طرزحکمرانی۔چودھری احسن پریمی




پاکستان کی سول و عسکری قیادت کے حوالے سے ہرکوئی اپنی طرف سے خودساختہ کشیدگی کا ماحول بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتا دکھا ئی دے رہا ہے۔گزشتہ دنوں کورکمانڈرکانفرنس میں آرمی چیف نے اچھی طرزحکمرانی کی جانب ایک روشن اندازمیں توجہ دلانے کی کوشش کی تھی ۔جس کی جانب وزیراعظم نوازشریف کئی دفعہ عدم اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں یہ وہ عوامل ہیں جو سست روی کے حوالے سے ہمارے سول انتظامی ڈھانچے میں پائے جاتے ہیں تاہم اس ایشو پرسودا بیچنے والوں کو ایک اہم موقع ملا ہے جس میں غیرجمہوری سوچ رکھنے والے سیاستدان اور الیکٹرانک میڈیامیں آدھی رات کو پیدا کردہ نام نہاد تجزیہ کارپیش پیش ہیں۔
بدترین طرزحکمرانی کے حوالے سے گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی سینٹ میں اپنے خطاب کے دوران تمام سیاستدانوں اورحکمرانوں کو ایک پورا تھیسز پڑھ کر سنا چکے ہیں جس میں انہوں نے واضح اورواشگاف الفاظ میں انتظامیہ(حکومت) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نہ صرف اس کی بدانتظامی کا ذکر کیا ہے بلکہ اسے بدعنوان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مجرمانہ سوچ کی حامل قراردیا ہے جس کے نتیجے میں انصاف سے وابستہ امیدیں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے جس اہم ایشو کی طرف حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائی ہے اس حوالے سے نہ تو کسی سیاستدان کا ردعمل سامنے آیا ہے اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل پر کسی تجزیہ کار نے راگ الاپنے کی کوشش کی ہے۔اس ضمن میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک و قوم کے ہمدرد بن کر سویلین اور عسکری قیادت میں دراڑ ڈالنے والے کس حد تک بد نیت ہیں۔
بیرونی طاقتوں کی ایجنڈے پر کام کرنے والے اور بعض غیرجمہوری سوچ رکھنے والوں کے گروپ کس قدرمتحرک ہوئے ہیں تاکہ ملک میں انتشار اورعدم استحکام کی کیفیت کو مزید تقویت فراہم کی جاسکے۔
اس ضمن میں حکومت کی طرف سے ان کے بعض اتحادیوں کی جانب سے بھی جو ردعمل آرہا ہے ان کے اس طرزعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود بھی حکومت کے دشمن ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں ہوا ایسا جس کا پتنگڑھ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔
کورکمانڈر کانفرنس سے قبل بھی میڈیا میں یہ رپورٹس تواتر سے شائع ہوتی رہی ہیںکہ پاکستانی حکام انسداد دہشت گردی کے لیے قومی لائحہ عمل پر پیش رفت کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں مگر اب بھی اس کے کئی نکات پر قابل ذکر پیش رفت نہیں کی جا سکی۔اس ضمن میں بہت عرصہ پہلے وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں سلامتی سے متعلق معاملات پر ایک اعلی سطحی اجلاس میں قومی لائحہ عمل کے مختلف حصوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔جس میںانہوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری اس بیان پر تحفظات کا اظہار کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے دیرپا نتائج اور پائیدار امن کے لیے حکومت کو بھی بہتر طرز حکمرانی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف صرف اسی وقت ایک صفحے پر ہوں گے جب ملک میں آئین کی بالادستی ہو گی۔اس ضمن میں محمود خان اچکزئی سے سوال ہے کہ جب چیف جسٹس آف پاکستان نے سینٹ میں اپنے خطاب کے دوران انتظامیہ کو بدانتظامی بدعنوانی اورمجرمانہ سوچ کی حامل قرار دیا ہے تو آپ نے ایک اچھی طرز حکمرانی کیلئے حکومت پر زوردیا ہے؟ ہر گز نہیں
محمود اچکزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے۔ ہم کسی بھی ایسی خارجہ پالیسی کی حمایت نہیں کر یں گے جوپارلیمان میںنہیں بنائی جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں لیا جائے مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور بات کی جائے۔اس ضمن میں محمود اچکزئی کا موقف درست ہے کیونکہ اس سے قبل کئی ایک سیاست دان کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کسی بلڈنگ کا نام نہیں۔
دوسری جانب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان پر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ حکومت کو طرز حکمرانی بہتر کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی کہا کہ انھیں توقع ہے کہ وزیراعظم فوج کے سربراہ کے پیغام کو سمجھیں گے اور اپنی کابینہ کو درست کریں گے۔واضح رہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے دیرپا نتائج اور پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بھی بہتر طرز حکمرانی کے لیے ایسے ہی اقدامات کرے۔
