قومی اسمبلی کی مایوس کن صورتحال۔ بجٹ جانچ پڑتال کے بغیر ٹھونس دیا گیا۔چودھری احسن پریمی



پلڈاٹ نے قومی اسمبلی کے دوسرے پارلیمانی سال کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ جاری کرتے ہوئے اسے مایوس کن قرار دیا ہے۔قومی اسمبلی کے دوسرے سال کی کارکردگی وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں موجودگی کے علاوہ تمام اشاروں پر عدم اطمینان کی صورتحال رہی۔چودویں اسمبلی کے پہلے سال میں سات کے مقابلے میں دوسرے سال میں وزیراعظم نے تیتس اجلاسوں میں شرکت کی۔پہلے سال کے مقابلے میں حکومت کی جانب سے قانون سازی میں ستائیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔جبکہ دوسرے سال ممبران کی جانب سے نجی طور پر قانون کو متعارف کرنے میں بیالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔اس ضمن میں قومی اسمبلی کے دوسرے سال کی مجموعی کارکردگی کا اسکور اڑتالیس فیصد سامنے رکھتے ہوئے اسے مایوس کن قرار دیا گیا ہے۔سابقہ پانچ سالوں کے اوسط اسکوراونچاس کے مقابلے میں موجودہ اسمبلی ایک فیصد پوائنٹ کے ساتھ جمود کا شکار رہی ہے۔دوسرے سال کے دوران قومی اسمبلی نے فقط آٹھ حکومتی بلوں کی منظوری دی۔جبکہ قومی اسمبلی کی جانب سے قومی اسمبلی کی حاضری ریکارڈ کی فراہمی سے انکار کیا گیا ہے کیو نکہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں اراکین اسمبلی کی حاضری کے لحاظ سے بھی کارکردگی کمزور رہی ہے۔موجودہ عوام دشمن بجٹ کی ذمہ داری بھی قومی اسمبلی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس سال بھی موجودہ بجٹ کی جانچ پڑتال کیلئے جامع اور معنی خیز اصلاحات کئے بغیر انھوں نے دوسرا پارلیمانی سال گزار دیا جو کہ ان کی آئینی ذمہ داری تھی جو انہوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین اور عوام سے دھوکہ کیا ہے۔اراکین اسمبلی کی قانونی حثیت صرف اتنی ہے کہ وہ اسمبلی میں عوام کے تنخواہ دار ملازم ہیں جنھوں نے اسمبلی میں عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے تاہم اراکین اسمبلی عوامی مفاد کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔جبکہ بجٹ پر بحث میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
جبکہ گزشتہ روز پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز کے زیر اہتمام پوسٹ بجٹ2015-16 کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیاگیا جس میں ملک کے مشہور معیشت دانوں ڈاکٹر قیصر بنگالی،ڈاکٹر ایس اکبر زید ی اور ڈاکٹر فرخ سلیم نے سینیٹرزکو بجٹ کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا ۔سیمینار میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کے علاوہ سینیٹرز کی بڑی تعداد سیکرٹر ی سینیٹ امجد پرویز ملک اور سینیٹ کے دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ڈاکٹرقیصر بنگالی نے بجٹ 2015-16 کے متعلق کہا کہ بجٹ میںکچھ خامیاں بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اکنامک سروے 2014-15 کے مطابق جو شرح پیداوار میں اضافے کے حوالے سے بتایا گیا ہے حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ہماری معیشت 30 سال سے زوال کا شکار ہے 30سال پہلے پاکستان ایک سنہری دور سے گزر رہا تھا اس وقت کی حکومتوں کا مقصد معاشی حالت کو بہتر کر کے ملکی اثاثے بنانا تھا 1977 کے بعد یہ صورتحال یکسر بدل گئی زراعت اور صنعت کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا حکومتوں کی توجہ مواصلات پر مرکوز ہونے کی وجہ سے سرمایہ کار ی زوال کا شکار ہو گئی اور ملک میں قائم منافع بخش اداروں سٹیل مل و دیگر میں سرمایہ کاری تقریباًختم کر دی گئی انہوںنے کہا کہ ملک میں کسٹم ڈیوٹی کو وقت کے ساتھ ساتھ کم کر کے جی ایس ٹی کے اضافے پر زور دیا گیا 1990 کے بعد بجلی کا استعمال صنعتی شعبے میں کم کر کے گھریلو استعمال میں زیادہ کر دیا گیادرآمدات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ اوربرآمدات میں کمی ہوتی گئی زمین کی خریداری و فروخت کے معاملات میں بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہوا کراچی میں ڈیفنس کے 2 لاکھ پلاٹ خالی پڑے ہیں ایسی پالیسی اختیار کی گئی کہ کم شرح پر بنک سے قرضے حاصل کر کے اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاری کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ فرنس آئل اور ڈیزل کا 56 فیصداستعمال صنعتوںمیں ہوتا تھا اب 95 فیصد مواصلات میں استعمال ہوتا ہے ہم ریلوے کو چھوڑ کر سٹرکوں پر آچکے ہیں جس کی وجہ سے ملک تنزلی کا شکار ہو رہا ہے ماحولیات کی خرابی کے ساتھ ساتھ سامان کی ترسیل بہت مہنگی ہو چکی ہے ملک کی دو تہائی بجلی فرنس آئل سے تیار کی جاتی ہے اگر اب بھی ریلوے کے ذریعے سامان کی ترسیل کی جائے تو 50 فیصد ڈیزل کی ایمپورٹ کم ہو سکتی ہے ۔ملک میں بجلی کوئلے اور پانی سے پیدا کی جاسکتی ہے صرف بلوچستان سے 30 ہزار میگاواٹ بجلی کوئلے سے بنائی جاسکتی ہے ۔ایمپورٹس میں کمی کر کے ڈالر کی قیمت کو کم کیا جاسکتا ہے پاکستان میں 3 سو ملین کا کاسمیٹک ایمپورٹ کیا جاتا ہے ۔ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے بجٹ 2015-16 پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری نے ملکی معیشت کو بہتر کرنے کےلئے حکومتی اقدامات کو سراہا ہے پچھلے 7 سالوں کی نسبت موجودہ سال جی ڈی پی کی شرح پیداوار بہتر رہی ہے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ کو ترقی دینے کےلئے اس کے بجٹ میں 29 فیصد کے اضافے کا اعلان کیا گیا ہے آئی ڈی پیز کی واپسی ، لیپ ٹاپ سکیم کےلئے 20 ارب روپے ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور بیت المال کے بجٹ کے اضافہ خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے غریب عوام کا فائدہ ہو گا ایس آر اوز کو بھی کم کیا جارہا ہے انہوںنے کہا کہ ایس آراوز کا مسئلہ نہایت اہم ہے جس سے معیشت پر بہت زیادہ فرق پڑتا ہے ایس آر اوز میں اب تک 665 ارب ڈالر کی مراعات دی گئی ہیں لیکن ایس آر او کے متعلق فیصلے کا اختیار پارلیمنٹ کو دینا چاہیے انہوں نے زراعت ، تعمیر اور صنعت کے حوالے سے بجٹ میںدی گئی تجاویز کو سراہتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں صنعتوںکے قیام کے فروغ کےلئے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے انہوںنے کہا کہ پاکستان میں غریب لوگوں کی نسبت امیروں سے کم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے اس سے قرضے کم ہونگے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر کیطرف سے سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر بھی زوردیا گیاسرکلر ڈیٹ کی وجہ سے پرائیوٹ سیکٹر بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کر رہا اگر پاکستان میں سستی بجلی مل جائے تو جی ڈی پی میں تین فیصد اضافہ ہو سکتا ہے انہوں نے اداروں کی نجکاری کو ملک کے نقصان دہ قرار دیا ۔ڈاکٹر فرخ سلیم نے موجودہ مالی سال کے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک روایت بن چکی ہے کہ وزارتوں سے اخراجات کی تفصیل مانگ لیتے ہیں جبکہ ہمیں پہلے آمدن کا تعین کرنا چاہیے اور پاکستان کی پارلیمنٹ میں بجٹ پر بحث سیر حاصل نہیں کی جاتی اوسطً34 گھنٹے نوٹ کیا گیا ہے ہمارے بجٹ کو 70 فیصد سرکاری عمارتوں پر خرچ کیا جاتا 20 فیصد لگژری گاڑیوں اور صرف 6 فیصد انسانی ترقی کے وسائل پر خرچ کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ 1970 میںجی ڈی پی کا 40 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا تھا جو کہ اب 20 فیصد سے بھی کم ہے سروسز سیکٹر نے ملک میںنمایاں ترقی کی ہے انہوںنے کہا کہ پاکستان میں بنائے جانے والے میٹرو بس کے منصوبے مہنگے ترین منصوبوں میں سے ہے اور بجٹ میں نیشنل ایکشن پلان کا ذکر تک نہیں کیا گیا سیمینار کے آخر میں پارلیمنٹرین کی طرف سے بجٹ کے متعلق پوچھے گئے سوالات کے بھی ماہر معاشیات نے تفصیلاً جوابات دیئے ۔انہوںنے متفقہ طور پر کہا کہ پاکستان میں بجلی اور مواصلات کے شعبے میں معقول آمدن حاصل کی جاسکتی ہے فرنس آئل اور ڈیزل کی ایمپورٹ پر کنٹرول کر کے بیرونی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے ریلوے سسٹم کو اپنا کر ڈیزل کی 70 فیصد ایمپورٹ کم کی جاسکتی ہے بلوچستان میں منرل کے شعبے کو ترقی دے کر اسے سعودی عرب بنایا جاسکتاہے اور تھر کے کوئلے سے بجلی پید اکر کے پورے ملک کو بجلی فراہم کی جاسکتی ہے ۔ اراکین پارلیمنٹ نے بجٹ کے متعلق سیمینار کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سیمینار سے انہیں بجٹ کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوئی ہے اس سے حکومت کو بجٹ کے متعلق سفارشات دینے میں مدد ملے گی ۔اے پی ایس