برطانیہ میں مودی کے سخت گیر ایجنڈے کے خلاف احتجاج۔چودھری احسن پریمی




ASSOCIATED PRESS SERVICE
کشمیر سینٹر پورپ کے چیئرمین علی رضا سید نے کہا ہے کہ ہماری جنگ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف ہے جس نے بھارت کے اندر اور مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے دورہ یورپ کے موقع پر برسلز سے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری حق خودارادیت پر کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کریں گے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی موثر ہیں۔ یہ وقت ہے کہ کشمیری جماعتیں زیادہ سے زیادہ اپنے اندر اتحاد برقرار رکھیں۔ انہوں نے کہا کشمیر پر برسلز سمیت پورے یورپ میں کشمیری عوام عالمی برادری کے سامنے اپنا احتجاج مظاہروں کی صورت میں ریکارڈ کروائے گی۔علی رضا سید کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے باعث حوصلہ افزاہے کہ مسئلہ کشمیرکے حل کی عالمی برادری حمایت کر رہی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک اعلی سطح کے وفد کے ہمراہ تین روزہ سرکاری دورے پر گزشتہ جمعرات کو برطانیہ پہنچے ۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے یہ ان کا برطانیہ کا پہلا دورہ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ہم منصب کا استقبال 10 ڈاننگ پرکیا، جس کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے دفتر خارجہ میں ایک نیوز کانفرنس میں شرکت کی۔وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ اپنے قیام کے دوران برطانیہ کے ساتھ اقتصادی اور سکیورٹی تعلقات کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔برطانیہ کا دورہ وزیراعظم مودی کا 29 واں غیر ملکی دورہ ہے، جو کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے 18 ماہ میں سب سے زیادہ دورے ہیں۔وزیر اعظم مودی 13 سال تک گجرات کے وزیر اعلی رہے ہیں ان کی وزارت کی مدت میں گجرات میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے تھے۔2012 تک وزیر اعظم مودی پر بھارتی ریاست گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام کی وجہ سے ان کی برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔نریندر مودی کے دورے کی تین روزہ مصروفیات کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم کا مختصر دورہ سخت شیڈول پر مشتمل تھا۔ اپنے دورے کے پہلے روز انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اس کے علاوہ گلڈ ہال لائبریری میں معززین سے ملاقاتیں کیں جبکہ اسی روز جیگوار لینڈ روور فیکٹری کا دورہ بھی کیا، ان کا قیام وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے اسٹیٹ ہاوس بکنگھم شائر میںتھا۔وزیر اعظم مودی مصروفیات میں ملکہ برطانیہ الزبیتھ دوئم کے ساتھ ملاقات اور بکنگھم پیلس میں ظہرانے میں شرکت بھی شامل تھی، جس کے بعد انہوں نے ویمبلے اسٹیڈیم میں بھارتی تارکین وطن کمیونٹی کی جانب سے ان کے اعزاز میں دیے گئے ایک شاندار استقبالیہ سے خطاب کیا۔اپنے دورے کے اختتام پر مودی نے 12 ویں صدی کے فلاسفر بسوے شورا کے مجسمے کی رونمائی کی اور بھارتی سیاست دان بابا صاحب امبیدکار کے لیے وقف ایک میوزیم کا افتتاح کیا۔ برطانیہ سے وزیر اعظم نے جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ترکی روانہ ہوناتھا۔ بھارتی وزیر اعظم کے دورے کے دوران دونوں حکومتوں کی جانب سے سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور اقتصادی شراکت داری پر توجہ مرکوز رکھی گئی اور اہم تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے گے۔ بھارتی وزیر اعظم اور برطانوی حکومت کے درمیان اندازا 13 ارب پاونڈ لاگت کے معاہدے کئے گے۔وزیر اعظم مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے تین دہائیوں میں پہلی بار 2014 کے عام انتخابات میں پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل کیا اور وزیر اعظم کی جانب سے بھارتی عوام سے معاشی ترقی، گڈ گورننس اور ملک کی ترقی و خوشحالی کا وعدہ کیا۔تاہم حالیہ دنوں میں وہ سول سوسائٹی جن میں ادیبوں، فنکاروں، فلم سازوں اور یہاں تک کہ سائنس دانوں کی جانب سے بھارت میں فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ادھر بھارتی نژاد برطانوی کمیونٹی کی جانب سے نریندر مودی کو برطانیہ میں خوش آمدید کہنے کے لیے ویمبلے اسٹیڈیم میں ایک گرینڈ کمیونٹی ریسپشن کا اہتمام کیا گیا ہے جس میںبھاری اکثریت بھارتیوں کی تھی۔جبکہ دو سو سے زیادہ مصنفین جن میں سلمان رشدی، وال مک ڈرمِڈ اور این مک ایون شامل ہیں نے ایک خط کے ذریعے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نریندی مودی سے بھارت میں خوف کے بڑھتے ہوئے ماحول کو کم کرنے پر زور دیں۔ان مصنفین نے اس خط کے ذریعے بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اور کہا ہے کہ مودی آزادیِ اظہار کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔انھوں نے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون پر زور دیا ہے کہ وہ نریندر مودی کے ساتھ دورہ برطانیہ کے دوران ہونے والی اپنی ملاقاتوں میں اس مسئلے کو اٹھائیں۔اس خط میں بھارت کے مصنفین کو گذشتہ دو سالوں میں دی جانے والی دھمکیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔واضح رہے کہ بھارت کے تقربیا 40 ناول نگاروں، شاعروں اور لکھاریوں نے بھارت کی نیشنل اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے دیے گئے ساہتیہ اکیڈمی اعزازات کو بطور احتجاج واپس کر چکے ہیں۔دوسری جانب برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاننگ سٹریٹ کی جانب سے اس خط کے حوالے سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔لندن میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر فضا کئی گھنٹوں تک نریندر مودی کی مخالفت اور حق میں لگائے جانے والے نعروں سے گونجتی رہی۔مودی کے مخالفیں، جو عددی لحاظ سے ان کے حامیوں سے کئی گنا زیادہ تھے، ان کے نعروں گو بیک مودی گو بیک میں اس وقت شدت آ گئی جب نریندر مودی ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کر کے باہر نکلے۔نریندر مودی کے حق اور مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کے ایک ہی وقت ایک ہی جگہ پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے مناسب اقدمات کر رکھے تھے اور پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد وائٹ ہال کے باہر شاہراہ پر موجود تھی۔دو دن قبل جس شاہراہ پر دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی یاد میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی تھی اور جس میں ملکہ برطانیہ نے بھی شرکت کی تھی وہ شاہراہ نریندر مودی کے آنے پر ایک بالکل مختلف منظر پیش کر رہی تھی۔ایک طرف لندن میں مقیم نیپالی کمیونٹی کی بہت بڑی تعداد بھارت اور مودی سرکار کے خلاف ہاتھوں میں بینر اور کتبے اٹھائے گو بیک مودی گو بیک، کے نعرے بلند کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ہی سکھ علیحدگی پسند تنظیموں کے سینکڑوں مرد اور خواتین جن میں اکثریت عمررسیدہ لوگوں کی تھی مودی کے خلاف اور خالصتان کے حق میں بڑے جذباتی انداز میں نعرے لگا رہے تھے۔سکھوں نے سنہ 1983 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے سکھوں کے قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔ان ہی مظاہرین میں ایک عمر رسیدہ سکھ خاتون اپنے جوان سال بیٹے کی تصویر اٹھائے بھی موجود تھیں جن کے بیٹے کو اس قتل عام میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔گجرات کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے ہمدردوں کو بھی اس مظاہرے میں دیکھا گیا ہے۔ گجرات میں ہلاک کیے جانے والے منتخب رہنما احسان جعفری کی تصویر بھی ایک شخص نے اٹھا رکھی تھی۔ قریب ہی کھڑے ایک اور شخص نے کوثر بی بی کی تصویر والا پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ میرا ریپ کر کے مجھے قتل کر دیا گیا۔ساوتھ ہال بلیک سسٹر تنظیم کے ارکان کو مودی سرکار کے اقتدار میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر تشویش ہینیپال کمیونٹی کی ایک تنظیم کے رابطہ کار بزین پرسن نے کہا کہ بھارت نے نیپال کی سرحد بند کر کے نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ ایندھن کی کمی کے علاوہ نیپال میں ادویات کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ایک یاد داشت پیش کریں گے جس میں ان سے نیپال کی سرحد کے معاملے کو اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔سکھوں کی تنظیم دل خالصہ کے عمر رسیدہ سربراہ منموہن سنگھ خالصہ نے کہا کہ وہ 31 سال سے جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سکھوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے وہ اسے کبھی نہیں بھلا سکتے۔