دولت چھپانے اور ٹیکس بچانے کا عالمی سکینڈل۔چودھری احسن پریمی



  امریکی نام کہاں ہیں؟ پاناما پیپرز کے افشا ہونے کے بعد یہ وہ سوال ہے جو عام سنا جا رہا ہے۔ پاناما کی لا فرم کی جانب سے ایک کروڑ 15 لاکھ سے زائد دستاویزات کا انکشاف ہوا ہے جن میں عالمی رہنماں اور مشہور شخصیات کے چھپے ہوئے غیرملکی اکانٹس کی تفصیل درج ہیں، جو راز ابھی فاش ہو رہے ہیں۔تحقیق کا کام کرنے والے صحافیوں کے بین الاقوامی کنشورشیئم آئی سی آئی جے نے اِن مالی اعداد و شمار کا تجزیہ کیا ہے، جس کاوش میں 70 ممالک سے تعلق رکھنے والے 300 سے زائد صحافیوں کی ٹیم شامل ہے۔آئی سی آئی جے کی رپورٹ کے مطابق، جاری ہونے والی اِن دستاویزات میں 214000 سے زائد آف شور اکائیوں کی تفاصیل درج ہیں، جن کا تعلق 200 سے زائد ملکوں اور علاقہ جات کے افراد سے ہے۔اس میں 140 بین الاقوامی سیاست دانوں کے نام بھی شامل تھے، جن میں 12 موجودہ اور سابق سیاسی رہنما شامل  ہیں، جنھوں نے مبینہ طور پر بیرون ملک اکانٹ کھول رکھے ہیں، تاکہ ان کے اثاثے چھپے رہیں اور ممکنہ طور پر ٹیکس سے بچا جا سکے۔اسے تاریخ کا سب سے بڑا انکشاف بتایا جاتا ہے، لیکن اب تک اِس میں کسی امریکی سیاست داں یا نامور امریکی کا نام سامنے نہیں آیا۔اخبارات کے میک لیچی گروپ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افشا ہونے والی دستاویزات میں کم از کم 200 امریکی پاسپورٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اِن میں سے کئی پاسپورٹ آف شور کمپنیوں سے ریٹائر ہونے والے افراد کے ہیں، جنھوں نے لاطینی امریکہ میں جائیداد خریدی۔میک لیچی کا کہنا ہے کہ وہ واحد امریکی اخباری ادارہ ہے جو اس کنسورشئیم میں شامل ہے۔یہ دستاویزات، جو پاناما کی لا فرم، موساک فونسیکا کی سطح پر فاش ہوئے، ان سے آف شور کمپنیوں کے 3500 حصص مالکان کے نام درج ہیں، جن میں امریکہ کے ایڈریس دیے گئے ہیں۔ تاہم، اِن سے یہ مراد نہیں کہ اِن کے مالک یا اِن کی تحویل امریکی شہری کرتے ہیں۔اسی طرح، لا فرم سے وابستہ تقریبا 3100 کمپنیاں ہیں، جن کے بارے میں میک لیچی نے بتایا ہے کہ وہ آف شور پیشہ ور افراد پر مشتمل ہیں، جو امریکہ میں قائم ہیں، خاص طور پر جنوبی فلوریڈا میں میامی اور نیو یارک کے مقامات پر واقع ہیں۔جمیس ہینری ٹیکس جسٹس نیٹ ورک نامی وکلا کے گروپ میں معیشت داں اور سینئر مشیر ہیں۔ انھوں نے ایک ہسپانوی کیبل نیوز چینل، فیوژن، جو میک لیچی کے ساتھ کام کرنے والے پراجیکٹ کے ایک ساجھے دار ہیں، بتایا کہ امریکہ میں شیل کمپنیاں بنانا نسبتا آسان کام ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اِن دستاویزات کے پلندے میں چند ہی امریکیوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ہینری نے فیوژن کو بتایا کہ درحقیقت امریکیوں کو پاناما جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بقول ان کے، بنیادی طور پر امریکہ میں آن شور قسم کی صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے، جو اتنی ہی خفیہ ہیں جیسا کہ کہیں ہوسکتی ہوں۔ہیتھر لوے گلوبل فنانشل انٹیگرٹی میں قانونی مشیر اور سرکاری معاملات کے سربراہ ہیں۔ نفعے نقصان کے بغیر کام کرنے والا یہ ادارہ واشنگٹن میں قائم ہے۔ ہیتھر لوے نے انٹرنیشنل بزنس ٹائمز کو بتایا کہ نیواڈا، ویومنگ اور ڈلاویئر بے نامی کمپنیوں اور لچکدار ضابطوں کے لیے مشہور ہیں، جہاں مرضی کی کمپنیاں کھولی جاتی ہیں، اور کسی حد تک ٹیکسوں میں چھوٹ ہوتی ہے۔لوے نے آئی بی ٹی کو بتایا کہ اِن ریاستوں کے بینکوں اور کمپنیوں کے مالکوں کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کیا معلومات عام کرنا چاہتے ہیں، یا حکومت کو دینا یا ریکارڈ پر رکھنا چاہتے ہیں۔قومی اخبار یو ایس اے ٹوڈے نے خبر دی ہے کہ موساک فونسیکا سے وابستہ امریکہ میں قائم کمپنیوں کی اکثریت نیواڈا کی کمپنی، ایف ایف کارپوریٹ سروسز لمیٹڈ کی ہیں۔سنہ 2014 میں سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کے ایک اندازے کے مطابق، بیرون ملک قائم امریکی ادارے ٹیکس کے ملکی نظام کی آمدن کو 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔پاناما کی لا فرم موساک فونسیکا نے واضح کیا ہے کہ سمندر پار کمپنیوں اور اثاثوں سے متعلق اس کی ایک کروڑ سے زائد فائلیں فرم کے کسی ملازم نے نہیں بلکہ ہیکرز نے چرائی تھیں جو بعد ازاں صحافیوں کو فراہم کی گئیں۔کمپنی کے شریک مالک اور سربراہ رامن فونسیکا نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ فرم کی دستاویزات صحافیوں کو فراہم کرنے میں کسی ملازم کا ہاتھ ہے۔ ایک انٹرویو میں موساک فونسیکا کے بانی سربراہ نے کہا کہ لا فرم کے آن لائن سسٹم پر ہیکنگ حملہ بیرونِ ملک سے کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے کسی ملک کا نام لینے سے گریز کیا۔رامن فونسیکا نے کہا کہ ان کی فرم خود بھی ہیکنگ حملے سے متعلق تحقیقات کر رہی ہے جب کہ انہوں نے پاناما کے حکام کیپاس بھی دستاویزات کی چوری سے متعلق شکایت درج کرادی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دستاویزات میں موجود معلومات میں ایسی کوئی بات نہیں جس کی بنیاد پر ان کی کمپنی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث قرار دی جاسکے۔رامن فونسیکا نے کہا کہ ان کی فرم کی تمام سرگرمیاں قانون اور قواعد کے دائرے میں ہیں۔ ان کے بقول اس پورے تنازع میں جو اصل جرم ہوا ہے وہ ان کی دستاویزات کی چوری ہے جس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔موساک فونسیکا کی ایک کروڑ 15 لاکھ سے زائد خفیہ دستاویزات کسی نامعلوم ذریعے سے ایک جرمن اخبارکو موصول ہوئی تھیں جس نے انہیں مزید تحقیقات اور جائزے کے لیے صحافیوں کی تنظیم 'انٹرنیشنل کنسورشیم آف  انویسٹی گیٹو جرنلسٹس' کے حوالے کردیا تھا۔صحافی تنظیم کے درجنوں ارکان نے ایک سال سے زائد عرصے تک ان دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد  اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس نے عالمی سیاست میں اتھل پتھل مچادی ہے۔رپورٹ کے مطابق موساک فونسیکا نے گزشتہ چار عشروں کے دوران کل ڈھائی لاکھ سے زائد سمندر پار کمپنیاں قائم کیں جن میں سے 15 ہزار سے زائد کمپنیاں مختلف ملکوں کے سیاست دانوں اور بااثر شخصیات کی ملکیت ہیں۔گو کہ سمندر پار کمپنیاں خلافِ قانون نہیں لیکن عموما اس نوعیت کے ادارے دولت چھپانے اور ٹیکس بچانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی ملکوں کی بااثر شخصیات، سیاست دان حتی کہ سربراہانِ مملکت اور حکومت نے بھی پیسے کی بیرونِ ملک منتقلی اور غیر ملکی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لیے موساک فونسیکا کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔رپورٹ کی اشاعت کے بعد کئی ملکوں کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اپنے اثاثوں سے متعلق صفائی پیش کرنا پڑی ہے جب کہ رپورٹ میں نام آنے پر آئس لینڈ کے وزیرِاعظم نے صدر سے پارلیمان تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کی سفارش کی ہے۔رپورٹ کے بعد کئی ممالک میں حکومتوں نے اپنے شہریوں اور بااثر شخصیات کے بیرونِ ملک اثاثوں کی چھان بین اور ان کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے اعلی سطحی تحقیقات کا بھی اعلان کیا ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کے پاناما لیکس میں انکشافات نے بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچائے رکھی اور وزیراعظم کی طرف سے اس معاملے کی وضاحت کو بھی حزب مخالف نے مسترد کر دیا ہے۔ ٹی وی پر وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اپنے بچوں کے بیرون ملک اثاثوں کا دفاع کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے غیر قانونی کام میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک سابق جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔تاہم حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے اس بابت قومی اسمبلی میں الگ، الگ تحریک التوا جمع کروائی جب کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین نے شدید احتجاج کیا۔پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ سامنے آنے والی معلومات سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے اور وزیراعظم کو اس معاملے پر ایوان میں آکر بات کرنی چاہیے۔جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ کمیشن بنا دینے سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔ شفاف تحقیقات ہوں اور حقائق سامنے آئیں کہ آیا اس کے لیے وسائل کے کیا ذرائع تھے یہ پوری طرح ظاہر کیے گئے یا نہیں۔ہمارے ملک میں بدقسمتی سے عدالتی کمیشنز کی کوئی خاص ساکھ نہیں رہی ہے۔جبکہ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے تحریک التوا جمع کروانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "سپریم کورٹ کو تعینات کرنی چاہیے تحقیقاتی کمیٹی یا ٹیم اور ایک وقت مقرر کیا جانا چاہیے دو ہفتوں کا یا تین ہفتوں کا جس میں وہ اپنے نتائج دیں۔تحریک انصاف نے اس معاملے پر احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے اور مختلف شہروں میں اس کے کارکنوں نے حکومت مخالف مظاہرے بھی کیے ہیں۔حزب مخالف خصوصا تحریک انصاف کے موقف کو حکومتی عہدیدار مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی طرف سے کمیشن کے قیام کی پیشکش کے بعد احتجاج بلا جواز ہے۔ادھر جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ معاملات کے غیرقانونی ہونے کی تحقیقات ضرور کی جانی چاہیے اور وزیراعظم کی طرف سے کمیشن کے قیام کے اعلان کے بعد اب معاملے کو کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے۔تاہم یہ بھی ایک المیہ ہے کہ پاناما کے آف شور اکانٹس کے بارے میں جو چیزیں سامنے آ رہی ہیں، ان کو ہمارا انصاف کا نظام نہیں پکڑ سکتا؟ ۔ پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا کی خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر میں چوٹی کے امیر اور طاقتور لوگ اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں تاکہ انھیں ٹیکس سے چھوٹ مل سکے۔پاناما لیکس میں پاکستان کے کئی ایسے سیاستدانوں اور اہم شخصیات کے نام ہیں جو کالا دھن سفید کرنے اور ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیاں بناتے رہے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں سب سے زیادہ تنقید وزیر اعظم اور ان کے خاندان پر ہی کی جا رہی ہے۔وزیراعظم کے اہلِ خانہ کے نام آنے سے بہت سے اخلاقی، قانونی اور آئینی سوالات نے جنم لیا ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کے لیے قائم کی جاتی ہے۔اے پی ایس