کو راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر میں کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ عسکری کمانڈروں نے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد، وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں اصلاحات، مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے سمیت ان تمام امور پر غور کیا جن سے ملک میں جاری آپریشنز کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔
فوج کے عسکری کمانڈروں کے اعلی ترین اجلاس کے بعد یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر مکمل اور بھرپور عمل درآمد کے حوالے سے بعض خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔حالیہ مہینوں میں خود وزیراعظم نوازشریف بھی کہہ چکے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کے حوالے سے کچھ صوبوں میں کام کی رفتار بہتر ہے جب کہ بعض میں پیش رفت بہت سست ہے۔حکومت کی طرف سے تو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد سامنے آنے والے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا البتہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے مقامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ حکومت کا احتساب 2018 کے انتخابات میں عوام ہی کریں گے۔
تاہم قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری دفاع چوہدری جعفر اقبال نے آرمی ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل پیش کیاتھا، بل کے تحت فوجی عدالتوں میں پیش ہونے والے گواہوں اور پراسیکیوٹرز کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
یہ بل سینیٹ سے پہلے سے منظور ہو چکا ہے۔ بل میں دو تین وضاحتیں ضروری تھیں۔ گواہوں کو تحفظ دیا گیا ہے اس کے علاوہ وہ لوگ جو دہشت گردی اور خاص طور پر مذہبی دہشت گردی میںملوث ہیں ان کے مالی معاونین کو بھی پکڑا جائے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال پشاو رمیں فوج کے زیر انتظام اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے میں طالب علموں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے مشاورت سے انسداد دہشت گردی کا قومی لائحہ عمل کی منظوری دی تھی، جس کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے معاونین کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
اس حوالے سے وزیرِ اعظم نوازشریف بھی کئی بار کہہ چکے ہیں قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب دہشتگردی کے خاتمے کے حکومتی عزم کا مظہر ہے۔ پاکستان دہشتگردی کے خاتمے میں کامیاب رہا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکا۔ پوری پاکستانی قوم ان لوگوں سے اظہارِ یکجہتی کرتی ہے جو اس خطرناک محاذ پر لڑ کر قوم کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا حال قربان کر رہے ہیں۔
ایک برس کے دوران کارروائیوں میں 2763 شدت پسند مارے گئے ہیں جبکہ ساڑھے تین سو کے قریب فوجی افسر اور جوان بھی ہلاک ہوئے ہیں۔خیال رہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں گذشتہ برس 15 جون کو شدت پسندوں کے خلاف ضربِ عضب کے نام سے کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔حال ہی میں بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ یہ آپریشن کامیاب رہا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ قبائلی علاقوں کے بعد شہری علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ملک میں عمومی طورپر سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور بڑے بڑے حملوں میں بھی کمی دیکھی گئی ہے تاہم سکیورٹی اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اس آپریشن کے نتیجے میں پاکستانی طالبان کی امارت سمجھے جانے والے علاقے شمالی وزیرستان کو تو شدت پسندوں سے خالی کروالیا گیا ہے تاہم بیشتر طالبان تنظیموں کی قیادت بدستور محفوظ ہے۔ فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے جاری آپریشن کے نتائج حاصل کرنے اور ملک میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ حکومت انتظامی امور کو بہتر کرے۔
قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت دوسرے آپریشنز میں ممکنہ رکاوٹوں، فاٹا اصلاحات اور تمام جاری مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر منطقی انجام تک پہنچانے کی ضروت ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی فوج کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب حال ہی میں اعلی عدالتوں نے فوجی عدالتوں کے فیصلے مسترد کیا ہے۔دوسری جانب ملک میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی کابینہ کے اہم وزرا کے مابین اختلافات کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی ہیں۔کور کمانڈر کانفرنس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ہدایت کی ہے کہ آپریشنز کی وجہ سے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی جلد اپنے علاقوں میں واپسی کو یقینی بنایا جائے اور متاثرہ علاقوں میں تعمیرِ نو کا کام تیز کیا جائے۔کور کمانڈر کانفرنس میں آرمی چیف کے دور امریکہ میں جن امور پر بات کی جائے گی ان پر بھی غور کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ملک کے تمام اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس کے لیے تمام ادراوں کو آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ حکومت عوامی کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لیے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت دیگر اقدامات جاری رکھے گی۔
حکومت کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب روالپنڈی میں کور کمانڈر کانفرنس میں فوج کے سربراہ راحیل شریف نے کہا تھا کہ طویل مدت میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے نتائج حاصل کرنے کے لیے حکومت کو انتظامی امور اور طرز حکمرانی کو بہتر کرنا ہو گا۔
آرمی چیف کے بیان کے بعد حکومتی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ دو برسوں سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ حکومت نے کیا تھا جیسے عوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔نیشنل ایکش پلان پر کامیابی سے عمل درآمد حکومتی کوششوں سے سیاسی اتفاق رائے، مسلح افواج کی بہادرانہ اقدامات اور صوبائی حکومتوں، پولیس اور انیٹلیجنس ایجنسیوں کی کارروائیوں سے ممکن ہوا ہے۔سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اعلی عدلیہ اور خاص کر عوام نے بھی دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔حکومت نے تمام فیصلے قومی مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شفاف انداز میں کیے ہیں اورحکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ یاد رہے کہ جنرل راحیل شریف نے کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت دوسرے آپریشنز میں ممکنہ رکاوٹوں، فاٹا اصلاحات اور تمام جاری مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر منطقی انجام تک پہنچانے کی ضروت ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی امریکہ روانگی سے پانچ روز پہلے ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس (دس نومبر) کی جو تفصیلات فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ نے جاری کی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوج دہشت گردی کے تدارک کے لیے اپنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی رفتار سے خوش نہیں۔فوجی قیادت نے زور دیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سے حاصل ہونے والی کامیابیاں برقرار رکھنے کے لیے سویلین سائیڈ سے بھی ہم پلہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
فوجی قیادت نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے ڈھانچے میں اصلاحات کی رفتار تیز کی جائے اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں اپنا کام ترجیحاتی بنیاد پر مکمل کریں۔تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کور کمانڈر اجلاس سے قبل یہ تحفظات وزیرِ اعظم نواز شریف کے سامنے بھی رکھے۔ پھر بھی واضح نہیں کہ ان تحفظات کو پریس ریلیز کے ذریعے عام کرنے کا سبب کیا ہے؟۔جہاں تک نیشنل ایکشن پلان پر سست رفتاری سے عمل درآمد کا معاملہ ہے تو فوج کا یہ دیرینہ شکوہ دور کرنے کے لیے کہ اسے دہشت گردی سے لڑنے کے لیے بھرپور سیاسی حمایت درکار ہے گذشتہ فروری میں سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ نے فوج کو دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کے لیے مکمل مینڈیٹ دیا۔پارلیمنٹ نے تحفظات کے باوجود فوجی عدالتوں کا قیام بھی منظور کر لیا۔ کراچی میں جرم اور سیاست کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے فوج اور رینجرز نے جو بھی اقدامات مناسب سمجھے کیے۔ متذبذب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سمیت اہم سیاسی جماعتوں اور وفاقی حکومت کی جانب سے اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کی اصولی حمایت بھی برقرار ہے۔
جہاں تک یہ مطالبہ ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں دہشت گردی کے ملزموں سے پوچھ گچھ تیزی سے مکمل کریں تو ان ٹیموں میں پولیس کے علاوہ فوج کی انٹیلیجینس ایجنسیوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ مزید براں صوبائی حکومتیں وفاقی وزارتِ داخلہ کے توسط سے دہشت گردوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں کو ارسال کر رہی ہیں۔ پھر بھی سست رفتاری محسوس ہو رہی ہے تو اس کا تدارک کسی ایک فریق کی ذمہ داری ہے یا مشترکہ ذمہ داری؟
جہاں تک فاٹا میں اصلاحات کا معاملہ ہے تو فوج کی جانب سے اس بارے میں سست رفتاری پر تحفظ جائز معلوم ہوتا ہے۔اس وقت ایک 19 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے فاٹا میں انتظامی و سیاسی اصلاحات سے متعلق گیارہ نکاتی سفارشات حکومت کے پاس پڑی ہیں۔پارلیمنٹ میں اس بابت دو بل بھی بحث و منظوری کے منتظر ہیں۔مگر آئین کے آرٹیکل247 میں ترمیم کیے بغیر یہ کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس آرٹیکل کے تحت فاٹا سے متعلق قانون سازی کا اختیارِ صدرِ مملکت کو حاصل ہے۔ فاٹا پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہِ اختیار سے بھی باہر ہے اور پولٹیکل ایجنٹ ہی یہاں مدعی بھی ہے اور منصف بھی۔اس وقت قبائیلی ایجنسیوں میں دہشت گردی کے خلاف یا تو آپریشن جاری ہے یا کچھ ایجنسیاں بعد از آپریشن بحالی کے مرحلے میں ہیں۔لگ بھگ 20 لاکھ قبائلی پچھلے چھ برس کے دوران ان آپریشنز کے سبب در بدر ہوئے ہیں۔کور کمانڈر اجلاس نے لاکھوں متاثرین کی ترجیحی بحالی و واپسی کا بھی عہد کیا۔عین ممکن ہے کہ فوج کی جانب سے تازہ تحفظات کے کھلے عام اظہار سے اب فاٹا اصلاحات کا کام مکمل کرلیا جائے مبصرین کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت کو اس پے بھی تو تحفظات ہونے چاہئیں کہ ڈھائی برس بعد بھی نواز شریف کو ایک کل وقتی وزیرِ خارجہ کیوں نہیں مل سکا؟ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سویلین عدالتی نظام کو جدید اور موثر بنانے میں کیا رکاوٹ ہے تاکہ دو برس بعد فوجی عدالتوں کی معیاد میں توسیع کی ضرورت نہ پڑے۔ الیکشن کمیشن کیوں با اختیار نہیں بنایا جا رہا اور انتخابی اصلاحات کب تک مکمل ہوں گی؟
آپریشن ضرب عضب اس حد تک تو کامیاب نظر آرہا ہے کہ تحریک طالبان کے جنگجو بکھر گئے ہیں اورلگتا ہے انکے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ تاہم ابھی تک بے گھر افراد اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے ہیں اور وہاں آپریشن بھی جاری ہے
آپریشن کے نتیجے میں فوج کس حد تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں کا میاب رہی ہے، اس ضمن میں ایک سال پہلے تک ملک میں ایک افراتفری کی فضا تھی، ہر طرف بڑے بڑے حملے ہورہے تھے، کراچی ایئر پورٹ پر بڑا حملہ کیا گیا تاہم آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے حالات اب کچھ حد تک بہتر ہوئے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہاں جلد از جلد کاروائی مکمل کی جائے اور بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرکے اختیارات سول انتظامیہ کے سپرد کردیے جائیں تاکہ بحالی کے منصوبوں کا آغاز کیا جاسکے۔اس آپریشن کی ابتدا سے ہی متعلقہ علاقوں میں ذرائع ابلاغ کو بڑی محدود رسائی دی گئی۔ حکومت اور فوج کی جانب سے تمام معلومات کو بڑے کنٹرول میں رکھا گیا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہاں کتنی ہلاکتیں ہوئی، کس فریق کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور عسکری تنظیموں کی قیادت کہاں گئی؟۔آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں جو پناہ گزین کیمپوں یا کرائے کے مکانات میں بدستور مقیم ہیں۔حکومت نے حال ہی میں متاثرین کی واپسی کا عمل شروع کیاجس کے تحت بے گھر افراد کو ایک سال کے اندر گھروں کو واپس بھیجا جائے گا۔ ابھی تک اطلاعات کے مطابق بیشتر ان علاقوں کے افراد کو واپس بھیجا گیا ہے جہاں باقاعدہ آپریشن نہیں کیا گیا تھا جس کے خلاف متاثرین اور تمام اقوام پر مشتمل وزیرستان کا نمائندہ جرگہ سراپا احتجاج ہے۔قبائیلیوں کا مطالبہ ہے کہ پہلے میران شاہ اور میرعلی تحصیلوں کے متاثرین کو واپس منتقل کیا جائے جو سب سے پہلے بے گھر ہوئے اور جن کا نقصان بھی زیادہ ہوا ہے۔اے پی ایس