گلگت۔بلتستان کے عام انتخابات باعث تقلید۔چودھری احسن پریمی




پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں دوسری قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے واضح برتری حاصل کر لی ہے۔اس کے علاوہ مجلسِ وحدت المسلمین نے دو جبکہ پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور اسلامی تحریک نے ایک ایک سیٹ جیتی ہے۔ دو نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئی ہیں۔مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے گلگت، سکردو اور گانچھے سے تین، تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ اسے دیامیر اور استور سے دو، دو اور ہنزہ سے ایک نشست ملی ہے۔مجلسِ وحدت المسلمین کے امیدوار ہنزہ اور سکردو سے کامیاب ہوئے ہیں۔گذشتہ انتخابات میں گلگت بلتستان میں حکومت بنانے والی جماعت پیپلز پارٹی اس مرتبہ بری طرح ناکام ہو گئی ہے اور ایک کے سوا اس کے تمام امیدوار ہار گئے ہیں جن میں سابق وزیرِ اعلیٰ مہدی شاہ بھی شامل ہیں۔مسلم لیگ ن نے گلگت، استور اور گانچھے میں کلین سویپ کیا ہے۔پیپلز پارٹی کو واحد سیٹ سکردو سے ملی ہے جبکہ تحریکِ انصاف کے امیدوار نے غذر اور اسلامی تحریک نے ہنزہ سے کامیابی حاصل کی ہے۔کامیاب ہونے والے تین آزاد امیدواروں میں سے دو کا تعلق غذر اور ایک کا دیامیر سے ہے۔سکردو کے ایک حلقے جی بی ایل اے 10 کا نتیجہ روک لیا گیا ہے اور دوبارہ گنتی کے بعد اس کا اعلان کیا جائے گا۔گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 33 ہے جس میں تین ٹیکنوکریٹس، جبکہ چھ خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ باقی رہ جانے والی 24 نشستوں پر گزشتہ پیر کو انتخابات ہوئے تھے۔ان 24 نشستوں میں گلگت کے تین، سکردو کے چھ، دیامر کے چار، غذر، ہنزہ اور گانچھے کے تین تین، جبکہ استور کے دو انتخابی حلقے شامل تھے جہاں 268 امیدوار مدمقابل تھے اور ان میں سے تقریباً 40 فیصد آزاد امیدوار تھے۔اِن انتخابات میں صرف دو خواتین امیدواروں نے گانچھے سے حصہ لیا تاہم دونوں ہار گئیں۔گلگت بلتستان میں انتخابات کا انعقاد پر امن رہا۔ الیکشن کے لیے سات اضلاع میں 1151 پولنگ مراکز قائم کیے گئے تھے، جن میں سے تقریباً نصف کو حساس یا انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا۔یہ پہلا موقع تھا کہ انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے فوج تعینات کی گئی جبکہ تمام اضلاع میں عام تعطیل بھی تھی۔جبکہپاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے گلگت۔بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات پرامن طور پر اور قرینے کے ساتھ کروانے کی تعریف کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے دوسرے علاقے آئندہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں گلگت۔بلتستان کی تقلید کریں گے۔ایچ آر سی پی کے انتخابی مبصرین جنہوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے گلگت۔بلتستان کے سات اضلاع میں انتہائی حساس قرار دیئے جانے والے 259پولنگ سٹیشنوں پر انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے بعد اپنی ابتدائی رپورٹوں میں کہا ہے کہ گلگت۔ بلتستان کے ووٹروں نے انتخابات میں جس ڈسپلن،گہری پسندیدگی اور اشتیاق کا اظہار کیا ہے، اس کے لیے وہ لائق تحسین ہیں۔ پولنگ کے آغاز میں جس بڑی تعداد میں ووٹر دقیانوسی عناصر کی طرف سے ممکنہ خطرات کے باوجود اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے پولنگ سٹیشنوں پر آئے اس سے جمہوری عمل کے ساتھ لوگوں کی وابستگی واضح ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ قدامت پسند عناصر خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے میں بُری طرح ناکام رہے ہیں۔ایچ آر سی پی گلگت۔ بلتستان کے انتخابات کو بڑی حد تک قرینے کے ساتھ کروانے پر الیکشن کمیشن کی کوششوں کو سراہتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہے کہ گلگت۔ بلتستان کے انتخابات سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے جس کی تقلید کرتے ہوئے مستقبل میں پاکستان میں کسی بھی جگہ ہونے والے انتخابات بہت بہتر طریقے سے کروائے جاسکتے ہیں۔ ان انتخابات سے جو طریقے ہم نے سیکھے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں بلاتاخیر اپنا لینا چاہئے خاص طور پر خیبرپختونخوا میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران ہونے والے تشدد آمیز واقعات اور منڈی بہاﺅالدین پنجاب کے ضمنی انتخاب میں متحارب گروپوں کے درمیان ہونے والے مسلح تصادمات کے پس منظر میں یہ اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ یہ اعزاز گلگت۔ بلتستان کے الیکشن کمیشن کو حاصل ہے کہ اس نے انتخابی مواد وقت پر پولنگ سٹیشنوں پر پہنچانے کے علاوہ پولنگ وقت پر شروع کروائی۔ صرف چند ایک پولنگ سٹیشنوں سے عملہ کے تاخیر سے آنے یا عملہ کی طرف سے ووٹنگ میں گڑ بڑ کرنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ ایچ آر سی پی کے مبصرین نے مشاہدہ کیا کہ امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو تمام پولنگ سٹیشنوں پر سہولتیں مہیا کی گئیں۔ ایچ آر سی پی الیکشن کمیشن کی طرف سے فوری کارروائی کرنے کے عمل سے متاثر ہوا۔ اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ نے جس بہتر انداز سے مبصرین کو سہولتیں مہیا کیں اس کے لئے وہ لائق تحسین ہیں۔ حفاظتی اداروں خصوصاپاک فوج کا کردار لائق تحسین ہے جن کی کوششوں کے باعث انتخابی عمل ہر قسم کے تشدد سے پاک رہا اور کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا حالانکہ یہ خوف موجود تھا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ سکیورٹی فورسز کے افراد عمومی طور پر خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے رہے اور سکیورٹی فورسز کے افسروں نے وہاں پر اپنے جوانوں کی تعداد میں اضافہ کردیا جہاں کے بارے میں بعض مبصرین نے کشیدگی اور لڑائی جھگڑے کی صورتحال پیدا ہونے کے خوف کا اظہار کیا تھا۔ بہرحال پیر کے روز بعض مقامات سے ہوائی فائرنگ کے واقعات کی اطلاعات موصول ہوئیں لیکن یہ ہوائی فائرنگ کامیابی کی خوشی میں کی گئی تھی۔گلگت۔ بلتستان کے حالیہ انتخابات میں ووٹروں کی وہ فہرستیں استعمال کی گئیں جو نادرا کے ریکارڈ کے مطابق تھیں اور اس پر کمیشن نے خوشی کا اظہار کیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان فہرستوں میں سے دوہرے ووٹ خارج کردیئے گئے تھے۔ گلگت۔ بلتستان کے 2009ءمیں ہونے والے انتخابات کے دوران ووٹروں کی تعداد سات لاکھ پچاس ہزار تھی لیکن دوہرے ووٹوں کو نکالنے کے بعد حالیہ انتخابات میں ووٹروں کی کل تعداد چھ لاکھ پندرہ ہزار رہ گئی۔ ووٹروں کی فہرستوں پر کچھ اعتراضات سامنے آئے جبکہ کچھ اعتراضات پولنگ سٹیشنوں کے مقامات کے حوالے سے بھی سامنے آئے۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انتخابات مکمل طور پر بے عیب تھے۔ بہت سی ایسی خامیاں تھیں جنہیں دور کیا جاسکتا تھا۔ گورنر کا انتخاب، نگران کابینہ کی تشکیل اور اس کے حجم کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعہ کو دور کیا جاسکتا تھا۔ چند شکایات ووٹروں کے انگوٹھے پر لگائی جانے والی روشنائی کے بارے میں بھی سامنے آئیں کہ اس روشنائی کا نشان انمٹ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ انتخابات تک ریاستی مشینری کے استعمال کی بہت سی شکایات بھی سامنے آئیں۔ ان میں سے کچھ شکایات وفاق میں حکمران جماعت کے رہنماﺅں کے حوالے سے تھیں کہ وہ جلسوں سے خطاب کرتے رہے اور انتخابی مہم کے دوران لوگوں سے وعدے وعید کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ انہیں ایسے اعلانات کرنے سے روکا جانا چاہئے تھا۔ اس لئے کہ ایسے اعلانات کا مقصد ووٹروں کے ذہنوں کو متاثر کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا۔یہ مطالبہ کہ گلگت۔ بلتستان کے انتخابات ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے ساتھ کروائے جائیں، یقینی طور پر جائز ہے۔ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے سے ان شکوﺅں شکائیتوں سے بچا جاسکتا ہے کہ گلگت۔ بلتستان کے انتخابات پر وفاق اثر انداز ہورہا ہے اور مرکز کی طرف سے مداخلت کی جارہی ہے۔ بیک وقت پورے ملک میں انتخابات ہونے سے اثر انداز ہونا تو دور کی بات، اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہوگا۔ پیر کو ہونے والی پولنگ کے دوران انتخابی قواعد وضوابط کی خلاف ورزیاں سامنے آئیں۔ مثال کے طور پر یہ شکایت تھی کہ امیدواروں نے اپنے کیمپ پولنگ سٹیشنوں کے اتنے قریب بنالئے ہیں جس کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مقررہ سائز سے بڑی ہورڈنگز اور بینرز لگانے کی شکایات عام تھیں۔ اس کے علاوہ یہ شکایت بھی سامنے آئی کہ امیدواروں نے اپنے پوسٹر پولنگ سٹیشنوں پر لگا رکھے تھے۔ بہرحال انتخابی خلاف ورزیاں ایسی تھیں جو ہر سیاسی جماعت کرتی نظر آرہی تھی۔جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مبصرین نے گہری تشویش کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ چوکنّا اور بے حد مایوس کر دینے والا امر فقط یہ تھا کہ عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے جھنڈے کھلے عام لگا رکھے تھے اور وہ ووٹروں کو کھلم کھلا اپنی طرف مائل کررہی تھیں۔ اس صاف ستھرے اور قابل تعریف عمل پر یہ واحد دھبہ تھا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اے پی ایس