پاک بھارت مذاکرات میں کشیدگی کا خاتمہ ناگزیر ہے۔چودھری احسن پریمی




وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ نریندر مودی جب سے اقتدار میں آئے ہیں سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان خطے کی سپرپاور ہے لیکن پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور اپنا دفاع کرنا جانتا ہے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ اوفا اعلامیے پر عمل درآمد نہ ہونے سے مذاکرات نہیں ہوئے اور اعلامیے کے وقت بھارت نے کشمیر کا لفظ نہ لکھنے کا کہا تھا۔سرتاج عزیز نے مذاکرات کے لیے پاکستانی ایجنڈہ اوفا سمجھوتے کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی پر مذاکرات سے انحراف نہیں کیا۔ ’جب بھارت سے دہشت گردی پر بات ہوسکتی ہے تو دوسرے مسئلے پر بات کیوں نہیں ہوسکتی؟‘۔انہوں نے سوال کیا کہ کشمیر اگر مسئلہ نہیں ہے تو بھارت کی سات لاکھ فوج وہاں کیا کررہی ہے؟۔ پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان اہم مسئلہ ہے جبکہ اس کا حل نکالنا شملہ معاہدے میں شامل ہے۔مشیر خارجہ کے مطابق جامع مذاکرات کے آٹھ نکات میں دہشت گردی بھی شامل تھا، جب اس پر بات ہوسکتی ہے تو دوسرے نکات پر کیوں نہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر تمام تصفیہ طلب امور میں شامل ہے جبکہ امن اور ترقی پاکستان اور بھارت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔انہوں نے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کو انسانی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کو ہر سطح پر اٹھایا جائے گا۔جبکہ پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے پیشگی شرائط کے بعد دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی دہلی میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوناتھا۔پاکستان کے اس بیان کے فوری بعد بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں کہا ہے کہ پاکستان کا یہ فیصلہ بدقسمتی ہے اور بھارت نے کوئی پیشگی شرائط نہیں رکھی تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ’ہم نے صرف اس بات کو دہرایا تھا کہ شملہ اور اوفا معاہدوں کی روح کا خیال رہے جس پر دونوں پہلے سے متفق ہیں۔‘ گزشتہ ہفتہ کو پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کی جانب سے کسی شرط کے بغیر مذاکرات کے لیے بھارت جانے کے اعلان کے بعد بھارتی وزیر خارجہ نے دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے دہلی میں حریت رہنماو¿ں سے ملاقات نہ کرنے اور بات چیت کا دائرہ کار دہشت گردی تک ہی محدود رکھنے کی یقین دہانی کے بعد ہی قومی سلامتی کے مشیروں کے مذاکرات ممکن ہو سکیں گے۔انھوں نے پاکستان کو یہ یقین دہانیاں کروانے کے لیے ہفتہ کی رات تک کی مہلت دی تھی۔گزشتہ ہفتہ کی شب پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ردعمل میں کہا گیا کہ پاکستان اپنے اس موقف کو دہرا رہا ہے کہ بھارت کی جانب سے عائد کی گئی شرائط کی بنیاد پر دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات ممکن نہیں ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سشما سوراج کی نیوز کانفرنس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر دہلی میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات ان شرائط کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ مدِنظر رکھتے ہوئے کہ دہشت گردی کے ایسے کئی واقعات جن میں بھارت کی جانب سے پاکستانی پر الزامات لگائے گئے جعلی ثابت ہوئے، یہ ممکن ہے کہ بھارت ایک، دو واقعات گھڑ کر اور ایل او سی پر محاذ گرم رکھ کر مذاکرات کی بحالی کو غیر معینہ مدت کے لیے ٹال دے۔ دہشت گردی کا مسئلہ پاک بھارت جامع مذاکرات کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے اور سیکریٹری سطح کی بات چیت میں بھی اس پر ہمیشہ بات ہوتی رہی ہے۔ اس لیے یہ غیر مناسب ہے کہ بھارت اب یکطرفہ طور پر فیصلہ کرے کہ دہشت گردی پر بات چیت اور اس کے خاتمے کے بعد ہی دیگر معاملات پر بات ہو سکتی ہے۔سشما سوراج نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی بات چیت میں کسی تیسرے فریق کی موجودگی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی بات چیت کا بنیادی مقصد کشیدگی میں کمی اور اعتماد کی بحالی ہے۔ اگر قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کا واحد مقصد دہشت گردی پر بات کرنا ہے تو اس سے صرف الزام تراشی میں اضافہ اور ماحول مزید خراب ہی ہوناتھا۔ پاکستان نے تجویز دی تھی کہ دہشت گردی پر بات کے ساتھ ساتھ اوفا کے اعلامیے کے تناظر میں فریقین کو کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کے طریقہ کار اور ممکن ہو تو نظام الاوقات پر بھی بات کرنی چاہیے کیونکہ اسی سے دونوں ممالک کے درمیان امن کے امکانات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔کشمیری رہنماو¿ں سے ملاقات کے بارے میں بھارتی شرط کے حوالے سے پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ گذشتہ 20 برس سے دورہ بھارت کے دوران پاکستانی رہنماو¿ں کی حرّیت رہنماو¿ں سے ملاقات ایک معمول رہی ہے۔ اس لیے بھارت کے لیے اب اس روایت کو تبدیل کرنے کی شرط غیر مناسب ہے۔تاہم بھارت اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے پہلے بھارت کے میڈیا میں ایک جنگ سی چھڑی ہوئی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان ایک عرصے سے بات چیت نہیں ہو رہی تھی اور تعلقات بھی کشیدہ تھے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات کا دن قریب آتے آتے حالات پہلے سے بھی زیادہ کشیدہ ہو گئے ۔