مودی مخالفین کے درمیان ساتھ ہال بلیک سسٹر تنظیم کی چند درجن خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کی ترجمان راحیلہ گپتا نے بتایا کہ گزشتہ عرصے میں برطانیہ میں بنیاد پرستی میں واضح اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر خواتین سے ہونے والی سماجی زیادتیوں میں۔انھوں نے کہا کہ بنیادی پرستی میں اضافے کی وجہ سے زبردستی کی شادیوں کو مذہبی اور سماجی تحفظ حاصل ہو رہا ہے اور اس رجحان کو بھارت میں ہندو قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے سے حوصلہ ملا ہے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں مندروں میں اکھٹا کیا جانے والا چندہ بھی بھارت میں انتہاپسند تنظیموں کو مالی وسائل مہیا کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔لندن کے دورے پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے برطانیہ اور بھارت کے درمیان حالیہ مذاکرات کو دو عظیم قوموں کے لیے اہم موقع قرار دیا ہے۔لندن میں برطانوی پارلیمان سے خطاب میں نریندر مودی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کی قیادت کرنے والی شراکت داری قائم کریں۔دورے کے دوران مودی اور وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے 13 ارب ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔دونوں رہنماں کا کہنا تھا کہ وہ معیشت، دفاع، جوہری توانائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملات پر تعاون کریں گے۔بھارتی وزیراعظم مودی نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت اہم ہیں۔پارلیمان سے خطاب میں مودی نے کہا کہ ہم دوسرے یورپی ممالک بھی جا رہے ہیں لیکن ہماری ہر ممکن کوشش یہی ہو گی کہ یورپی یونین میں داخل ہونے کے لیے برطانیہ ہی ہمارا داخلی مرکز ہو۔انھوں نے کہا کہ بھارت اور برطانیہ دو مضبوط معیشتیں اور دو جدید معاشرے ہیں لیکن ہمارے تعلقات کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچنا ہے۔نریندری مودی پہلے بھارتی وزیراعظم ہیں جنھوں نے برطانوی پارلیمان سے خطاب کیا ہے۔نریندر مودی کا دور برطانیہ ایک ایسے وقت پر ہواہے جب ان کی جماعت بی جے پی کو بھارت کی شمالی ریاست بہار میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں شکست ہوئی ہے۔دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ مودی کا دورہ دونوں ممالک کے لیے ترقی کا اہم موقع ہے۔ یہ دونوں ممالک کے لیے موقع ہے کہ وہ اِس دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں، دونوں ملک تاریخ، عوام اور روایات کے ذریعے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا وزیراعظم نریندر مودی اور میرا عزم ہے کہ اِس موقعے کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیں۔ادھر مودی کا کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد روایتی دوست کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔جبکہ مودی کے مخالفین نے ان کی برطانیہ آمد پر ڈاننگ سٹریٹ کے باہر جمع ہو کر احتجاج کیا۔مودی کے حامیوں کو امید ہے کہ وزیرِ اعظم کے دور ہ برطانیہ سے انھیں بہار کے انتخابات میں ہونے والی شکست کے بعد سنبھلنے کا موقع ملے گا۔برطانیہ میں موجود آواز نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ مودی کے سخت گیر ایجنڈے کے خلاف ہیں جو ان کے خیال میں بھارت کی جمہوری اور سیکیولر ساخت کو کمزور کر رہا ہے۔ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سرکاری دورے پر پہنچے تو بھارت میں برطانوی کونسل کے ڈائریکٹر روب لائنس نے دونوں ممالک کے درمیان روابط پر نظر ڈالی ہے۔جس کا عنوان تھا کہ اقتصادی تعلقات کی موجودہ حالت کیا ہے؟۔بھارت اور برطانیہ کے تعلقات مضبوط ہیں اور اِن کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور اب یہ دونوں ملک مستقبل کے نقط نظر کا تبادلہ کررہے ہیں۔سنہ 2010 سے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے تین بار بھارت کا دورہ کیا ہے اور بھارت میں موجود برطانیہ کا سفارتی نیٹ ورک دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور تعاون میں دوبارہ تیزی آئی ہے۔