی یہ نئی جہت مزید وسعت اختیار کرکے دنیا کے لیے مثال بن جائے گی،انشااللہ۔ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیںجوباہمی احترام اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہیں۔دونوں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں ۔ دنیا میں امن و استحکام کے لیے یہ تعاون غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔یورپی ملکوں کے ساتھ بھی پاکستان کے دیرینہ اور کثیر الجہت تعلقات قائم ہیں ۔اِسی طرح روس جیسے اہم ملک کے ساتھ تعلقات میں وسعت پیدا کرنے کے علاوہ تعاون کی نئی راہیں بھی تلاش کی جا رہی ہیں۔گزشتہ برس ہم نے خارجہ تعلقات کی نئی دنیائیں دریافت کی ہیں جن میں آذربائیجان ،کرغزستان، ترکمانستان،تاجکستان اور بیلاروس جیسے ملک شامل ہیں۔اِسی حکمتِ عملی کے تحت میں نے نائیجیریا اور آذربائیجان کے دورے کیے۔ آپ کو یہ جان کر مسرت ہوگی کہ ان دوروں کے نتیجے میں دوست ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے اور اب سرکاری اور نجی، دونوں سطح پر کیے گئے معاہدے بھی حقیقت بننا شروع ہوگئے ہیں ۔اِسی پالیسی کے تحت پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان جلدہی فضائی رابطہ بھی قائم ہورہاہے جس سے تاجروںاور صنعت کاروں کے قیمتی وقت اور سرمائے کی غیر معمولی بچت ہوگی۔ دونوں ملکوں کے درمیان قائم ہونے والا یہ رابطہ صرف اِن ملکوں تک محدودنہیں رہے گا بلکہ دو خطوں کوباہم ملانے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔ ہمیں افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرق بعید کے ملکوں پر بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ خارجہ تعلقات کے شعبے میں کھلنے والی یہ نئی راہیں امن ِعالم اور دو طرفہ اقتصادی تعلقات کے فروغ کی بنیاد بن جائیں۔حال ہی میں کئی اہم عالمی رہنماﺅں نے پاکستان کا دورہ کیا ہے جن میں چین ، ترکی،افغانستان،مالدیپ،قطر، سری لنکا اور بیلا روس کے صدور اور سربراہان حکومت کے علاوہ امریکا کے وزیر خارجہ اور روس کے وزیردفاع بھی شامل ہیں۔ اِن رہنماو ¿ں کے دورے کامیاب خارجہ پالیسی کی نشان دہی کرتے ہیں۔کوئی ملک اس وقت تک حقیقی معنوں میں ترقی نہیںکرسکتا جب تک اسے ایک عام علاقے سے مضبوط وفاق میں بدل دینے والی اکائیاں مطمئن نہ ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات انتہائی خوش گوار ہیں۔ تعلقاتِ کار کی یہ نوعیت جمہوری استحکام اور قومی اقتصادی ترقی کا ذریعہ بنے گی ۔ البتہ چند پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔مثلاًگزشتہ چند دہائیوں کے دوران دیکھا گیا ہے کہ قومی ترقی اور استحکام سے انتہائی گہرا تعلق رکھنے والے منصوبوں اور فیصلوں کوبعض عناصر اپنے معمولی مفادات کی خاطر متنازع بنا دیتے ہیں۔ اِس رجحان کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ قومی قیادت معاشرے کے اِن طبقات کو وسیع تر قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے پہل کرے ۔اِس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف مل کر ان لوگوں کے ساتھ اخلاص اور محبت کی بنیاد پر مکا لمے کا آغاز کریں۔اِس مرحلے پر میں یہ کہنا بھی مناسب خیال کرتا ہوں کہ قومی امور کے بارے میں ذرائع ابلاغ سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو پختگی سے کام لیتے ہوئے محتاط طرز ِعمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ قومی مفاد کے حساس معاملات پر ہیجانی کیفیت پیدا کرنا کبھی مناسب نہیں ہوتا۔یہ امر باعث اطمینا ن ہے کہ موجودہ حکومت نے کم ترقی یافتہ علاقوںیعنی فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت دیگر علاقوں کی ترقی کے لیے زیادہ رقوم مختص کی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ تعمیروترقی کے لیے مخصوص کی جانے والی اِن رقوم کا استعمال انتہائی دانش مندی سے کیا جائے تاکہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کارآمد اور دیر پا اثرات رکھنے والے منصوبے وجود میں آسکیں۔ صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد میں نے بدعنوانی کے خلاف جہاد،صحت عامہ کے امور ،ثقافت اور تعلیم کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مزید رقوم مختص کی جائیں کیونکہ ہمارے بیشتر مسائل کا حل تعلیم میں ہی مضمر ہے ۔ اس ضمن میں میری یہ بھی خواہش ہے کہ پرائمری تعلیم کا پورا شعبہ خواتین کے سپرد کردیا جائے۔اِس کے نتیجے میں خواتین میں تعلیم کے حصول کا جذبہ مزید فروغ پائے گا، خواتین کی ایک بڑی تعداد افرادی قوت میں شامل ہوجائے گی اور معاشرے کے وہ طبقات بھی اپنی بچیوں کوملازمت کے لیے گھر سے باہربھیجنے پر آمادہ ہوجائیں گے جو انھیں مخلوط اداروں میں بھیجنا پسند نہیںکرتے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی کے معاملات بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہونے چاہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوبصورت سرزمین اور بہترین موسموں سے نوازا ہے لیکن ہم لوگوں نے اعتدال سے محروم روّیوں کی وجہ سے اپنے ماحول کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اِس سلسلے میں ایک مکمل وفاقی وزارت کام کررہی ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر اہم خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ حال ہی میں ماحولیات کے ضمن میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جس سے اِس شعبے میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں مجھے اپنی قوم سے یہ کہنا ہے اگرہم صحت و صفائی کے معاملات اور ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میںذرا سے بھی محتاط ہوجائیں تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخودحل ہوجائیں گے۔ ہمیں اپنے جنگلات کے تحفظ اور ان کے اضافے پر بھی خصوصی توجہ دینی ہوگی کیونکہ دنیا اور خاص طور پر وطنِ عزیز کے بدلتے ہوئے موسموں کے تناظرمیں یہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ انہوں نے آخر میں سب کی توجہ کچھ نظریاتی امور کی طرف بھی مبذول کرائی کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی سے ہم دہشت گردی کے عذاب سے دوچار ہیں۔جس کی بنیادی وجہ نظریاتی افراط و تفریط ہے۔ یہ مسائل اِس لیے پیدا ہوئے کہ ہم نے اُن بنیادوں کوفراموش کردیا جن پر ہمارے بزرگوں نے عدیم النظیر قربانیاں دے کر یہ ملک قائم کیاتھا۔ آئیے! عہد کریں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ، حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اور دیگر بانیانِ پاکستان کے تصورات کے عین مطابق ہم اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے یک جان ہو کر کام کریں گے۔انہوں نے معززارکان پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یقین رکھیے کہ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے توہمارا وطن امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے گا ۔قائد اعظمؒ کے تصورات کی روشنی میں ہر شخص اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہوگا۔ اسلام کی اصل روح کے مطابق اقلیتیں بھی محفوظ و مامون ہوں گی۔۔۔۔ اور ہم اپنے بزرگوں کی خواہش کے مطابق اپنے وطن کو ایک حقیقی اورمثالی اسلامی معاشرے میںتبدیل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ عزت انہی کے واسطے جن کے چلن درست۔آئیے!بحیثیت قوم ہم ایسا چلن اختیار کریں جو دنیا و آخرت میں ہماری نیک نامی کا سبب بن جائے اور اِس کے نتیجے میں وطن عزیز ترقی اور استحکام کی منزل پر پہنچ سکے۔آخر میں انہوں نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری معروضات کو توجہ اور اطمینان کے ساتھ سنا۔ اللہ سے دعاگو ہوںکہ وہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے اوراُسے ہرقسم کے نسلی ، لسانی ، مذہبی اور فرقہ ورانہ امتیازات سے پاک کر نے کے لیے ہماری کوششوں کو شرفِ قبولیت بخشے اور ہمیں پاکستانیت کی جیتی جاگتی تصویر بنادے۔ایسوسی ایٹڈ پریس سروس،اسلام آباد