پاناما پیپرز بعض ممالک کے خلاف کیا مغربی پروپیگنڈہ ہے؟۔چودھری احسن پریمی



 بعض حکمرانوںنے ان الزامات کو مسترد کیا ہے کہ پاناما کی لا فرم کی جانب سے افشا ہونے والی دستاویزات میں ان کے قریبی ساتھیوں  یا اہل خانہ کے بدعنوانی میں ملوث ہونے کا ثبوت موجود ہے۔ان کا کہنا ہے کہ نام نہاد، پاناما پیپرز مغربی پروپیگنڈہ کا ایک حصہ ہے، جس کا مقصدان ممالک کو دھکچا پہنچانا اورنیچا دکھانا ہے، تاکہ معاشرے کی نظروں میں حکام اور سرکاری انتظامیہ کے ادارے بے وقعت ہوجائیں اور ایک کو دوسرے کے خلاف لاکھڑا کیا جائے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دولت چھپانا اور ٹیکس چوری کرنا ایک قانونی اور اخلاقی جرم ضرور ہے تاہم اتنے عرصہ تک مغربی ممالک اس عالمی بدعنوانی کی پشت پناہی کرتے رہے ۔تاہم ایک مخصوص ناپاک عزائم کی تکمیل کی خاطرعالمی بدعنوانی عیاں کردی۔وکی لیکس کے بانی، جولیان اسانج کی جانب سے ایک الزام کا حوالہ دیتے ہوئے، پیوٹن نے حکومتِ امریکہ پر پاناما پیپرز کی پشت پناہی کا الزام لگایا۔ بقول ان کے، وکی لیکس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہی اہل کاروں اور امریکہ کے سرکاری اداروں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔جبکہ گزشتہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے ملنے والی خفیہ دستاویزات میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بچوں کے نام آنے کے بعد قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے دوران حزب مخالف کی جماعتیں چھائی ہوئی دیکھائی دیں۔حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی ایوان میں داخل ہونے کے دوران تناو کا شکار دکھائی دیے۔پاناما لیکس کے معاملے پر قومی اسمبلی پیپلز پارٹی اوپاکستان تحریک انصاف پہلی بار ایوان میں متحد دکھائی دیں جبکہ ان کی حمایت کرنے والی دیگر جماعتوں میں جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ شامل ہیں۔پارلیمانی صحافیوں کا تجزیہ تھا کہ چند روز تک کسی نئے ایشو آنے تک پانامہ ایشو اپنی طبعی موت مرجائے گا۔اس ضمن میں یہ اتحاد زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔جبکہ اس کی ایک اور وجہپاناما پیپرز لیکس میں پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور سابق وفاقی وز یر داخلہ رحمان ملک کے نام  بھی شامل ہیں۔عمران خان سات ماہ سے بھی زائد عرصے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوئے۔ اور وہ ایوان میں اس فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے جیسے بہت بڑی چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔عمران خان کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین نے ان پر فقرے بھی کسے تاہم قومی اسمبلی کے سپیکر نے انھیں ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا۔ اپنی تقریر کے دوران عمران خان نے حکومت کو یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو ان کے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔وزیراعظم اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کچھ دیر اجلاس میں شریک ہونے کے بعد اٹھ کر چلے گئے۔عمران خان کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین نے ان پر فقرے بھی کسے تاہم قومی اسمبلی کے سپیکر نے انھیں ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی تقریر میں وزیراعظم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف کسی بھی طور پر اس معاملے میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ملوث نہیں ہیں۔ دیگر کچھ اراکان نے بھی وزیراعظم کے حق میں تقریر کرتے ہوئے اپنی والہانہ محبت کا اظہار بھی کیا۔حکمراں جماعت کے اراکین پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی۔ پاناما لیکس میں دو سو سے زیادہ دیگر پاکستانیوں کے بارے میں کسی بھی رکن نے کچھ بھی نہیں کہا۔پاناما لیکس کے معاملے پر ایوان میں اجلاس کی معمول کی کارروائی کو معطل کر کے اس معاملے کو زیر بحت لایا گیا۔حالانکہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی ناقص کاکردگی کو زیر بحث بھی لایا جانا تھا۔پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی کوریج کرنے والے نجی الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی سکائپ کے ذریعے ارکان اسمبلی کی تقاریر مختلف ٹی وی چیبلز پر براہ راست نشر کرتے رہے جبکہ سرکاری ٹی وی جو قومی اسمبلی کی کارروائی براہ راست دکھانے کا مجاز ہے، نے اس معاملے پر وفاقی وزیر سمیت حکومتی و اپوزیشن اراکین کی تقاریر نشر نہیں کیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کا جواب کمیشن نہیں ہے اور ایسی شفاف تحقیقات کروائی جائیں جس سے سب لوگ مطمن ہوں۔انھوں نے کہا کہ وہ حزب مخالف کی طرف سے کمیشن کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے بقول "آڈٹ کرنا ججز کا کام نہیں۔ان کے بقول وہ اس وقت نہ تو الزام تراشیوں کی طرف سے جانا چاہتے اور نہ وزیراعظم سے استعفی مانگتے ہیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ بین الاقوامی آڈٹ کمپنیوں سے اس معاملے کی چھان بین کروائی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ یہ پیسہ بیرون ملک کیسے گیا۔پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اس معاملے پر الگ الگ تحریک التوا جمع کروا رکھی ہیں۔وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا کہا تھا جس کے بعد وزارت قانون نے اس ضمن میں سفارشات وزیراعظم کو بھجوائی تھیں۔تحریک انصاف کے سربراہ اور حکومت کے ایک بڑے ناقد عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کمیشن سے تحقیقات کے اعلان کو مسترد کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں کا پیسہ چوری کر کے باہر جا رہا ہے یہاں کے لوگوں کو مقروض کیا جا رہا ہے سارے پاکستانیوں کا مطالبہ ہے کہ اس پر صحیح معنوں میں تحقیقات ہو اگر ایک ریٹائرڈ جج کو بٹھا کر کسی کا خیال ہے کہ کوئی دھوکے میں آجائے گا تو اس غلط فہمی میں کسی کو نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان آگے نکل گیا ہے۔حکومتی عہدیداروں نے حزب مخالف خاص طور پر تحریک انصاف کی طرف سے کی جانے والی تنقید کو ایک بار پھر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔جبکہ عمران خان نے ایک طویل عرصے بعد قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران پاناما لیکس کے معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس وہ چیزیں سامنے لائی ہے، جنہیں چھپایا گیا تھا۔پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین تھریک انصاف نے کہا کہ پاناما لیکس میں وزیر اعظم کے بچوں کا نام آیا ہے، حکومت نے اس الزام کا جواب دینا تھا، اس میں شوکت خانم کا نام کہاں سے آ گیا اور اگر کسی ادارے میں کوئی باضابطگی ہوئی ہے تو اسے پکڑنا حکومت کا کام ہے۔ پاناما لیکس اپوزیشن کی سازش نہیں، حکومت کو شوکت خانم کا خیال پاناما لیکس کے بعد کیوں آیا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاناما لیکس میں حکومت پر الزامات لگائے گئے ہیں مگر وزرا بجائے ان کا جواب دینے کے جوابی الزامات لگا رہے ہیں۔ پاناما لیکس نے شوکت خانم اسپتال کا نام نہیں لیا۔ حکومت پر الزامات ہم نے بھی نہیں لگائے مگر یہ عالمی معاملہ ہے۔اپنے خطاب کے دوران سرکاری ارکان کے شور پر عمران خان برہم ہو گئے، بولے جمہوریت کے اندر حوصلہ ہونا چاہئے، اسپیکر صاحب میں نے وزیر کی بات کو چپ کر کے سنا، انہوں نے دھمکی دی کہ ہماری حکومت آ گئی تو میں کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا، جس پر اسپیکر نے حکومتی وزرا سے کہا، نو کراس ٹاک پلیز۔عمران خان نے مزید کہا کہ شوکت خانم میں غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ پاناما لیکس پر آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے استعفی دے دیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ پاناما لیکس کے انکشافات کی تفتیش کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت میں پولیس کے ذریعے انتقامی کارروائیاں نہیں کرائی جاتیں۔ وزیر اعظم اگر الزامات کا جواب دے رہے ہیں تو کوئی احسان نہیں کر رہے، ان کا فرض ہے جواب دینا، بھارتی وزیر اعظم نے کمیٹی بنائی، اپوزیشن پر الزامات نہیں لگائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے حکمرانوں کی طرح شوکت خانم کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر نہیں بھجوایا، کوئی چیز نہیں چھپائی، وہاں ایک فون کرکے معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں۔عمران خان نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ ہے پاکستان کی سیاست، حکومت کرسی بچانے کے لئے خیراتی ادارے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جیسے لوگوں نے پاکستان کو فائدہ پہنچایا جو باہر سے پیسہ کما کر ملک میں لے کر آئے، پاکستان کو نقصان ان لوگوں نے پہنچایا جو منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ ملک سے باہر لے کر گئے۔ عمران خان نے حکومتی وزرا کو جواب دیتے ہوئے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا اور کہا کہ تحقیقات کا انتظار کریں گے، شوکت خانم، انڈومنٹ فنڈز، بنی گالہ کی سب سے پہلے انویسٹی گیشن کریں، میں نے اٹھارہ سال باہر کمائی کی اور بیرون ملک فلیٹ بیچ کر بینک کے ذریعے پیسہ لا کر بنی گالہ کی پراپرٹی خریدی۔تاہم اپوزیشن کا شور زور دکھا گیا، پاناما کا ہنگاما ایوانوں میں پہنچا تو حکومت بالآخر مان ہی گئی کہ معاملے کی فرانزک تحقیقات ہونی چاہیں۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف بولے، عدالتی کمیشن ہو یا فرانزک تحقیقات، حکومت تیار ہے، کسی کو بھی پیش ہونا پڑا تو ہونگے۔ اپنی قیادت کا دفاع کرتے ہوئے وزیر دفاع تحریک انصاف پر بھی خوب برسے۔ انہوں نے کپتان پر آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا الزام لگایا اور یہ سوال بھی اٹھا دیا کہ کتنا پیسہ آیا؟ خواجہ آصف نے اپنی تقریر میں کراچی سے پی ٹی آئی امیدوار کی وفاداریوں کی تبدیلی کا ذکر کیا تو ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات ایسی ہونگی کہ کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اے پی ایس