برطانیہ بھارت میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے، جب کہ بھارت، امریکہ اور فرانس کے بعد برطانیہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری (منصوبوں کی تعداد کے لحاظ سے) تیسرا بڑا ملک ہے۔برطانیہ کی زیادہ تر درآمدات بھارت سے آ رہی ہیں، البتہ کئی برسوں کی ترقی کے بعد ملک کی برآمدات میں رکاوٹ آنا شروع ہوگئی ہے۔بھارتی کمپنیاں برطانیہ کی معیشت میں تیزی سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔مثال کے طور پر ٹاٹا گروپ برطانیہ کے بڑے صنعت کاروں میں سے ایک ہے اور اِس کے برطانیہ میں 65,000 ملازمین ہیں۔بھارت کے لیے برطانیہ کی ترسیلات بہت زیادہ ہیں۔اگرچہ اِس کے درست اعداد و شمار کو جاننا مشکل ہے۔سنہ 2013 میں گارڈیئن کی عالمی بینک کے اعداد و شمار کی مدد سے تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت کے لیے برطانیہ کی ترسیلات کی مالیت رسمی اور غیر رسمی طریقوں کے ذریعے سے غیر ریکارڈ شدہ منتقلیاں ملا کر 3.9 ارب امریکی ڈالر بنتی ہے۔برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی تعداد 21,000 ہزار سے زائد ہے۔ بھارتی طالبعلموں کے لیے چیوننگ اور دیگر وظائف کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔سائنس اور تعلیمی میدان میں نئے اقدامات جیسے کہ نیوٹن بھابھا فنڈ کا قیام اور تحقیقی تعاون میں دس لاکھ پانڈ سے لے کر 15 کروڑ پانڈ تک کے اضافے سمیت یہ تمام اقدامات تعلقات کو مضبوط کرنے اور تجارت میں اضافے کے لیے ہیں۔1990 کی دہائی کے آغاز میں جب سے بھارت کی حکومت نے اپنی معیشت کو آزاد اور بین الاقوامی بنانے کے لیے اہم تبدیلیاں کی ہیں اور اِس سے ترقی کے دروازے کھلے ہیں اور یہ ترقی آج بھی جاری ہے۔پندرہ سال قبل برطانیہ بھارت کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار تھا اور آج اِس کا نمبر 12واں ہے۔مودی اپنے اقتدار کے پہلے 18 مہینوں کے دوران تعلقات بنانے اور نئے معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے 27 ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔اپنی مشرق کی جانب دیکھو پالیسی کے باعث بھارت کی توجہ بھی جاپان کوریا اور چین کی جانب منتقل ہوگئی ہے۔ اِس سال مودی نے اپنے دور چین کے دوارن 22 ارب امریکی ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے۔گذشتہ آخری مہینے کے دوران بھارت نے 50 افریقی رہنماں کے اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت اِس خطے سے تعلقات اور تجارت بہتر بنا رہا ہے۔اسی دوران نوجوان بھارتی تعلیم، روزگار اور سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش میں تیزی سے امریکہ، آسٹریلیا، جرمنی کا رخ کر رہے ہیں۔بھارت اور برطانیہ میں مضبوط جمہوریت، مربوط ثقافتی اداروں اور انگریزی زبان کی دو سو سال سے زیادہ کی مشترکہ تاریخ ہے۔برطانوی بھارتیوں نے دونوں ممالک کے درمیان کو بہتر بنانے کے لیے روابط کو مضبوط بنانے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جن کی تعداد تقریبا 15 لاکھ ہے اور یہ برطانیہ کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔یہ دنیا میں بھارتی عوام کا سب سے بڑا ساتواں پھیلا ہے اور یہ برطانیہ میں زندگی کے ہر شعبے میں نمائندگی کر رہے ہیں۔یہ بھارت اور برطانیہ کے درمیان صرف پل کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ بھارتی ثقافت کے ذریعے سے برطانیہ کو زرخیز بنانے میں مدد کر رہا ہے۔برطانیہ دونوں کے مشترکہ مفادات میں تعلقات بنانے کے لیے اِس پھیلا میں کافی مصروف ہے۔حال ہی میں برطانوی کونسل کے شائع ہونے والے سروے اور رپورٹ اِس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ نوجوان افراد اب بھی برطانیہ کے لیے اچھا محسوس کرتے ہیں اور اس ملک کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں خاص طور پر ان کی ثقافت کی جانب۔بھارت کے نوجوان متوسط طبقے سے 15 بڑی معاشیات کی تمام تر دلکش چیزوں کو سامنے رکھ کر درجہ بندی کرنے کو کہا تو اِس میں برطانیہ کا نمبر دوسرا رہا اور پہلے نمبر پر امریکہ آیا۔اور اِن درست مواقع کے ساتھ برطانیہ کے لوگ بھارت میں دلچسپی دکھاتے ہیں۔ گذشتہ برس برٹش کونسل نے مختصر مدت کی تعلیم اور روزگار کے لیے بھارت میں جنریشن بھارت برطانیہ کا آغاز کیا تھا۔ اور اِس میں تقریبا 4000 سے زائد نوجوان پہلے ہی درخواست دے چکے ہیں جو برطانیہ جانے کے خواہشمند ہیں۔اے پی ایس