بھارتی میڈیا میں مذاکرات اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے حوالے سے جس طرح کی بحث اور مباحثے چل رہے ہیں اور جس طرح کے جارحانہ بیانات سامنے آ رہے ہیں حالیہ عشروں میں اتنی تلخی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔بعض بھارتی مبصرین کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کے باوجود جنگ کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ بھارت کواب جنگ اور فوجی کاروائی کے آپشن پر بھی غور کرنا چاہیے۔مودی حکومت کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے سلسلے میں فضا بھارت کے حق میں ہے۔ بھارت مضبوط حالت میں ہے اور وہ اپنا موقف تسلیم کرانے کے لیے پاکستان کو مجبور کر سکتا ہے۔مودی حکومت نے ایک طرف نواز شریف حکومت سے مذاکرات کا راستہ کھول رکھا ہے اوردوسری جانب کنٹرول لائن پردراندازی اور فائرنگ کے جواب میں پاکستانی فوج کو جارحانہ طور پر مصروف کر رکھا ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلے کئی بار باقاعدہ جنگ ہو چکی ہے۔بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ موقف خطرات سے پر ہے اور ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر ہونے والی بات چیت منسوخ ہونے پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں لوگوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔کشمیریوں کی اکثریت نے مذاکرات میں شرائط عائد کرنے پر بھارتی حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت نہیں چاہتا کہ عالمی برادری کشمیریوں کی خواہش اور رائے جان سکے۔ ’پاکستان کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں بھارت کشمیر کے لوگوں کو شامل نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ جموں و کشمیر پرانے تنازعے کو حل نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ’بھارت اگر مسئلہ کشمیر پر بات کرے گا تو ا±سے ا±ن پر کارروائیوں پر جواب دینا پڑے گا جو وہ کشمیر میں کر رہا ہے۔کشمیر کے مسئلے کا تصفیہ تلاش کیے بغیر دونوں ممالک کے درمیان امن دیر پا نہیں ہو سکتاپاکستان اوربھارت کے تعلقات میں مسئلہ کشمیر انتہائی اہم ہے۔ لہذا دونوں ملک سیکورٹی یا امن پر بات کرتے ہیں تو انھیں کشمیر کو تو شامل کرنا ہی پڑے گا۔مقبوضہ جموں کشمیر کے ایک اساتذہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل کے تعطل سے کشمیر کے نوجوانوں میں بنیاد پرستی بڑھے گی۔وہ کہتے ہیں کہ ’اس معاملے پر مودی حکومت کے شور شرابے سے بھارت کے خود کو بڑا بھائی کہنے والی ذہنیت اجاگر ہوتی ہے کیونکہ حکومت نے پہلے خود حرّیت رہمناو¿ں سے بات کی ہے۔تاہم بعض پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں شور تو یوں مچایا جارہا ہے گویا پاک بھارت قومی مشیروں کی ملاقات ہوجاتی تو شاید ہرچیززمانہ امن میں واپس آجاتی اور اگر ملاقات نہیں ہوسکی تو کوئی آسمان نہیں گر پڑا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر انسٹھ سال سے پاک بھارت تعلقات کو پرکھاجائے تو آپ اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ میں نہ مانوں۔دوں ممالک نے گزشتہ سات عشروں سے عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ سمیت کہاں کہاں رجوع نہیں کیا جبکہ اس حوالے سے جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں۔تاہم مریکہ سمیت دنیا بھر نے پاکستان اور بھارت کے سلامتی ا±مور کے مشیروں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی منسوخی کو ’مایوس کن‘ قرار دیتے ہوئے دونوں ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ جلد باقاعدہ مذاکرات بحال کریں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کی دوبارہ بحالی کا اقدام حوصلہ افزا تھا لیکن رواں ہفتے کے اختتام پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مذاکرات ختم ہوناکشمیریوں کیلئے مایوس کن ہے۔ روس کے شہر اوفا میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی بات چیت ’تعمیری‘ تھی اور امریکہ سمیت عالمی برادری نے مذاکرات کی بحالی کی حوصلہ افزائی کی تھی۔اگرچہ اس بات چیت کی منسوخی بھارت ہٹ دھرمی ہے۔جس کی وجہ اس کی خوش فہمی یا غلط فہمی ہے کہ وہ خطے کی سپرطاقت بن چکا ہے۔ سشما سوراج کی نیوز کانفرنس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ کہ اگر دہلی میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات ان شرائط کی بنیاد پر ہوتی تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت ایک، دو واقعات گھڑ کر اور ایل او سی پر محاذ گرم رکھ کر مذاکرات کی بحالی کو غیر معینہ مدت کے لیے ٹال دے۔ دہشت گردی کا مسئلہ پاک بھارت جامع مذاکرات کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے اور سیکریٹری سطح کی بات چیت میں بھی اس پر ہمیشہ بات ہوتی رہی ہے۔ اس لیے یہ غیر مناسب ہے کہ بھارت اب یکطرفہ طور پر فیصلہ کرے کہ دہشت گردی پر بات چیت اور اس کے خاتمے کے بعد ہی دیگر معاملات پر بات ہو سکتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی بات چیت کا بنیادی مقصد کشیدگی میں کمی اور اعتماد کی بحالی ہے۔ اگر قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کا واحد مقصد دہشت گردی پر بات کرنا ہے تو اس سے صرف الزام تراشی میں اضافہ ہوناتھا ۔دہشت گردی پر بات کے ساتھ ساتھ اوفا کے اعلامیے کے تناظر میں فریقین کو کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کے طریقہ کار اور ممکن ہو تو نظام الاوقات پر بھی بات کرنی چاہیے کیونکہ اسی سے دونوں ممالک کے درمیان امن کے امکانات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔اے پی ایس