پاک بھارت کشیدگی اورامریکہ۔چودھری احسن پریمی





وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ مجموعی طور پر، امریکہ اور پاکستان کے درمیان مضبوط اور فروغ پاتے ہوئے تعلقات کا آئینہ دار ثابت ہوا ہے، جس سے دونوں ممالک کو وسیع تر معاملات پر تعاون کو مضبوط کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔جبکہ وزیر اعظم نواز شریف اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں بھی بہت ہی کامیاب رہی ہیں۔تاہم ایک امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے مختلف امریکی حکام کی طرف سے ایک خبرمیں کہا ہے کہ اگلے ماہ امریکہ آنے والے پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے سیکورٹی کے اہم مسائل پرامریکی حکام سنجیدہ گفتگو کریں گے۔تاہم وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے حوالے سے بھی سب سے پہلا اور اولیت کا حامل معاملہ سکیورٹی کا تھا۔ تاہم، باہمی مفاد کے بہت سے معاملات تھے جن میں معاشی افزائش، تجارت، سرمایہ کاری، شفاف توانائی، نیوکلیئر سکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی اور علاقائی استحکام کے امور شامل ہیں۔اس دورے سے پاکستان اور امریکی قیادت کو ایک اچھا موقع میسر آیا کہ مجموعی تعلقات کے بارے میں گفتگو کی جائے اور اِنھیں مزید مضبوط کیا جائے۔ صرف سکیورٹی کے امور ہی نہیں، وسیع تر امور پر بات ہوئی۔پاک بھارت کے حوالے سے امریکیوں کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو مکالمے کی ضرورت ہے۔سکیورٹی کے بارے میں دونوں ہی کو تشویش ہے، اس لیے انھیں زیادہ رابطہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ، تمام خطے کی سلامتی کے لیے دونوں ملکوں کے مابین بہتر مکالمہ، بہتر ڈائیلاگ، زیادہ تعاون اہمیت کا حامل ہے۔امریکیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان بری طرح سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے، اور ماضی قریب میں ملک میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں۔ اِن اقدامات کو وسعت دی جائے۔ان کے نزدیک یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے۔ ایک جانب افغانستان اور طالبان کی موجودگی ہے۔ دوسری جانب بھارت کے ساتھ تناو کا معاملہ ہے، جس صورت حال کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ باعث تشویش معاملات کو حل کرنے کے لیے، دونوں ملکوں کو خود آگے بڑھنا ہوگا۔جوھری ہتھیاروں کے حوالے سے مشیر خارجہ، سرتاج عزیز نے واشنگٹن میں واضح کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اور اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف کے سہ روزہ سرکاری دورہ امریکہ کے اختتام پر پاکستانی سفارت خانے میں ایک اخباری بریفنگ کے دوران، انھوں نے کہا کہ دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم مضبوط ہاتھوں میں ہے۔وزیر اعظم کے دورے کو مجموعی طور پر کامیاب قرار دیتے ہوئے، سرتاج عزیز نے کہا کہ اعلی امریکی عہدے داروں سے ملاقاتیں کامیاب رہیں، جن میں باہمی تعلقات کی مختلف جہتوں پر تفصیلی گفت و شنید ہوئی، حاصل کردہ پیش رفت کا احاطہ کیا گیا، اور مستقبل کے لائحہ عمل کو زیر غور لایا گیا۔افغانستان کے بارے میں، انھوں نے کہا کہ حکومتِ افغانستان اور طالبان کے مابین مصالحتی امن عمل کا تیسرا دور ملا عمر کی ہلاکت کی خبر آنے کے بعد سبوتاژ ہوا۔ بقول ان کے،اب افغان مذاکرات شروع کرنا آسان نہیں رہا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ برابری، اقتدار اعلی اور باہمی عزت کی بنیاد پر قائم رکھنے کے اصول پر کاربند ہے، جن میں افغانستان اور بھارت شامل ہیں۔ بقول ان کے، علاقائی امن و استحکام نہ صرف خطے کی ضرورت ہے، بلکہ اس کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی جارہی ہیں۔آپریشن ضربِ عضب کے بارے میں ایک سوال پر، ان کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد شروع کیا گیا، جسے تمام سیاسی جماعتوں اور فریق کی حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ جاری کارروائی مفیدرہی ہے، جس کے نتیجے میں، دہشت گردی اور شدت پسندی میں 70 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جامع اقدام کیا ہے۔ دورے کے دوران پاکستانی وفد کی زیادہ تر توجہ، بقول ان کے، بھارت کے بارے میں تھی۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہے۔اِس سلسلے میں بھارت مسلسل لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزیوں کا پہلے بھی جواب دیا جاتا تھا، اور اب بھی دیا جا رہا ہے۔ دورے کے دوران، امریکی انتظامیہ کی اعلی ترین سطح پر بتایا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں را دہشت گردی کر رہا ہے۔ ہم نے اعلی امریکی عہدے داروں کو ثبوت فراہم کردیے ہیں کہ بھارت بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔کشمیر کے سوال پر، انھوں نے کہا کہ شملہ معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ دونوں ملک تنازعات کو باہمی طور پر حل کریں گے۔ تاہم، گذشتہ 40 برسوں کے دوران باہمی عمل کی راہ میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔سرتاج عزیز نہیں کہا کہ امریکہ پاکستان مشترکہ اعلامیے میں علاقائی امن کے لیے، کشمیر سمیت تمام تنازعات کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں، سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کی سیکورٹی صورت حال میں بہتری آنے سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 90 کروڑ ڈالر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔سہ روزہ سرکاری دورہ امریکہ کے اختتام پر وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی ہوئی ہے۔ جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے بھی واضح انداز میں اقوام عالم کوباور کرایا ہے کہ افغانستان میں امن کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ لیکن بیک وقت لڑائی اور مذاکرات، ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔بھارت کے بارے میں، انھوں نے کہا کہ کئی ممالک کی مدد سے، بھارت بڑے پیمانے پر فوجی تیاریاں کر رہا ہے، جو پاکستان کے لئے باعث تشویش ہے۔ امریکی انسٹیٹوٹ برائے امن میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ بھارت سے مذاکرات کی بحالی اور امن کے لئے انھوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا۔ لیکن، بقول ان کے،بدقسمتی سے، ان تجاویز کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ اگر پاک بھارت مذاکرات کی تمام کوششیں ناکام ہوتی ہیں تو پھر، کسی تیسری قوت کو مداخلت کرکے صورتحال معمول پر لانے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ، خطے کے دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تنا پوری دنیا کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ بھارت کی فوجی تیاریوں کے نتیجے میں پاکستان اپنی سلامتی کے لئے اقدامات پر مجبور ہے اور وہ اس حوالے سے، لائحہ عمل تیار کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں یہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔ افغان مسئلے کے دو حل ہیں ایک فوجی اور دوسرے مذاکرات۔ فوجی حل کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوچکی ہیں اور اب واحد راستہ مذاکرات کا ہے۔ لیکن، یہ ممکن نہیں کہ بیک وقت کسی سے مذاکرات بھی کئے جائیں اور اس سے لڑائی بھی جاری رکھی جائے۔جوہری مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کا ملک جوہری عدم پھیلا کے اپنے وعدے پر قائم ہے، اور آئی اے اِی اے کی نگرانی میں چھوٹے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے، تاکہ ملک میں بجلی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ سرکاری اقدامات سے پاکستان میں سیکورٹی کی اندرونی صورتحال بہتر ہوئی۔ لیکن، اب اسے بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، تاکہ معیشت بہتر ہو سکے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں۔قبل ازیں صدر اوباما سے طویل ملاقات کے بعد، وزیرِ اعظم نواز شریف نے واشنگٹن کے بلیئر ہاوس میں صحافیوں کو بتایا کہ دورے کے تمام اہداف حاصل کر لیے گئے ہیں اور دو طرفہ تعلقات کو مزید وسعت دے کر اسے کثیر الجہتی شراکت داری میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ بات چیت میںمسئلہ کشمیر کو تمام تنازعات کی جڑ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حل پر اتفاق کیا گیا، جس کا اظہار مشترکہ اعلامیہ میں بھی موجود ہے۔ بھارت نہ تو ثالثی کو مانتا ہے نہ ہی مذاکرات کی میز پر آتا ہے، جس کے باعث پاک بھارت تعلقات کو بہتر کرنے کی راہ میں رکاوٹ حائل ہے "اس طرح معاملات حل نہیںہوں گے۔ دونوں جانب اس بات کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا کہ پاک امریکہ تعلقات باہمی اہمیت کے حامل ہیں۔وزیراعظم نواز شریف نے صدر اباوما سے ملاقات کو مثبت اور گرمجوش قرار دیا اور کہا کہ صدر اوباما نے گزشتہ دو برس میں پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لئے اٹھائے گئے اقدامات اور دہشت گردی کے خلاف کامیاب کارروائیوں پر پاکستانی عوام کو مبارکباد پیش کی۔ صدر اوباما نے افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا ہے اور اس مفاہمتی عمل کو ایک بار پھر شروع کرنے کی کوششوں کا اعادہ کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر مذاکرات کے تیسرے دور سے دو روز پہلے کیونکر جاری کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا ہے پاکستان افغانستان کے مفاہمتی عمل میں افغان سربراہی میں ہونے والے مذاکرات کی بھرپور حمایت کرے گا۔دہشت گرد اور فرقہ وارانہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کے امریکی مطالبے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کی مثال اور کہیں نہیں ملتی دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس آپریشن کے لیے کہیں سے امداد نہیں لی بلکہ اپنے وسائل سے یہ آپریشن جاری رکھا ہوا ہے۔انہوں نے دورے میں امریکہ کے ساتھ تجارت اور پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری پر ہونے والی پیش رفت پر کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ 5 ارب ڈالر کی سلانہ تجارت کرتا ہے، جبکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ کی تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر تک ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اسے امریکی منڈیوں تک رسائی دی جائے اور اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوطی کی جانب لے کر جائے گی۔پاکستان نے لائن آف کنڑول پر فائرنگ اور بلوچستان و کراچی میں مبینہ بھارتی مداخلت کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش کردہ دستاویز امریکی وزیر خارجہ کو بھی پیش کر دیے ہیں۔ سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے واشنگٹن میں بتایا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے یہ دستاویز جان کیری کو ناشتے کی میز پر حوالے کیے۔بقول پاکستانی سکریٹری خارجہ، اِن دستاویز میں پاکستان میں بھارتی مداخلت کے مکمل ثبوت موجود ہیں؛ اور پاکستان نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ لائن آف کنڑول پر بھارتی فائرنگ کو رکوانے اور فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں بھارتی مداخلت کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ دونوں رہنماں کے درمیان بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ پاکستان نے افغانستان کی صورتحال پر امریکہ کو اعتماد میں لیا اور بتایا کہ وہ اپنے اس پڑوسی ملک میں استحکام کے لئے کیا اقدامات کر رہا ہے۔ جان کیری سے ملاقات میں علاقائی امن، ضرب عضب اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان چھوٹے جوہری ہتھیار تشکیل دے رہا ہے، جس کا سبب بھارتی جنگی عزائم کی باتوں کا برملہ اظہار ہے۔ یہ کم درجے کے جوہری ٹیکٹیکل ہتھیار ہیں، جو پاکستان اپنے دفاع کے لیے بنا رہا ہے کیونکہ بھارت سرحدوں کے قریب روایتی ساز و سامان کے مظاہرے اور لڑائی کی باتیں کر رہا ہے۔ عام طور پر یہ بات طے ہے کہ جب دو ملک جوہری ریاستیں بن جاتے ہیں، تو ان کے درمیان جنگ نہیں ہوا کرتی۔ تاہم بھارت بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ معاملات بگڑنے کی صورت میں، بھارت جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے۔تاہم پاکستان کا جوہری پروگرام دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ پاکستان اپنے سول نیوکلیئر پروگرام پر آٹھ ممالک کے ساتھ گفت و شنید کر رہا ہے، جن میں امریکہ، برطانیہ، چین، جاپان، جرمنی، فرانس، ترکی اور چین شامل ہیں۔ سول نیوکلیئر پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان امریکی حکام سے بات چیت جاری ہے۔ جوہری تحفظ اور سلامتی کے میدان میں دنیا پاکستان کے اقدامات کی ہمیشہ معترف رہی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کے دور ہ امریکہ کے دوران صدر براک اوباما؛ اور نائب صدر جو بائیڈن سے ملاقات ہوئی۔اس کے علاوہ، وزیر اعظم کی امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور دفاع، توانائی اور خزانے کے وزرا سے ملاقات ہوئی۔ علاوہ ازیں، وزیر اعظم نے سینیٹ اور ایوان کی امور خارجہ کی کمیٹیوں کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف امریکہ پاکستان بزنس کونسل کے ارکان سے بھی ملے اس دوران انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے پر بات کی، جس میں بجلی کے پروجیکٹس میں سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے دوران بھارتی لابی بری طرح ناکام نظر آئی ہے جنھوں نے دورے سے قبل ہی پاکستان کے جوھری ہتھیاروں کے حوالے سے امریکی میڈیا میں پراپیگنڈہ کرنا شروع کردیا تھا حالانکہ دنیا بھرکو اچھی طرح معلوم ہے کہ سویلین جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال میں پاکستان کا ریکارڈ بہت اچھا ہے، جس کی بنیاد پر دیگر جوہری ریاستوں سے اس شعبے میں تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ پاکستان اتنا تجربہ اور مہارت رکھتا ہے کہ عالمی سطح پر وہ دیگر قوتوں کے ساتھ سول جوہری شعبے میں تعاون کر سکے۔جبکہ پاکستان کی حکومت ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے جوہری ٹیکنالوجی اور قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔جبکہ بھارت کے امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کی وجہ سے بھارت کے لیے کئی راستے کھلے ہیں۔دوہزارپانچ میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ غیر فوجی مقاصد کے لیے جوہری تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ پاکستان بھی امریکہ کے ساتھ اسی قسم کے جوہری تعاون کی خواہش رکھتا ہے اور کئی مرتبہ اس کا اظہار کر چکا ہے۔پاکستان چار عشروں سے سول نیوکلیئیر ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے۔جوہری توانائی میںپاکستان نے سرمایہ کاری کی ہے جو کامیاب رہی ہے۔ جتنے بھی پاکستان سول جوہری معاہدے ہوئے ہیں یا جو جوہری پلانٹس ہیں وہ آئی اے ای سیف گارڈز کے تحت کیے جاتے ہیں اوپاکستانی حکام تمام تفصیلات سے آئی اے ای اے کو آگاہ کرتے ہیں۔پاکستان کے جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ آئندہ 35 سالوں میں ملک میں مجموعی طور پر 40 ہزار میگاواٹ بجلی جوہری توانائی سے حاصل ہو سکے گی۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین محمد نعیم کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ عوام کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے ثمرات گھر گھر پہنچا کر ملک کے سماجی و اقتصادی شعبے میں ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ان کے بقول ان کا ادارہ ملک میں کینسر کے علاج کے 18 اسپتال چلا رہا ہے جہاں ہر سال ملک میں سرطان کے 80 فیصد مریضوں کے علاج کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرپاکستان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے تو بھارت امریکہ سول جوہری معاہدے کی طرز پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک معاہدے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ جوہری توانائی کے عالمی ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ یوکیا امانو نے پاکستان کی طرف سے اپنے نیوکلئیر پروگرام کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انھیں سراہا ہے۔آئی اے ای اے کے سربراہ نے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری سے کہا کہ ان کے ادارے کا پاکستان کے ساتھ تکینکی تعاون بہت عرصے سے جاری ہے جو قابل ستائش ہے۔سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ سے کہا کہ پاکستان اس عالمی ادارے کے بانی رکن ممالک میں سے ایک ہے۔ پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کے بارے میں آئی اے ای اے کے کردار کو پاکستان بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان جوہری تحفظ اور سکیورٹی کو قومی ذمہ داری سمجھتا ہے اور ملک کے تمام جوہری پلانٹ اور تحقیقی ری ایکٹرز آئی اے ای اے کے متعین کردہ معیار کے مطابق کام کر رہے ہیں۔پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام کی سکیورٹی سے متعلق ایک مربوط نظام وضع کر رکھا ہے۔پاکستان کا شمار آئی اے ای اے ان رکن ممالک میں ہوتا ہے جنہیں عالمی تنظیم کی طرف سے سب سے زیادہ تکینکی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کے جوہری بجلی گھر لگ بھگ 40 سالوں سے آئی اے ای اے کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں۔پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت پاکستان 2050 تک جوہری بجلی گھروں کے ذریعے 40 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرنا چاہتا ہے۔اے پی ایس