بھارتی بیان بازی سے اشتعال انگیزی کا خدشہ۔چودھری احسن پریمی



برما میں شدت پسندوں کے خلاف بھارتی کارروائی کے بعد جو بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوا اس میں پہلے بھارتی وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات راجیہ وردھن سنگھ راٹھور نے برمی سرحد کے اندر بھارتی فوج کی کارروائی کو پاکستان سمیت ان دوسرے ممالک کے لیے ایک پیغام قرار دیا جہاں بھارت مخالف شدت پسند نظریات والے لوگ بستے ہیں۔اس کے ردعمل میں وزیر د اخلہ چوہدری نثار علی نے کہا کہ ’بھارت کسی غلط فہمی کا شکار نہیں رہے، پاکستان میانمار نہیں ہے۔اس کے بعد برما آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے جمعرات کو بھارت کے وزیر دفاع منوہر پریکر نے ایک بار پھر پاکستان پر نشانہ باندھا اور کہا کہ ’جو لوگ بھارت کے اس نئے انداز سے خوفزدہ ہیں انھوں نے اس پر ردِ عمل کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔جہاں دونوں جانب سے جاری ہونے والے ان بیانات سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، وہیں بھارتی اخبارات میں لکھے جانے والے اداریے اس موضوع پر نسبتاً محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے عملی سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ہندوستان ٹائمز لکھتا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ برما آپریش کامیاب رہا اور بھارت کی جانب کوئی ہلاکتیں بھی نہیں ہوئیں لیکن مناسب یہی ہو گا کہ اس کامیابی کے ساتھ جذبات میں نہ بہا جائے اور یہ کہنا خطرناک ہو گا کہ یہ پاکستان سمیت تمام ملکوں کے لیے پیغام ہے۔اخبار کے مطابق راجیہ وردھن سنگھ راٹھور کا یہ کہنا کہ ’ہم جب اور جہاں چاہیں گے کارروائی کریں گے‘ یہ تاثر دیتا ہے کہ بھارت نے برما کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔جبکہ ٹائمز آف انڈیا کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی ایک مختلف عمل ہو گا ۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ ’خطے میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے آخر کار حکومت کو سفارتی طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔روزنامہ انڈین ایکسپریس لکھتا ہے کہ ’بھارت کو ٹھنڈے دماغ سے اور سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس آپریشن سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے اور اس کا استعمال کہاں اور کس حد تک ہونا چاہیے۔پاکستان کے خلاف اس طرح کی کارروائی کی بات کرنے پر بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور یہ ذہن میں رکھیے کہ کیا اس کے پاس علاقائی تنازعے کو ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے کی صورت میں نمٹنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔جبکہ ایوان بالا سینیٹ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش کے قیام کے بارے میں بیان کے خلاف ایک مذمتی قرارداد پیش کی ہے جس میں اس بیان کو پاکستانی سالمیت پر حملہ قرار دیا ہے۔یہ قرارداد سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے پیش کی۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی افواج شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے تاہم وہ کسی بھی غیر ملکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔واضح رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دورہ بنگلہ دیش کے دوران کہا تھا کہ بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اور یہی وجہ تھی کہ بھارتی افواج نے بنگلہ دیش میں علیحدگی پسندوں کی مدد کی تھی۔راجہ ظفرالحق نے کہا کہ بھارت کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کر کے اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی بننے کی کوششیں کر رہا ہے۔ا ±نھوں نے کہا کہ پاکستانی افواج دنیا کو شدت پسندی سے محفوظ رکھنے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں جبکہ بھارت اس آپریشن کو ناکام بنانے کے لیے رخنے ڈال رہا ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔ا ±نھوں نے کہا کہ عالمی برادری کو بھارتی رویے کا نوٹس لینا چاہیے۔اس سے قبل سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بھارتی وزیر اعظم کے اس بیان کو اقوام متحدہ سمیت ہر بین الاقوامی فورم پر ا ±ٹھانا چاہیے۔ ا ±نھوں نے کہا کہ ہمیں پاکستانی افواج کی صلاحتیوں پر اعتماد ہے اور پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ا ±نھوں نے کہا کہ بھارتی وزرا کے بیان پر جارحانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے بلکہ ایسی گیدڑ بھبھکیوں کو ہنس کر ٹال دینا چاہیے۔اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پوری دنیا پاکستانی افواج کی صلاحیتوں کی معترف ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور بھارت بھی پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں سے پوری طرح باخبر ہے۔اس سے پہلے چیئرمین سینیٹ نے قواعد و ضوابط معطل کر کے بھارتی قیادت کے حالیہ بیانات سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کے لیے ارکان کو تقاریر کا موقع دیا۔سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ بھارتی نیشنل کانگریس نے تحریک آزادی کے دوران بھی مذہبی انتہا پسندی سے اپنے تعلقات استوار کیے۔ا ±نھوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے جو انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں اور اسے ختم کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔انھوں نے کہا کہ ’ہم مسلح فوج کے ساتھ ہیں، وفاق کو کمزور نہ کیا جائے، سب کو حقوق دے کر ساتھ چلایا جائے۔ڈاکٹر جہانزیب جمال الدین نے کہا کہ ’ہمارے ملک کے داخلی مسائل میں بھارتی قیادت کی مداخلت محض گیدڑ بھبھکیاں ہیں، بھارتی عوام نے ایک جرائم پیشہ شخص کو وزیراعظم منتخب کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اگر ہمارے پاس اپنے داخلی مسائل کے حل کی صلاحیت موجود ہو اور وفاق اکائیوں کے مسائل حل کر پائے تو کسی سپر پاور کو پاکستان میں مداخلت کی جرات نہیں ہو سکتی۔جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے تمام ہمسایہ ممالک سے برابری کی سطح پرخوشگوارتعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اپنے پڑوسی ملک سے بھی یہی ا ±مید رکھتا ہے۔دفتر خارجہ میں ہونے والے سفارتکاروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات کی خواہش رکھتا ہے لیکن یہ خواہش یکطرفہ نہیں ہو سکتی۔ پاکستان اپنے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔ ہندوستانی قیادت کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے دونوں ممالک کے درمیان جاری مفاہمت عمل کی فضاءمتاثر ہوئی ہے۔پاک – چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو منفرد جغرافیائی حیثیت حاصل ہے اور اقتصادی راہداری سے صرف پاکستان کو نہیں بلکہ پورے خطے کو فائدہ حاصل ہوگا۔کشمیری عوام کے حق آزادی کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔وزیراعظم نواز شریف نے سفارت کاروں کو بتایا کہ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملک میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ پاکستان دنیا میں ابھرتی ہوئی مارکیٹ کےطور پر ابھر رہا ہے جب کہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مزید بہتر کردی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں خطے اورعالمی اقتصادی روابط کے نئے مواقع تلاش کرنا ہوں گے۔بیان بازی کے حوالے سے ایک بار پھر پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ تازہ ترین تنازعہ اس وقت شروع ہوا، جب ہندوستانی وزیراعظم نے 1971ءکی جنگ میں ہندوستان کے کردار کا کھلے عام اعتراف کیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش ایک علیحدہ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ا ±بھرا تھا۔اس اعتراف کے بعد بہت سے پاکستانی اس انکشاف کے تناظر میں اقوامِ متحدہ کے فورم پر ہندوستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔تاہم ملک کے معروف دانشوروں و تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ پاکستان کو اس طرح کا ردّعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ ہندوستانی وزیراعظم نے 1971ءکے جنگ کے بارے میں اشتعال انگیز بیان دیا تھا۔اس لیے کہ یہ مجموعی طور پر ملک کے لیے مفید ثابت نہیں ہوگا۔ اس ردّعمل کے بجائے حکومت پاکستان اور متعلقہ پالیسی سازوں کو اپنی توانائی اس بات کو سمجھنے میں صرف کرنی چاہیے، کہ آخر ہندوستانی وزیراعظم نے اپنے یہ ریمارکس اس موقع پر ہی کیوں دیے۔ان کی نظر میں جیسے کو تیسا کی طرز کا ردّعمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہندوستان پاکستان کو اس خطے میں تنہا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کوئی بھی دوسرا ملک چاہے وہ افغانستان ہو، بنگلہ دیش یا میانمار، ہندوستان بھی اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے۔ان کے خیال میں اگر ہم خود کو مشتعل ہونے کی اجازت دیتے ہیں، جس طرح مودی کے جواب میں ہم نے کیا، تو ہم اس کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ ہم اپنے دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں۔ہندوستان نے ہمیشہ اس طرح کی کوشش کی ہے اور وہ ہمیشہ اس طرح کے تنازعات پیدا کرتا رہے گا، جس کا بنیادی مقصد مقامی قوتوں اور اپنے اتحادیوں کو خوش کرنا ہے۔ہمیں اپنے بہترین مفاد میں اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات کو نظرانداز کردینا چاہیے، اس طرح کی چیزوں کے لیے محض مذمت کرنا ہی کافی ہوگا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سلسلے میں مودی نے جو دعویٰ کیا ، اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی کیو نکہ اس موضوع پر درجنوں کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔ جن میں بنگلہ دیش کی تخلیق میں ہندوستانی حکومت کے کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بنگلہ دیش نے اپنی آزادی کی تحریک میں ہندوستان کے کردار کو باقاعدہ بانگِ دہل تسلیم کیا ہو۔اے پی ایس