آئین کو بطور ایک زندہ حقیقت دیکھا اور سمجھا جائے۔چودھری احسن پریمی




یہ بات بھی ایک آئےنی اصول کے طور پر ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے ، کہ عدالتوں کو جو اختیارات حاصل ہےں وہ پارلیمان کے لطف و کرم کا نتیجہ نہےں بلکہ آئےن کے تحت، عوام کو پارلیمان کے اختیارات کے تجاوز سے محفوظ رکھنے کے لےے دےے گئے ہےں۔ اگر کبھی پارلیمان اپنے اختیارات سے تجاوز کرے اور عوام کے احکامات کی حکم عدولی کرے تو عوام عدلیہ سے ہی رجوع کرےں گے جس عدلیہ کی آزادی کو آئےن نے ےقےنی بنایا ہے۔ ان حالات مےں یہ کہنا کہ عوام اپنے احکامات کی بجا آوری کے لئے پارلیمان پر ہی انحصار کرےں آئےن کے الفاظ اور روح کے مطابق نہےں۔عدالتی اختیارات کو ہر طرح کی دخل اندازی اور تجاوزات سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے کےوں کہ یہ آئےن کی جانب سے عطا ہونے والی امانت ہےں۔ عوام کی رائے کی بالادستی کو تسلیم کرنا اور بات ہے اور یہ کہنا بالکل اور بات کہ پارلیمنٹ مطلق العنان ہے اور جب چاہے عدالتی اختیارات مےں تجاوز یا تخفیف کر سکتی ہے۔ 

سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ واضح کیا ہے کہ ہمارے اصولِ قانون مےں اب تک یہ بات طے ہو چکی ہے کہ آئین کا مطالعہ تاریخی تناظر میں اور ایک نامیاتی کُل(organic whole) کے طور پرکیا جائے گا۔ اگر آئین کی جزوی شقوں اوراحکامات کو باقی آئین سے الگ کر کے دےکھا جائے، تو یہ قاری کو گمراہ کر سکتا ہے۔ لہٰذا آئین کا مفہوم اور مدعا معلوم کرنے کے لےے اس کے اجزا کی میکانکی انداز میں عقلی توجیہ کرنے کی بجائے اسے ایک مربوط کُل کی طرح دیکھنا پڑے گا۔ یہ بات ہماری قدیم اور سادہ دانش کا عطر رہی ہے جو منطق کی رو سے بھی کشید ہوتی ہے اور نظائر سے استدلال کے طریقے مےں بھی پوری طرح راسخ ہے۔ اس کے نتیجے میں آئین کی تعبیرو تشریح کا یہ اصول طے پاتا ہے کہ آئین کو بطور ایک زندہ حقیقت یا ”نامیاتی کُل“ کے طور پر دیکھا اور سمجھا جائے۔
اس اصول کا جواز ایک آفاقی منطق ہے جو مختلف رائج الوقت قانونی نظاموں کے مابین فرق سے ماورا ہے۔ ہمارے سامنے لارنس ٹرائب(Lawrence Tribe) اور مائیکل ڈارف(Michael Dorf) جیسے کامن لاء(یعنی وہ نظام جو پارلیمان کے بنائے گئے قوانین کے علاوہ عدالتی نظائر پر مبنی ہوتا ہے )کے آئینی ماہر ین کا یہ مقولہ موجود ہے جنھوں نے انتباہ کیا ہے کہ ”آئین کا مطالعہ ایسے نہیں ہونا چاہیے جس سے یہ اہم حقیقت نظر انداز ہو جائے کہ اس کے تمام اجزا ایک کُل کا حصہ ہےں اور یہ ایک مربوط آئین ہے،نہ کہ الگ الگ اور منتشر شقوں کامجموعہ ، جن کی اپنی اپنی علیحدہ تاریخ ہو، جس کی بنا پر ان کو سمجھا جائے۔“ یہی وہ منطق ہے جو ڈاکٹر کونریڈ(Dr. Conrad) جیسے سول لائ(یعنی وہ عدالتی نظام جو خالصتاً مقننہ کے بنائے قوانین پر مبنی ہوتا ہے اوراس مےں عدالتی نظائر کی اہمیت نہےں ہوتی) کے ماہرکے اس قول مےں کارفرما ہے جس مےں انھوں نے ماہرین قانون کو یاد دلایا ہے کہ،”قانون میںایسے صریح الفاظ کا کوئی تصور نہیں جو زبان اور فہم و فراست کے عمومی پس منظر سے الگ رہ کر بامعنی سمجھے جائیں۔ یہ بات سب سے زےادہ آئین جیسی نامیاتی دستاویز کی تعبیر و تشریح پر لاگو ہوتی ہے، جس کی ہر دفعہ کو اس کے فکری نظام سے مربوط کرناپڑتا ہے۔ اس لیے کہ آئین کے عطا کردہ ہر اختیار اور ہر فائدے کا اصل مقصد ایک منظم مشینری کی کارکردگی مےںاعانت ہے۔۔۔ یوں کام نہےں چلتا کہ (محض) ”سیاسی نظریے“ جیسے تصورات پرسیاق و سباق اور متنی تناظر سے ہٹ کر بحث کی جائے۔“
یہی ناقابلِ تردید دانش مولاناجلال الدین رومی جیسے مفکرکی اس حکیمانہ حکایت سے بھی معلوم ہوتی ہے جس مےں انھوں نے اندھیری رات مےں ہاتھی کودیکھنے کاواقعہ بیان کیا ہے؛ اور یہی منطق قدیم یونانی ماہرِ طب بقراط (Hippocrates) نے بھی اختیار کی ہے ۔اگرچہ اس اصول کی فکری معنویت اور منطقی بنیاد اظہر من الشمس ہے، تاہم یہاں میں مختصر طور پر منیر حسین بھٹی کے مقدمے کی طرف توجہ دلانا چاہو ں گاجس میں پانچ آدمیوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اندھیری رات مےں ہاتھی کے اعضاءکو ٹٹول کر اس کی جسامت کا اندازہ لگا رہے تھے۔ جس کا ہاتھ اس کے کان پر پڑا، اس نے اس کو پنکھے کی مانند قرار دیا، جس کا ہاتھ اس کی ٹانگ سے لگا اس نے اس کو درخت کا تنا سمجھا۔ جس نے سونڈ کو چھوا اس نے اُس کو نل قرار دیا و علیٰ ہذا القیاس۔ان میں سے ہر شخص کی ہاتھی کو مکمل طور پر دیکھ پانے کی عدم اہلیت بالکل واضح ہے، جیسا کہ مولانافرماتے ہیںکہ ”ان افراد کے پاس کوئی چراغ نہیں تھا جوانھیں دکھا سکتا کہ ہاتھی ایک مرکب جسم ہے جس کامکمل تصور قائم کرنے کے لیے اس کے تمام اعضا کو ایک ساتھ دیکھنا ضروری ہے تاکہ ادراک مےں کوئی خطا واقع نہ ہو۔ قدیم یونانی حکیم بقراط نے بھی اسی بات کو بیان کیا ہے کہ ”جب تک مکمل جسم کی حقیقت کا علم حاصل نہ ہو، جسم کے مختلف اعضا کی حقیقت کو نہیں سمجھا جا سکتا“۔ لہٰذا ہمارے لیے لازم و ناگزیر ہے کہ اسی منطق کی رو سے اگر ہم آئین کی ]شقوں[کو نامیاتی طورپر سمجھنا چاہتے ہیں تو پورے آئین کو ایک نامیاتی کُل کے طور پر سمجھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں۔ آئین کو کسی بھی اور طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرنا گمراہی کا باعث ہو گا“۔
آئین کے جُز 11کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے دےکھنے کے علاوہ ، وفاق کا یہ مو ¿قف کہ پارلیمان کو اختیارہے کہ وہ آئین کے مندرجات مےں جو چاہے تبدیلی کر دے اور ایسی کسی تبدیلی پر عدالتی نظر ثانی نہےں ہو سکتی ؛ ایک خاص آئینی نظریے پر (جس پر ذیل مےں غور کیا جائے گا ) مبنی معلوم ہوتاہے۔ یہ نظریہ آئینی ماہر اے۔ وی۔ ڈائسی (A.V. Dicey) نے برطانوی پارلیمان کے حوالے سے پیش کیا تھا۔ میری رائے میںآج عدالت کے سامنے آنے والے بنیادی نوعیت کے سولات کا جواب دینے کے لےے اس تصور کا سہارا نہےں لیا جا سکتا۔ ڈائسی کے نظریے کا بغورتجزیہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظریہ برطانیہ میںانیسویں صدی کے مخصوص تاریخی ومعاشرتی تناظر میں تشکیل دیا گیا تھا۔ گزشتہ صدی سے خود برطانیہ مےں اس کی افادیت اور قبولیت ختم ہو تی جارہی ہے ۔ لہٰذا یہ امرقطعاً غیرضروری ہے کہ اےسے نظریے کو پاکستان کے آئینی تناظر میں در آمد کر لیا جائے جب کہ ہمارے ہاں کبھی اس کو پذیرائی حاصل نہےں رہی بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس نظریے کو،عوامی جدوجہد کے ذریعے،جو آئین کی صورت مےں ثمر آور ہوئی، مسترد کیا جا چکا ہے۔ اب ہم اسی بحث کی طرف آتے ہےں۔
پارلیمان کے اقتدار اعلیٰ (sovereignty)کا تصور برطانیہ کے آئےن کا حصہ ہے۔ ہماری نو آبادیاتی تاریخ کی وجہ سے اس تصور کا دیرپا اثر ہمارے آئینی اصول و قانون پر بھی پڑا۔ یہاں تک کہ اس نے آزادی کے بعد ہمارے ولولوں کی تازگی پر اوس ڈال دی ۔ انیسویں صدی کے دوسرے حصہ مےں اے۔ وی ۔ڈائسی نے جو لارڈ سٹی ¿ن(Lord Steyn) کے بقول ”برطانیہ کا سب سے بڑا آئینی قانون دان“ تھا، اور اس نے پارلیمانی اقتدار اعلیٰ کا تخیل بیان کیا تھا۔ اس کے خیال مےں ”انگریزی آئین کی رُو سے پارلیمان کو اختیار ہے کہ وہ جو قانون چاہے بنائے یا منسوخ کر دے“ اور مزید برآں ”برطانیہ کے قانون کی رُو سے کوئی فرد یا ادارہ اس امر کا مجاز نہےں ہے کہ پارلیمانی قوانین کو نظر انداز کرے یا ان سے بالاتر رہتے ہوئے کوئی کام کرے “۔ پارلیمان کے ناقابل اعتراض اور لامحدوداختیارات کو ہر شے سے بالا تر ثابت کرنے کے لےے ڈائسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ”پارلیمان کے بنائے ہوئے ہر قانون کی اطاعت عدالت پر لازم ہو گی جس کے تحت کوئی نیا قانون بنایا گیا ہو یا کسی پرانے قانون کو منسوخ یا تبدیل کیا گیا ہو۔تاریخی اعتبار سے ےہی نظریہ برطانوی عدالتوں نے برطانوی آئےن کے فیصلہ کن اصول کے طور پر تسلیم کر لیا۔ چنانچہ پارلیمان کے اقتدارِ اعلیٰ کے برطانوی تصور کو بجا طور پر اس طرح دیکھا جا سکتا ہے کہ اس مےں ایک ایسی اطاعت گزار عدلیہ کی گنجائش پیدا ہوتی ہے جو پارلیمان کے تابع ہو اور جس کے پاس قانون سازی کے عمل پر نظر ثانی کا کوئی اختیار نہ ہو۔ دوسری طرف ہمارے ہاں یہ امر شک و شبہ سے بالا ہے کہ پاکستان میںعدلیہ قانون سازی پر نظرِ ثانی کا اختیار رکھتی ہے اور ماضی میں عدلیہ نے پارلیمان کے بنائے ہوئے قوانین کو کئی بار کالعدم کیا ہے تاہم آج تک کوئی آئینی ترمیم رد نہیں کی گئی۔
پاکستان میں ڈائسی کے انیسویں صدی کے ازکار رفتہ نظریات کی کوئی گنجائش نہےں ہے۔اس کی کم از کم دو وجوہ ہیں: پہلی یہ ، کہ دونوں ممالک کے آئینی تناظر میں طویل المدت فرق موجودہے اور دوسری اور کہیں زیادہ اہم وجہ یہ حقیقت ہے کہ پارلیمانی اقتدار اعلیٰ کا تصور ہمارے عوام کی اُمنگوں سے ہرگزمیل نہےں کھاتا اور انھوںنے اپنی جدوجہد سے اس تصور کو ”عوامی رائے “ کی بالادستی کے نظریے سے بدل ڈالا ہے، جس کا واضح اظہار ہمارے آئین میں ہوتا ہے۔محمد اظہر صدیق بنام وفاق پاکستان کے مقدمے (PLD 2012SC 774)میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ” ہمارے پاس اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ ہم اپنے آئین کی صاف و شفاف ندی کو، ڈائسی کے انیسویں صدی کے پارلیمانی اقتدار اعلیٰ کے تصور سے گدلا کر دیں۔یہ تصورات توخود ان ممالک میں، جہاں انھوں نے جنم لیا تھا، اپنی معنویت کھو بیٹھے ہیں۔ مذکورہ بالا مقدمے میں ہم نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم گزشتہ پینسٹھ برس سے پہنا ہوا، استعماری نظریات و تصورات کی فکری غلامی کا یہ طوق اتار پھینکیںاورآئینی معاملات میں فیصلہ سازی کے لیے خود اپنے عوام کے آئین کو بنیاد قرار دینا شروع کر یں“۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ڈائسی نے اپنا نظریہ برطانوی عدلیہ کے آئینی تناظر مےں قائم کیا تھا۔ دارالامرا (House of Lords)، جو برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت تھی، تاریخی طور پر پارلیمان کا ایک ناگزیرحصہ رہی ہے اوریہ صورت حال اب سے کچھ سال پہلے یعنی 2009 ءتک قائم رہی ،جب بالآخرعدلیہ کو پارلیمان سے علیحدہ کر کے ایک الگ سپریم کورٹ قائم کی گئی۔ اس سے پہلے برطانوی پارلیمان کا ایوان بالایعنی دارالامرا قانون ساز ادارہ ہونے کے علاوہ سلطنت مےںآخری اپیل کی عدالت بھی ہوا کرتاتھا اور یہ برطانوی آئین کا اپنی نوعیت کا واحد اور جداگانہ پہلو تھا۔ ےہی وجہ ہے کہ برطانوی آئےن کے تحت قانون ساز ادارہ ،عدلیہ اور انتظامیہ کو بھی اپنے اندر ہی سموئے ہوئے تھا۔ یہ انتظام، جس کا آغاز 1215ءمیں میگنا کارٹا(Magna Carta)پر دستخط کرنے سے ہوا تھا، آٹھ صدیوں تک جاری رہا۔پھر قانون اور آئین کے ارتقاکے نتیجے میں ”غیر موروثی لارڈ (Lords of Appeal in Ordinary)“ (یعنی عام قانونی معاملات نمٹانے والے غےر موروثی ارکان) کو ایوان بالا کا حصہ بنایا گیا ”تاکہ وہ اپیلوں کی سماعت اور فیصلوں مےں ایوان بالا کی معاونت کر سکےں“۔ تا ہم یہ حقیقت اب بھی ایک آئینی اصول کے طور پر اپنی جگہ قائم ہے کہ پارلیمان ہی مقتدرِ اعلیٰ ہے اور ایوان ِ بالا میں شامل ہونے والے قانون سے متعلق ارکان (لاءلارڈ حضرات) آئین کی رُو سے پارلیمان کے ان احکام کے پابند ہےںجو قانون سازی کے ذریعے لاگو کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں ، افرادکی وہ جماعت، جو برطانوی پارلیمان کے دو ایوانوں میں سے ایک کے ذیلی شعبے کی حیثیت رکھتی ہو، اپنی بنیادی ماہیت کے اعتبار سے پارلیمان کا حصہ ہے اور اس سے آزاد نہےں۔ برطانوی آئین کی اس بنیادی خصوصیت کو سامنے رکھنا ضروری ہے تا کہ برطانوی طرزِ حکمرانی سے ہمارااختلاف واضح ہو کر سامنے آ جائے اور معلوم ہو جائے کہ پاکستان مےں ”عدلیہ کی آزادی “ کو مکمل طور پر ”محفوظ رکھنا لازمی ہے۔“
حقیقت یہ ہے کہ نوآبادیاتی عہدمیں بھی ، برصغیر کی عدلیہ، برطانوی عدلیہ کے برخلاف، ایک جداگانہ عدالتی ادارے کے طور پر وجود رکھتی تھی۔ نوآبادیاتی عہد میںہندوستانی عدالتیں، برطانوی پارلیمان کے منظور شدہ قوانین کے تحت قائم کی گئی تھیںاور قانونی اعتبار سے ، ہندوستانی مقننہ اور انتظامیہ سے علیحدہ حیثیت رکھتی تھیں۔پاکستان کی آزادی کے بعد اس اصول کو نہ صرف قائم رکھا گیا بلکہ اس پر اور بھی شدت سے عمل درآمد کیا گیا۔1949ءمیں منظور ہونے والی قراردادِ مقاصد اور اس کے بعد سامنے آنے والی ہرایک قانونی دستاویز ، جسے آئین پاکستان کے معماروں نے اپنایااور اختیار کیا،پاکستان کے عوام کی اس آواز اوررائے کا اظہار کرتی ہے کہ ”عدلیہ کی آزادی کا مکمل تحفظ کیا جائے گا‘
سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے اختیارات بڑھانے کے خلاف دائر تمام درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔ادھر وزیراعظم محمد نواز شریف نے گزشتہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اعلیٰ عدالت نے 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم کو درست تسلیم کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کو جائز قرار دیا ہے۔ غیر معمولی حالات کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔عدالت عظمیٰ کے اس منقسم فیصلے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے ایسی آرا بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر شخصیات کی چھاپ بھی بہت واضح ہے۔ ایک خاص شخصیت اور ذہن رکھنے والے جج ایک رائے رکھتے ہیں اور مختلف ذہن رکھنے والے ججوں کے فیصلوں میں ان کی شخصیت جھلکتی ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق عہدیدار اور وکیل اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ آج کے فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے وقت اور آج کی سپریم کورٹ میں بہت فرق ہے۔2007 میں ہمارا خیال تھا کہ ہم چل پڑے ہیں قانونی کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کی طرف۔ یہ جو روایتی فیصلہ آج دیکھنے میں آیا ہے اس کے مقابلے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں نے آئین کے اصولوں کی پاسبانی اور پاسداری کا حق ادا کر دیا ہے۔اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ انہیں یہ فیصلہ سن کر ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان میں نظریہ ضرورت ایک بار پھر زندہ ہوگیا ہے۔گزشتہ بدھ کی صبح چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے 21ویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے اختیارات سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ان درخواستوں کو کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا۔11 ججوں نے فوجی عدالتوں کے حق میں اور چھ نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔درخوست گزاروں کا اس مقدمے میں موقف تھا کہ فوجی عدالتیں عام شہریوں کے خلاف سماعت کرنے کا حق نہیں رکھتیں، لہٰذا انھیں اس سے روکا جائے۔ انھوں نے اس فیصلے کے بعد کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے۔واضح رہے کہ فوجی عدالتوں نے شدت پسندی کے مقدمات میں چھ افراد کو موت کی سزا سنائی تھی جسے سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ان سزاوں پر عمل درآمد روک دیا تھا، اب ان پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلے پر اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ملکی آئین سب سے مقدم ہے، پارلیمنٹ مقدم نہیں ہے۔ ا ±نھوں نے کہا کہ اگرچہ پارلیمنٹ عوام کے منتخب نمائندہ فورم ہے لیکن اس کا وجود بھی آئین کے ہی مرہون منت ہے۔’عدالتی فیصلے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقویت ملے گی اور دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہوگی‘۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندوں کو کسی طور پر یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ جس طرح چاہیں آئین میں ترمیم کریں چاہے وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔جسٹس خواجہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ آئین تمام ریاستی اداروں پر فوقیت رکھتا ہے اور آئین کی تخلیق کردہ پارلیمنٹ آئین سے بالاتر نہیں ہے اور اس کے اختیارات لامحدود نہیں ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے تفصیلی فیصلے کی تمہید میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ آئےن کے آرٹیکل251 میں درج آئےنی تقاضا پورا کرنے کی خاطر اردو مےں تحریر کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم آرٹیکل251 کے مندرجات کی اہمیت کی طرف توجہ دلا چکے ہےں اور سرکاری امور مےں قومی زبان اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی اہمیت کو اُجاگر کر چکے ہےں۔ مقدمہ بعنوان حامد میر بنام وفاقِ پاکستان (2013 SCMR 1880)مےں بھی ہم بیان کر چکے ہےں کہ ”عدالتی کارروائی کی سماعت مےں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائےوں کی محنتِ شاقہ اور کئی بے نوا نسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج بھی انگریزی ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگوں کی زبان ہے۔ اور اکثر فاضل وکلاءاور جج صاحبان بھی اس مےں اتنی مہارت نہےں رکھتے جتنی کہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آئےن اور قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابلِ فہم معلوم ہوتے ہےں۔ یہ فنی پیچیدگی تو اپنی جگہ مگر آرٹیکل 251 کے عدم نفاذ کا ایک پہلو اس سے بھی کہےں زیادہ تشویشناک ہے۔ ہمارا آئےن پاکستان کے عوام کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ خود پر لاگوہونے والے تمام قانونی ضوابط اور اپنے آئےنی حقوق کی بابت صادر کےے گےے فیصلوں کو براہِ راست سمجھنا چاہتے ہےں۔ وہ یہ چاہتے ہےں کہ حکمران جب اُن سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان مےں نہےں، بلکہ قومی یا صوبائی زبان مےں گفتگو کرےں۔ یہ نہ صرف عزتِ نفس کا مطالبہ ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق مےں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضا ہے۔ ایک غےر ملکی زبان مےں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہےں یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔
تاریخ ہمےں بتاتی ہے کہ یورپ مےں ایک عرصے تک کلیسائی عدالتوں کا راج رہا جہاں شرع و قانون کا بیان صرف لاطینی زبان مےں ہوتا تھا، جو راہبوں اور شہزادوں کے سوا کسی کی زبان نہیں تھی۔ یہاں برصغیر پاک و ہند مےں آریائی عہد مےں حکمران طبقے نے قانون کو سنسکرت کے حصار مےں محدود کر دیا تا کہ برہمنوں ، شاستریوں اور پنڈتوں کے سوا کسی کے پلے کچھ نہ پڑے۔ بعد مےں درباری اور عدالتی زبان ایک عرصہ تک فارسی رہی جو بادشاہوں، قاضیوں اور رئیسوں کی تو زبان تھی لیکن عوام کی زبان نہ تھی۔ انگریزوں کے غلبے کے بعد لارڈ میکالے کی تہذیب دشمن سوچ کے زیرِ سایہ ہماری مقامی اور قومی زبانوں کی تحقیر کا ایک نیا باب شروع ہوا جو بدقسمتی سے آج تک جاری ہے۔ اور جس کے نتیجہ مےں ایک طبقاتی تفریق نے جنم لیا ہے جس نے ایک قلیل لیکن قوی اور غالب اقلیت (جو انگریزی جانتی ہے اور عنانِ حکومت سنبھالے ہوئے ہے) اور عوام الناس (جو انگریزی سے آشنا نہےں) کے درمےان ایک ایسی خلیج پیدا کر دی ہے جو کسی بھی طور قومی یک جہتی کے لےے سازگار نہےں۔ آئےن پاکستان البتہ ہمارے عوام کے سےاسی اور تہذیبی شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے، جنھوں نے آرٹیکل 251 اور آرٹیکل 28 مےں محکومانہ سوچ کو خیر باد کہ دیا ہے، اور حکمرانوں کو بھی تحکّمُانہ رسم و رواج ترک کرنے اور سُنتِ خادمانہ اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ آئےن کی تشریح سے متعلق فیصلے اُردو مےں سُنانا یا کم از کم ان کے تراجم اردو مےں کرانا اسی سلسلے کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اسی کڑی کو آگے بڑھانے کے لیے اےک شعبہ ¿ تراجم بھی قائم کیا ہے جو عدالتی فیصلوں کو عام فہم زبان مےں منتقل کرتا ہے“۔یہاں اس امر کا اعادہ نہایت ضروری ہے کہ یہ ہماری پسند نا پسند کا معاملہ نہےں اور نہ ہی ہماری تن آسانی کا بلکہ یہ آئےنی حکم ہے کہ اردو کو بطور سرکاری زبان اور برائے دےگر امور ےقےنی بنایا جائے اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی جائے۔
اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ کے جن دیگر ججوں نے اختلافی نوٹ لکھا ہے اس میں قاضی فائز عیسیٰ، دوست محمد اور اعجاز افضل شامل ہیں۔17 رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری سے متعلق 18ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستیں بھی مسترد کر دیں، اس فیصلے میں 14 ججوں نے اس کے حق میں اور تین نے اس سے اختلاف کیا۔سپریم کورٹ کی طرف سے اس ضمن میں کاز لسٹ پہلے ہی جاری کر دی گئی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک اور جسٹس دوست محمد نے ان درخواستوں پر مختصر فیصلہ سنایا۔خیال رہے کہ ان درخواستوں میں اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی سے متعلق پارلیمنٹ کے کردار، آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس سے متعلق پارلیمنٹ کو آئین سازی کے اختیار سے متعلق سوالات ا ±ٹھائے گئے تھے۔اس کے علاوہ آئین میں درج انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق بھی نکات ا ±ٹھائے گئے تھے۔ان درخواستوں میں پارلیمنٹ کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرنے کے اختیار کے علاوہ سپریم کورٹ کے ایسے آئینی معاملات میں مداخلت کرنے کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہوں۔موجودہ حکومت نے گذشتہ برس دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملوں کے بعد پارلیمنمٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم منظور کروا کر اس کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کیں وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے بارے میں تمام پالیمانی جماعتوں کو تحفظات تھے تاہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا۔’میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ غیر معمولی حالات کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
میاں نواز شریف نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقویت ملے گی اور دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ جج صاحبان کا یہ تاریخ ساز فیصلہ ہمارے مستقبل پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرے گا، یہ فصیلہ عوام کے اقتدارِ اعلیٰ اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی سند بھی ہے۔