سیاسی بلوغت کی جانب سیاسی پیش رفت۔چودھری احسن پریمی




  مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز جب صدر مملکت ممنون حسین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے تو اس وقت ایوان میں موجود حکومتی بینچوں پر موجود ارکان پارلیمنٹ کے چہروں پر بڑی طمانیت تھی۔اس اطمینان کی وجوہات میں سے ایک مسلم لیگ نواز کا پہلی بار تین پارلیمانی سال مکمل کرنا ہے۔ حکومتی بینچوں پر ارکانِ پارلیمنٹ کی حاضری ایسی تو نہ تھی جیسی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی موجودگی میں ہوتی ہے۔تیسری بار اقتدار میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ نواز نے پہلی مرتبہ تین پارلیمانی سال مکمل کیے ہیں۔ اس سے پہلے سنہ 1990 اور سنہ 1997 میں اقتدار میں آنے کے بعد یہ جماعت اپنے آئینی مدت پوری نہیں کر سکی تھی۔صدر مملکت کے نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران مہمانوں کی گیلری میں غیر ملکیوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی جو دیگر سروسز چیفس کے ہمراہ گیلری میں موجود تھے۔حزب مخالف کے آزاد رکن جمشید دستی اجلاس کے دوران سر پر ایک ایسی ٹوپی پہنے بیٹھے تھے جس لکھا تھا امریکہ بین الاقوامی دہشتگرد۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی کے دوران تمام تر توجہ کا مرکز آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے۔صدر ممنون کا اپنی تقریر کے دوران پاناما لیکس کا ذکر نہ کرنے پر پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اراکین نے نعرے بازی کی۔ پیپلز پارٹی نے اس موقع پرخاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔پارلیمانی سیکرٹری رانا افضل خان تین سال مکمل ہونے پر سارا کریڈٹ حکمراں اتحاد کو دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ نواز اس قابل ہوئی ہے کہ اس کی حکومت میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ نے تین پارلیمانی سال مکمل کیے ہیں۔
 جبکہ بعض مبصرجن میں تجزیہ کار برگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کا کہنا تھا کہ پارلیمانی سال مکمل ہونے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے اور اب بھی طاقت کا مرکز فوج ہی ہے۔ اب بھی سیاست دانوں سمیت دیگر افراد کی نظریں فوج کی طرف ہی لگی ہوئی ہیں۔جبکہ رانا افضل کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کی جماعتیں اب بھی مسلم لیگ نواز کی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب یوسف تالپور کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی جتنی دیگر ترقی پذیر ممالک میں ہے۔انھوں نے کہا کہ ماضی میں سیاسی جماعتیں مخالفین کی حکومتوں کو گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتی رہیں جس سے جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوتی رہی اور فوج کو اقتدار میں آنے کے مواقع ملتے رہے۔جبکہ صدر ممنون حسین نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا ہے کہ ملک کے جمہوری نظام میں بحرانوں کا کامیابی سے سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر ان کا کہنا تھا کہ پائیدار ترقی اور استحکام جمہوریت کے بغیر ممکن نہیں اور پاکستان میں نرم و گرم حالات میں جمہوریت کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔ اس موقع پر چاروں صوبوں کے گورنر، مسلح افواج کے سربراہان، غیر ملکی سفرا اور دیگر اعلی شخصیات بھی پارلیمنٹ ہاس میں موجود تھیں۔اجلاس سے خطاب میں صدر ممنون حسین نے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں جمہوری استحکام پر یقین رکھتے ہیں اور حکومت کو چاہے کہ ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جن سے ملک مستحکم ہو اور ضد اور ذاتی اختلافات کو قومی مفادات کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔سیاسی بلوغت کی جانب یہ بڑی سیاسی پیش رفت ہے۔جس کے لیے پارلیمان سیاسی جماعتیں اور قوم خراج تحسین کی مستحق ہے۔تاہم انھوں نے اس کے ساتھ حزب مخالف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف غیر قانونی طریقے سے اپنی مرضی منتخب نمائندوں پر مسلط نہ کرے اور قوم کے غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا حزب اختلاف کی بھی ذمہ داری ہے۔صدر ممنون کے خطاب کے ساتھ یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ نون کی کوئی وفاقی حکومت اقتدار کے تین برس مکمل کر کے چوتھے برس میں داخل ہو گئی۔چین پاک اقتصادی راہدادری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چین پاک اقتصادی راہداری پر اگر کسی کو خدشات ہیں تو انھیں بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ غیروں کو موقع نہ ملے۔ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ سرحدوں کے محفوظ ہونے سے ہی تجارت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بلوچستان، کراچی اور وزیر ستان میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں جبکہ ان علاقوں میں موجود نوجوانوں کو ماضی کا تلخ یادوں سے دور کرنا ہمارا کام ہے۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے بارے میں صدر ممنون نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک میں امن کا خواہاں ہے اور لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان نے بھارت نے جس گرم جوشی کے جذبے سے ہاتھ بڑھایا اس طرح کا جواب نہیں ملا۔پاکستان نے کئی بار انڈیا کو مذاکرات کی پیش کش کی لیکن دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جو کہ باعث تشویش ہے۔پارلیمان کے اس مشترکہ اجلاس میں صدر کے خطاب کے دوران نعرہ بازی بھی کی گئی۔خیال رہے کہ پاکستان کے آئین کی شق 56 کے تحت ہر نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا لازمی ہے۔صدر ممنون کے خطاب کے ساتھ یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ نون کی کوئی وفاقی حکومت اقتدار کے تین برس مکمل کر کے چوتھے برس میں داخل ہو گئی ہے۔تاہم اس موقع پر جماعت کے سربراہ اور ملک کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف ایوان میں موجود نہیں ہوں گے کیونکہ وہ دل کی بیماری کے علاج کے لیے لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن اس سے پہلے سنہ 1990 اور سنہ 1997 میں وفاق میں حکومت بنا چکی ہے تاہم پہلی مرتبہ اس کی مدت ڈھائی برس اور دوسری مرتبہ پونے تین برس ہی رہی تھی۔
 جبکہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ" امریکی ڈرون حملے افسوسناک ہیں اور انہیں بند ہونا چاہیئے کیونکہ یہ ملک کی خودمختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں"۔گزشتہ ماہ امریکہ نے پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ایک ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے تنا کے شکار تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔جنرل راحیل شریف نے ڈرون حملے کے بعد راولپنڈی میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات میں بھی کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا اس واقعے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہوں گے۔پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر ممنوں حسین کے خطاب کے بعد جنرل راحیل شریف نے نامہ نگاروں سے غیررسمی گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کا کوئی آپشن نہیں اور آپریشن ضرب عضب میں اب تک حاصل کی گئی کامیابیوں کو مستحکم بنایا جائے گا۔ جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے امریکہ پاکستان تعلقات مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔
 مارچ میں امریکہ پاکستان اسٹریٹجک ڈائیلاگ میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر اختلافات سامنے آئے تھے، پھر ایف سولہ طیاروں کی پاکستان کو فروخت کے لیے امریکی معاونت کو روک دیا گیا اور پھر بلوچستان میں ڈرون حملہ کر کے ملا اختر منصور کو ہلاک کیا گیا۔اس وقت یہی بات پاکستان کے لیے سب سے زیادہ باعث تشویش ہے کہ ہم ڈرون حملوں کے حوالے سے حدود مقرر کر چکے تھے، انٹیلی جنس تبادلے پر کام ہو رہا تھا،امریکہخود کہہ رہے تھا کہ جو ضرب عضب ہے وہ کامیاب ہوا ہے، اس کے باوجود ایک بار پھر پاکستان کو کھل عام شرمندہ کیا گیا ہے۔ یہ علاقائی امن کے لیے خطرناک ہے کیونکہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن لانا ناممکن ہے اور ماضی میں بھی امریکہ کو اس بات کا ادراک ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان محازآرائی کی بجائے تعاون سے ہی علاقے میں امن حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے امریکہ کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔اے پی ایس