عوام ریلیف کی منتظرتھی مگرغریب مار بجٹ نکل آیا۔چودھری احسن پریمی



موجودہ بجٹ پیش کردیا گیا ہے تاہم ملک بھر کے عوام مزدوراورملازم پیشہ افراد نے اسے غریب مار بجٹ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔موجودہ بجٹ میںحکومت کی جانب سے وفاقی سیکریٹریز کی سوفیصد تنخواہوں میں اضافہ نے ملک بھر کے عوام، مزدوراور چھوٹے سرکاری ملازمین کوآگ بگولا کر کے رکھ دیا ہے۔اس ضمن میں ملک بھر عوام کی جانب سے سخت ردعمل میں یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ حکومت سرمایہ داروں کی نمائندہ حکومت ہے اس کا غریب،مزدور اور ملازم پیشہ افراد کے معاشی تحفظ کا کوئی خیال نہیں۔ بجٹ میں زرعی شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے اور کسانوں کے مطالبات پورے نہیں ہوئے۔’ان کی پچھلے دو سال سے ڈیمانڈز تھیں کہ کھادوں اور کیڑے مار ادویات اور دیگر چیزوں پر عائد ٹیکس کو کم کیا جائے لیکن انھیں پورا نہیں کیا گیا۔پہلے ملک گندم برآمد کرتا تھا لیکن اب کسان سوچ رہے ہیں کہ وہ گندم بوئیں بھی یا نہیں۔کئی ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ روایتی بجٹ تھا۔ موجودہ بجٹ معیشت اور عوام دوست نہیں ہے۔ معیشت کا کوئی ہدف پورا نہیں ہوا۔ برآمدات کم ہوئی ہے اور تجارتی خسارا بڑھا۔انھوں نے اپنی تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں کو کو کم کرنا ہوگا۔ بجٹ میں دیگر شعبوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ جون کووفاقی حکومت نے مالی سال 2015 تا 2016 کے لیے بجٹ پیش کر دیا ہے، جس کا مجموعی حجم 43 کھرب 13 ارب ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں نو فیصد زائد ہے۔اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاع کے لیے سات کھرب 80 ارب روپے مختص کیے ہیں جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد کا اضافہ ہے۔رواں مالی سال کے دوران دفاعی اخراجات کی مد میں سات کھرب روپے مختص کیے گئے تھے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 29 فیصد اضافہ کر کے سات کھرب روپے کر دیا گیا ہے۔آئندہ سال حکومت نے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 40 کھرب 89 ارب روپے لگایا ہے جبکہ حکومتی اخراجات کا تخمینہ 31 کھرب 51 ارب روپے ہے۔یاد رہے کہ مالی سال 2015 تا 2016 کا بجٹ موجودہ حکومت کا تیسرا بجٹ ہے۔بجٹ تجاویز کے اعلان کے موقعے پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ’سنہ 2014 میں پاکستان کی معشیت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی لیکن اب معشیت کی ڈوبتی کشتی سنبھل گئی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران خسارہ ملکی خام پیداوار کا پانچ فیصد تک رہنے کی توقع ہے، جبکہ آئندہ مالی سال میں بجٹ کے خسارے کو مزید کم کر کے 4.3 فیصد تک لایا جائے گا۔وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں ساڑھے سات فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے، اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کے میڈیکل الاو ¿نس میں بھی 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کی واپسی اور بحالی کے لیے جامع منصوبہ بنایا گیا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس مد میں ایک کھرب 16 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ جس میں سے 80 ارب روپے خصوصی ٹیکس کے ذریعے اکٹھے کیے جائیں گے۔انھوں نے بتایا کہ 50 کروڑ سالانہ منافع سے زیادہ کمانے والی کمپنیاں دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے اپنی آمدن کا تین فیصد ٹیکس دیں گی جو صرف ایک مرتبہ دینا ہو گا۔حکومت نے آئندہ مالی سال میں توانائی کے منصوبوں کے لیے دو کھرب 48 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے حکومت کی کوشش ہے کہ دسمبر 2017 تک ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دی جائے۔ایل این جی سے 3800 میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں پانی کے ذخائر کے منصوبوں کے لیے 31 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔دیہی کے علاقوں کے طلبہ کو وظائف دینے کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔ پانی وبجلی کے منصوبوں کے لیے آئندہ مالی سال میں ایک کھرب 42 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے 71 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ریلوے کے لیے 78 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور 170 نئے انجن خریدے جائیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ بجٹ میں ریلوے سٹیشنوں کو بہتر بنانے کے لیے فنڈ مختص کیے گئے ہیں۔وفاقی بجٹ میں آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا ہدف 700 ارب روپے مقرر کیا ہے لیکن اندورنی اور بیرونی قرضوں پر شرح سود کی ادائیگی کے لیے 1279 ارب روپے مخیص کیے گئے ہیں۔