خیال رہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے علاوہ متعدد وکلا تنظیموں نے 21ویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھر میں شدت پسندی کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا تھا اور ان تنظیموں کا موقف ہے کہ فوجی عدالتیں متوازی نظامِ عدل ہے اور یہ موجودہ عدلیہ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کی اکثریت نے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کے حق میں فیصلے جاری کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اس حق کو بھی تسلیم کر لیا ہے کہ وہ عوام کی رائے کی ترجمانی کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے بعد یہ معاملہ بظاہر حل تو ہوگیا ہے لیکن اس دوران بعض بہت اہم جج صاحبان اور وکلا کی جانب سے اس بنیادی اصول کی مخالفت میں بھی فیصلے اور رائے سامنے آ رہی ہیں۔مثال کے طور پر جس سترہ رکنی بنچ نے چھ کے مقابلہ 11 کی اکثریت سے اکیسویں آئینی ترمیم کے حق میں فیصلہ دیا۔اسی بنچ کے رکن جسٹس جواد ایس خواجہ کی رائے اپنے ساتھی ججوں کی اکثریت سے بالکل مختلف ہے۔ انھوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کے معاملے میں مکمل طور پر بااختیار نہیں ہے۔بعض مبصرین عدالت کے فیصلے میں ججوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو بھی بہت معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں یاد نہیں کہ کسی بھی بنچ میں شامل اتنی بڑی تعداد میں ججوں نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہو۔وزیراعظم کے قانونی مشیر بیرسٹر ظفراللہ اس اختلافی نوٹ کو ایک صحت مند رجحان قرار دیتے ہیں۔’ہمیں تو اس اختلافی نوٹ پر خوش ہونا چاہیے۔ یہ کوئی مارشل لا نہیں ہے کہ ایک آدمی نے کہہ دیا اور سب نے مان لیا۔ ججوں کا اختلاف اس طرح کے اہم معاملات میں ہمیشہ ہوتا ہے۔ فوجی یونٹ اور سپریم کورٹ میں ہمیں فرق کرنا چاہیے۔
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے، وفاق کے اس استدلال کا جواب دینا ضروری ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو عدالتی نظرِ ثانی سے آزاد کر دیا جائے تو وہ یقیناً شفیق اور معقول ثابت ہو گی۔ جیمز میڈسن (James Madison) ، جو ایک مفکر اور امریکی آئےن کے بانیوں مےں سے اےک تھا، کہتا ہے:”اگر انسان فرشتے ہوتے تو کسی حکومت کی ضرورت نہ پڑتی۔ اگر انسانوں پر فرشتوں نے حکومت کرنی ہوتی ، تو حکومت پر کسی اندرونی یا بیرونی قیود یا کنٹرول کی ضرورت نہےں تھی۔ ایک ایسی حکومت کی تشکیل مےں، جو انسان انسانوں پر کرےں، سب سے زےادہ مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ پہلے حکومت کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ شہریوں پر کنٹرول کر سکے اور دوسرے مرحلے مےں اسے خود کو کنٹرول کرنے پر آمادہ و پابند کیا جا سکے۔ بلاشبہ ایک جمہوری نظام مےں عوام پر انحصار ہی حکومت پر سب سے پہلا کنٹرول ہوتا ہے۔ لیکن ہمےں انسانی تاریخ اور تجربے نے یہ باور کروا دیا ہے کہ پارلیمانی شفقت اور معقولیت کے علاوہ بھی ایسی ”احتیاطےں“ ضروری ہےں جو حکومت کو کنٹرول کرنے مےں معاون ہوں۔“عدالتی نظرِ ثانی بھی ایسی ہی ایک ”معاون احتیاط“ ہے جو کسی ایسی پارلیمنٹ کا سد باب کر سکتی ہے جس مےں چند افراد، یا چند سیاسی جماعتوں کے سربراہ، جو شاید پارلیمنٹ کے رکن بھی نہ ہوں آئےن پر اثر انداز ہوں یا پھر پارلیمان خود ایسی آئےنی ترمیم کرے جو عدالتی نظرِ ثانی کی زد مےں ہو۔اے پی ایس