رواں مالی سال کے دوران قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے لیے 1325 ارب روپے رکھے گئے تھے۔بجٹ دستاویزات کے مطابق پاکستان پر ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 16936.5 ارپ روپے ہے۔بجٹ کے دستاویز کے مطابق اس قرضے میں ملکی قرضوں کا حجم 11932 روپے جبکہ بیرونی قرضے 5004 ارب روپے ہیں۔دستاویزات کے مطابق مالی سال 16- 2015 میں حکومت پاکستان کو ان قرضوں پر 1279.895 ارب روپے سود دینے ہوں گے۔آئندہ مالی سال ملکی قرضوں پر سود کی ادئیگی کی مد میں 1168 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ غیر ملکی قرضوں پر 111 ارب روپے کا سود ادا کرنا ہو گا۔یاد رہے کہ پچھلے مالی سال میں پاکستان نے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر 1325 ارب روپے سود دیا تھا۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ قرضوں پر سود میں کمی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کی قدر مستحکم ہونے کے باعث ہوئی ہے۔پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم خام ملکی پیدوار 62 فیصد ہیں جبکہ قانون کے تحت حکومت جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زائد قرضہ نہیں لے سکتی ہے۔دستاویزات کے مطابق خام ملکی پیداوار کے مقابلے میں اندرونی قرضوں کی شرح 43.6 فیصد ہے جبکہ بیرونی قرضوں کی یہ شرح 18.3 فیصد ہے۔پاکستان میں تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ نواز کی حکومت نے مالی سال 2015-2016 کے لیے بجٹ کا اعلان کیا ہے۔تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والی وفاقی بجٹ تقریر کے دوران میں قومی اسمبلی کے ہال میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی آواز ہی گونجتی رہی۔ نہ تو ڈیسک بجے اور نہ ہی کسی نے نعرے بازی کی لیکن بجٹ کے اختتام پر جب اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اپنے خدشات کا اظہار کرنے کی کوشش کی تو لائیو ٹرانسمیشن کو بند کر دیا گیا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے جانے والے تیسرے بجٹ پر سیاسی جماعتوں اور کاروباری طبقے نے ملے جلے رحجان کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر نوید قمر نے بجٹ کی تقریر کے بعدمیڈیا سے اپنے ردعمل میں کہا کہ عوام ریلیف کی منتظر تھی لیکن ٹیکس اور مہنگائی کی خبریں ملیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت خود تسلیم کر رہی ہے کہ اگلے سال مہنگائی شرح چھ سے سات فیصد تک ہو جائے گی۔پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں زرعی شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے اور کسانوں کے مطالبات پورے نہیں ہوتے۔’ان کی پچھلے دو سال سے ڈیمانڈز تھیں کہ کھادوں اور کیڑے مار ادویات اور دیگر چیزوں پر عائد ٹیکس کو کم کیا جائے لیکن انھیں پورا نہیں کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ حکومت میں ملک گندم برآمد کرتا تھا لیکن اب کسان سوچ رہے ہیں کہ وہ گندم بوئیں بھی یا نہیں۔دفاعی بجٹ پر میں 11 فیصد اضافے پر انھوں نے کہا کہ ’ آپریشن ضربِ عضب چل رہا ہے اور مشرقی سرحد پر بھی صورتحال خراب ہے۔ایم کیو ایم کے ممبر قومی اسمبلی فاروق ستار نے کہا کہ یہ روایتی بجٹ تھا۔ موجودہ بجٹ معیشت اور عوام دوست نہیں ہے۔ انھوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کا کوئی ہدف پورا نہیں ہوا۔ برآمدات کم ہوئی ہے اور تجارتی خسارا بڑھا۔انھوں نے اپنی تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں کو کو کم کرنا ہوگا۔ بجٹ میں دیگر شعبوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔شاہراو ¿ں کی تعمیراتی منصوبوں پر تنقید کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ’شیر شاہ سوری کے زمانے کی یاد آرہی ہے کہ ہائی ویز پر زیادہ ترقیاتی بجٹ مختص کیا جا رہا ہے۔ایم کیو ایم نے نوجوان طبقے کی ترقی کے لیے حکومتی پالیسی تسلی بخش نہیں۔ انھوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ سے آپ مزید بھکاری پیدا کر رہے ہیں۔کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر افتخار بابر نے اپنے ردعمل میں بتایا کہ بظاہر موجودہ بجٹ اچھا ہے اور اس میں کیے جانے والے اعلانات مثبت دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جب تک حکومت کی جانب سے فنانس ایکٹ جاری نہیں ہوتا وہ اصل معنوں میں بجٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکیں گے۔انھوں نے بتایا کہ اس دستاویز کی مدد سے وہ حکومت کی ٹیکسشن پالسیی کی سمت کا اندازہ لگا پائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ وہ نئے ٹیکس لگائے مگر پہلے سے موجود ٹیکس بڑھا کر صارفین پر بوجھ نہ ڈالے۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اہداف میںشاید عام نہیں خاص لوگوں کو ریلیف دینا شامل ہے اس لیے موجودہ بجٹ میں کوئی ایسی تجویز پیش نہیں کی گئی جسے سن کر ایک عام پاکستانی کہہ سکے کہ ہاں یہ عوامی بجٹ ہے۔ اے پی ایس